1
0
Monday 23 Sep 2013 13:01

کیا فقط طالبان ہی قصوروار ہیں؟(1)

کیا فقط طالبان ہی قصوروار ہیں؟(1)
تحریر: قسور عباس برقعی
 
اسی کی دہائی میں سوویت یونین کا افغانستان پر قبضہ اور اس قبضے کے خاتمے کے لیے پاکستان، امریکہ، عرب ریاستوں اور افغانوں کا اتحاد اب تاریخ کا حصہ ہے۔ پاکستان اپنی مغربی سرحدوں کے دفاع کو مدنظر رکھ کر اس جنگ میں شامل ہوا، افغان سوویت تسلط سے چھٹکارا چاہتے تھے۔ امریکہ، برطانیہ اور عرب کس شکار پر تھے بہت سے لوگوں کے لیے ایسا مخمصہ ہے جس کا حل وہ تاحال تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ ظاہراً تو امریکہ اور اس کے ڈورے ہلانے والا برطانیہ سوویت ریاست کی پیش قدمی کو روکنا چاہتے تھے لیکن درحقیقت وہ چاہتے تھے کہ سرخ انقلاب کو اس سنگلاخ اور بے رحم زمین میں دفن کر دیا جائے۔ انہیں اس مقصد کے لیے تمام تر وسائل میسر آچکے تھے۔ افغانوں جیسی جنگجو اور ان تھک قوم، عربوں کا سرمایہ اور پاکستانیوں کا دماغ، وہ معجون تھی جسے امریکہ اور برطانیہ سوویت یونین کے خاتمے کے لیے کارگر تصور کرتے تھے۔
پاکستان کے اعلٰی دماغوں جو اکثر فوج میں ہی پائے جاتے ہیں، نے بھی سوویت یونین کے خلاف اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے میں ہی غنیمت جانی۔ بوڑھے استعمار کے تجربات، امریکی اسلحہ، پیٹرو ڈالر اور پاکستانی فوج کی مہارتیں افغان مجاہدین کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے جنگجو مسلمانوں کو پاک سرزمین پر اکٹھا کرنے لگیں۔ جہاد کا نعرہ بلند ہوا۔ افغان جنگ پاکستان اور افغانوں کے لیے تو شاید مجبوری کا معرکہ تھا، لیکن بوڑھے استعمار اور امریکہ نے اس سے خوب فائدے سمیٹے۔ مصر، سعودی عرب، اردن، تیونس، فلسطین، عراق، شام، الجزائر، صومالیہ میں مسلم جنگجوؤں کی اسلام کے نام پر بھرتی کا آغاز ہوا۔ عرب مجاہدین میں زیادہ کا تعلق سلفی مکتب فکر سے تھا، پاکستان میں بھی دیوبند اور اہلحدیث مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اس جنگ میں پیش پیش رہے۔ یوں ان دونوں مسالک کے افراد پاکستان کی سول اور عسکری اسٹیبلشمنٹ سے قریب ہوگئے۔
 
نوے کی پوری دہائی اسی جنگ میں گزری، لاکھوں افغان ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ پاکستان سے ہزاروں مجاہدین افغان جہاد میں شامل ہوئے۔ شہادتیں دیں، موسم اور حالات کی سختیاں اور صعوبتیں برداشت کیں۔ تربیت کے کٹھن مراحل سے گزرے اور یوں عسکری مزاج کی نسلیں پروان چڑھیں۔ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاء کے بعد یہ مہاجرین اور مجاہدین ایک دم بے آسرا ہوگئے۔ ان کی مالی امداد ختم کر دی گئی۔ اسلحہ کی ترسیل بھی رک گئی۔ حکومتوں کی آشیر باد کا سلسلہ بھی تھمنے لگا بلکہ الٹا رکاوٹیں پیدا ہونی شروع ہوگئیں۔ افغان مجاہدین سوویت یونین کے انخلاء کے بعد آپس میں دست و گریبان ہوگئے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے مجاہد جو اپنا سب کچھ اس جہاد کو ہی سمجھتے تھے، کے لیے اب اس طرز حیات کو ترک کرنا ممکن نہ رہا، پس انھوں نے نئے دشمنوں کی تلاش شروع کر دی۔ پاکستان نے اپنے مجاہدین کو مقبوضہ کشمیر کی سمت بڑھا دیا۔
 
جب عرب مجاہدین کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوا تو وہ امریکہ اور اس کی اتحادی عرب بادشاہتوں کے مخالف ہوگئے۔ انہیں اندازہ ہونے لگا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اب ہمیں فضلہ سمجھتے ہیں۔ عرب مجاہدین، اپنی جہادی قیادت کو برقرار رکھنے کے لیے سرمایہ افغانستان میں لانے لگے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بھی ان پرانے ساتھیوں کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا، تاکہ اپنی مغربی سرحدوں کو کسی غیر متوقع صورتحال سے بچایا جاسکے۔ عرب دوستوں اور ان کے حمایتی افغان جنگجوؤں پر مشتمل ایک نیا لشکر تشکیل دیا گیا، جسے بعد میں طالبان کے نام سے پکارا جانے لگا۔ طالبان بنیادی طور پر دیوبندی مسلک کے ان جنگجوؤں کا گروہ تھا جو افغانستان سے سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد اپنے علاقوں کے اقتدار کے لیے تاجک، ازبک اور ہزارہ جنگجوؤں سے نبرد آزما تھے۔ طالبان کو مسلکی اور نظریاتی قربت کی بنا پر عرب جنگجوؤں کی حمایت بھی حاصل رہی۔ عرب جنگجو جنہوں نے بعد میں القاعدہ کی بنیاد رکھی، طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں ہی متمکن تھے اور یہیں سے اپنی کارروائیاں انجام دیتے تھے۔
 
طالبان نے اپنی باقاعدہ جدوجہد کے آغاز سے 2001ء تک افغانستان کے کثیر رقبے پر اپنی حکومت قائم کی۔ پاکستان، عرب امارات اور سعودیہ نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا ۔ 9/11 نے سب کو نو دو گیارہ کر دیا، صورتحال مکمل تبدیل ہوگئی۔ اسامہ، القاعدہ، طالبان سب مفرور ہوگئے۔ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اپنی سالمیت اسی میں جانی کہ امریکی حملے کا ساتھ دے۔ سینکڑوں القاعدہ اراکین اور طالبان قائدین پاکستان سے گرفتار ہوئے، درجنوں قتل ہوئے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لینے والے افغان مجاہدین اور القاعدہ کارکنان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوا اور تب سے اب تک ایک جنگ ہے جو ہماری افواج، سکیورٹی اداروں اور ان قبائلی طالبان کے مابین جاری ہے۔
 
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج پاکستانی طالبان ایک اکائی نہیں ہیں۔ گذشتہ دس سالوں کی جنگ نے طالبان کو مختلف گروہوں میں منقسم کر دیا ہے۔ ہر گروہ کے اپنے اپنے مفادات اور مطالبات ہیں۔ کچھ طالبان پاکستانی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاہدے کرچکے ہیں اور عسکریت پسندی کو ترک کرچکے ہیں تو کچھ آج پاک فوج کو ناپاک فوج اور جیش المرتدین کے نام سے جانتے ہیں اور ان کے قتل کو ثواب جانتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کا ایک بڑا گروہ جس نے گذشتہ دنوں حکومت پاکستان کی مذاکرات کی دعوت کے جواب میں ابتدائی مطالبات پیش کیے، حکیم اللہ محسود کے زیر اثر محسود قبیلے کے طالبان ہیں۔ اس گروہ کو ہم طالبان کے بجائے قبائلی بھگوڑوں کا گروہ کہ سکتے ہیں۔ جن کے سربراہ طالبان یعنی افغانستان سے تربیت یافتہ افراد ہیں۔ 

اس گروہ کے مذاکرات کے لئے مطالبات درج ذیل ہیں:
1۔ پاکستان میں بسنے والے مجاہدین کیلئے مجموعی استثنا
 یہ کہ حکومت پاکستان، پاکستان میں بسنے والے ہر مجاہد کیلئے استثنا کا اعلان کرے، چاہے وہ کسی بھی علاقے میں موجود ہو۔
2۔ جیلوں میں قید تمام مجاہدین کی فوری رہائی
 یہ کہ پاکستان کی تمام جیلوں میں قید تمام مجاہدین کو فوری رہا کیا جائے، چاہے ان مجاہدین کا تعلق کسی بھی ملک، علاقے، رنگ و نسل سے ہو۔ اس ضمن میں دس رکنی شوریٰ نے ساڑھے چار ہزار سے زائد مہاجرین و انصار پر مشتمل مجاہدین کی فہرست تیار کر لی ہے، جو پاکستان کی جیلوں میں قید ہیں۔
3۔ پاکستان میں شریعت کا نفاذ
 یہ کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ کیا جائے۔ شرعی عدالتیں قائم کی جائیں، جہاں پر قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔
4۔ امریکی صلیبی جنگ اور امریکی اتحاد سے فوری علیحدگی
 یہ کہ پاکستانی حکومت اور فوج فوری طور پر پاکستان کو امریکی صلیبی جنگ اور امریکی اتحاد سے علیحدہ کریں۔
5۔ تمام قبائلی علاقہ جات سے فوج کی واپسی
 یہ کہ پاکستانی فوج تمام قبائلی علاقہ جات سے واپس بلائی جائے۔
 
6۔ قبائلی علاقہ جات میں سکیورٹی انتظامات، قبائلیوں کے سپرد کئے جائیں۔
7۔ فوجی آپریشن میں شہید ہونے والے یا زخمیوں کے لواحقین کو جائز معاوضہ فراہم کیا جائے۔
8۔ ڈرون حملوں میں ہونے والے نقصانات کا لواحقین کو معاوضہ ادا کیا جائے۔
9۔ ڈرون حملوں کا نقصان اٹھانے والے، اور اسیروں کے لواحقین میں سے ایک فرد کو فوری ماہوار روزگار کی فراہمی
10۔ مذاکرات میں نیک نیتی کی ضمانت کے طور پر امام، مسجد حرام عبدالرحمن السدیس کی ضمانت۔ یہ کہ حکومت نیک نیتی کہ طور پر امامِ مسجد حرام عبدالرحمن السدیس کی ایسی ضمانت ادا کرے کہ وہ مسجد حرام میں ٹھر کر اللہ کو گواہ بنا کر ضمانت دے۔
 
یہ دس شرائط مذاکرات شروع کرنے کی شرائط ہیں، جو حکومت کو مذاکرات شروع کرنے کیلئے پیش کی جا رہی ہیں۔ اسکے علاوہ، مذاکرات شروع کر دیئے جانے کے بعد بھی مجاہدین دیگر شرائط پیش کرینگے۔ جن میں سے 25 دیگر شرائط بھی مجاہدین نے تیار کرلی ہیں، ان میں بعض شرائط کے مطابق، لعین پرویز مشرف اور لعین شکیل آفریدی کی حوالگی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی فوری رہائی کے لئے عملی اقدامات بھی شامل ہیں۔(۱) (۲)
جاری ہے۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ http://jihadepakistan.blogspot.com/2013/09/blog-post_14.html
۲۔ https://www.facebook.com/UmarMedia (یہ پیج گذشتہ دنوں بند ہوا ہے)
خبر کا کوڈ : 304358
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

exclent and awe sm.........
ہماری پیشکش