0
Sunday 15 Dec 2013 08:01

یاسر عرفات کی مشکوک موت پر فلسطین اتھارٹی کی پراسرار خاموشی

یاسر عرفات کی مشکوک موت پر فلسطین اتھارٹی کی پراسرار خاموشی
اسلام ٹائمز- العالم نیوز چینل کے مطابق معروف فلسطینی لکھاری عبدالباری عطوان نے اپنے کالم میں پی ایل او کے سابق سربراہ جناب یاسر عرفات کی مشکوک موت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس بارے میں فلسطین اتھارٹی نے لمبے عرصے سے انتہائی پراسرار انداز میں چپ سادھ رکھی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ فلسطین اتھارٹی کو چاہئے کہ وہ اسرائیل کے خلاف یاسر عرفات کے قتل میں ملوث ہونے کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر تحقیقات انجام پانے کی سنجیدہ کوشش کرے اور ہمیں امید ہے کہ فلسطین اتھارٹی ہماری ان توقعات کو پورا کرے گی۔ جناب عبدالباری عطوان نے "الرای" نیوز ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا کہ ایسے شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جناب یاسر عرفات کو پلونیوم نامی زہریلے مادے سے قتل کیا گیا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ پلونیوم ایک ایسا زہریلا مادہ ہے جو اس وقت صرف امریکہ، روس اور اسرائیل کے اختیار میں ہے۔ امریکہ اور روس کو یاسر عرفات کے قتل سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا لہذا صرف اسرائیل ہی وہ ملک ہے جو یاسر عرفات کے قتل میں ملوث نظر آتا ہے۔ اسرائیل گذشتہ 60 سالوں کے دوران بڑی عرب شخصیات، فلسطینی شخصیات اور بین الاقوامی تنظیموں کے اراکین کے قتل میں ملوث رہا ہے۔ 
 
جناب عبدالباری عطوان نے لکھا کہ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایریل شارون جو اس وقت بے ہوشی کی حالت میں ہے نے بارہا جناب یاسر عرفات کو قتل کی دھمکیاں دی تھیں۔ ان دھمکیوں کی وجہ یہ تھی کہ جناب یاسر عرفات نے 2000ء میں کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کے دوران اسرائیل کے ناجائز مطالبات ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اسرائیل ان سے مطالبہ کر رہا تھا کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کر لیں لیکن وہ اس بات پر راضی نہ ہوئے۔ جناب یاسر عرفات اپنے پاس موجود قلیل وسائل کی مدد سے ہی اپنی سیکورٹی انتظامات کو سنبھالے ہوئے تھے اور اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی تدابیر اتخاذ کئے ہوئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اسرائیل انہیں قتل کرنے کی کوشش کرے گا۔ لہذا وہ آخری دنوں میں عرب رہنماوں سے کسی قسم کی ملاقات نہیں کرتے تھے اور صرف ان عام افراد سے ملاقات کرتے تھے جو ان کی حمایت کی خاطر ان کے پاس آتے رہتے تھے۔ 
 
جناب عبدالباری عطوان نے اپنے کالم میں لکھا کہ پلونیوم کی مدد سے قتل کرنے کا پہلا کیس 2006ء میں سامنے آیا جب روس کا سابق جاسوس الگزینڈر لتھوی نینکو جو ڈبل ایجنٹ کے طور پر کام کرتا رہا تھا اور لندن کے ایک ہوٹل میں مقیم تھا اس زہریلے مادے کے ذریعے قتل کیا گیا۔ چونکہ پلونیوم ایک ایسا زہریلا مادہ ہے جو چند دن بعد انسان کی موت کا باعث بنتا ہے اور اس وقت تک اس کے اثرات انسان کے جسم سے ختم ہو چکے ہوتے ہیں لہذا اس کی تشخیص دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت فلسطین اتھارٹی اس بارے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ اور وہ کیا اقدامات انجام دے گی؟ فلسطین اتھارٹی نے اتنے سالوں سے خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے اور جناب یاسر عرفات کی مشکوک موت کے بارے میں تحقیقات انجام دینے کیلئے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا؟
 
کہا جاتا ہے کہ فلسطین اتھارٹی کے پاس اس قسم کی تحقیقات کے اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں لیکن یہ بات بالکل صحیح نہیں ہے اور اس کا مقصد رائے عامہ کو فریب دینا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے ایک ادارے کی جانب سے اس ضمن میں انجام پانے والی تحقیقات کے اخراجات صرف ایک ملین ڈالر بتائے جاتے ہیں۔ کیا فلسطین اتھارٹی جس نے اب تک فلسطینی عوام کو 4 ارب ڈالر کا مقروض کر دیا ہے صرف 1 ملین ڈالر خرچ نہیں کر سکتی؟ جناب یاسر عرفات کے مشکوک قتل پر فلسطین اتھارٹی کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ فلسطین اتھارٹی کو جناب یاسر عرفات کے قتل میں اسرائیل کے ملوث ہونے کا علم ہونے کے باوجود اور دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر کو بھرپور انداز میں جاری رکھے جانے اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے "وادی اردن" پر اپنا قبضہ جاری رکھے جانے کے اعلان کے باوجود فلسطین اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ اپنے مذاکرات کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اسرائیل ہمیشہ سے فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی کی مخالفت کرتا آیا ہے اور ان کے اس مسلمہ حق کو مسترد کرتا ہے۔ ان تمام حقائق کے تناظر میں فلسطین اتھارٹی کی جانب سے جناب یاسر عرفات کے مشکوک قتل کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر تحقیقات انجام پانے کی درخواست پر ہی اکتفا کر لینا کافی نہیں۔ یہ اقدام درحقیقت لوگوں کی توجہ کو اپنی جانب سے ہٹانے کی کوشش ہے۔ فسلطین اتھارٹی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا عمل روک دے اور بین الاقوامی کریمینل کورٹ کی رکنیت اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف باقاعدہ مقدمے کا آغاز کرے۔ 
 
جناب عبدالباری عطوان نے لکھا کہ سب سے زیادہ اہم تحقیق خود فلسطین اتھارٹی کے اندر انجام پانی چاہئے تاکہ ان خائن سیاسی عناصر کی نشاندہی ہو سکے جنہوں نے اندر رہ کر اس قتل کا زمینہ فراہم کیا اور معلوم ہو سکے کہ وہ کون لوگ تھے جو فلسطین اتھارٹی کے اندر موجود رہتے ہوئے اس منحوس سازش کا حصہ بنے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا فلسطین اتھارٹی سنجیدگی سے یہ دو تحقیقات انجام دے پائے گی اور ہر قسم کے نتائج سے بے پرواہ ہو کر ان تحقیقات کو آخر تک پہنچا پائے گی؟ چاہے ان کا اثر اسرائیل کے ساتھ اس کے مذاکرات پر پڑے یا کوئی اور اثر ظاہر ہو۔ اگرچہ اس ضمن میں کافی شکوک و شبہات موجود ہیں لیکن ہمیں توقع ہے کہ ایسا انجام پائے۔ 
خبر کا کوڈ : 328127
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش