0
Tuesday 21 Jan 2014 21:31

تذکرہ قوم رسول ہاشمی (ص)

تذکرہ قوم رسول ہاشمی (ص)
ترتیب و تزئین: جاوید عباس رضوی

اسلام اس زمانے میں نازل ہوا جب سارا جہاں گمراہی اور ضلالت میں مبتلا ہوچکا تھا اور ظلم و ستم نے اپنا مایوس سایہ پورے عالم میں پھیلا رکھا تھا، حضرت علی امیرالمومنین (ع) اس زمانے کی تعریف اس طرع کرتے ہیں کہ ’’ایسا زمانہ تھا کہ لوگ مختلف مذہبوں میں بٹ چکے تھے، لوگوں کی خواہشات مختلف تھیں، کچھ لوگ خدا کو مخلوکات سے شباہت دیتے تھے، اور کچھ لوگ ملحد تھے اور خدا کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے تھے‘‘، حضرت علی (ع) ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ’’لوگ اس زمانے میں جھگڑوں اور فتنوں میں مبتلا ہو چکے تھے اور دین کی تار و پود پارہ پارہ اور ایمان و یقین کے ستون کمزور ہو چکے تھے، اصول دین میں لوگوں کے درمیان اختلاف، انکے معاملات اور امور بکھرے ہوئے، نجات اور رہائی کی راہیں مسدود اور چراغ ہدایت بےنور ہو چکے تھے، لوگوں کے دلوں میں تاریکی چھا گئی تھی، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور شیطان کی مدد کی جاتی تھی، ایمان تنہا رہ گیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے ستون ویران اور اسکے نشانے جھٹلائے جاتے تھے۔۔۔‘‘

آپ (ع) فرماتے ہیں کہ ’’جزیرۃالعرب اور وہ سرزمین جس میں پیغمبر اکرم (ص) مبعوث ہوئے، کے حالات اور اوضاع زیادہ ہی خراب تھے، ان حالات کی عکاسی نہج البلاغہ کے خطبہ 26 میں اسطرح سے تبیین ہوتی ہے، خدا نے پیغمیر نازنین (ص) کو رسالت کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ دنیا والوں کو ڈرائے۔۔۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ تم اہل عرب بدترین دین رکھتے تھے، نامناسب جگہ زندگی بسر کرتے تھے۔ پتھروں اور سانپوں کے درمیاں زندگی گزارتے تھے، تمہارا مشرب گندھا پانی اور تمہارا کھانا ناگوار تھا، تم ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، رشتوں کو توڑتے اور بتوں کی عبادت کرتے تھے، گناہوں اور مفاسد نے تمہیں گھیر لیا تھا‘‘، لیکن حضرت محمد مصطفیٰ (ص) نے 23 برسوں کی مدت میں اتنی بڑی تبدیلی ان لوگوں میں ایجاد کر دی کہ انکی جہالت عقل و منطق میں، انکا ظلم اور انکی بےانصافی عدالت اور انصاف میں، انکی بےرحمی اور سنگدلی مہربانی میں، انکے اختلافات اور تفرقہ اتحاد و برادری میں، انکے بتوں اور پتھروں کی عبادت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں تبدیل ہو گئی۔

حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی 23 سال کی تبلیغ اس حد تک تاثیر گزار واقع ہوئی کہ قرآن کے سایے میں ایک عظیم انسانی تمدن کی بنیاد پڑگئی اور مسلمان علم و دانش میں دنیا کی ساری ملتوں اور قوموں سے آگے بڑھ گئے اور اس آیت کریم کے مصداق کامل بن گئے۔ ’’کُنتُم خَیرَ اُمَۃ اُخرِجَت لِلنّاس‘‘ لیکن صد افسوس کہ حضرت محمد مصطفیٰ  (ص) کی رحلت کے بعد اسلام میں انحرافات، تنزلی، عقب نشینی اور اللہ کے دستورات کی مخالفت کا سلسلہ شروع ہوا اور تازہ مسلمان پھر سے قبیلہ پرستی کی ذلت میں الجھ گئے، بجائے اسکے کہ مسلمان زیادہ توجہ اپنے نفس کی طرف مرکوز کرتے فتوحات اور کشور کشائی میں لگ گئے جسکے نتیجہ میں مالِ غنیمت انکے ہاتھ میں آیا اور یہی وہ بلا تھی کہ جسکو دیکھ کر تازہ مسلمان اپنے ہوش و حواس کھو کر اپنے خلوص کو خیرباد کرگیا۔

احد و بدر میں بڑے بڑے کارنامے انجام دینے والے مجاہدین اب اسلامی حکومت سے اپنی گزشتہ قربانیوں اور ایثار کے عوض میں معاوضہ اور اجرت مانگنے لگے اور پھر وہی سابقہ حالت پر واپس پلٹنے کے آثار رونما ہونے لگے، استاد سید جواد نقوی امت کی عقب نشینی کے بارے میں کہتے ہیں کہ جوں ہی رسول اللہ (ص) کی آنکھ بند ہوئی امت نے عقب نشینی شروع کی یعنی قبل از بعثت والی حالت کی طرح پلٹنا شروع ہوئے، رسول اکرم (ص) کی تمام تر تعلیمات نظرانداز کرتے گئے اور دن بہ دن بدترین مثالیں پیش کرتے رہے۔ اسی عقب نشینی و انحرافات کا نتیجہ تھا کہ مسلمان آج 21ویں صدی میں ایک پسماندہ قوم کے طور پر متعارف ہیں، ہماری سیاست، اقتصاد اور تعلیم دوسروں کے ہاتھ میں ہے، جسکا اثر پوری طرح مشہود ہے، مثلاً مسلم ممالک کی تعداد 50 سے زیادہ ہونے کے باوجود مسلمان دنیا میں پٹ رہے ہیں، پِس رہے ہیں، قرآن و احادیث میں علم حاصل کرنے کی اتنی اہمیت کے باوجود مسلمانانِ عالم میں شرح ناخواندگی 32 فی صد ہے، دنیا کی انرجی کے 40 فی صد خزانے مسلمانوں کے پاس ہونے کے باوجود مسلم قوم اقتصادی اعتبار سے چوتھے نمبر پر ہے، عالمِ اسلام میں B.P.L والوں کی تعداد 40 فی صد ہے۔
خبر کا کوڈ : 343094
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش