0
Friday 11 Apr 2014 16:30

گلگت بلتستان کے عوام روایتی سیاستدانوں سے تنگ آچکے ہیں اور تبدیلی کے خواہاں ہیں، الیاس صدیقی

گلگت بلتستان کے عوام روایتی سیاستدانوں سے تنگ آچکے ہیں اور تبدیلی کے خواہاں ہیں، الیاس صدیقی
محمد الیاس صدیقی کا تعلق گلگت شہر کے وسطی علاقے سجادیہ محلہ سے ہے۔ آپ زمانہ طالب علمی میں آئی ایس او کے فعال رکن رہے اور ڈویژنل عہدوں پر فائز رہے۔ سیاسی زندگی کا آغاز بلدیہ گلگت کے ممبر کے طور پر منتخب ہو کر کیا اور چیئرمین بلدیہ گلگت بھی منتخب ہوئے۔ دو سال تک آل پاکستان مسلم لیگ (مشرف لیگ)میں فعالیت کا مظاہرہ کرتے رہے اور حال ہی میں مجلس وحدت مسلمین میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے گلگت بلتستان کی سیاسی و مجموعی صورتحال پر ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے ۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں آنے والے انتخابات میں حکومت کس کی ہوگی؟

محمد الیاس صدیقی: موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھا جائے تو عوام پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں سے عاجز آ چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) وفاق میں تیسری بار برسر اقتدار آئی مگر انہوں نے گلگت بلتستان کے حوالے سے قابل ذکر کوئی کام نہیں کیا جبکہ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے دو مرتبہ وفاق میں حکومت کی اور اب یہ پانچ سالہ دور گلگت بلتستان کی حکومت، اس میں بھی ان کی کارکردگی صفر رہی۔ ہر ایک کی زبان زد عام ہے کہ کرپشن کی باتیں ہیں۔ اب پی پی پی کریڈٹ لینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے کہ ہم نے ملازمتیں دی ہیں جبکہ جتنی بھی ملازمتیں دی ہیں وہ سب رشوت کے بل بوتے پر دی گئی ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی ان کی کارکردگی صفر ہے پانچ سالوں میں اب تک کوئی ایک نئی اینٹ لگتے ہوئے نہیں دیکھا ہے جبکہ دوسری طرف امن و امان کے حوالے سے کوئی بھی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ جی بی میں اگلی حکومت ان دو پارٹیوں کے علاوہ دیگر جماعتیں مل کر تشکیل دینگے۔

اسلام ٹائمز: کیا گلگت بلتستان کو کشمیر کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے؟
محمد الیاس صدیقی: گلگت بلتستان کو کشمیر کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کرنے والے اگر علاقہ سے مخلص ہیں، تو اسٹیٹ سبجیکٹ رول کے خاتمہ کے دوران یہ لوگ کہاں تھے۔ اس رول کے خاتمہ کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ گلگت بلتستان باضابطہ پاکستان کا حصہ ہے اور قیام پاکستان سے لیکر اب تک بدنیتی کے طور پر اس کو بےآئین رکھا گیا ہے جو کہ انسانی حقوق کی سر عام خلاف ورزی ہے اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے تنظیموں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ 28 ہزار مربع میل پر بسنے والے 20 لاکھ سے زائد افراد بےآئین زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر بھی پرویز مشرف کے دور میں جہاں اس علاقہ میں ترقیاتی عمل ہوا، وہاں ان لوگوں کو سیاسی عمل میں بھی متحرک کرتے ہوئے GB کونسل کو اسمبلی کا درجہ دیا اور وہ اختیارات جو کانا ڈویژن چلاتی تھی اس کو گلگت بلتستان منتقل کردیا گیا۔ اس کے فورا بعد پی پی پی کی حکومت آئی انہوں نے بڑی اور انتہائی ہوشیاری کے ساتھ گلگت بلتستان کونسل کے نام کا ادارہ بنایا۔ وہ اختیارات جو منتقل ہوئے تھے کونسل کی آڑ میں وفاق کو واپس کرنے کی سازش کی اور آج گلگت بلتستان کے عوام اہم شعبے توانائی، منرل میں کوئی ترقی نظر نہیں آ رہی جبکہ قدرت نے گلگت بلتستان کو پانی ااور معدنیات سے مالا مال کیا ہے اور یہاں کے لوگ اس سے کوئی ہنوز فائدہ لینے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آنے والے انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ممکن ہے؟
محمد الیاس صدیقی: کسی بھی سیاسی جماعت سے سیاسی اتحاد کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں سب سے زیادہ نقصان ملت تشیع کو ہوا ہے جس میں لوگوں کو شناخت کر کے بسوں سے اتار کر بےدردی سے شہید کیا گیا شیعوں کا قتل عام ہوا مگر صوبائی حکومت سے کوئی شنوائی نہیں ہوئی اس تناظر میں ہمارے اکابرین کو چاہیئے کہ وہ ملی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کریں۔

اسلام ٹائمز: قراقرم یونیورسٹی ایک عظیم ادارہ ہے مگر وائس چانسلر کے حوالے سے آپ کا کیا موقف ہے؟
محمد الیاس صدیقی: قراقرم یونیورسٹی سابق صدر پاکستان پرویز مشرف کا گلگت بلتستان کے لئے ایک عظیم تحفہ ہے۔ اس ادارے سے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے غریب لوگوں کی بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن اس جامعہ میں ایسے لوگوں کو مسلط کر دیا گیا جنہوں نے یونیورسٹی کے خدوخال کو تباہ کر دیا اور ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت یونیورسٹی میں این جی اوز ذہنیت کے لوگ مسلط کر دیئے اور وہ تعلیم سے زیادہ ایسی سرگرمیاں کر رہے ہیں جس سے اس علاقے کی ثقافت کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں اور یونیورسٹی کا ماحول مغربی طرز پر جا رہا ہے۔ جس سے علاقہ میں تشویش پیدا ہو رہی ہے اور کئی گھرانے اپنے بچوں کو محض اس ماحول کی وجہ سے جدید تعلیم دینے سے قاصر ہیں۔ جبکہ موجودہ وائس چانسلر جو کہ علاقہ میں ایک متنازعہ شخصیت بن چکی ہے۔ جو کہ چند مخصوص اور خاص سیاسی پارٹیوں کے گود میں بیٹھی ہوئی ہے۔ محض اپنی مدت کو توسیع دینے کیلئے، انہوں نے نااہل لوگوں کو ملازمتیں فراہم کی ہیں۔ جن کی استطاعت سکول میں پڑھانے کی نہیں اگر یہی صورت حال جاری رہی تو بھاری فیس دینے کے باوجود یونیورسٹی سے خام مال کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔  وفاقی حکومت اور صدر پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس عظیم درسگاہ کو بچانے کے لئے فوری اقدامات کرتے ہوئے موجودہ وائس چانسلر کی جگہ کسی ایسی شخصیت کا تقرر کریں جو کماحقہ یونیورسٹی کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اسلام ٹائمز: اسلام ٹائمز کے وساطت سے عوام کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔
محمد الیاس صدیقی:مملکت خداداد پاکستان کے خلاف سازشی عناصر مختلف لبادوں میں سرگرم عمل ہیں، کہیں پر اسلام کا لبادہ اوڑھا ہے، تو کہیں قوم پرستی کا۔ یہ مملکت خدا کی طرف سے دی ہوئی ایک نعمت ہے۔ اس کو بچانے کیلئے ہم سب اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ ملک میں جاری فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد ہو کر اتحاد سے دشمنوں کو شکست دیں۔
خبر کا کوڈ : 371877
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش