0
Thursday 21 Aug 2014 16:23

خیبر پختونخوا میں 1420 اہلکار دہشتگردی کی نذر ہو گئے

خیبر پختونخوا میں 1420 اہلکار دہشتگردی کی نذر ہو گئے
وطن عزیز پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت نے عوام اور اداروں کو یکساں اپنا نشانہ بنایا ہے۔ صرف خیبرپختونخوا میں یکم جنوری 2004ء سے لیکر ابتک 1420 اہلکار شہید کئے جا چکے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں گذشتہ دس سال کے دوران دہشت گردوں، اغواءکاروں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف جنگ میں 1420 سے زائد پولیس، ایف سی، خاصہ دار اور لیویز اہلکاروں نے جام شہات نوش کیا ہے جبکہ 2500 سے زائد اہلکار مختلف سانحات میں زخمی ہوئے ہیں۔ جنہیں معاوضے کی مد میں تقریبا تین ارب روپے دیئے گئے ہیں، حالانکہ مرکزی و صوبائی حکومتوں کو غیرملکی امداد کی مد میں اربوں ڈالر ملے ہیں۔ یکم جنوری 2004ء سے لیکر 16 اگست 2014ء تک خیبر پختونخوا میں ایڈیشنل آئی جی سے لیکر کلاس فور ملازمین تک 1068 پولیس اہلکار شہید اور 2500 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ فاٹا میں 175 لیویز اور 130 خاصہ دار فورس کے اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ خیبر پختونخوا پولیس کے شہداء کو ایک ارب 60 کروڑ جبکہ زخمیوں کو بھی 40 کروڑ تک معاوضہ ادا کیا گیا۔ ان شہید اہلکاروں میں تین پولیس خواتین اہلکار بھی شامل ہیں۔ 2010ء تک پولیس کانسٹیبل کو صرف پانچ لاکھ روپے دیئے جاتے تھے، تاہم اس سال عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے شہید اہلکاروں کے معاوضے میں اضافہ کیا جس کے بعد گریڈ 1 سے لیکر 16 تک اہلکاروں کو 30 لاکھ، گریڈ 17 کو 50 لاکھ اور گریڈ 18 اور 19 کو 90 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا جبکہ 20 سے 22 گریڈ تک کے شہید اہلکاروں کے لیے ایک کروڑ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا گیا۔ جس میں سالانہ دس فیصد اضافہ کیا جاتا ہے۔ رینک کے حساب سے انہیں ریگی للمہ میں ایک پلاٹ دینے کا بھی حقدار قرار دیا گیا تاہم 2010ء سے پہلے شہید افراد کے معاوضوں میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس فاٹا حکام نے پشاور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے کے بعد تمام شہید افراد کو فی کس 30 لاکھ اور زخمی کو چار لاکھ روپے دیئے۔

ایکس سروس مین، اسپیشل پولیس فورس اور قومی رضاکاروں کو بھی شہادت کے بعد چند لاکھ دیئے جاتے ہیں اور انہیں وہ تمام مراعات نہیں دی جاتیں۔ عبدالحلیم خان جن کا تعلق فرنٹیر کانسٹیبلری سے تھا پہلا اہلکار تھا جو جنوری 2004ء میں بنوں میں بم دھماکے کا نشانہ بنا۔ پشاور وہ بدنصیب شہر ہے جہاں سب سے زیادہ 295 پولیس اہلکار دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر واقعات میں نشانہ بنے۔ بنوں اس حوالے سے دوسرے نمبر پر جہاں 140 اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ ڈی آئی خان میں 90 اہلکار، سوات میں 84، مردان میں 59، اور چارسدہ میں 32 اہلکار شہید ہوئے۔ گزشتہ دس سالوں میں اہلکاروں کی بڑی اکثریت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہوئی۔ اس عرصے کے دوران تقریبا 380 سے زائد اہلکار خودکش حملوں، بم دھماکوں، میزائل حملوں اور 360 کے لگ بھگ دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ باقی اہلکار اغواء کاروں، جرائم پیشہ افراد اور نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ خیبر پختونخوا پولیس کے دو ڈی آئی جیز ملک سعد کو 2007، عابد علی کو 2006ء اور ایف سی کمانڈنٹ صفوت غیور کو 2010ء میں شہید کیا گیا۔ پانچ ایس پیز عبدالکلام خان، اعجاز خان، ڈی پی او بنوں اقبال مروت، ڈی پی او دیر خورشید خان، قائم مقام ایس پیز رورل پشاور خورشید خان، سمیت 12 ڈی ایس پیز، 27 انسپکٹرز، 89 سب انسپکٹرز، 130 سے زائد ہیڈ کانسٹیبلز سمیت 752 کانسٹیبلز و ایف سی اہلکار وں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان دس سالوں کے دوران 2009ء پولیس کے لیے سب سے زیادہ بھاری ثابت ہوا اور اس سال 201 اہلکار شہید ہوئے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے شہید یا زخمی ہونیوالے پولیس اہلکاروں کو جلد یا بدیر، کم یا زیادہ معاوضہ تو دیا گیا تاہم ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے کیسز سے غفلت برتی گئی اور مجرموں کو کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ یہاں تک کہ بہادری و شجاعت میں تمغے حاصل کرنیوالے شہید فہیم عباس (جنہوں نے خودکش حملہ آور کو عین دھماکے کے وقت زندہ پکڑا،) کے قاتل بھی تاحال قانون کے شکنجے سے آزاد ہیں۔ ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود پولیس عینی شاہدین کی مدد سے قاتل کا حلیہ تک منظر عام پر نہیں لا سکی۔ جس کے باعث پورے پولیس سسٹم پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ آیا پولیس ہمیشہ ہی اپنے اہلکاروں کی قربانیاں دیکر ان کے لواحقین کو قلیل معاوضہ ادا کرکے کاغذی خانہ پری کرتی رہے گی یا سسٹم میں بہتری لاکر ان مجرموں، دہشت گردوں اور حملہ آوروں کو نشان عبرت بھی بنائے گی جو انتہائی دیدہ دلیری سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 405969
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش