1
0
Thursday 28 Mar 2013 00:14

ترکی کی چالیں

ترکی کی چالیں
تحریر: محمد علی نقوی
 
امر واقعہ یہ ہے کہ یورپی یونین کو سماجی اور ثقافتی لحاظ سے عیسائي ملکوں کا مجموعہ قرار دیا گيا ہے۔ ترکی کا اپنی پچہتر ملین مسلمان آبادی کے ساتھ یورپی یونین میں شامل ہونا فرانس اور جرمنی جیسے ملکوں میں آبادی کے تناسب کو بگاڑ کر ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس یونین میں ترکی کے شامل ہونے سے یونان کے مفادات خطرے میں پڑجائيں گے۔ یونان اور ترکی قبرص کے بارے میں شدید اختلافات رکھتے ہیں۔ ترکی نے گرچہ اقتصادی لحاظ سے کافی ترقی کی ہے لیکن وہ قومی سماجی اور اقتصادی لحاظ سے شدید بحرانوں کا شکار ہے۔ کردوں کا مسئلہ، اقتصادی مسائل، اور بعض شہروں میں شدید غربت اسی طرح قومی مسائل یورپی یونین کی تشویش کا باعث ہیں۔ ان ہی مسائل کی وجہ سے یورپی یونین نے انصاف و ترقی پارٹی کی حکومت کی اصلاحات کے باوجود خاص طور سے فوجیوں کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد بھی ترکی سے کہا ہے کہ یہ اصلاحات ناکافی ہیں اور اسے مزید کام کرنا ہوگا۔
 
یورپی یونین کو یہ بھی تشویش لاحق ہے کہ ترکی کے لاکھوں افراد روزگار کی تلاش میں خوشحال یورپی ملکوں کا رخ کرسکتے ہیں، جس سے نئے مسائل کھڑے ہونگے۔ یورپ کی نظر میں ترکی نہایت اہمیت کا حامل ملک ہے، لیکن یورپی یونین اسے صرف ایک اسٹراٹیجیک حلیف کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اسے یورپی گھرانہ کا فرد نہیں سمجھتا۔ اسی وجہ سے یورپی یونین ترکی کو رکنیت نہیں دے رہی ہے۔ گرچہ یورپ نے نصف صدی کے بعد یورپی یونین میں شامل ہونے کے لئے ترکوں کی درخواست مان لی ہے، لیکن سات برس سے جو مذاکرات ہو رہے ہیں ان میں کوئی واضح پیشرفت نہيں ہوئی ہے۔ اگر یہ مذاکرات اسی طرح جاری رہے تو ممکن ہے کہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل ہونے کے لئے مزید نصف لگ جائے۔ 

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترکی نے یورپی یونین میں شامل ہونے کے ہر حربہ استعمال کرنے کی ٹھان رکھی ہے، اس نے اس مقصد کے حصول کے لئے علاقے کے حوالے سے امریکی اور یورپی ایجنڈے پر بھی عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ شام اور عراق میں ترکی کی حالیہ مداخلت اور دہشتگردوں کی کھلے عام حمایت اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ترکی نے امریکہ کے اشاروں پر فلسطین کا مسئلہ ایران سے لیکر اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی اور غزہ کے لئے امدادی کشتی بھی بھیجی۔ اسرائیلی کمانڈوز سے اپنے شہری بھی مروائے اسرائیل سے ظاہری تعلقات بھی ختم کرنے کا اعلان کیا، لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ ان ایام میں اندر کھاتے تعلقات بھی قائم رہے اور فوجی تعاون کا سلسلہ بھی جاری رہا، اب یہ تکلف بھی چند دن پہلے ختم ہوگیا اور معافی کی آڑ میں اسرائیل سے ظاہری تعلقات بھی بحال کر دئیے گئے ہیں۔ 

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا صرف یورپی یونین میں شامل ہونے کے لئے یہ سب کچھ درست ہے؟ مسلمان ہمسایہ ملکوں بالخصوص شام کے عوام کا قتل عام اور فلسطین کاز سے غداری کے باوجود اگر یورپی یونین نے ترکی کو رکنیت نہ دی تو وہ امت مسلمہ کو کیا منہ دکھائے گا۔ کیا ترکی یورپی یونین کے تعاون سے سلطنت عثمانیہ کا احیاء چاہتا ہے۔ ترکی کی موجودہ حکومت نے جو کہ شام کے داخلی مسائل اور شورش میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اور شامی باغیوں کو اسلحہ اور دوسرا جنگی ساز و سامان فراہم کر رہی ہے، چند دن پہلے غزہ جانے والی کشتی مرمرہ پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے سلسلے میں تل ابیب کی جانب سے مانگی جانے والی معافی کو قبول کر لیا ہے اور اسے اسرائیل ترکی روابط کا سنگ میل قرار دیا ہے۔
 
سیاسی تجزیہ نگاروں نے اسے ترک حکومت کی نئی چال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی کی حکومت اسرائیل کے ساتھ مضبوط روابط کے نتیجے میں اقتصادی اور اسٹریجٹک فوائد حاصل کرنا چاہ رہی ہے اور ایسے حالات میں کہ جب ترکی شام دشمن ممالک اور شامی باغیوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہا ہے، اس کا مضبوط ہونا شامی باغیوں کے مستحکم ہونے کے مترادف ہے۔ ادھر کرد باغیوں کے سربراہ عبداللہ اوجلان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کو بھی سیاسی چال کہا گیا ہے۔ موجودہ ترک حکومت عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کا کوئی موقع هاتھ سے نہیں جانے دے رہی اور اوجلان کا جنگ بندی کا یہ اعلان بھی اس کی سیاسی چال ہے۔ ترک حکومت کا یہ خاصہ رہا ہے کہ الیکشن کے نزدیک اسرائیل مخالف اقدامات کئے جاتے ہیں، تاکہ ان لوگوں کے ووٹ حاصل کئے جاسکیں جو اسرائیل مخالف ہیں اور فلسطین، شام اور لبنان کی مظلوم عوام سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
 
ترکی کی آبادی کا ایک بڑا حصہ علویوں کی آبادی پر مشتمل ہے اور شام کے حالیہ واقعات میں ترکی کی حکومت کی مداخلت کے بعد علویوں نے اپنا لائحہ عمل تبدیل کرلیا ہے اور آنے والے انتخابات میں وہ موجودہ بر سر اقتدار پارٹی کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔ شام کے موجودہ بحران کو ترکی، قطر اور سعودی عرب اور مغربی ممالک کے اھداف کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ شام جسے خطے میں اسرائیل کے خلاف ایک اہم رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔ آج امریکہ، اسرائیل اور اسکے علاقائی اتحادیوں کے حملوں کی زد میں ہے۔ پوری دنیا سے شدت پسندوں کو اکھٹا کیا جا رہا ہے، امریکہ اور عربوں کی سرمایہ کاری اور ترکی کی لاجسٹک مدد کے ذریعے شام کی موجودہ حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لئے سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تاہم شامی باغیوں کو سر توڑ کوششوں کے باوجود ابھی تک صرف اور صرف ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ شامی باغیوں نے پے در پے شکستوں کے بعد اب شامی عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
 
ساری دنیا جانتی ہے کہ عراق کے سابق خونخوار ڈکٹیٹر صدام نے امریکہ اور بعض مغربی ممالک کے فراہم کردہ نیز عرب ملکوں کے پیسے سے خریدے ہوئے کیمیاوی ہتھیاروں سے ملت ایران و عراق کے خلاف وسیع پیمانے پر حملے کئے تھے۔ حلبچہ صدام کی کیمیاوی بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے حلبچے پر صدام کی کیمیاوی بمباری میں جاں بحق ہونے والوں کی پچیسویں برسی منائي گئی تھی۔ یہی جرائم اب شام کے عوام کے خلاف انجام دیئے جا رہے ہیں اور دہشتگردوں کے کیمیاوی حملوں میں شام کے بے گناہ عوام جان بحق ہو رہے ہیں۔ کیمیاوی حملے جیسے جرائم کے حوالے سے دو اہم مسئلے قابل غور ہیں۔ ایک یہ کہ کیمیاوی ہتھیاروں کے شکار افراد کے حوالے سے ذمہ داری اور دوسرے ان حملوں کی روک تھام کی ضمانت دینا ہے۔ اگر عالمی برادری نے کیمیاوی حملوں کے مقابل خاموشی اختیار کی تو یہ جرائم عالمی امن کے لئے شدید خطرہ بن سکتے ہیں۔ 

اس بات میں کوئی شک نہيں ہے کہ شام کو اس وقت عالمی سطح پر رچائی گئی سازشوں کا سامنا ہے، ان سازشوں کا مقصد شام کو تباہی اور داخلی جنگ کے جہنم میں دھکیلنا ہے۔ نہتے عوام کا قتل عام اور ان کے خلاف کیمیاوی حملے ان سازشوں کی ہی کڑی ہیں اور ان کا مقصد شام کو تہس نہس کرنا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کیمیاوی ہتھیاروں کے سب سے بڑے شکار کی حیثیت سے شام میں دہشتگردوں کی جانب سے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی شدید مذمت کرتا ہے اور ان مہلک ہتھیاروں پر پابندی کے حوالے سے عالمی برادری کی ذمہ داری کی یاد دہانی کرتے ہوئے تاکید کرتا ہے کہ دہشتگردوں کو ہرگز ایسا موقع نہ دیا جائے کہ وہ کیمیاوی ہتھیار استعمال کرسکیں۔ اکثر تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ ترکی کی موجودہ حکومت یورپی یونین میں شامل ہونے کے لئے امریکہ اور مغرب کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ بعض کا یہ کہنا ہے کہ رجب طیب اردوغان اور اس کی ٹیم خلافت عثمانیہ کے دور کا احیاء کرنا چاہتی ہے اور خطے کی تمام تر سیاست اور متوقع تبدیلیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے۔
 
وجہ کوئی بھی ہو، لیکن غیر جانبدار مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ ترکی آج اسی راستے پر گامزن ہے جس پر اسّی کے عشرے میں پاکستانی حکام بالخصوص ضیاءالحق چلے تھے۔ جنرل ضیاءالحق اور اس دور کی فوجی حکومت نے امریکہ کا ساتھ دیکر افغانستان میں روسی فوج کو نکالنے کے لئے کھلی مداخلت کی جسکے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان آج تک ایک دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس دور میں پاکستان نے امریکی ایما پر افغانستان میں مداخلت کی تھی۔ جسکا نتیجہ آج پاکستان کے گلی کوچوں میں محسوس کیا جارہا ہے۔ آج دہشت گردی اور انتہا پسندی نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا، خودکش حملہ آوروں اور خطرناک دھماکوں سے پاکستان کا نہ کوئی شہری محفوظ ہے نہ قومی و سرکاری ادارہ۔ بہرحال ترکی کو پاکستان کے ماضی اور حال سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ شام میں دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کی مدد کا نتیجہ اس طرح برآمد ہو کہ ترکی بھی مستقبل قریب میں پاکستان کی طرف خودکش بمباروں اور دہشت گردوں کی آماجگاہ بن جائے۔
خبر کا کوڈ : 249468
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

no email for appreciation
?
ہماری پیشکش