2
0
Wednesday 10 Sep 2014 01:18

سلطانیء جمہور اور بے نقاب چہرے!

سلطانیء جمہور اور بے نقاب چہرے!
تحریر: ارشاد حسین ناصر

پاکستان میں جب سے سیاسی میدان میں دھرنوں اور مارچز کا حالیہ سلسلہ شروع ہوا ہے عملی طور پر ملک جام ہو کر رہ گیا ہے، خبروں کے مطابق اس صورتحال کے ملکی معیشت پر بے حد منفی اثرات پڑ رہے ہیں، اگر ہم اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں تو اس پر کئی مقالے تحریر کئے جاسکتے ہیں، فی الحال ہم اس ایک واقعہ کے نتیجہ میں ہونے والے بے نقاب چہروں، شخصیات، اداروں، تنظیموں کو سامنے لانا ہے، منہاج القرآن لاہور مرکز اور ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر پر ہونے والے لاہور پولیس کے بدترین حملے سے بہت سے چہروں سے نقاب الٹے ہیں، کون کہاں کھڑا ہے، کس کے اشارے پر ہے اور کس کو کیا تکلیف ہے، اس ایک واقعہ سے دنیا کے سامنے آچکا ہے۔

اگر ہم دیکھیں تو سب سے پہلے پنجاب حکومت بے نقاب ہوئی ہے، جس نے ایک قومی و مذہبی رہنما کے بنیادی حقوق سلب کئے اور اسے اپنے لئے خطرہ جانتے ہوئے ناکردہ گناہ کی سزا دینے کی کوشش کی، اپنے تئیں اس کو اپنی حکومت کیلئے خطرہ خیال کیا اور بے گناہ لوگوں کو گولیاں مار کے قتل عام کے مرتکب ہوئے، لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے ایریا میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی، اس پر اپنے پرائے حیران و ششدر رہ گئے، یہ سانحہ ہی مختلف چہروں کو بے نقاب کرنے کا سبب بنا، پنجاب حکومت، پنجاب پولیس اور اس معاملہ میں پولیس کی سرپرستی کرنے والا وزیر قانون رانا ثناء اللہ، جو اول روز سے تکفیری قوتوں کو مضبوط کرنے اور انہیں ہر طرح سے ملک پر مسلط کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہا تھا، اس سانحہ میں بے نقاب ہوگیا، اسے وزارت سے مستعفی ہونا پڑا اور پنجاب حکومت نے خود ہائیکورٹ کا کمیشن بنایا اور وزیراعلٰی نے ببانگ دہل میڈیا کے سامنے بیان داغا کہ اگر ہائیکورٹ کے کمیشن نے انہیں ملوث قرار دیا تو وہ ایک لمحہ بھی وزارت اعلٰی کو نہیں رکھیں گے اور مستعفی ہوجائیں گے۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے وزیراعلٰی کو اس واقعہ میں ملوث قرار دیا، مگر شہباز شریف اپنے کہے سے ایسے ہی مکر گئے جیسے انتخابات سے پہلے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے حوالے سے دعووں سے مکر گئے ہیں، عوام و میڈیا کے سامنے کئے گئے دعوے سے مکرنا انہیں ایک بار پھر بے نقاب کر گیا ہے، کسی قومی سطح کی شخصیت کیلئے اس طرح اپنے کہے سے پھر جانا ناصرف ناپسندیدہ عمل ہے بلکہ یہ ایسا عیب ہے جس کا داغ شخصیت پر ہمیشہ نمایاں رہیگا۔ حق تو یہ بنتا تھا کہ صرف الزام لگنے پر ہی خود کو اختیار سے الگ کر لیتے اور اگر اس واقعہ میں ان کا ہاتھ نہیں تھا تو تحقیقات کروا کے اپنے اوپر لگنے والے الزام کو غلط ثابت کرتے اور مرد میدان بنتے مگر کیا کریں، یہاں اصول اور ضابطے شخصیات کے گرد گھومتے ہیں اور بوقت ضرورت تبدیل بھی ہوتے ہیں۔

ہم بطور شیعہ اس ملک میں ایک عرصہ سے تعصب، تنگ نظری، ظلم و زیادتی، سازشوں کا شکار ہوتے چلے آرہے ہیں، ہم نے ہزاروں بے گناہوں کے جنازے اٹھائے ہیں، بہت سے شہداء کو میں ذاتی طور پر جانتا تھا اور ان کے قریب بھی تھا، بہت سے سانحات میں ہونے والے ظلم کے بعد ہمارے جذبات یہ ہوتے تھے کہ یہ ظلم حکمرانوں اور ظالموں کو بہا کر لے جائے گا، ایسے ہی ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہونے والے سانحہ کے بعد بھی ہمارے جذبات و احساسات تھے اور ہیں کہ یہ ظلم ظالمین کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا، انہیں بے نقاب کرے گا، ان کے چہروں سے نقاب الٹائے گا اور قاتلوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائے گا۔ آج ہم نے یہ دیکھ لیا ہے کہ قاتلوں کے چہروں سے نقاب الٹ گئے ہیں، ناصرف گولیاں چلانے والے قاتلوں کے چہروں سے بلکہ ان کی حمایت کرنے والوں، انہیں تحفظ فراہم کرنے والوں، انہیں تھپکی دینے والوں، ان کے ظلم پر چپ کا روزہ رکھنے والوں، قاتلوں کے گروہ اور قطار میں شامل ہونے والوں، پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر ان کے مقاصد کی تکمیل کرنے والوں کے چہروں سے بھی نقاب الٹ چکاہے، آج پتہ چل گیا ہے کہ کون مرد میدان ہے، کون باوفا ہے، کون غیور و باغیرت ہے، کون ظالمین کا مخالف اور کون ظالموں کا ساتھ دینے والا ہے، کسے ظالمین اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہیں اور کون انہیں پیارا لگتا ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوئے جبہ و دستار پہنے اسلام کے نام لیواؤں کی زبانی قاتلوں کی مدح سرائی کی جا رہی تھی، مارشل لاء کی گود میں پروان چڑھنے والے جمہوریت کی بقا کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کی باتیں کر رہے تھے، پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے خواہش مند ملی و قومی وحدت کا راگ الاپ رہے تھے، ہم نے دنیا کی پہلی اسمبلی ایجاد کی ہے، جس میں اپوزیشن کا تصور اب ختم ہوگیا ہے، سب یکجان ہوچکے ہیں، الیکشن میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے اور ایک دوسرے کے خلاف لشکر کشی کرنے والے متحد نظر آ رہے ہیں، یہ منظر پہلی بار نہیں دیکھا، ایسا منظر ہر اسمبلی میں ایک دو بار ضرور دیکھنے کو ملتا ہے، جس میں دین کے نام پر ووٹ لینے والے اور سیکولر خیال کئے جانے والے ایک ہی رائے کا اظہار کرتے ہیں، وہ موقعہ میں قارئین کو یاد کروا دیتا ہوں، جب بھی اسمبلی میں اراکین اسمبلی کی تنخواہوں یا مراعات بڑھانے کی قرارداد یا بل لایا جاتا ہے تو اسے تاریخی اکثریت سے منظور کیا جاتا ہے، اس کو دیکھے بغیر کہ اپوزیشن کا بل ہے یا اپنی پارٹی کا بس منظوری کے لیئے ہاتھ کھڑے کر دیئے جاتے ہیں۔

اس لئے کہ یہ مراعات و مفادات سب کیلئے یکساں ہوتے ہیں، اپوزیشن یا حکومتی پارٹی سب ہی اس میں ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں، لہذا اب بھی جب ہم اراکین پارلیمنٹ کو یکجان و یک زبان دیکھتے ہیں تو اس کے پس پردہ مشترکہ مفادات ہی ہیں، اصول کی بات کرتے تو کم از کم وزیراعظم کو یہ مشورہ تو ضرور دیتے کہ وہ مستعفی ہو کر الزامات کا سامنا کریں اور چودہ بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے جرم کی کہانی کو بھی اسمبلی کے فلور پر سامنے لانے کا مطالبہ کرتے اور مظلوموں کی دادرسی کا عزم دہراتے، مگر ہم نے دیکھا کہ منتخب نمائندگان ہونے کے دعویداروں نے چودہ بے گناہوں کے خون کو اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اسے چھپانے کی بھرپور کوشش کی، مگر ہمیں یقین ہے کہ یہ خون ان سے چھپ نہ پائے گا، ناصرف یہ بلکہ مقتلِ پاکستان میں بہائے جانے والے تمام بے گناہوں کا خون ضرور رنگ لائے گا اور قاتلوں کے چہروں سے نقاب الٹائے گا۔ کائنات کا نظام چلانے والی کی حکومت میں دیر تو ہوسکتی ہے اندھیر نہیں، جلد یا بدیر یہ خون رنگ لائے گا، ہمیں اس دن کا انتظار ہے۔
امید فاضلی نے کیا خوب کہا تھا۔
نکل کے جبر کے زندان سے جب چلی تاریخ
نقاب اٹھاتی گئی قاتلوں کے چہروں کا


بات بے نقاب ہونے کی ہو رہی تھی تو یہ بھی تاریخ کے اوراق پر جلی حروف سے لکھا جائے گا کہ جس مسجد سے جمہوریت کو کفر کے نظام سے تعبیر کرتے ہوئے فتویٰ صادر ہوا تھا، اسی لال مسجد اسلام آباد سے جمہوریت کو بچانے کا نعرہ لگاتے ہوئے ہزاروں نمازیوں نے اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کے دھرنا دینے والوں اور بالخصوص قاتلوں کی گرفتاری اور مقدمے کے اندراج کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو اپنے غضب کا نشانہ بنایا، جو لوگ حکومت وقت کے سب سے بڑے عہدے پر فائز شخص کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور اسے گرفتار کروانے کیلئے سپریم کورٹ سے ملی بھگت کرچکے تھے، انہیں چودہ بے گناہ قتلوں اور نوے معصوم انسانوں کے سینے چھلنی کرنے پر احتجاج اور سپریم کورٹ سے حق مانگنا کس قدر برا محسوس ہوا کہ وہ دھرنوں کے خلاف دھرنا دینے پر دھمکاتے نظر آئے۔

خیر ان کی روش ہمیشہ سے ہی ایسی رہی ہے، ان لوگوں نے ہمارے محرم کے جلوسوں کے خلاف، ہمیشہ جلوس نکالے ہیں، جو ان کے موقف کی کمزوری اور بطل کی علامت ہے، حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ فرقہ پرستوں کو موقعہ دیا گیا ہے کہ وہ میدان میں نکل آئیں، ہمیں اس پر خاموشی اختیار کرنا چاہیئے تھی، ان سے بصد معذرت عرض کرونگا کہ فرقہ پرست اور ان کے سرپرست بے نقاب ہوگئے ہیں، کہا جا رہا تھا کہ جھنگ کے الیکشن میں فرقہ پرستوں کو شکست دینے کے بعد حکومت نے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور ان کی سرپرستی چھوڑ دی ہے، فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی علامت ایک مارے گئے گستاخ امام ؑ کے لاڈلے فرزند سے وفاقی وزیر داخلہ کی ملاقاتوں کا راز اس دن کھل گیا جب یہ لوگ آب پارہ کے پاس دھرنا دینے والوں کے خلاف نعرے لگاتے نظر آئے، ہمارے بہت سے حلقوں میں کہا جاتا تھا کہ دہشت گردوں و فرقہ پرستوں کے پس پردہ اسٹیبلشمنٹ(ملٹری)ٌ کا ہاتھ ہے، کیا پنجاب میں گذشتہ چھ برس سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے انہیں پالنے پوسنے کا کام کیا ہے یا کوئی اور اس کام میں مصروف تھا؟ 

حالیہ سیاسی بحران میں جس طرح کھل کے ان فرقہ پرستوں کو استعمال کیا گیا ہے، اس سے کسی کو شک و شبہ نہیں رہا کہ ان کی سرپرستی کسے حاصل ہے؟ لوگوں نے ملاؤں کی منافقت کا یہ منظر بھی محفوظ کر لیا ہوگا کہ اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر دھرنوں کے خلاف تقاریر کرنے والی ایک معروف شخصیت کے نمائندہ مولانا جب ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کیلئے گئے تو ان کے موقف کو ناصرف درست تسلیم کیا بلکہ ان کی حمایت میں میڈیا کے سامنے بیان بھی دیا، گویا ایک ہی جماعت نے دوہرا موقف اختیا کیا اور ایسا تقریباً کئی ایک جماعتوں کے ساتھ ہوا ہے کہ ایک موقف پارلیمنٹ کے اندر اور ایک پارلیمنٹ سے باہر اختیار کیا گیا، ہم نے اس واقعہ میں میڈیا کو بھی دیکھا کہ کس طرح وہ لوگ سامنے آئے، جنہیں ڈالروں اور ریالوں و درہم و دینار کی جھلک کروائی جاتی ہے، کیسے کیسے چہرے کس کس روپ اور شکل میں بے نقاب ہوئے، تاریخ کے اوراق نے سب محفوظ کر لیا ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری کے ذاتی خیالات، انداز اور طریقہ کار سے اختلاف کرنے کی گنجائش موجود ہے، مگر اس بات کو تسلیم کئے بنا چارہ نہیں کہ ان کا مطالبہ صد در صد درست ہے، ہمارے ہاں ملک بھر میں جاگیرداری، وڈیرہ شاہی، افسر شاہی، سرمایہ شاہی اور طاقت و قوت و اختیار کا جو کھیل سماج میں رچ بس گیا ہے، اس کے ہوتے ہوئے کسی مظلوم اور کمزور کو انصاف ملنا ناصرف محال ہے بلکہ اس بات کے خدشات موجود رہتے ہیں کہ انصاف کا طلب کرنا بذات خود جرم بن جاتا ہے اور اپنے مال، عزت، آبرو اور اکثر اوقات جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، ایسے ماحول اور معاشرے میں اگر وہ طاقتور ملزمان سے استعفٰی طلب کرتے ہوئے معاملے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو کسی کو یہ الزام لگا کر ناانصافی نہیں کرنی چاہیئے کہ ان کی اس بات اور مطالبہ کے پس پردہ سیاسی گیم چل رہی ہے اور کوئی خفیہ طاقت ان سے ایسا کروا رہی ہے، یا یہ کہ ایسا اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ فلاں شخصیت کو حکومت نے باہر جانے کی اجازت نہیں دی، اس لئے یہ افتاد اس کے سر پہ لائی گئی ہے، جس میں طاہر القادری کو مہرہ بنایا گیا ہے۔
 
اگر ہم اس کیس کے حوالے اب تک سامنے آنے والے حقائق کو ہی سامنے رکھیں تو قادری صاحب کے خدشات درست ثابت ہوئے ہیں، چودہ قتلوں کی ایف آئی آر درج کروانے کیلئے انہیں جس طرح کی جدوجہد کرنا پڑی ہے، اس نے انصاف و عدل کا جنازہ نکال دیا ہے، اب نامزد ملزمان سے تفتیش اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ذمہ داری کون پورا کرسکتا ہے، کیا اس پارلیمنٹ سے یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ جمہوریت بچانے کیلئے اس نے جو عالیشان کردار ادا کیا، وہ قانون و انصاف کی سربلندی کیلئے بھی اسی جذبہ و شوق سے سامنے آئے، ایسا ہو تو ہم یہ سمجھ جائیں گے کہ جمہوریت مضبوط اور جمہوری نمائندے بہت ہی ذمہ دار و مخلص واقع ہوئے ہیں، جنہیں ملک کے قانون، آئین کی پاسداری اور انصاف کی حکمرانی اپنی جانوں اور ذاتی مفادات سے عزیز ترین ہے۔۔۔۔ اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر۔۔۔ اس نظام کو۔۔۔۔ سلطانیء جمہور۔۔۔۔ کہنا خود کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔ یہ دھوکہ ۔۔۔ پاکستان کے بھوکے و ننگے عوام کب تک کھاتے ہیں، اور۔۔ اس سلسلہ میں مزید کتنے مقدس مآب لوگ بے نقاب ہوتے ہیں۔۔ اس کا انتظار کریں۔
خبر کا کوڈ : 408993
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سلام۔ کھانا سامنے رکھا ہے اس کے باوجود آخری دو پیراگراف کے علاوہ آپ کا مقالہ پڑھ چکا ہوں۔ فضلو بھائی کو صحیح انداز میں بے نقاب کیا ہے۔ محترم جناب علامہ ساجد نقوی صاحب کے ساتھ بھی طاہر القادری صاحب کا اتحاد دو سال تک چلا تھا۔ اس کا ضابطہ اخلاق بھِی موجود ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ دوست اتحاد امت کے نظریے کے تحت فیصلہ کیوں نہیں کرتے۔ عاشق اندھے اور بہرے ہوتے ہیں، یہ قول امام علی علیہ السلام کا ہے۔۔۔۔۔ایک اچھی تحریر۔
عرفان علی
گو نواز گو کا نعرہ پاکستان کی ان مظلوم فیملیز کا بھی نعرہ ہے جو شہداء کی وارث ہیں، جو طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ کے ظلم کا نشانہ بنے ہیں کیونکہ نواز شریف ان قاتلوں کا سپورٹر ہے۔ اسی لئے یہی قاتل لال مسجد سے نواز طالبانی کی حمایت میں نکل آئے، اب گو نواز گو ان کو برا لگے گا، جو قاتلوں کے ہمدرد ہیں یا لوٹ مار گروپ جن کو نہ ملک کی پرواہ ہے نہ قوم کی، وہ سیاسی پارٹیز ہوں یا نام نہاد مذھبی لوگ۔
ہماری پیشکش