0
Monday 11 Aug 2014 19:05

غزہ، دوستوں اور دشمنوں کی آزمائش کی سرزمین (1)

غزہ، دوستوں اور دشمنوں کی آزمائش کی سرزمین (1)
تحریر: عرفان علی 

غزہ پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ یہ مقالہ رمضان میں لکھا گیا اور اب اسے اپ ڈیٹ کرتے وقت بھی صورتحال میں سوائے اس کے کہ شہادتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، اور کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ غزہ پچھلے سات آٹھ برس سے محصور ہے۔ اسے بہت آسانی سے صہیونیوں نے اس لئے گھیرا کہ اس کا محل وقوع ہی ایسا تھا۔ بحر متوسط کے کنارے واقع 378 مربع کلومیٹر پر محیط غزہ کی پٹی کی زمینی سرحد، رفحہ کراسنگ پر مصر کے ساتھ ملتی ہے۔ خشکی پر دیگر اطراف سے اسے ناجائز و غاصب صہیونی ریاست نے گھیر رکھا ہے۔ محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ کے علاقے مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان جو فلسطینی علاقہ واقع ہے وہ اب اسرائیل کے براہ راست قبضے میں ہے اور دنیا اسے اسرائیل کے نام سے جانتی ہے۔ آج کل غزہ جس شام غریباں سے دوچار ہے وہ بھی ماضی میں پیش کیے گئے کھوکھلے بہانوں کی طرح بنیاد بنا کر اسرائیل سے اُن پر مسلط کی ہے۔

تین یہودی نوجوانوں کو اغوا کرکے بعد قتل کیا گیا۔ اسرائیلی حکومت نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر غزہ پر بمباری شروع کر دی۔ حالاں کہ ان تین لاشوں کے ملنے کے بعد ایک فلسطینی نوجوان ابو محمد خضیر کو بیت المقدس سے اغوا کرکے بے دردی سے شہید کر دیا گیا تھا۔ تین یہودی نوجوان کا تعلق گش ایٹ صہیون نامی علاقے سے تھا جو دراصل مغربی کنارے کے علاقے میں واقع ہے، لیکن یہاں نسل پرستانہ بنیادوں پر غیر قانونی یہودی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق بھی یہ بستیاں غیر قانونی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس علاقے کا نظم و نسق تاحال صہیونی حکومت کے کنٹرول میں ہے، جب کہ مغربی کنارے کے محض 39 فی صد علاقے پر محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ کا کنٹرول ہے۔ اکسٹھ فی صد علاقہ تاحال اسرائیلی کنٹرول میں ہے جب کہ فلسطینی نوجوان ابو محمد خضیر مشرقی یروشلم یعنی بیت المقدس سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ علاقہ فلسطینی انتظامیہ، عرب لیگ، او آئی سی اور حماس سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کی نظر میں آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوگا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ علاقہ مسئلہ فلسطین کے حل تک انٹرنیشنل کنٹرول میں ہوگا لیکن عملی طور پر یہ علاقہ بھی اسرائیل کے کنٹرول میں ہے۔

یہ پس منظر یاد رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ غزہ کا اس پورے قضیے سے کوئی تعلق یا ربط نظر نہیں آتا۔ مقتولین کے تحفظ کی ذمّے داری بھی صہیونی حکومت پر عائد ہوتی تھی، جس میں وہ مکمل طور پر ناکام ہوئی۔ بیت المقدس میں عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمّے داری بنیادی طور پر اقوام متحدہ پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن یہ ادارہ بھی بیت المقدس پر صہیونی تسلط ختم کروانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ یہ واقعات نہ تو غزہ میں رونما ہوئے اور نہ ہی غزہ سے تعلق رکھنے والے کسی گروہ نے اس کی ذمے دارے قبول کی۔ صہیونی پولیس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ حماس کا ان نوجوانوں کے قتل سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکی یہودیوں کی تنظیم کے سابق عہدیدار ہنری سیگمین نے بھی ایک مقالے میں اعتراف کیا کہ جنگ کا ذمے دار اسرائیل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں اسرائیل کو غزہ یا حماس کیوں یاد آیا؟ ناجائز و غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا وجود ہی ایسی احمقانہ، غیر منظقی و غیر عادلانہ بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے اس لئے اس تازہ جارحیت کو اس کا نیا باب سمجھنا چاہئے۔ 1948ء تک دنیا بھر کے نسل پرست یہودی دہشت گرد، فلسطین میں جمع کیے گئے اور فلسطینیوں کا قتل عام کرکے دیگر کو اپنے وطن سے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ پچھلے 66 برسوں کی تاریخ میں کوئی سال ایسا نہیں گذرا جب فلسطینیوں کو سُکھ کا سانس لینا نصیب ہوا ہو۔

تین یہودی نوجوانوں کے قتل کی ذمّے دار ی کا تعین کرنے سے پہلے ہی 8 جولائی کو اسرائیل نے غزہ پر جارحیت کو آپریشن دفاعی برتری کے عنوان کے تحت دنیا کو گمراہ کیا۔ صہیونی دہشت گردی اور جارحیت کے دفاع میں ماضی کی طرح بی بی سی، سی این این سمیت مغربی ذرائع ابلاغ نے تبلیغاتی جنگ کا محاذ سنبھالا۔ امریکہ کے بدنام زمانہ نیوکنزرویٹو صہیونی کالم نگار چارلس کروتھیمر نے صہیونیوں کے دفاع میں واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم میں بڑے بڑے لیکن جھوٹے دعوے کر ڈالے۔ مورل کلیرٹی ان غزہ کے عنوان سے اُنہوں نے اسرائیل کے فضائل بیان کئے کہ اسرائیل نے کوئی ناکہ بندی نہیں کر رکھی تھی۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ سال 2007ء سے غزہ اسرائیلی محاصرے میں ہے۔ اُنہوں نے لکھا کہ فلسطینی قیادت نے کوئی تعمیری کام نہیں کیا، کہاں ہیں سڑکیں، ریل، صنعت اور فلسطینی ریاست کا دیگر انفرااسٹرکچر؟ اس سوال کا جواب اُنہیں معلوم ہو کہ اسرائیل نے ان کی تعمیر کردہ کسی بھی چیز کو باقی رہنے کب دیا ہے۔ ان کی رہائشی عمارات پر بھی صہیونی میزائل برساتے رہے ہیں اور اب بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ بلڈروزز اور ٹینگ زمین پر حملہ آور ہیں۔

اُنہیں یاد دلا دوں کہ دسمبر 2008ء میں صہیونی جارحیت کے بارے میں اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیلی جارحیت اس معاہدہ جنگ بندی کی خلاف ورزی تھا جو مصر کے توسط سے جون 2008ء میں طے پایا تھا۔ باقاعدہ اعلانیہ جنگ 27 دسمبر کو شروع ہوئی، لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوجی ٹینک اور بلڈوزروں نے 4 اور 5 نومبر 2008ء ہی کو غزہ کی جنوبی سرحد پار کرلی تھی اور اسی دن ایک فلسطینی شہید کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ نے اس خلاف ورزی پر ردعمل ظاہر کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ رچرڈ فاک جو خود بین الاقوامی قانون کے پروفیسر اور یہودی النسل ہیں، اُن کی اس رپورٹ کو امریکہ نے مسترد کر دیا تھا۔ امریکہ نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے لیے یہ ایک ہی واقعہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ اس وقت امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے سیز فائر کروانے کے لیے دنیا میں راہ ہموار کی، اقوام متحدہ میں قرارداد کے لیے فعال کردار ادا کیا اور جب قرار داد پیش ہوئی تو امریکہ نے ووٹنگ میں حصّہ ہی نہیں لیا۔ اس وقت کا صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ صہیونیوں کے اجتماع میں یہ راز فاش کر رہا تھا کہ اُس نے صدر بش سے کہا تھا کہ امریکہ قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں ڈالے گا اور صہیونی وزیراعظم کی فرمائش پر امریکی صدر سرنگوں ہوگئے۔

غزہ کی شام غریباں اپنی جگہ، لیکن اُس کی مقاومت بھی ختم نہیں کی جاسکی۔ پندرھویں صدی قبل مسیح میں بھی یہ علاقہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اس علاقے کے باسی اپنی مقاومت کی وجہ سے مشہور رہے ہیں۔ الیگزینڈر (اسکندر اعظم) نے ان کی مقاومت کی سزا کے طور پر اُنہیں غلام بنانے کی سزا سنائی تھی۔ اسی شہر میں خاتم الانبیاء حضرت محمد (ص) کے پر دادا حضرت ہاشم بن عبد مناف کی قبر مطہر ہے۔ خلیفہ دوم حضرت عمر کے دور میں یہ علاقہ مسلمانوں کے کنٹرول میں آیا۔ صلیبی جنگوں میں اس کا کنٹرول صلیبیوں اور مسلمانوں کے درمیان منتقل ہوتا رہا۔ 1517ء میں ترک سلطنت عثمانیہ نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالا جو چار سو سال تک جاری رہا۔

1917ء میں جب ترک سلطنت عثمانیہ سے یہ علاقہ چھین لیا گیا، تب اس خطّے کے موجودہ بااثر عرب خاندان ترکوں کے مخالف تھے اور برطانوی و فرانسیسی سامراج کے ساتھ مل گئے تھے۔ آج ترک حکمران اور ان کی سلطنت عثمانیہ کے دور میں شریف مکہ کا کردار ادا کرنے والے ہاشمی خاندان اور دوسرے بڑے دشمن آل سعود بھی اردگانی حکومت کے ساتھ ہیں، لیکن یہ سب آج کل اس خطّے میں فرانس، برطانیہ و امریکہ کے دوست ہیں لیکن غزہ کو اس دوستی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جمال عبد الناصر کے مصر میں جنرل سیسی کو سعودی و امریکی حمایت حاصل ہے اور غزہ و مصر کو ملانے والی "رفحہ کراسنگ" بند ہے۔ نہ غذا، نہ دوا، زخمی دارلشفاء سے بھی بے شفا شہید بن کر لوٹ رہے ہیں۔ وفا ہسپتال بھی خائن عرب حکمرانوں کی بے وفائی کی وجہ سے علاج معالجے کی سہولتوں سے محروم ہے۔

غزہ کے اسپتالوں میں تو آپریشن کے انتظامات ناکافی ہیں لیکن صہیونی ریاست نے آپریشن دفاعی برتری شروع کیا ہے۔ فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس کے فوجی ونگ قسام بریگیڈ نے اس کے جواب میں آپریشن عصف ماکول شروع کر دیا ہے۔ 29 مارچ 2002ء کو صہیونی جارحیت کو آپریشن دفاعی شیلڈ کا نام دیا گیا تھا اور اس کے بعد صہیونی افواج نے پورے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا تھا۔ یاسر عرفات زیر زمین بنکر میں چُھپ کر زندگی گذار رہے تھے اور بعد ازاں اسی کیفیت میں ہی اُنہیں پیرس منتقل کیا گیا تھا۔ 2004ء میں 18 تا 23 مئی آپریشن قوس و قزح اور 29 ستمبر تا 16 اکتوبر آپریشن ایّام کفارہ کے عنوان کے تحت غزہ کو تائب کرنے کی کوشش کی گئی۔ غزہ مقاومت کی سرزمین کہ جس نے تحریک انتفاضہ کو جنم دیا، غزہ پر اس جارحیت کے بعد بدنام زمانہ دہشت گرد صہیونی وزیر جنگ جو وزیراعظم بنا، اس شیرون نے غزہ سے یک طرفہ طور پر غیر مشروط انخلاء کر دیا۔ غزہ میں تعمیر ساری یہودی بستیاں منتقل کر دی گئیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 404221
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش