2
0
Wednesday 23 Apr 2014 23:54

کراچی میں بے امنی کا پس منظر (2)

کراچی میں بے امنی کا پس منظر (2)
تحریر: عرفان علی 

سندھی لسانی سیاست کرنے والی جماعتیں بھی کراچی میں اپنا کھیل کھیلتی ہیں لیکن ان کے اپنے خاص علاقے ہیں۔ ابراہیم حیدری، ملیر، گلشن حدید، شانتی نگر، سچل گوٹھ وغیرہ۔ لیاری گینگ وار صرف لیاری تک محدود نہیں بلکہ یہ ملیر تک جا پہنچی ہے۔ ہمارے ایک بلوچ دوست نے بتایا کہ پی پی پی کے مضبوط حلقے سے نواز لیگ کے عبدالحکیم بلوچ رکن قومی اسمبلی صرف اس وجہ سے بن پائے کہ لیاری امن کمیٹی نے ان کی حمایت کی تھی۔ جھگڑا اب یہ ہے کہ کراچی کے بڑے بڑے دولت مندوں سے بھتہ کی وصولی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ امن کمیٹی ایم کیو ایم کے علاقوں میں بھی بھتے کی پرچیاں بانٹنے پہنچ جاتی ہے۔ لیاری کی سیاست میں ایم کیو ایم بھی اپنے مہرے استعمال کرتی رہی ہے۔

کراچی کے پشتون علاقوں میں جمعیت علمائے اسلام کو عوامی نیشنل پارٹی نے شکست دی، لیکن اب کالعدم دہشت گرد گروہ سپاہ صحابہ اور طالبان بھی ان علاقوں میں سرایت کرگئے ہیں۔ سہراب گوٹھ، افغان خیمہ بستی، چیپل پلازہ، لانڈھی اور خاص طور پر منگھو پیر، کواری کالونی اور بلدیہ ٹاؤن کے کچھ علاقے ایسے ہیں، جہاں طالبان اور ان کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہے۔ کواری کالونی میں پولیس اور رینجرز بھی نہیں جاسکتے۔ پولیس، رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں سے مقابلہ کرتے ہوئے ان دہشت گرد گروہوں کے سرکردہ افراد مارے یا پکڑے بھی گئے ہیں۔ جنرل ضیاء افغان پالیسی نے کراچی کو منشیات اور کلاشنکوف کلچر کا عادی بنا دیا۔

اس کے علاوہ انڈر ورلڈ اور کرائے کے قاتل بھی کراچی میں سرگرم عمل ہیں۔ کراچی کی ناامنی میں سیاسی، لسانی، فرقہ پرست تکفیری دہشت گرد، اور مافیا کے جرائم پیشہ افراد ملوث ہیں۔ مختلف جماعتوں کے ٹارگٹ کلرز بھی پکڑے گئے ہیں۔ صحافی ولی بابر کے قتل میں بھی ایم کیو ایم کے کارکنوں کو سزا سنائی گئی ہے اور ان مجرموں کا وکیل ایم کیو ایم کا ایک رکن قومی اسمبلی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے بھی بعض افراد پکڑے گئے ہیں۔ پولیس اور رینجرز فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والے قتل میں بھی اشارتاً کراچی کی ایک سیاسی تنظیم کا نام لیتے ہیں۔ آفاق احمد بھی یہی کہتے ہیں۔ سلیم شہزاد نے ایم کیو ایم میں بھتہ خور اور غنڈوں کی اجارہ داری کی بات کی ہے۔ بعض مرتبہ خود شیعہ رہنما بھی ایسا سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن شیعوں کی نسل کشی کی ذمے داری بنیادی طور پر یزیدی ناصبی تکفیری گروہ سپاہ صحابہ، طالبان، لشکر جھنگوی پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم کے مقتول رہنما منظر امام کا ایک بھانجا بھی کالعدم سپاہ صحابہ سے وابستہ تھا، جس کی وجہ سے اورنگی ٹاؤن میں الطاف کی پارٹی تکفیریوں کی سرگرمیوں سے صرف نظر کرتی تھی۔ شیعہ مقتولین کے جنازوں کو ایم کیو ایم کے ترنگے جھنڈے میں لپیٹنے کی شدید خواہش کی وجہ سے گلبہار اور رضویہ کے علاقوں میں بعض فعال شیعہ جوانوں کی نماز جنازہ کے جلوسوں میں بھی بدمزگی کے واقعات ہوئے۔

تنظیم حقوق انسانی پاکستان (HRCP) کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں فائرنگ اور تشدد کے واقعات میں پچھلے سال 3251 افراد قتل کر دیئے گئے۔ 2013ء اس لحاظ سے کراچی کی تاریخ کا خونی ترین سال قرار دیا گیا۔ 2012ء میں ہلاکتوں کی تعداد 3105، 2011ء میں 2382 اور 2010ء میں یہ تعداد 1981 تھی۔ ایکسپریس ٹریبیون نے HRCP کے یہ اعداد و شمار 18 جنوری 2014ء کو شایع کئے تھے۔ مختلف اخبارات کے کرائم رپورٹرز کے پاس کراچی میں ہلاکتوں کے اعداد و شمار میں فرق کے باوجود ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ کراچی کا ہر سال پہلے سے زیادہ خونخوار ہوتا ہے۔ سی پی ایل سی کو 1995ء خونی سال لگتا تھا جب 1742 افراد موت کی نیند سلا دیئے گئے تھے۔

پاکستان کی آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی۔ اس کے مطابق کراچی کی آبادی 98 لاکھ 56 ہزار 318 نفوس پر مشتمل تھی۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز نے اپنی رپورٹ ’’کراچی: جرائم کی صورتحال‘‘ میں ملک کے اس اہم ترین شہر کی آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ لکھی ہے۔ 3572 کلومیٹر پر پھیلے ہوئے کراچی میں 6 علاقے کنٹونمنٹ ہیں، جہاں کے معاملات فوجی انتظامیہ کے حوالے ہیں۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی بھی فوج کے حوالے ہے۔ دیگر انتظامی امور سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں کے پاس ہیں۔ کراچی بندرگاہ، پورٹ قاسم، اسٹیل ٹاؤن سمیت کئی ایسے ادارے ہیں، جو وفاقی حکومت کے تحت کام کرتے ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو خود مختاری تو مل گئی ہے لیکن تاحال بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کے باعث کراچی سمیت پورے سندھ میں بلدیاتی ادارے عملی طور پر وجود نہیں رکھتے۔ سندھ حکومت نے جو نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا ہے، اس پر کراچی کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم کو اعتراضات ہیں۔ تاحال صوبائی حکومت سے ضلعی سطح پر اختیارات اور وسائل کی تقسیم کا عمل بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا، جس کی وجہ سے بلدیاتی اداروں کی بیوروکریسی بھی شش و پنج کا شکار ہے۔

کراچی کی صورتحال سمجھنے کے لئے کراچی سے متعلق یہ سارے حقائق بھی ذہن میں رکھنے چاہئیں۔ کراچی شہر کو ایک نمائندہ بلدیاتی نظام کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔ اگر بلدیاتی ادارے مسلسل کام کرتے رہیں تو شہر کی صورتحال پرسکون رہنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ بلدیاتی ادارے شہری سہولیات کی فراہمی کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ سابق وزیر داخلہ و سابق گورنر سندھ، ریٹائرڈ جنرل معین الدین حیدر نے بہت کوشش کی کہ کراچی میں میٹروپولیٹن پولیس قائم کی جائے۔ اب تک پولیس 1861ء کے برطانوی سامراجی پولیس نظام کے تحت کام کر رہی ہے۔ پولیس آرڈر 2002ء بھی متعارف کروایا گیا۔ روزمرہ کے فرائض والی پولیس اور تفتیش کرنے والی پولیس کو علیحدہ کیا گیا، لیکن پولیس میں اصلاحات میں مستقل مزاجی نہیں دکھائی گئی۔ مقامی آبادی پر مشتمل پولیس کراچی کے شہریوں کے لئے تاحال خواب ہی ہے۔

صوبائی پولیس کا سربراہ آئی جی کہلاتا ہے اور موجودہ نظام میں کراچی پولیس کا سربراہ ایڈیشنل آئی جی کہلاتا ہے۔ پولیس آرڈر 2002ء میں اسے سی سی پی او یعنی کیپٹل سٹی پولیس آفیسر کہا جاتا تھا۔ معلوم نہیں اب کونسا نیا تجربہ ہو اور داروغہ نام نہ رکھ دیا جائے۔ اکتوبر 2011ء میں سپریم کورٹ نے کراچی کی صورت حال کا ازخود نوٹس لیا۔ سماعتوں پر سماعتیں اور قسط وار فیصلے و احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں۔ لیکن کراچی میں موت کا رقص جاری ہے۔ کراچی سمیت پورا پاکستان مقتدر حلقوں کی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے۔ جب چاہیں جو چاہیں کریں، کسی فیصلے کی حکمت ان کے اپنے علاوہ کسی اور کو معلوم نہیں ہوتی۔ اگر ان کے فیصلے ملکی مفاد میں ہوتے ہیں تو دوسری حکومت کے آتے ہی ان کے فیصلے تبدیل کیوں کر دیئے جاتے ہیں۔؟

اب تک اس صورت حال کے سیاسی، انتظامی و قانونی پہلو پر بات ہوئی، ان کا تذکرہ بھی ضروری تھا۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ بس یہی اصل مسئلہ ہے۔ اصل مسئلہ تو قانون کی عدم حکمرانی ہے اور مذکورہ حالات اسی کی وجہ سے ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن کی جنت بنے ہوئے اس شہر میں بنگالی، برمی اور افغانیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ دیگر صوبوں سے بھی پاکستانی کراچی کا رخ کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت، سندھ حکومت، بلدیاتی ادارے، منتخب اراکین اسمبلی، عدلیہ اور سکیورٹی ادارے مل جل کر یہ طے کرلیں کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے زیرو ٹولرینس رکھیں گے۔ جیسے ہی ان کے عملی اقدامات سے یہ زیرو ٹولرینس ثابت ہوگی، جرم کرنے والے سزا کے خوف سے بلوں میں چھپنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ مجرم کو مجرم سمجھنا ہوگا، اگر ان مجرموں میں ’’اپنے‘‘ نظر آجائیں تب بھی ان پر مجرم کا اطلاق کیا جانا چاہیے۔

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے 28 جون 2002ء کو نعرے اور تحریک کے عنوان پر ایک لیکچر دیا تو فرمایا کہ نعرے لگانے اور نعروں کو حقیقت کا روپ دینے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کبھی بھی مراعات یافتہ طبقہ، بااثر افراد اور وسائل کی دولت سے مالامال لوگ تحریک نہیں چلاتے، تحریک ہمیشہ وہی لوگ چلاتے 
ہیں جو حقوق اور وسائل سے محروم ہوتے ہیں۔ الطاف بھائی نے تاکید کی کہ بزرگوں، والدین اور اساتذہ کا احترام کریں، بات چیت میں شائستگی اختیار کریں اور سخت گیر اور گستاخانہ انداز اختیار کرنے سے گریز کریں۔ اس کے بعد کے برسوں میں خود الطاف حسین سمیت ایم کیو ایم قائدین نے اس قول زریں پہ کتنا عمل کیا، یہ پوری قوم جانتی ہے۔ بہتر ہے کہ اس پر الطاف بھائی کا پسندیدہ نغمہ سنائیں: پردہ نہ اٹھاؤ پردے میں رہنے دو!

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اقبال یوسف وزیراعلٰی سندھ کے مشیر بھی رہے۔ کراچی کی صورت حال پر ’’کراچی پیپرز" نامی کتاب لکھی۔ ان سے تحفے میں ملنے والی یہ کتاب میں نے کافی عرصے پہلے ہی پڑھ لی تھی۔ انہوں نے کراچی کے بارے میں اپنے مشاہدات و تجربات کو بیان کرنے کے باوجود ایک شعر سے استفادہ کیا، میرا خیال ہے اس سے آپ سمجھ جائیں گے کہ کراچی کا مسئلہ سادہ ترین الفاظ میں یہ ہے:
فغاں کہ مجھ غریب کو حیات کا یہ حکم ہے
سمجھ ہر راز کو مگر فریب کھائے جا
خبر کا کوڈ : 375161
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سلام
اچھا لکھا، سمندر کوزے میں بند۔
Salam. U deserve praise . Good backgrounder.
ہماری پیشکش