2
Monday 6 Oct 2014 17:52

شام کیخلاف سازشوں کی تاریخ (2)

شام کیخلاف سازشوں کی تاریخ (2)
تحریر: عرفان علی 
  
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ شام کی ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ عبدالحمید سراج کو شاہ سعود بن عبدالعزیز کے ایجنٹوں نے مڈلینڈ بینک کا دس لاکھ پونڈ کا چیک دیا تھا، تاکہ وہ جمال عبدالناصر کے طیارے پر بم مارے۔ وہ خود جمال عبدالناصر کا خاص آدمی تھا اور اس نے یہ بات اسے بتا دی تھی۔ جب عراق میں ہاشمی خاندان کی بادشاہت والی حکومت کے شاہ اور ولی عہد کو قتل کر دیا گیا تو جمال عبدالناصر پر شک ظاہر کیا گیا تھا۔ وہ دونوں ترکی کے دورے پر روانہ ہونے والے تھے۔ ترکی کی حکومت بھی جمال عبدالناصر اور مصر و شام کے خلاف اتحاد میں شامل تصور کی جاتی تھی۔ سعودی و امریکی کردار کی یہ تفصیلات جمال عبدالناصر کی سیاسی زندگی کے اہم واقعات پر لکھی گئی نامور مصری صحافی و ادیب حسنین ھیکل کی کتاب "قاہرہ دستاویز" کے ساتھ ساتھ انور سادات کی خودنوشت سوانح حیات "شناخت کی تلاش میں" بھی درج ہیں۔ جمال عبدالناصر، حافظ الاسد وغیرہ ایسے افراد نہیں تھے کہ ان سے آل سعود کے بادشاہ اور شہزادے بالکل ہی ناراض رہے تھے۔ یہ امریکا کا ایجنڈا اور بادشاہتوں کے اندر کا خوف تھا کہ وہ ان کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ان کے ساتھ نہیں تھے۔ سعودی عرب بھی امریکا کی طرح اقتصادی امداد کے ذریعے ان ملکوں کی آزاد حیثیت اور پالیسی پر اثرانداز ہوتا رہا ہے۔ شام کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کے لئے پروپیگنڈا جنگ شدت کے ساتھ لڑی جاری ہے۔ لہٰذا شام پر لگنے والے الزامات کے جواب کے لئے شام کی تاریخ کا مختصراً حوال لکھنا ضروری ہے۔
 
آج کل شخصیات کا تعارف فرقہ، لسانی شناخت وغیرہ کے ساتھ کرایا جاتا ہے اور اس زاویہ سے گمراہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس کے جواب میں اسی زاویے سے حقائق کو سمجھا بھی جاسکتا ہے اور گمراہی سے بچا بھی جاسکتا ہے۔ جدید عرب سیاست یا قوم پرستی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بعث پارٹی کے بارے میں یاد رہے کہ حزبِ البعث العربی الشتراکیہ نامی جماعت کا قیام بعض مرحلوں میں انجام پایا۔ شام کے قوم پرست عرب اور مذہباً یونانی آرتھوڈکس عیسائی میشل عفلق (1910-1989) اور قوم پرست عرب لیکن مذہباً سنی مسلمان صلاح لدین البیطار (1912-80)کو 1946ء میں اس کے قیام کا اجازت نامہ ملا تھا۔ دونوں کا تعلق دمشق سے تھا۔ 1940ء میں اسٹڈی سرکل کا نام بعث رکھا گیا، بعث یعنی احیاء۔ شام دو طرح کی سیاست کا مرکز رہا ہے۔ ایک ’’شامیت‘‘ اور دوسری وہ جسے انگریزی میں پین عرب ازم (Pan-Arabism) کی اصطلاح سے شناخت کیا جاتا ہے۔ پین Pan یعنی جو سب پر مشتمل ہو۔ سارے اس میں شامل ہوں یا (کسی مخصوص گروہ، قومیت وغیرہ کا) اتحاد۔ یہ تاریخ جورجی زیدان (رحلت 1914ء) اور شریفِ مکہ کے خاندان سے شروع ہوتی ہے۔ 

جورجی زیدان موجودہ لبنان کے دارالحکومت بیروت کے یونانی آرتھوڈکس عیسائی خانوادہ میں پیدا ہوا تھا۔ شامی پروٹیسٹینٹ کالج میں داخلہ لیا اور ایک ہی سال میں خارج کر دیا گیا تھا۔ وہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں 30 سال عرب ادب کے لئے کام کرتا رہا۔ عربوں کی تاریخ پر 21 جلدوں پر مشتمل ناول، تاریخ و تمدنِ اسلامی کے عنوان سے 5 جلدوں پر مشتمل تاریخ سمیت تاریخ، زبان و ادب پر درجنوں کتابیں لکھیں۔ 1892ء میں الہلال نامی جریدے کی اشاعت کا آغاز کیا اور 22 سالوں تک زیدان اکیلے اسے شائع اور تقسیم کرتے رہے۔ مذکرات کے عنوان سے اپنی سوانحِ حیات لکھی۔ عرب احیاء و نہضہ میں ان کے جریدے کے تحت عربوں کو ایک فورم مل گیا تھا۔ 1876ء تا 1952ء دوسرا اہم عرب جریدہ المقتطف تھا جو عربوں پر اثر انداز رہا۔
 
مشرقِ وسطیٰ کے امور کے بعض ماہرین جدید پین عرب ازم کی تاریخ کا آغاز 1876ء تا 1878ء کے تقریباً تین سالہ دور قرار دیتے ہیں۔ اس دوران سلطنتِ عثمانیہ کے حکمران سلطان عبدالحمید نے تحریری دستور نافذ کیا تھا تو عربوں کو بھی اظہارِ آزادی کا حق ملا تھا۔ لیکن جب ینگ ترک نے 1908ء میں سلطان کے خلاف کامیاب بغاوت کی تو وہ بھی ترکوں کی نسلی برتری کے قائل تھے۔ لہٰذا عرب قوم پرستی پھر کمزور پڑ گئی۔ اس کے بعد حجاز کے گورنر جو شریفِ مکہ کے لقب سے مشہور ہیں، ان کے خاندان نے یہ تحریک جاری رکھی۔ چونکہ یہ مضمون شام کے بارے میں ہے لہٰذا اسے شام کے ساتھ ساتھ عرب دنیا کے دیگر ممالک کے پس منظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ بعض شخصیات کا تعلق موجودہ لبنان، سعودی عرب، اردن، مقبوضہ فلسطین، مصر، عراق اور دیگر ممالک سے ہے۔ 

شام میں ایک طرف عفلق اور البیطار تھے تو دوسری جانب قوم پرست عرب زکی ال ارسوزی (رحلت 1968ء) علوی مسلمان تھے۔ وہ فرانس سامراج کے خلاف فعالیت پر 1934ء میں نوکری سے برطرف کئے گئے تھے۔ ان کی تنظیم نیشنل ایکشن لیگ عربوں کے حقوق پر زور دیا کرتی تھی۔ 1938ء میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس کے بعد عرب ازم کی بنیاد رکھی اور کتابوں کی دکان کھولی، جس کا نام البعث العربی رکھا۔ مذکورہ شخصیات فرانس کی سوبورن یونیورسٹی (پیرس) کے تعلیم یافتہ اور شام کے تعلیمی اداروں پڑھاتے رہے تھے۔ جب اپریل 1947ء میں عفلق اور البیطار نے ہم فکر افراد کو ملاکر بعث پارٹی قائم کرنا چاہی تھی تو زکی ال ارسوزی کے فکری جانشین عرب قوم پرست واھب ال غنیم نے اپنے استاد کے برعکس اس میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ میشل عفلق اور البیطار کی زندگی کے حقائق منہ بولتا ثبوت ہیں کہ جب بھی عربوں کے مشترکہ دشمن غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف شام نے کوئی عملی قدم اٹھایا، یہ اس وقت شام کے ساتھ بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔
 
مثال کے طور پر اگست 1949ء میں کرنل سامی حلمی ال حناوی کی حکومت موجودہ وزیرِاعظم حسنی الزعیم (1890-1949) کی صدارت میں وزارت عظمٰی والی حکومت کو اقتدار سے ہٹاکر خود حکومت اپنے کنٹرول میں لے لی تھی، اس میں حماہ کا سنی فوجی افسر ادیب شش کلی زیادہ مضبوط اور موثر تھا۔ مارچ 1949ء میں حسنی زعیم نامی کرد فوجی افسر نے جب شام کی تاریخ میں پہلی فوجی بغاوت کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کیا تھا، تب حناوی اور شش کلی اس کے ساتھ تھے۔ برطرف کئے گئے صدر شکری قوتلی نسلاً ترک تھے۔ حسنی زعیم کو بعد میں سزائے موت دی گئی تھی اور بظاہر سبب دو تھے، عرب اسرائیل جنگ میں شکست کے بعد اور عیسائی عرب، لیکن شام پرست رہنما انطون سعادۃ) (1902-1949 فرانس کے دباؤ پر لبنان کے حوالے کرنا۔ انطون موجودہ لبنان کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا، لیکن وہ لبنان کو شام کا ایک حصہ قرار دیتا تھا۔ پین عرب ازم کے برخلاف شام کی ’’شامیت‘‘ ابھارنے والی ایک اہم قوم پرست جماعت سیریئن نیشنلسٹ پارٹی کی بنیاد اس نے رکھی تھی۔ اس کا نام نیشنل پارٹی اور اس کے بعد سیریئن سوشل نیشنلسٹ پارٹی رکھا گیا تھا۔ 

میشل عفلق جو حناوی کی حکومت مختصر مدت کے لئے غیر منتخب وزیر تعلیم رہ چکا تھا، ادیب شش کلی کی حکومت میں گرفتاری سے بچنے کے لئے فرار کر گیا۔ 1953ء میں اکرم حورانی کی عرب سوشلسٹ پارٹی کے ساتھ اپنے گروہ کا ادغام کرکے نئی جماعت عرب بعث سوشلسٹ پارٹی بنائی۔ اس نئی جماعت کی سربراہی اور نظریاتی قیادت بھی اسی کے حصے میں آئی۔ مارچ 1963ء میں جب بعث پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو حکمران جماعت دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہوگئی۔ سویلین اور ملٹری ونگ میں فرق یہ تھا کہ پہلا گروہ خارجہ امور کو نظر انداز کرکے محض داخلی امور پر توجہ دیا کرتا تھا۔ شام کو سب سے زیادہ خطرہ صہیونی غاصب و ناجائز ریاست اسرائیل اور اس کے سرپرست و حامی ممالک اور ان کے ایجنٹوں سے تھا۔ 
(جاری ہے)۔۔۔
خبر کا کوڈ : 413177
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش