0
Wednesday 19 Feb 2014 20:40

انقلاب اسلامی ایران کے 35 سال

انقلاب اسلامی ایران کے 35 سال
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)

پاکستان کے پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ ایران میں آج سے ٹھیک 35 برس قبل اسلامی انقلاب نے عین اس وقت دستک دی کہ جب دنیا بھر کی طرح ایران میں بھی ایسے حکمرانوں کی حکومت تھی جو امریکی اور اسرائیلی آقائوں کی ایماء پر حکمرانی کر رہے تھے اور مسلم امہ پر مسلط ہو چکے تھے، انقلاب اسلامی ایران جو کہ 1979ء میں عالم اسلام اور بیسویں صدی کے عظیم اسلامی رہنما حضرت آیت اللہ سید روح اللہ موسوی الخمینی (امام خمینی ) کی سربراہی میں قیام پذیر ہوا اور خطے سے شیطانی و طاغوتی قوتوں کے سامنے برسر پیکار ہو گیا اور آج بھی 35برس مکمل ہونے کے بعد بھی انقلاب اسلامی اسی آب و تاب کے ساتھ اپنی منزلوں کو طے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔

گیارہ فروری 2014ء کو اسلامی جمہوریہ ایران کی پینتیسویں سالگرہ کے موقع پر سب سے پہلے اسلامی انقلاب کے بانی و قائد جناب امام خمینی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور پھر ساتھ ساتھ اسلامی انقلاب کے محافظوں بالخصوص ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کے تمام محافظین جن میں صدر ایران اور دیگر مجاہدین شریک ہیں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے انقلاب اسلامی کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھا ہے اور صرف محفوظ نہیں بلکہ اس اسلامی انقلاب نے دن رات جو ترقی کی راہیں عبور کی ہیں شاید ہی تاریخ کے کسی اور انقلاب نے اس قدر ترقی حاصل کی ہو۔ اس عظیم الشان موقع پر میں چاہتا ہوں کہ انقلاب اسلامی کے ان تمام جانبازوں کو بھی خراج عقیدت پیش کیا جائے کہ جنہوں نے 1979ء سے قبل اور پھر انقلاب اسلامی کے رونما ہونے کے بعد عالمی سامراجی قوتوں کے دانت کھٹے کرنے کے لئے دن رات محنت کی اور اسلامی انقلاب کی پرورش اپنے پاک و پاکیزہ لہو سے کی۔

آج اسلامی انقلاب دن میں ایک روشن خورشید کی مانند اور رات کے اندھیروں میں مہتاب کی مانند چمک دمک رہا ہے اور فرزندان اسلام کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں مظلوموں کی حمایت کے لئے نہ صرف آواز اٹھا رہا ہے بلکہ عملی طور پر دنیا کے مظلوموں اور دنیا میں مظلوم بنا دی جانے والی اقوام کی مدد و نصرت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے اس کی ادائیگی میں مصروف عمل ہے، جس کی ایک روشن مثال فلسطین کے عوام کی مدد کرنا اور فلسطینی مجاہدین کی جدوجہد آزادی کی عالمی سطح پر نہ صرف حمایت بلکہ مالی معاونت کے ساتھ ساتھ مسلح معاونت بھی ہے، یہ انقلاب اسلامی ایران ہی ہے کہ جس نے اپنے قیام کے بنیادی مقاصد میں اولین مقصد کو فلسطینی عوام کی مدد و نصرت قرار دیا اور دنیا کے مظلومین کی حمایت کو اپنا بنیادی اصول قرار دیا۔

میں آج عالمی سامراج امریکہ کے حکمرانوں اور مغرب کے ان پنڈتوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم نے اسلامی انقلاب کے خلاف سنگین دھونس دھمکیوں سے کام لیا اور پوری دنیا میں اپنے وسائل کو خرچ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایران میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب بہت جلد ختم ہو جائے گا اور اس حوالے سے تم نے اسلامی انقلاب کے خلاف کئی ایک سازشیں کیں تا کہ انقلاب کو روند دیا جائے، تم نے انقلاب اسلامی کو معاشی پابندیوں میں جکڑ کر کمزور کرنے کی کوششیں بھی کیں اور اسلامی انقلاب کے مایہ ناز سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ سمیت ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے آزما لئے لیکن اے امریکی حکمرانوں اور مغربی پنڈتوں تم جانتے ہو تم کس قدر ذلیل و رسوا ہوئے اور اسلامی انقلاب کس قدر بلند ہوتا رہا یہاں تک کہ تم نے اپنی شکست کو تسلیم کر لیا، یہ انقلاب اسلامی ایران کی برکتوں کے مظاہرے ہیں کہ تم نے پوری دنیا کی قوتوں کو جمع کیا اور لبنان پر 2006ء میں حملہ کر دیا لیکن اللہ تعالیٰ کے مٹھی بھر مجاہدین جنہیں دنیا حزب اللہ کے نام سے جانتی ہے تمھارے سامنے سینہ سپر ہو گئے اور تم جو ماضی میں چند گھنٹوں اور چند دنوں میں جنگیں فتح کر لیا کرتے تھے حزب اللہ کے مقابلے میں تم 33 روز تک گھمسان کی جنگ لڑنے کے بعد پسپائی اختیار کر گئے اور اپنے دو گرفتار فوجیوں کو بھی بازیاب نہ کروا سکے، یہ یقینا اسلامی انقلاب کا ایک ثمر ہی تھا جسے موجودہ دور میں مشاہدہ کیا گیا۔

انقلاب اسلامی ایران کی سب سے عظیم الشان فتح جو تاریخ میں رقم ہے وہ یہ ہے کہ جب انقلاب اسلامی کے فوری بعد امریکی ایماء پر عراق کے صدام حسین نے ایران پر حملہ کیا تو اس وقت مغربی ممالک عراقی افواج کو جدید اسلحے سے لیس کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح اسلامی انقلاب کا خاتمہ کر دیا جائے لیکن یہ اسلامی انقلاب کی برکات میں سے تھا کہ اسلامی انقلاب کے فرزندوںنے آٹھ سال تک اس یک طرفہ جنگ کا سامنا کیا اور اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی دشمن کے ہاتھوں نہ جانے دیا اور انقلاب اسلامی کی بھی حفاظت کی یہاں تک کہ عراق سمیت مغربی پشت پناہوں نے اقوام متحدہ کی مدد لے کر اس جنگ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسلامی انقلاب کے ثمرات دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہی چلے گئے اور تم پہلے بھی بےبس رہے اور آج بھی بےبس ہی ہو، اسلامی انقلاب کے ثمرات فلسطین میں بھی مشاہدہ کئے گئے کہ جہاں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے چند جوانوں نے 2008ء میں اسرائیلی حملے کے جواب میں مزاحمت کا فیصلہ کیا اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ بائیس روزہ جنگ کے بعد بالآخر مشرق وسطٰی کا سرطان اسرائیل ذلت و رسوائی کا شکار ہوا اور اللہ کے مجاہدین کو فتح و نصرت حاصل ہوئی، دنیا اس بات کو جانتی ہے کہ یہ بھی انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں سے ایک تھا، اس بات کا اعتراف خود اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی تقریر میں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم ہرگز یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ فلسطین جو ایران کی مدد و نصرت کے ساتھ خطے میں موجود ہے ایک مضبوط فلسطین بن سکے۔

انقلاب اسلامی ایران سے قبل دنیا کے بہت سے بڑے نامور تجزیہ نگار کہا کرتے تھے کہ ایران میں آنے والا انقلاب دیرپا نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس وقت کے تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب شاید کمزور انقلاب تھا جو وقت کے خطرناک سامراجی ممالک کے سامنے سینہ سپر رہنے کے قابل نہیں تھا، لیکن ان تمام تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی تمام باتیں آج رد ہو چکی ہیں اور آج سے قبل اس وقت بھی رد ہوئی تھیں جن انقلاب اسلامی ایران نے سب سے پہلے ایران سے اسرائیلی سفارتخانے کا خاتمہ کیا اور اس جگہ کو فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کیا، اسی طرح یہ تجزیئے اس وقت بھی دم توڑتے ہوئے نظر آئے کہ جب یونیورسٹی کے چند طلباء نے امریکی سفارتخانے کا گھیرائو کرنے کے بعد امریکی سفارت خانے میں موجود جاسوسی کے آلات برآمد کئے اور اس واقعے کو ایران میں انقلاب دوئم کا نام دیا گیا تھا، اس دن کے بعد سے آج تک ایران میں دوبارہ امریکی سفارتخانہ قائم نہیں کیا جا سکا۔

مغربی پنڈتوں نے اسلامی انقلاب کے رونما ہونے سے قبل ہی اسلامی انقلاب کے انتقال کی خبریں دینا شروع کر دی تھیں اسی طرح کی خبر ایک مغربی پنڈت مشہور امریکی مصنف Mark Twain نے بھی دی اور کہا کہ ایران کا انقلاب بہت جلد ختم ہو جائے گا لیکن آج اگر ہم پینتیش سالہ تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی انقلاب ترقی کی راہوں پر گامزن ہے اور عالمی سامراجی طاقتوں کے سامنے تن و تنہا سینہ سپر بھی ہے۔ ایران کا ایک مصنف ابراہیمیان لکھتا ہے کہ 1979ء میں کہ جب انقلاب اسلامی ایران بپا بھی نہیں ہوا تھا تاہم ایک اسلامی انقلاب کے آثار نظر آ رہے تھے اس وقت بین الاقوامی مشاہدہ کار، صحافی، تجزیہ نگار اور مبصرین اور دیگر حلقوں کے لوگ یہ باتیں کر رہے تھے کہ اسلامی انقلاب کی جدوجہد بہت جلد انتقال پذیر ہو جائے گی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی انقلاب رونما ہوا اور پھر کامیابی کے ساتھ اپنے سفر پر گامزن ہے۔

ایران کے ایک سابق وزیر جہانگیر آموز گرنہ 1993ء میں لکھا ہے کہ 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کے بعد کوئی سال ایسا نہیں گزرا ہے کہ جب اسلامی انقلاب کے دشمنوں نے انقلاب اسلامی ایران کے خلاف سازشیں نہ کی ہوں اور یہ کوشش نہ کی ہو کہ اسلامی انقلاب کو ختم کر دیا جائے لیکن ان تمام مشکلات اور سازشوں کے باوجود اور مصائب و آلام کے باوجود اسلامی انقلاب اپنی چمک دمک کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کے خلاف امریکی حکمرانوں اور مغربی پنڈتوں کے خدشات ان کے مطابق اس لئے بھی درست ہیں کیونکہ مغرب میں اس طرح کی کئی ایک مثالیں دیکھنے میں آئی ہیں جیسا کہ انقلاب فرانس 1794ء میں دیکھا گیا اور خود امریکی اور مغربی جمہوریت کا ہی مشاہدہ کیا جائے تو طاقت کا اختیار ایک دو سے زیادہ افراد کے ہاتھوں میں نہیں ہوتا جس کے باعث امریکی اور مغربی پنڈتوں کے ایران کے متعلق خدشات درست تسلیم کئے جا سکتے ہیں لیکن دراصل امریکی یہ بات نہیں جانتے کہ اسلامی انقلاب کے بنیادی اصولوں اور نظام کے مطابق اختیارات کا مرکز اسلامی انقلاب کی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) استعمال کرتی ہے نہ کہ کسی ایک یا دو افراد تک محدود ہے، اور یہ بہترین اصول انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی کے مرہون منت ہے۔

آج پینتیس برس کا عرصہ بیت جانے کے بعد دنیا اس بات پر شاہد ہے کہ اسلامی انقلاب ترقی کرتا ہوا منزلوں کو طے کر رہا ہے اور عملاً دنیا کے مظلوموں بالخصوص فلسطینیوں اور دیگر مظلوم ملتوں کی حمایت میں سرفہرست خطے میں موجود ہے اور دنیا کے عالمی سامراجوں اور طاغوتی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کی عالمی طاقتیں بالخصوص امریکہ اس بات پر مجبور ہو اہے اور اسلامی انقلاب ایران کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے مذاکراتی میز پر ایرانی شرائط کے ساتھ بیٹھا ہے، مذاکرات کا کرنا ہی دراصل اس بات کی دلیل ہے کہ عالمی طاقتوں نے اسلامی ایران کو ایک اسلامی طاقت کے طور پر تسلیم کیا ہے اور مذاکرات کی پیش کش کی ہے تاہم اس سے قبل عالمی سامراجی قوتوں نے اپنے سے کمزور ممالک پر ہمیشہ فوجی چڑھائی کے ذریعے اپنے مطالبات تسلیم کروائے ہیں اس حوالے سے افغانستان، عراق، اور شمالی افریقائی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ 1979ء میں جو اسلامی انقلاب سرزمین ایران پر امام خمینی (رہ) کی قیادت میں وقوع پذیر ہو آج پینتیش برس گزر جانے کے بعد بھی مزید طاقتور ہو رہا ہے اور صرف طاقتور ہی نہیں بلکہ اسی اسلامی انقلاب کی بہاریں دنیا کے دیگر ممالک میں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور خطے میں تین سال قبل شروع ہونیوالی اسلامی بیداری کی لہر بھی انقلاب اسلامی ایران کی مرہون منت رہی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 352751
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش