0
Tuesday 22 Apr 2014 14:56
ایران میں ایک مقدس نظام حکومت قائم ہے

عرب حکمران حقیقی جمہوریت کے مخالف اور اسلام کے کھلے دشمن ہیں، مولانا نور احمد ترالی

ایرانی انقلاب تمام عالم اسلام کے لئے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے
عرب حکمران حقیقی جمہوریت کے مخالف اور اسلام کے کھلے دشمن ہیں، مولانا نور احمد ترالی
مولانا نور احمد ترالی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ سے ہے، آپ اپنے والد معروف عالم دین مولانا نور الدین ترالی قاسمی کے زیر تربیت پروان چڑھے، مولانا نور احمد ترالی جموں و کشمیر مجلس دعوت حق کے سربراہ ہیں، آپ دارالعلوم نورالاسلام ترال کے سرپرست بھی ہیں جس کی بنیاد آپ کے والد مرحوم نے 1940 ء میں عمل میں لائی تھی، مدرسہ تعلیم الاسلام ترال بائز و گرلز ونگ آپ ہی کے زیرنگرانی فعال ہے، آپ مجلس اتحاد امت سے بھی وابستہ ہیں، جموں و کشمیر میں اتحاد و اخوت بین المسلمین کے حوالے سے آپ نے کئی کارنامے انجام دیئے جن میں نمایاں کارنامہ آپ کی مشہور تصنیف ’’دعوت حق‘‘ ہے، 2002ء سے آپ مجلس دعوت حق تعلیم الاسلام کی سربراہی کررہے ہیں اور جموں و کشمیر کے اطراف و اکناف میں مختلف سیمیناز و کانفرنسز کا اہتمام بھی کراتے ہیں، اسلام ٹائمز نے مولانا نور احمد ترالی سے انکی رہائش گاہ واقع ترال اونتی پورہ میں ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: جموں و کشمیر میں آپ نے اپنے تبلیغی مشن کے دوران یہاں کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و آپسی اخوت کی بےمثال کوششیں کی ہیں، اس حوالے سے موجودہ صورتحال کیا ہے۔؟

مولانا نور احمد ترالی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اولاً عرض کروں کہ عالمی سطح پر علماء کرام اور مبلغین دین اسلام کے درمیان اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، مختلف نکتہ نگاہ اور مکتب فکر کے علماء کرام کے درمیان اتحاد ہونا لازمی ہے، جموں و کشمیر میں ہم نے اس حوالے سے کوششیں شروع کی ہیں اور ہم مجلس اتحاد ملت کے زیراہتمام جموں و کشمیر میں کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد کرتے رہے تاکہ علماء کرام اور پھر عوام اس جانب مائل ہوسکے، ہم نے اس پلیٹ فارم پر اہل تشیع، اہل تسنن، جماعت اسلامی، اہل حدیث اور تبلیغ الاسلام کو ایک ساتھ دیکھنا چاہا، ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ جو مختلف فکر کے علماء کرام میں اختلافات ہوتے ہیں ایک راستہ تلاش کیا جائے کہ جو اسلام کے بنیادی اصول توحید، رسالت پر ہی کام کریں اور فروعی مسائل کو اپنی اپنی جگہوں پر رکھیں، ان فروعی مسائل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہونی چاہیئے، کم سے کم پبلک میں ان مسائل کو نہیں اچھالنا ہوگا، فروعی مسائل کو عوام میں لانے سے اختلافات بڑھ جاتے ہیں اور پھر عام لوگ اسلام کے بنیادی ہدف اور بنیادی تعلیمات سے ہی منحرف و دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کشمیر بھر میں لوگوں کا رجحان اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے کیا پایا جاتا ہے۔؟

مولانا نور احمد ترالی: لوگوں میں جو باشعور اور بافکر طبقہ ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ ہے وہ اتحاد کی کاوشوں سے بہت خوش ہیں اور ہمارے آگے آگے ہوتے ہیں لیکن بعض جاہل افراد اپنے ہی مگن میں مصروف ہیں، ان جاہلوں کی سربراہی جو نام نہاد مولوی حضرات کرتے ہیں وہ اپنے ذاتی مفادات کے لئے طرح طرح کے حربے آزما رہے ہیں تاکہ مسلمان آپسی تضاد کے شکار ہوتے رہیں اور مسلمان تقسیم ہوتے رہیں جو قابل تشویش ہے اس پر تمام علماء کرام کو سوچنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیوں یہ نام نہاد مولوی مسلمانوں کو لڑانے اور جنگ و جدل میں مصروف رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔؟َ

مولانا نور احمد ترالی: اس کی ایک بڑی وجہ مادیت بھی ہے جب تک مادیت ختم نہ ہو جائے اور مادی مفادات کا خاتمہ نہ ہو جائے اور ہمارے امور میں الٰہیت نہ آ جائے، یہ ہوتا رہے گا اور جاہل لوگ پنپتے رہیں گے، ایسے افراد اور ایسی ایجنسیاں دنیا بھر میں موجود ہیں جو علماء سوء کو مادہ پرستی میں الجھا کر انکی معاونت کرکے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کا درپردہ کام کرتے رہے ہیں، یہ ایجنسیاں اور اسلام دشمن عناصر ہرگز نہیں چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے اصل ہدف کی جانب واپس آ جائیں اور مسلمان وہ نہج اختیار کریں جو اولیاء کرام کی نہج تھی اور مسلمانوں کی میراث، دشمن نہیں چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی اجتماعی صلاحیت بڑھ جائے اور وہ امت واحدہ کے بطور متعارف ہو سکیں اور اس کے حل کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ اسلام اور اسلامی احکامات کو تحفظ دینے والی اسلامی سیاست کا قیام اور نفاذ عمل میں لایا جانا چاہیئے، اب عام لوگوں میں بھی اس حوالے سے ایک خاص رجحان پایا جاتا ہے کہ اسلامی سیاست کا قیام عمل میں لایا جائے اور اسی حکومت اسلامی کے تحت ہم اپنے تمام انفرادی و اجتماعی مسائل و معاملات کا حل تلاش کریں، دشمن اسلام نام نہاد مولویوں کو ہی استعمال کرتا ہے اور یہ مولوی ہی انکے آلہ کار ثابت ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیوں کشمیر کی مقدس سرزمین اور اولیاء کرام کی سرزمین دشمن کے لئے استعمال ہو رہی ہے اور ایسے عناصر کو یہاں پنپنے دیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے لئے سم قاتل ثابت ہو رہے ہیں۔؟

مولانا نور احمد ترالی: ہمارے مادہ پرست مولوی حضرات سیاسی طور پر بالکل نابلد ہیں وہ سیاست کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں، سیاسی شعور کا انکے اندر فقدان ہے اسلئے وہ استعمال ہو رہے ہیں وہ بظاہر اسلام کے لئے کام کرتے ہیں لیکن درحقیقت اسلام مخالف مہم کا حصہ ہیں، وہ اسلام کے خلاف کام کرتے ہیں، دین کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور کا ہونا لازمی ہے، ہندوستان اور ہندوستانی سیاست برسوں سے اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ کشمیر میں حقیقی اسلام باقی و زندہ نہ رہنے پائے، اور اسلام ناب یہاں پنپنے نہ پائے اور بھارت کی کوشش ہے کہ اسلام بھی یہاں وہی سطح و معیار اختیار کرے جو برھمن و ہندوں کا معیار ہے، ہندوں کا معیار مذہب فقط چند رسومات اور چند ایک اعمال بجا لانا ہے اور بس، بھارت کی کوشش ہے کہ جموں و کشمیر میں اسلام بھی سطحی رہے اور خالص و حقیقی اسلام لوگوں سے چھین لیا جائے، اسلام بھی چند رسومات تک محدود رہے اور حقیقت سے خالی ہو جائے۔

اسلام ٹائمز: بھارت کی ثقافتی یلغار کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کشمیری عوام بھارت کے رنگ میں اب رنگنے لگے ہیں، اس کی وجہ اور بھارت کا ہتھکنڈا کیا ہے۔؟

مولانا نور احمد ترالی: اس میں سب سے اہم رول بھارتی میڈیا انجام دے رہا ہے اور بھارت اسی میڈیا کے ذریعے کشمیر کی عظیم و مقدس و قدیم تہذیب کو ختم کرنے کے درپے ہے، پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا دونوں کے ذریعے بھارتی ثقافتی یلغار میں مصروف ہے وہ ہر طرح سے چاہتا ہے کہ یہاں کشمیر میں ہندو رسومات رائج ہو جائیں اور انکو ترویج ملے، ابھی کشمیر بھر میں ایک تصوف رائج کیا جا رہا ہے جو برہمنوں کا تصوف ہے اور اسلامی تصوف کے بالکل خلاف ہے یہ بھی بھارتی سازش کا ایک اہم حصہ ہے، اس میں ہمارے علماء کو منظم تحریک چھیڑنی چاہیئے، بعض علماء اس حوالے سے فعال ہیں لیکن بعض مولوی حضرات دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ایک اور اہم وجہ ثقافتی یلغار کی یہ بھی ہے کہ یہاں کشمیر میں کثیر تعداد میں بھارت کے قابض فورسز مسلط ہیں وہ یہاں کے نوجوان طبقے کو اپنی جانب مائل کرتے آئے ہیں اور خرافات و بدعات سے ہمارے نوجوانوں کو اپنے مکروہ اہداف کا شکار بناتے ہیں اور انہیں دین اسلام سے دور بہت دور لے جاتے ہیں، غرض کہ بھارت کے قابض فورسز کا کشمیر میں ہونا یہاں پائی جانے والے خرابیوں کی ایک بڑی وجہ ہے اگر ہم اب بھی چاہتے ہیں کہ یہاں کی مقدس سرزمین بھارتی ثقافتی یلغار کی مزید شکار نہ ہوجائے تو اس کے لئے بھارتی فورسز کا یہاں سے اخراج و انخلاء لازمی ہے، قابض فورسز کے ساتھ ساتھ بھارت بھر سے یہاں مزدور طبقہ وارد ہوتا ہے وہ بھی ماحول بگاڑنے کا برابر ذمہ دار ہے۔

اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر مسلمان دن بہ دن ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں اسکی اہم وجہ کیا ہو سکتی ہے۔؟

مولانا نور احمد ترالی: اس کی اہم وجہ میرے خیال سے یہ ہے کہ دنیائے اسلام میں جب تک اسلامی سیاست قائم نہ ہو جائے تب تک رخنہ اندازی، انتشار اور آپسی رنجشیں سامنے آتی رہیں گی، اسلامی سیاست و حکومت کے بغیر ممکن نہیں کہ مسلمان متحد ہو جائیں، اسلامی سیاست اور اسلامی حکومت ہر ملک میں ممکن ہے جیسا کہ ایران میں اسلامی حکومت قائم ہے، دیگر ممالک کو بھی ایران سے سبق سیکھنا ہوگا اور اسلامی حکومت کا نفاذ عمل میں لانا ہوگا، اب ایران دیگر استعماری و طاغوتی ممالک کے مقابلے میں بظاہر کمزور و اکیلا ملک تو ہے لیکن اس کمزور ملک کے سامنے بھی امریکہ جھکنے کے لئے آمادہ ہوگیا اور جھک گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران میں ایک مقدس نظام حکومت قائم ہے، ایسا نظام حکومت جہاں تمام مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کی حفاظت کا بندوبست میسر ہوگیا، اب اس خالص اسلامی حکومت کے سامنے استعمار کو گھٹنے ٹیکنے ہی ہونگے۔

ایک بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ جب ایرانی انقلاب رونما ہوا تو دنیا بھر کے نوجوان اس انقلاب کی جانب راغب ہوگئے اور وہ خود بخود اس انقلاب کے شیدائی ہوگئے، اہل سنت کے نوجوانوں نے اس انقلاب کو اپنا آئیڈیل مانا اور اس انقلاب کو تسلیم کیا لیکن باطل قوتوں نے بعض نام نہاد مولویوں و مفتیوں کو ایسے استعمال کیا کہ انہوں نے کہنا شروع کیا کہ ایران میں شیعہ انقلاب رونما ہوا اور وہ اسلامی انقلاب نہیں ہے، اس طرح سے اس اسلامی انقلاب کو صرف شیعوں کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوشش کی گئی اور باطل نے اس انقلاب کو اہل تسنن تک پہنچنے سے روک دیا، میں نے بارہا کہا تھا کہ اگر ایران میں شیعہ انقلاب برپا ہوا تو اسے وہیں رہنے دو، چلو ہم اپنے اپنے ممالک، اپنے اپنے علاقوں اور ریاستوں میں سنی انقلاب برپا کریں، اور اگر ہم سنی انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے تو کیا وہ انقلاب اسلامی انقلاب کہلائے گا؟۔ وہ بھی تو صرف سنی انقلاب کہلائے گا، کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہمیں ایرانی اسلامی انقلاب کو صرف شیعوں کے ساتھ مخصوص نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اس انقلاب کو تمام مسلمانوں کے لئے باعث فخر و باعث سربلندی تسلیم کرنا ہوگا تب ہی ہم آگے بڑھ پائیں گے اور ہم امت واحدہ کے بطور پہچانے جائیں گے، ایرانی انقلاب تمام عالم اسلام کے لئے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایرانی اسلامی انقلاب کے ساتھ کیوں ایسی سازشیں ہوئیں، اس کی کیا وجہ ہے۔؟

مولانا نور احمد ترالی: عالم اسلام کے نام نہاد مفتی و حکمران حضرات اصلاً اسلام سے نابلد ہیں اور اسلامی ممالک کے بےباک و جید علماء کو ہرگز پنپنے نہیں دیا جا رہا ہے، عرب حکمرانوں نے ہمیشہ ایسے حربے آزمائے ہیں کہ ان علماء کو کچلا جائے اور ان کی حق پر مبنی آواز کو دبایا جائے، مصر و ترکی و بحرین میں ہم جو کچھ بھی دکھ رہے ہیں یہ اسکی تمثیل ہے، ہرگز آزاد پسند ذہنیت کو پروان چڑھنے نہیں دیا گیا، ایسے نام نہاد حکمرانوں کے ہاتھوں خود اسلام کو بھی خطرہ لاحق ہے، باطل کہ ہمیشہ کوشش ہے کہ آزاد فکر اشخاص کو دبایا جائے کچلا جائے، نام نہاد حکمران اور باطل قوتیں دونوں کی کوشش ہے کہ ایرانی انقلاب دیگر مملاک میں منتقل نہ ہونے پائے، نام نہاد حکمرانوں کی ہرحال میں کوشش یہ رہی ہے کہ شاہی نظام دنیا بھر میں قائم رہے وہ نہیں چاہیں گے کہ دنیا میں جمہوری و اسلامی نظام حکومت قائم ہوجائے، شاہی نظام میں ہی ان حکمرانوں کی بالادستی قائم رہ سکتی ہے اور وہ حکومت کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دنیا کی موجودہ سنگین صورتحال دیکھ کر کیا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان متحد ہوجائیں، اس حوالے سے عالمی سطح پر کوئی پیش رفت۔؟

مولانا نور احمد ترالی: اگر مسلمان متحد ہو جائیں اور امت واحدہ کے بطور متعارف ہو جائیں تو امریکہ، اسرائیل اور عرب بادشاہوں کی بالادستی ختم ہو جائے گی، عرب حکمران امریکہ کے ایجنٹ ہیں اور انکی ہاں میں ہاں ملائے ہوئے ہیں وہ نہیں چاہتے ہیں کہ دنیا میں اسلام پنپنے پائے اور پروان چڑھے، ایسی فکر کے مخصوص مفتیوں کو اپنے سے مسلمانوں کو الگ کرنے کی اشد ضرورت ہے، دنیا میں موجود طاغوتی جمہوریت میں بھی بادشاہت پنہاں ہے، طاغوت اور عرب حکمران اصلاً حقیقی جمہوریت کے مخالف ہیں اور اسلام کے کھلے دشمن ہیں، تمام مسائل، مصائب و آلام کا وحدت حل امت کا متحد ہونا ہے، میں اپنی محفلوں، مجلسوں اور تقاریر و تصانیف میں کہتا ہوں کہ اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، ہاں ہمارے درمیان اختلافات موجود ہیں لیکن وہ تاریخی واقعات کا اختلاف ہے، تاریخوں کے متضاد واقعات کو لے کر ہم کب تک دست بہ گریباں رہیں گے، 14 سو سال سے انہیں فروعی معاملات میں الجھنا باوقار قوموں کی نشانی ہرگز نہیں ہے، دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے اور ہم انہی واقعات میں الجھے ہوئے۔
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتار ابو بکر و علیؑ ہشیار باش۔

میں سمجھتا ہوں کی اس حوالے سے مثبت کوششیں ہو رہی ہیں اور عالم اسلام ایک انقلابی میدان میں کودنے کے لئے تیار ہے، انشاءاللہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی کوششیں بارآور ثابت ہونگی اور عنقریب دنیا بھر میں اسلام کا بول بالا ہوگا، یہی اللہ کا فیصلہ ہے کہ اسلام سربلند اور سرخرو ہوکر غالب آنے والا ہے لیکن اللہ ہمیں آزمانا چاہتا ہے اور ہم امتحان سے گذر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جموں و کشمیر میں تبدیلی و ترقی کے نام پر مسلمانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے اس حوالے سے آپ کی تشویش و تجزیہ کیا ہے۔؟

مولانا نور احمد ترالی: کشمیر میں سب سے اولین ضرورت یہ ہے کہ تمام آزادی پسند قیادت متحد ہو جائے جب تک یہ قیادت متحد و یکجا و ہم فکر نہیں ہوتے ہیں آزادی کشمیر بہت بعید ہے، پہلے اس قیادت کو اپنا نظریہ بدلنا ہوگا اور پھر ایک ساتھ بھارت استعمار کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے، حریت نواز قیادت کی موجودہ روش بھارت سے آزادی کا بہتر طریقہ ہرگز نہیں ہے، ہمارے آپسی تضاد سے تو ہماری غلامی میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، کشمیر کی آزادی کا مقصد اگر یہ ہے کہ دنیا بھر کے غلام آزاد مسلمانوں میں اضافہ ہو تو کوئی فرق نہیں پڑھنے والا اور کوئی تبدیلی رونما ہونے والی نہیں لیکن اگر آزادی برائے اسلام اور آزادی برائے حکومت اسلامی مقصود ہے تو خوش آئند ہے اور پھر جہاد کی بات کی جاسکتی ہے، اگر ہم بھارت سے آزاد ہونے کے بعد پاکستان سے جا ملتے ہیں تو وہاں کون سی اسلامی حکومت قائم ہے کون سا اسلام رائج و نافذ ہے، ہندوستان سے صرف آزادی مقصد نہیں بلکہ آزادی برائے اسلام، آزادی برائے اسلامی آئین، اسلامی حکومت، اسلامی سیاست اور اسلامی آئیڈیالوجی ضروری ہے۔

ہندوستان میں پرسنل لاء بورڈ موجود ہے، مسلمانوں کے لئے خاص قانون بنے ہوئے ہیں، یہاں تو ہم موجودہ پاکستان سے محفوظ محسوس کررہے ہیں، پاکستان میں اسلام دشمن عناصر کے ہاتھوں صرف شیعہ ہی نہیں سنہ بھی مارے جارہے ہیں، ایسے تکفیریوں سے مذاکرات کئے جارہے ہیں، قاتلوں اور خون خواروں سے مذاکرات نہیں کئے جاتے ہیں، مذاکرات مخلص افراد سے ہوتے ہیں، جنہیں اسلام کے تئیں وابستگی ہو، استعمار اور باطل کے ایجنٹوں سے مذاکرات کیسے اور بات چیت کیسی؟ باطل چاہتا ہے کہ  مسلمان آپسی انتشار و تضاد کے شکار ہوجائیں، شیعہ مرے یا سنی مرے اس سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے، پاکستان بھر میں تکفیریوں کو روکنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہاں کی حکومت مضبوط ہو تاکہ ایسے عناصر ملک میں پنپنے نہ پائیں اگر پاکستان بھر میں ایسے عناصر موجود ہیں اس میں پاکستانی حکمرانوں کی غلطی ہے کہ انہوں نے پہلے ایسے عناصر کو مکمل موقع فراہم کیا اور انکے لئے میدان کھلی چھوڑی، جہاں بندوق ہوگی وہاں سر کٹیں گے اور ہر دو طرف کے سر کٹیں گے، بندوق مسائل کا حل نہیں، اب ایسے عناصر کو کچلنا حکومت پاکستان کے لئے ضروری بن گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 374874
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش