25
0
Monday 5 May 2014 23:03

تنظیم یا سامری کے بچھڑے؟

تنظیم یا سامری کے بچھڑے؟
تحریر: عرفان علی 

مملکت خداداد پاکستان میں (ج ع و) جعو اسٹوڈیو نے ایک نیا ڈرامہ پیش کیا ہے۔ ’’سامری کے بچھڑے نامی‘‘ اس ڈرامے میں ’’تنظیم‘‘ نامی ولن کو اس طرح پیش کیا گیا ہے جیسے وہ انڈر ورلڈ کا ڈان ہو اور تحریک اور نہضت جیسی شریف رضیہ باجیاں تنظیم اور اسکی لے پالک حزب جیسے غنڈوں میں پھنسی ہوئی ہیں۔ اسکرپٹ میں دم خم نہیں ہے، اس لئے باکس آفس پر تو ہٹ ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ البتہ تصویری کے بجائے تحریری پرومو ’’تنظیم کی حیثیت پر ایک نگاہ‘‘ کے عنوان سے تین قسطوں میں سامنے آچکا ہے، گو کہ ہم شوبز کے صحافی تو نہیں، لیکن سامری کا بچھڑا سیاسی ڈرامہ ہے، اس لئے اس پر تبصرہ لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ کہاں سے شروع کروں؟ قرآن سے، اہلبیت علیہم السلام سے یا امام خمینی (رہ) سے۔ کیا قرآن میں موجود سورہ آل عمران کی آیت 104 کی بات کروں، جو یہ تقاضا کرتی ہے کہ تم میں ایک امت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے۔ تم خود امت نہیں جو اس میں ایک اور امت کی بات ہو رہی ہے۔ یہ لفظ آیت میں امت ہے اس کے اردو اور انگریزی ترجمے میں کسی نے بھی اسے امت نہیں لکھا۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی، علامہ صفدر حسین نجفی، فرمان علی صاحب اور علامہ شیخ محسن علی نجفی کے ترجمے پڑھئے۔ سنی بریلوی مولانا احمد رضا خان ہوں یا دیوبندی مولانا اشرف علی تھانوی و شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی، فتح محمد خان جالندھری ہوں یا شاہ رفیع الدین محدث دہلوی، سب نے اس لفظ امت کا ترجمہ جماعت یا گروہ لکھا۔

انصاریان پبلیکیشنز کے شائع شدہ قرآن کے انگریزی ترجمے میں محمد حمید شاکر نے امت لفظ کا انگریزی ترجمہ پارٹی لکھا۔ دیوبندی ادارے کی شائع کردہ قاموس القرآن میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے استاذ تفسیر قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی نے لفظ امت کا ترجمہ جماعت لکھا۔ ہر اس جماعت کو امت کہتے ہیں جس میں کوئی مذہب یا وطن یا زمانہ مشترک ہو، گویا یہ مشترک چیز بمنزلہ ماں کے ہے اور جماعت بمنزلہ اولاد کے، کیونکہ لفظ امت ام سے نکلا ہے، جس کے معانی ہیں ماں۔ ایران کے استاد محی الدین مہدی الٰہی قمشہ ای اس آیت میں امت کے بارے میں کہتے ہیں و باید از شما مسلمان برخی کہ دانا و باتقویٰ ترند۔۔۔۔۔ یعنی سارے مسلمان نہیں بلکہ دانا تر و باتقویٰ تر مسلمان کو امت سمجھا جائے گا۔ شیعہ طلباء کے لئے ادارہ التنزیل پاکستان نے ترجمہ و مفاہیم قرآن تعلیمی نصاب جلد اول کے فہرست الفاظ و معانی میں امت کا ترجمہ گروہ لکھا ہے۔

پرومو کی تین قسطیں لکھنے والے محترم جناب حسن عسکری صاحب نے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدک کا ایک عربی جملہ لکھا ہے۔ طاعتنا نظاما للملۃ و امامتنا امانا من الفرق، اس میں عربی لفظ ملت آیا ہے، لیکن موصوف نے ترجمہ امت کر دیا ہے۔ امامت کو تفرقے سے امان کہا ہے، لیکن موصوف نے تنظیم بھائی اور حزب سے امان سمجھ لیا ہے۔ امام رضا کی حدیث نقل کی کہ امامت انبیاء کا مقام ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء کی امت کو ملت، قوم، اہل، الناس، حزب، شیعہ، جیسے الفاظ سے یاد نہیں کیا گیا؟؟ امام جعفر صادق (ع) کی حدیث نقل کی گئی کہ ہمارے شیعوں کے علماء ان کی ہر قسم کی سرحدوں کے محافظ و مرابط ہیں۔

انہی علماء میں سے ایک کا نام امام خمینی ہے۔ موصوف نے چونکہ آیت اللہ جوادی آملی کا بھی حوالہ دیا ہے، اسی لئے انہی کے الفاظ پڑھئے، وہ فرماتے ہیں: امام خمینی کے سیاسی، ثقافتی اور عسکری مبارزات کے بارے میں عمیق تجزیہ و تحلیل اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ آپ نے آغاز سے انجام تک اپنے مولا حضرت امام حسین (ع) کی پیروی کی ہے۔ یہ بات مشہد مقدس میں 20 ذی الحجہ 1409 ھجری قمری میں کی گئی۔ (قرآن کا پیغام، آیت اللہ جوادی آملی ترجمہ سید ریاض صفوی)۔ امام خمینی نے ایران کے قانون اساسی کو ثمرہ عظیم قرار دیا تھا۔ قانون اساسی فارسی زبان میں ہے اور انگریزی ترجمہ بھی موجود ہے۔ فارسی متن میں اس ایرانی آئین کی فصل سوم کا عنوان حقوق ملت ہے۔ اس کے تحت آرٹیکل 26 (اصل بیست و ششم) غور سے پڑھئے۔ جمعیت ھا، انجمن ھای سیاسی و صنفی، و انجمن ھای اسلامی یا اقلیت ھای دینی شناختہ شدہ، انگریزی ترجمے میں انہیں پارٹی، سوسائٹی، سیاسی یا پیشہ وارانہ سوسائٹی، یا مذہبی سوسائٹی کہا گیا۔ بہت سارے افراد کی یکجائی ہی کو جمعیت، انجمن، حزب، دستہ، مجمع یا مجموعہ کہا جاتا ہے۔

یہاں ایک اور بات بھی بیان کر دوں کہ پاکستان کے آرٹیکل 17 اور ایرانی آئین کے آرٹیکل 26 میں مماثلت ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پارٹی، گروہ یا جماعت بنانا کسی بھی ملک کے عوام کے بنیادی حقوق میں شامل ہوتے ہیں۔ اب اس حقیقت کا کیا کہئے کہ جمعیت اور حزب بھی عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ حرکت، تحرک، تحریک اور نہضت بھی عربی الفاظ ہیں لیکن تحریک اور نہضت قرآن شریف میں نہیں پائے جاتے۔ امت کا ترجمہ جماعت اور حزب کا ترجمہ گروہ یا پارٹی کیا جاتا ہے۔ جس قانون اساسی کے تحت امام خمینی ایران کے قانونی ہیڈ آف اسٹیٹ یعنی ریاست ایران کے سربراہ بنے، اس کی تدوین کے بارے میں لکھا ہے کہ قانون اساسی جمہوری ایران، میراث ارزشمند امام خمینی قدس سرہ، و شخصیت ھای بزرگی مانند مرحوم آیت اللہ طالقانی قدس سرہ، و شہید بزرگوار آیت اللہ دکتر سید محمد حسینی بہشتی رحمت اللہ علیہ است۔ مجلس خبرگان کے سربراہ آیت اللہ منتظری تھے اور میرے آئیڈیل انسان بہشتی نائب سربراہ، لیکن منتظری صاحب نے کہا از آقای دکتر بھشتی تقاضا کرتا ہوں کہ آج مجلس کا انتظام خود سنبھالیں۔

اب آیئے اور پڑھیں رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای کے مشیر اعلٰی علی اکبر ولایتی کی کتاب اسلامی تہذیب و ثقافت کا دسواں باب اسلامی بیداری۔ اس میں لکھا ہے کہ ایران میں نہضت آزادی ایک مذہبی و سیاسی تنظیم تھی، جو 1340 ھجری شمسی میں آیت اللہ طالقانی، مہدی بازرگان و دیگر قوم پرست مذہبی لوگوں کی کوششوں سے وجود میں آئی۔ محمد علی رجائی بھی اس کے رکن تھے۔ آیت اللہ بہشتی، آیت اللہ مطہری اور آیت اللہ جواد باہنر ان قائدین کے دوست تھے۔ اس نہضت آزادی نامی تنظیم کے بانیان میں سے ایک مہدی بازرگان کو امام خمینی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد ایران کا وزیراعظم (موقت) مقرر کیا۔ میرے آئیڈیل شہید بہشتی کی خود نوشت مختصر سوانح بھی موجود ہے۔ سازمان تبلیغات اسلامی نے ان کے پانچ لیکچرز کے انگریزی ترجمے کو ایک کتابی شکل میں مرتب کیا ہے۔ اس میں یہ موجود ہے۔ شہید قم میں گئے تو پہلے طلباء اور پھر علماء کی تنظیم بنائی۔ وہ ہمبرگ جرمنی گئے تو وہاں تنظیم قائم کی اور امریکہ اور یورپ میں طلباء کے درمیان مضبوط رابطہ قائم کیا۔ ایران میں حزب جمہوری اسلامی قائم کی۔ حتٰی کہ ان کی شہادت بھی اسی جماعت کے ہیڈکوارٹر میں ہوئی اور یہ ہفتم تیر کے 72 شہداء جنہیں ایرانی کربلا کے شہداء قرار دیا گیا، یہ سب حزب جمہوری اسلامی نامی پارٹی کے اجلاس میں شریک تھے۔ امام خمینی نے اس شہید بہشتی کو امت قرار دیا۔

تنظیم کی حیثیت کیا ہے، یقیناً سمجھ میں آگیا ہوگا۔ اولیائے خدا کی سیرت بھی سمجھ میں آگئی ہوگی۔ نہیں آئی تو سنیں: آیت اللہ نوراللہ اصفہانی نے بنائی اتحاد اسلامی اصفہان نامی تنظیم۔ امام خامنہ ای کے آئیڈیل شہید نواب صفوی نے بنائی فدائیان اسلام نام کی تنظیم، اس دور میں ایک اور تنظیم تھی جس کا نام تھا مجمع مسلمانان مجاہد۔ ان دونوں تنظیموں سے آیت اللہ کاشانی نے مدد لی تھی۔ حزب ملل اسلامی، موتلفہ اسلامی، توحیدی صف، فلق، فلاح، منصورین، موحدین، یہ سب تھے گروہ یعنی حزب۔ (ڈاکٹر ولایتی کی کتاب پڑھیں)۔ امام خمینی نے 1360 شمسی ہجری کو حاکمیت قانون کا سال قرار دیا تھا، اس وقت کہا تھا کہ ’’قانون اساسی جمہوری اسلامی ایران است کہ وسیلہ نمائندگان محترم ملت ایران کہ اکثریت آنان از علماء اعلام و حجج اسلام و مطلعین بر احکام اسلام بودند، تھیہ و تصویب اکثریت ملت معظم رسید، امید است انشاء اللہ تعالٰی با عمل بہ آن، آرمان ھای اسلامی بر آوردہ شود و تا ظہور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا لہ الفدا) باقی و مورد عمل باشد۔‘‘

اسی ایرانی آئین کے ذریعے آرمان ہائے اسلام کا حصول ہوگا اور ان پر عمل ہوگا۔ جب یہ آئین جسے امام خامنہ ای ستون و بنیاد قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بنیاد و ستون کی مضبوطی سے ہی اک بزرگ و رفیع عمارت کی تعمیر ممکن ہوتی ہے۔ امام خمینی نے کہا تھا کہ قانون اساسی، اساس مملکت و در راس ہمہ چیز است و بہ جز آن ھیچ چیز دیگر نباید در این مملکت حکم کند۔ ہمہ افراد ہر کشوری باید خودشان را با آن تطبیق بدہند۔ جب اس ایرانی آئین میں ایک چیز کی اجازت ہے اور اسے حقوق ملت کے زمرے میں رکھا گیا ہے تو خود فیصلہ کرلیں کہ سامری کے بچھڑوں کو کس باڑے میں پالا جا رہا ہے؟ بقول علامہ اقبال
ہے کس کی یہ جرات کہ مسلمان کو ٹوکے
حریت افکار کی نعمت ہے خداداد
قرآن کو بازیچہ تاویل بنا کر
چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد!

(نوٹ: امت، ملت، قوم، ان سب پر شہید بہشتی نے بہت کچھ کہا ہے۔ اسکے علاوہ بھی اس موضوع پر میرے پاس بہت کچھ ہے لکھنے کے لیے۔ اگر قارئین چاہیں گے تو ضرور لکھوں گا ورنہ اسی پر اکتفا)۔
خبر کا کوڈ : 379473
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Salam. Please farsi jumlo ka urdu tarjuma yahan likh daen.
Pakistan
سلام عرفان بھائی
بہت اعلٰی ماشاء اللہ
اللہ زور قلم دے،،
ہم آپ سے یہی توقع کرتے ہیں، اس پر ایک اور آرٹیکل آنا چاہیے۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ
Pakistan
ماشاءاللہ، بہت عمدہ تحریر ہے، اس سلسلے کو جاری رکھیں۔
Pakistan
قرآن میں امت کے علاوہ حزب کا جو لفظ ہے ان کا بھی حوالہ دیا جائے۔ اس کے علاوہ یہ بھی قرآن میں ہے کہ اے ایمان والوں اللہ کے لیے قیام کرو ایک، ایک، دو دو دو۔،۔۔۔۔ مثنی و فرادا کا لفظ ہے۔
امام علی اپنی زندگی میں ہی الگ گروہ بنا کے کیوں بیٹھے، امت کو کہیں اور جمع تھی، امام کو شیعہ بنانے کی کیا ضرورت تھی، یہی امام حسن، امام حسین سے امام مہدی تک ہے، جہاں شیعہ ایک گروہ، ایک حزب یا ایک پارٹی کے طور پر متعارف تھا نہ کہ امت ۔۔۔۔
Pakistan
Salam. Dil khol kar raay ka izhar karain. mujhay tau acha laga. kisi ko bura lagay tau wo bhi likhay takeh ummat e islam e naab ko aik doosray kay khayalat se agahi ho. wassalam.
United States
قرآن کو بازیچہ تاویل بنا کر
چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد!
ماشاءاللہ بہت خوبصورت انداز ہے، لیکن تعصب کی سرزمین بہت بنجر ہوتی ہے، خدا خیر کرے،
شکریہ بھائی،
سعیدی
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ضرور تحریر کریں۔
ہمیں انتظار رہے گا۔
عرفان بھائی اتنا غصہ اچھا نہیں ہوتا۔ ہر کسی کو اپنی رائے، افکار و عقاید کے اظہار کا حق حاصل ہے، ہوسکتا ہے کسی کو اختلاف ہو، اور کسی کو اتفاق ہو، دین اسلام میں بہت سے امور ایسے ہیں جو اختلافی ہیں، تو کیا ان سب پر بھی سخت موقف اپنایا جائے۔ اچھے اور مدلل انداز میں جواب دینا چاہیئے۔ البتہ ہم اسلام ٹائمز کے شکرگزار ہیں کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سب کی رائے کو اہمیت دیتا ہے اور ہمیں بھی مختلف الخیال عزیزان کے خیالات کو اسلامی عقاید کی روشنی میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔
اللہ آپکی توفیقات میں اضافہ فرمائے، بہت بر وقت اور کافی و شافی تحریر ہے، اگر کوئی سمجھنا چاہے ۔۔۔ اس لئے کہ آج کل نئی فلسفیانہ موشگافیوں اور اصطلاحات کے ذریعے لوگوں کے افکار کو پراکندہ کرنے کی سعی نا مشکور کی جا رہی ہے، ایسے میں آپکی تحریر انشاءاللہ خضر راہ کا کام کرے گی۔ انشاء اللہ
masha allaha
Iran, Islamic Republic of
ماشاءاللہ عرفان بھائی
بہت اچھی تحریر ہے، اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ حسن قم
سلام
سارے دوستوں کا شکریہ۔
جس بھائی کو میری بات میں غصہ نظر آیا، اس بھائی کی خدمت میں عرض کہ حسن عسکری صاحب کی تین قسطوں پر میری رائے لکھی ہے پڑھ لیں۔ آپ اچھے اور بہت مدلل انداز کی تشریح خود لکھیں، میں اس پر عمل کروں گا۔ میں آپ کی اس بات کا سو فیصد قائل ہوں اور دوست جانتے ہیں کہ ہم نے اس طرز فکر کی بنیاد رکھی ہے کہ سنی سنائی پہ نہیں ذاتی تحقیق پر بات کی جائے۔ یقین نہ آئے تو منتظر سحر میگزین کے شمارے از سال ۲۰۰۳ تا ۲۰۰۹ میں مستقل اور اس کے بعد کبھی کبھی جو میں نے حالات حاضرہ پر لکھا وہ پڑھیں۔ وہاں میرے ان گنت قلمی نام تھے۔ سلمان محمدی، مالک اشتر، ضیغم عباس حیدری، عبدالقہار مومن، ارشاد حسین، ذوالفقار حیدر اور نہ جانے کیا کیا۔ میں تھا جس نے ارشاد حقانی سمیت ہر ضد ولایت فقیہ فکر کی سرکوبی میں اپنا کردار ادا کیا۔ خدا کا شکر کہ این سعادت بزور بازو نیست، تانہ بخشد خدائے بخشندہ۔
التماس دعا
ماشاءاللہ عرفان بھائی
سلام دل کھول کے اظہار رائے کریں، آغا جان
آپ کا بھائی لولی
سلام
یار حسن یہ تم ہو یا کوئی اور حسن ہے؟؟ میرے بچے اپنے حسن انکل کو اب بھی یاد کرتے ہیں۔ جلدی بتائو تاکہ اب جب آئیں تو ملاقات ہوسکے۔ عرفان
سلام علیکم
برادر عرفان کی اچھی کوشش ھے، علمی میدان میں دلائل سے بات کرنے میں علمی غصہ کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ دوسرے کا احترام اور علمی مقام و مرتبہ ملحوظ خاطر رھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ اپنی غیر علمی بات کو ہر قیمت ہر علمی بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور بضد ہوتے ہیں!
احقر صادق رضا تقوی
mashallah
boht zabardast article ha Irfan Bhai
zabar dast
Allah Tofeeqat me izafa farmay
salam, keep it up. very nice. thanx
wslam
حجت الاسلام مولانا صادق رضا بھائی و دیگر علماء کی تائید کا شکریہ۔ میں عرض کردوں کہ میرِے لہجے کا طنز اس لئے ہے کہ ولی فقیہ، مراجعین تقلید، حزب اللہی قائدین سب الیکشنی سیاست میں شریک ہونے کی تائید کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں کہا گیا کہ ووٹ ڈالنے پر شرک عظیم ہوا، توبہ کی جائے، آیت اللہ سیستانی، حسن نصراللہ سب کو بتا دیا جائے کہ اب انہیں بھی نماز توبہ پڑھنی پڑے گی کیونکہ عراق، لبنان، پاکستان کی الیکشنی سیاست الہی نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کا سیاسی نظام الہی ہے۔ کیا اس گستاخی پر بھی دکھ نہیں ہوگا۔
United Arab Emirates
zaroor likhein mazeed
bohot zarurat hai
Pakistan
Salam. Mera Latest article Islam Times .
.pe aa chuka yahan parhaen
https://www.islamtimes.org/vdcaewnem49nau1.zlk4.html
علامہ اقبال کون، نہضتی یا تنظیمی؟
مغربی طرز کی تنظیم وه ہے کہ جو حکومت و اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں ہوتی ہے، یعنی کچھ لوگ یا گروہ مل کر مختلف مالی و دیگر وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے سیاسی کشمکش اور جوڑ توڑ کرتے ہیں، تاکہ اقتدار تک رسائی حاصل کرسکیں۔ دوسرے ممالک میں اس قسم تنظیمیں ہیں۔ ایران میں بھی ہیں اور نظام نے ان پر پابندی بھی نہیں لگائی ہوئی، لیکن میں اس قسم کی حزب کا قائل نہیں ہوں۔ اس قسم کی تنظیم سازی اور پارٹی بازی اقتدار کی دوڑ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں ہے۔ خطاب رہبر ِمعظم در باره وحدت و تحزب۔
تنظیم مبارک ہو، انقلابی و غیر انقلابی، ایرانی و پاکستانی بزرگوں جوانوں کو جو رہبر کی مخالفت کے باوجود اس کی تقدیس کرتے ہیں۔
دعوت فکر؛
ہماری کونسی مقدس تنظیمیں ہیں جو اقتدار کے لیے پارلیمنٹ یا سینٹ میں اپنے نمائندے نہیں بهیجنا چاہتیں۔؟
اے میرے عزیز دوست
اگر قرآن و حدیث سے اس امام کی باتیں پیش کر دی جائیں جو آئمہ ظلم و جور ہیں تو کیا اس سے کوئی حتمی مطلب لیا جائے گا۔ تحزب کا مطلب کچھ اور ہے یعنی پارٹی پازی، شیعہ اسلامی تنظیمیں الحمداللہ اس زمرے میں نہیں آتیں۔ ممکن ہے کہ یہ بات امام نے ان اصلاح پسندوں کے بارے میں کی ہو جنہوں نے عملی طور پر اسلام کے لیے کچھ نہیں کیا اور مغربی نعرے لگائے۔ اس سے اسلامی تنظیمیں مراد نہیں۔ اس خطاب کا متن کہاں ہے؟ لنک بھیجیں، تاکہ معلوم ہو کہ آپ کا یہ دعویٰ درست ہے یا غلط۔
رضا
مقام معظم رہبری:
ہم تنظیم کے کلی طور پر مخالف نہیں ہیں۔ اگر کوئی خیال کرے کہ ہم سرے سے تنطیم کے مخالف ہیں، نہیں ایسے نہیں ہے بلکہ تنظیم دو قسم کی ہوسکتی ہے۔ ایک وہ ہے جو فکری، دینی، تربیتی، عقیدتی کام کرنا چاہتی ہے، حکومت و اقتدار کے حصول سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ صرف امت کے اندر عقیدتی اور سیاسی معرفت اور بصیرت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت و قیادت سے ان کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اس قسم کی تنظیم ہو تو کوئی اشکال نہیں۔ دوسری قسم مغرب کی تقلید میں تنظیم کا وجود ہے کہ جو حکومت و اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں ہوتی ہے، یعنی کچھ لوگ یا گروہ مل کر مختلف مالی و دیگر وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے سیاسی کشمکش اور جوڑ توڑ کرتے ہیں، تاکہ اقتدار تک رسائی حاصل کرسکیں۔ دوسرے ممالک میں اس قسم کی تنظیمیں ہیں۔ ایران میں بھی ہیں اور نظام نے ان پر پابندی بھی نہیں لگائی ہوئی، لیکن میں اس قسم کی حزب کا قائل نہیں ہوں۔ اس قسم کی تنظیم سازی اور پارٹی بازی اقتدار کی دوڑ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اسکے جواز کی کوئی صورت نہیں ہے۔ (سخترانی رہبرِ معظم دربارہ وحدت و تحزب۔)
مقام معظم رہبری: شهيد باقر الصدر (رہ):
شهيد باقر الصدر نے جب "حزب الدعوۃ" تشکیل دی تو اسکے پانچ سال گزرنے کے بعد تنظیمی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوگئے، چونکہ مرجعِ وقت مرحوم آیۃ اللہ محسن الحکیم ؒ نے ان کو فرمایا کہ آپ کی علمی و اجتماعی شخصیت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ آپ کسی حزب کا حصہ بن جائیں۔ (قواعد کلی استنباط۔ باب مشی سیاسی شہید باقر الصدر۔) انہی دنوں میں سیدالشہید ؒ کا مشہور فتویٰ صادر ہوا کہ جس میں انہوں نے حوزہ علمیہ کے تمام علماء و طلاب کے لیے کسی تنظیم میں فعالیت کو ممنوع قرار دیا۔ اسکے بعد شہید نے حزب الدعوۃ کی فقط راہنمائی کی اور اس نظر تک پہنچے کہ احزاب کو علماء و فقہاء کا دست و بازو ہونا چاہیئے نہ کہ علماء خود حزبوں کا حصہ بن جائیں۔ لہذا اسلامی تحریکوں کی رہبریت علماء و مراجع کے ہاتھ میں سزاوار ہے نہ کہ تنظیموں اور پارٹیوں کی عضویت۔ (الخطوط العامۃ للمرجعیۃ الصالحۃ، حسین علی عبادی، ص 55۔)
Pakistan
hahaha.
بھائی یہ مرجعیت پر فائز آدمی کے لیے ہے، کیونکہ وہ نائب امام ہے، وہ کسی ایک جماعت یا حزب سے کیسے وابستہ ہوسکتا ہے۔ باقر الصدر کی مرجعیت کی وجہ سے یہ بات ہوئی اور تب بھی کہا کہ رہنمائی کریں، سامری کے بچھڑے کو حضرت موسٰی علیہ السلام نے توڑ دیا تھا یا اس کی رہنمائی کی تھی، یہاں سے تو کم از کم درست نتیجہ اخذ کرلیں۔
ہماری پیشکش