1
0
Thursday 23 Oct 2014 17:37

دھرنے کا خاتمہ مگر کیوں؟

دھرنے کا خاتمہ مگر کیوں؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر
   
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

امیر مینائی کو پتہ نہیں کیا مشکل پیش آئی کہ انھوں نے یہ شعر کہا، ہماری مشکل البتہ اور طرح کی ہے۔ خود فریبی کا شکار معاشرہ تباہ ہوا کرتا ہے۔ حد سے بڑھا ہوا اعتماد بھی گاہے رسوائی اور ناکامی کا در وا کرتا ہے۔ 70 دن بعد علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اپنے اسلام آباد کے دھرنے کو یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ اب شہر شہر دھرنے ہوں گے۔ مگر کیوں؟ انقلاب کے لئے؟ اس اخبار نویس نے قادری صاحب کی پاکستان آمد پر ان کی لاہور میں گورنر پنجاب کے ساتھ ڈیل کے سائے میں گھر کو روانگی پر ایک کالم لکھا تھا۔ قادری نواز منہ نوچنے لگے۔ مسلکی دانش بھی گاہے انسان کو درست تجزیہ نہیں کرنے دیتی۔ ہم سب خوابوں کے اسیر ہیں۔ بلاشبہ اسلام آباد میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور عمران خان کی پارٹی کے دھرنوں نے لوگوں کو شعور دیا۔ کرپشن کی کئی پوشیدہ کہانیاں طشت ازبام ہوئیں، لیکن وہ امیدیں؟ انقلاب کی صبح کے سورج کے طلوع ہونے کی نوید؟ کفن پہن کر تقریریں اور کفن پوشوں کی صفیں؟ 

وہ خاص بات جو ڈاکٹر صاحب نے انقلاب مارچ سے قبل لاہور میں کہی تھی کہ ’’مقصد حاصل کئے بغیر جو بھی واپس آئے اسے ’’شہید‘‘ کر دیا جائے۔‘‘ عمران خان تو اسلام آباد میں موجود ہیں۔ کیا قادری صاحب کا مقصد پورا ہوگیا؟ اگر پورا ہوگیا تو پھر وہ کیوں شہر شہر دھرنا دینے نکلیں گے؟ اور اگر مقصد پورا کئے بغیر وہ آگئے تو کیا وہ اپنے ہی جوشِ خطابت کی زد میں نہیں آگئے؟ کیا اب وہ خوش دلی سے ’’شہادت‘‘ قبول فرما لیں گے؟ اس لمحے بندہ غالب کو ہی یاد کرتا ہے
بازیچہء اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

کیا قادری صاحب نے اپنے اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لیا؟ اڑی اڑی سی خبر تو یہ بھی تھی کہ چوہدری برادران سے قادری صاحب کے اختلافات ہیں۔ جانے دیجئے، ہوں گے اختلافات، سیاست میں مفادات ہی حلیف و حریف بناتے ہیں۔ وہ مگر ’’عوامی پارلیمنٹ‘‘؟ کیا دھرنا ختم کرنے سے قبل اس ’’عوامی پارلیمنٹ‘‘ کے اراکین کو بھی اعتماد میں لیا گیا؟ اگر نہیں تو کیا یہ ’’عوامی پارلیمنٹ‘‘ کی ’’توہین‘‘ نہیں ہے؟
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنانِ شہر
اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے
 

انقلابی صبح کی بادِ صبا تو نہ چلی مگر انقلاب کے اس تازہ تازہ سفر نے عوامی جدوجہد کے بے طرح بے آبرو کیا۔ اخبارات والے بھی بال کی کھال اتارتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ دھرنے کے خاتمے کے لئے قادری صاحب اور حکومت کے درمیان ’’بیک ڈور‘‘ روابط ہوئے۔ مگر وہ خونِ شہیداں؟ کیا اب کی بار پھر وہ رزقِ خاک ہوگیا ہے؟ بے شک امیدوں کی دیوار گر پڑی ہے۔ کیا دھرنے کے شرکاء صرف اس لئے رو رہے تھے کہ وہ بچھڑ رہے ہیں؟ اخبار نویس دوسرا رخ بھی دیکھتا ہے۔ بیشتر کے آنسوؤں کی لکیر یہ سوال بھی پوچھ رہی تھی کہ اگر آخرِ کار یہی کرنا تھا تو ہمیں 70 دن تک انقلاب لانے کا دھوکہ کیوں دیئے رکھا؟ وہ جن کی نوکریاں گئیں؟ 17 جون2014ء کے سانحہء ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے ورثا کی امیدیں؟ کیا ان کے خون کا قصاص یہی ایک بے مراد پریکٹس تھی۔؟
 
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب حکومت تحریکِ انصاف والوں کے ساتھ زیادہ آسانی کے ساتھ نمٹ لے گی، عمران خان مگر اپنے بات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اگرچہ انھیں قادری صاحب کے جانے سے سیاسی دھچکا ضرور لگا، مگر وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے؟ دیکھنا یہ ہے کہ محرم الحرام میں عمران خان کیا حکمتِ عملی اپناتے ہیں۔ یہ امر فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ان دھرنوں نے عوام کے اندر سیاسی شعور کو بیدار کیا، لوگوں کے ذہنوں پر چھائے خوف کے سائے کسی حد تک دور ہوئے مگر میرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ مارچ ’’انقلابی‘‘ تھا تو اس میں قادری صاحب کی دو باتیں کوئی کیسے فراموش کرے؟ ایک یہ کہ مقصد حاصل کئے بغیر جو بھی واپس پلٹ آئے، کارکن اسے شہید کر دیں اور دوسری بات اسلام آباد کے ڈی چوک میں کفن پوش تقریر؟ 

قادری صاحب کے دھرنے کے خاتمے پر حکومت کی جانب سے ستائشی بیانات بھی اخبار نویس کے لئے تشویش کا باعث بنے۔ لوگوں کا جذبہ بلاشبہ دیدنی تھا، کل وقتی دھرنہ، مگر قادری صاحب کے سارے اندازے غلط نکلے، ہمیشہ کی طرح۔ بڑے جلسے وہ اب بھی کرسکیں گے، کہ وہ ایک تنظیم رکھتے ہیں، مگر اب ان کے بڑے بڑے جلسوں سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ قادری صاحب اسلام آباد والے دھرنے کو ختم کرنے کے بجائے اسے محرام الحرام کے احترام میں مؤخر کرنے کا اعلان کرتے تو ان کی بات زیادہ وزن رکھتی اور حکومت پر دباؤ بحال رہتا، وہ مگر ہمیشہ کی طرح جلد باز ہیں۔ خوبصورت ایجنڈا، پرجوش اور طویل خطابت، حکمرانوں کا للکارنا اور انھیں پھانسی کے پھندے تک لے جانے کی ساری باتیں ایک طرف۔ 

آخری تجزیے میں قادری صاحب کا دھرنا اپنے کسی بھی اعلان شدہ مقصد کو حاصل کئے بغیر دوسرے شہروں کا رخ اختیار کر گیا۔ بالکل اس سیلاب کی طرح جس کی آمد کی پیشن گوئی محکمہ موسمیات والے کرتے ہیں، مگر وہ سیلاب اس شد و مد سے نہیں آتا اور برسوں کی پیاسی زمین پیاسی کی پیاسی ہی رہ جاتی ہے۔ قیادت کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ جلد باز نہیں ہوتی، جذباتیت کو تدبر پر غالب نہیں آنے دیتی اور امید کو ہرا بھرا رکھتی ہے۔ قادری صاحب نے اس دھرنے حاصل کرنے کے بجائے بہت کچھ کھویا ہے۔
خبر کا کوڈ : 416129
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Very good analysis Tahir Yasin sb. Keep up the good work.Points raised by you are very logical
ہماری پیشکش