3
0
Monday 20 Jan 2014 00:28

میرے استاد سب سے اچھے

میرے استاد سب سے اچھے
تحریر: شبیر احمد سعیدی

اس نے لوگوں کو صرف یہ سیدھی سادھی بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ خدا تو وہ ہوتا ہے جو بناتا ہے نہ وہ جس کو بنایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بت ہماری مخلوق تو ہو سکتے ہیں مگر ہمارے خدا نہیں ۔''ان کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ آج جو کچھ ہوا تھا وہ ان کی توقعات کے بالکل برخلاف تھا۔ عجیب بات ہے!!! کیا وہ پشیمان ہے؟ اپنی حرکت پر شرمندہ تو نہیں ہے؟ میں کیسے یہ بات گوارا کرلوں کہ وہ شرمندہ اور شرابور چہرے کے ساتھ میرے سامنے آئے۔ شاید کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے !مجھے نہیں معلوم یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ وہ انہی سوچوں میں گم اس جگہ سے آگے بڑھ گئے۔ لیکن یہ سوچ ان کا پیچھا چھوڑنے پر تیار نہ تھی۔''سب کچھ میری توقعات کے الٹ کیوں ہوا؟ خدا نہ کرے کسی نے اسے ڈرایا ہو، اس کو دھمکی دی ہو۔ لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے کسی سے  اس بات کا ذکر تک نہیں کیا۔ یہ میرا اور اس کا معاملہ تھا۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اب اس کی اس حرکت کی عادت ہو گئی تھی۔ مجھے تو اس سے کوئی گلہ بھی نہیں۔''وہ کسی راہ حل کی تلاش میں تھے۔''اگر وہ اسی میں خوش تھی تو کوئی بات نہیں۔ خدا اسے خوش رکھے۔ میں کسی کی خوشیاں نہیں چھین سکتا۔ پھر بھی ایسا کیسے ہوا!؟''

''میں نے شکوہ کے لئے لب کشائی کی تھی اور نہ ہی شکایت کے الفاظ کہے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ۔۔۔۔خدایا میری مدد فرما!''یہ رات گزر گئی اور اگلے دن نے اپنی بساط بچھائی۔ پھر سورج دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد مغرب کی سنہری آغوش میں سو گیا۔ تیسرا دن بھی اپنی معمول کی ڈیوٹی نبھا کر رخصت ہو گیا۔ لیکن ان کے سوال کا جواب پھر بھی لا ینحل رہ گیا۔ ''آخر وہ کہاں چلی گئی؟ اس نے اتنے دن میرا استقبال کیا! اب میری ذمہ داری ہے اور انسانیت کا تقاضہ ہے کہ اس کا پتہ لگائوں۔ مشکل میں ہو تو اس کی مشکل کو حل کروں، خوفزدہ ہو تو دلاسہ دوں۔''ماضی کی کتاب کا یہ باب ورق ورق ان کے سامنے تھا۔ کافی دن گزر گئے۔ نہیں معلوم کتنے۔ وہ اپنے معمول کے مطابق اس گلی سے گزر رہے تھے۔ چلتے چلتے آپ ایک گھر کے نزدیک پہنچ ہی گئے تھے کہ اوپر سے کوئی چیز سر پر آ کر گری۔ غور سے دیکھا تو سارے کپڑے کوڑا کرکٹ سے اٹ گئے تھے۔ نگاہ اٹھائی۔ چھت سے کوئی خاتون جا رہی تھی۔ یقینا اسی کا کام ہے۔''غلطی سے ایسا کیا ہو گا۔ ورنہ اس کا اور میرا کوئی تنازع نہیں ہے۔'' انہوں نے اپنے کپڑے جھاڑ دیئے اور آگے بڑھ گئے۔ اگلے دن جب اس مقام پر پہنچے ایک بار پھر کوڑا کرکٹ کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا۔ اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔ اب ہر روز کی بات تھی۔ وہ خاتون انتظار میں رہتی تھی۔ کب یہ صاحب آ جائے تاکہ کوڑا کرکٹ سے اس کا استقبال کرے ۔۔۔ لیکن اب کئی روز گزر گئے تھے اور یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ لیکن کیونکر! ان کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔

پروپیگنڈوں میں بڑا زور ہوتا ہے دن کو رات کا اور رات کو دن کا لباس پہناتا ہے۔ شیطان کے چہرے پر خوبصورت ماسک چڑھاتا ہے اور خوبصورت انسانوں کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے۔ یہی سب کچھ اس بھلے مانس انسان کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ امانت اور صداقت کا وہ مجسم پیکر، دیوانہ، مجنون اور انسانوں کو گمراہ کرنے کا مجرم ٹھہرایا گیا۔ پروپیگنڈے نے اس کے خلاف نفرت کی ایسی فضا مہیا کی کہ ہر خوب و بد نے اس کے راستے میں کانٹے بچھائے۔ اس نے لوگوں کو صرف یہ سیدھی سادھی بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ''جو بت ہم اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہیں وہ کیونکر ہمارے خدا ہو سکتے ہیں؟ خدا تو وہ ہوتا ہے جو بناتا ہے نہ وہ جس کو بنایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاتھوں کے بنائے ہوئے بت ہماری مخلوق تو ہو سکتے ہیں مگر ہمارے خدا نہیں۔''

اس سے پہلے کہ یہ پاک فطرت دل اور حق پرست ضمیر اس آواز کو سنتے، ایک دیوار نے اس کے اور لوگوں کے درمیان جدائی ڈال دی۔ وقت کے استعمار نے خطرے کو بھانپ لیا اور اس کی پراپیگنڈہ مشینری حرکت میں آ گئی۔'' کوئی اس کی بات نہ سنے اس لئے کہ وہ ساحر اور جادو گر ہے۔ اس کی باتیں تمہیں اپنے دین اور اپنے آبائو اجداد کے دین سے بیزار کریں گی۔ وہ تمہارے خدائوں کا انکار کرتا ہے۔ اس لئے اب تم اس کا جینا حرام کر دو۔ ''اس پروپیگنڈے نے بڑا اثر دکھایا۔ بچوں نے پتھر اٹھائے۔ دیوانہ، پاگل، مجنون کے نعرے لگاتے، اس پر سنگ باری کرتے۔ انسان نما بےغیرتوں نے حد کردی۔ وہ اس کی نقلیں اتارتے، اس پر فقرے کستے، اس کو عجیب و غریب ناموں سے پکارتے اور اس کی دل آزاری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے۔ خواتین بھلا پیچھے کیسے رہ سکتی تھیں۔ وہ کوڑا کرکٹ جمع کرتیں۔ اس انسان کا انتظار کرتیں۔ اس کی خوشبو سونگھتے ہی چھتوں کا رخ کرتیں اور اس کے نزدیک آتے ہی ساری کمائی اس پر نچھاور کرتیں۔ وہ ایک ایسے دشمن سے الجھ کر خوشی محسوس کرتیں جس کے متعلق انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس نے کیا کیا ہے !!

وہ بے چاری عورتیں!! انہیں کیا معلوم کہ جس سماج نے ان کی حیثیت ان سے چھین لی ہے اور جانوروں کو ان پر برتری عطا کی ہے اور جو سماج عورت کو اس جرم میں کہ وہ عورت ہے زندہ زندہ دفن کرنے کا مستحق سمجھتا ہو، یہ انسان بھی اسی سماج کی بے رحمی کا شکار ہے۔ انہیں کیا پتہ کہ یہ انسان اسی صنف نازک کے حقوق کی خاطر اس سماج سے ٹکرایا ہے اور بےگناہی کا مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ پروپیگنڈہ نے اس صنف نازک سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی چھین لی تھی اور بستی کے چوہدریوں نے انہیں خودکشی کے راستے پر ڈال دیا تھا۔ دن گذرتے گئے لیکن معمہ لاینحل باقی رہا۔ آخر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ ان سے رہا نہ گیا۔ دوستوں کو بلایا۔ ماجرا بیان کیا، پوچھ گچھ کی پتہ چلا وہ تو بیمار ہے۔ جواب طلب نگاہوں میں اشک شوق جاری ہوئے۔ آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔ وہ عافیت طلبی کے مکمل نمونہ تھے۔''خدایا! تو اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے ۔''

دوستوں کو اشارہ کیا۔ حلقہ یاران کی آغوش محبت میں اسی گھر کا رخ کیا جہاں پر کوڑا کرکٹ سے استقبال کرنے والی خاتون بیماری کے حکیم ہاتھوں اسیر بستر ہو چکی تھی۔ خاتون سے بیماری نے چلنے پھرنے کی طاقت چھین لی تھی۔ اوپر سے تنہائی کا منحوس وجود کاٹ کھائے جا رہا تھا۔ کبھی کبھار کوئی جان پہچان والا یا پھر اڑوس پڑوس کا کوئی ہمدرد احوال پرسی کے لئے آتا تھا۔ لیکن آج جو لوگ آ رہے تھے وہ اوروں سے مختلف تھے۔ خاتون کو یہ بتایا گیا کہ فلان شخص کہ جس کے استقبال کے لئے ہر روز چھت کا رخ کرتی تھی اور سارا کوڑا کرکٹ اس پر انڈیل دیتی تھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ دروازے پر کھڑے ہیں۔ خاتون کا سننا تھا کہ اس کے حواس اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ اسے اپنی بےچارگی کا شدت سے احساس ہوا۔ بیماری نے تو پہلے ہی اسے بستر گیر کر دیا تھا۔ اب اس نئی صورتحال نے اس کے وجود سے رہی سہی امید زندگی بھی چھین لی تھی۔

''وہ کیوں آیا ہے؟ کیا وہ انتقام لینے آیا ہے؟ یقینا اسے پتہ چل گیا ہو گا کہ میں مریض ہوں۔ چلنے پھرنے سے معذور ہوں۔ ہاتھوں میں سکت ہے نہ ٹانگوں میں ہمت۔ وہ اس فرصت کو غنیمت سمجھ رہا ہو گا۔ اس سے اچھا موقع اس کو نہیں مل سکتا۔ و ہ مجھ بےچاری سے اپنا بدلہ لینے آیا ہے۔ اے کاش! میں نے اس کے ساتھ ایسا نہ کیا ہوتا! مجھے کیا معلوم تھا کہ ایک دن بستر کی نظر ہو جائوں گی۔ چلنے پھرنے سے عاجز! خدایا میں کیا کروں! مجھے اس شخص سے بچا لو! خدا! خدا! خدا! ''''وہ اندر آنے کے لئے اجازت مانگ رہا ہے۔ ''کوئی اس سے کہہ رہا تھا۔ وہ چونک کر خیالات کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں لوٹ آئی۔ 'اجازت! وہ اجازت مانگ رہا ہے۔ اجازت! میرے گھر میں داخل ہونے کی! مگر کیوں؟ اسے کس نے روکا ہے؟ مگر اسے میری حالت کا پتہ نہیں۔ ارے میں تو اب صرف بول سکتی ہوں کسی کو روکنے یا نہ روکنے کا اختیار اب مجھ میں کہاں؟ اس سے کہو کہ اختیار اس کے ہاتھ میں ہے۔''

اس خاتون نے اپنی آنکھیں بند کر لی۔ وہ اس مصیبت کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تصور کرنے لگی جو اس کے خیال میں اس پر نازل ہونے والی تھی۔ وہ زندگی سے بےزار ہوئی تھی اور خوف نے اس کے سارے وجود کو پسینے سے شرابور کر دیا تھا۔ یہ بہت ہی برا انتظار تھا۔ ''اے خاتون! تم پر سلامتی ہو۔ ''اس کے کانوں سے وہ آواز ٹکرائی جو اس نے کبھی نہیں سنی تھی۔ الفاظ کا تقدس اور آواز کی چاشنی نے اسے ورطئہ حیرت میں ڈبو دیا۔ اسے اپنی سماعت پر شک ہوا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ جو شخص مجھ سے انتقام لینے آیا ہو اور میری بداعمالیوں کا حساب بےباک کرنے آیا ہو وہ میرے لئے سلامتی کی آرزو کیسے کر سکتا ہے۔ ''خدایا! میری مدد کر!'' ''اے محترمہ! تمہاری طبیعت کیسی ہے؟'' اب اس کی ہمت جواب دے گئی۔ اس کی آنکھوں نے پلکوں کی دیوار کو دو نیم کر دیا۔ سامنے جب نگاہ پڑی تو کیا دیکھا کہ ایک فرشتہ صورت شخص اس کے سامنے ادب سے کھڑا اس کی احوال پرسی کر رہا تھا۔ اس کے وجود نے شرمندگی کی چادر اوڑھ لی۔ شرم کے پسینے نے ساری کدورتوں کو دھو ڈالا۔ اس کی دنیا زیر و رو ہو چکی تھی۔ اس نے کیا سوچا تھا، کیا ہو گیا۔ اسے انتقام کی توقع تھی لیکن امن و سلامتی کی بشارت ملی۔ اسے تحقیر کی امید تھی لیکن عزت و شرف کا تحفہ ملا۔ اسے بدرفتاری کا خوف تھا لیکن حسن سلوک نے اسے زنجیر پا کر دیا تھا۔ وہ تسلیم ہو چکی تھی۔ اس شخص کی عظمت کا کلمہ پڑھ چکی تھی جس سے وہ نفرت کرتی تھی۔ وہ فطرت کی جانب لوٹ چکی تھی۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں اس عظیم معلم کے درس انسانیت کو سلام کیا اور اب جو لب کھولے تو دل کی گہرائیوں سے انسانیت کا کلمہ پڑھا۔
''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہۖ''
خبر کا کوڈ : 342851
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
خدا جزائے خیر دے۔ بڑا شیرین مضمون ہے۔
Pakistan
جزاک اللہ سعیدی صاحب ایک الگ انداز بہت پسند آیا ۔۔۔
Pakistan
ماشاءاللہ محترم بہت خوبصورت۔
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش