6
0
Friday 5 Aug 2016 08:55

5 اگست اور راشد نقوی کا نوحہ

5 اگست اور راشد نقوی کا نوحہ
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

دیوار پر آویزاں کلاک کی ٹک ٹک قلب و ذہن میں ایک عجیب قسم کا ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ گھڑی پر نگاہ پڑی تو بارہ بجنے میں چند سیکنڈ باقی تھے، چند سیکنڈ کے بعد نئے دن کا آغاز ہونا تھا۔ چار اگست کا دن اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا اور پانچ اگست کا دن شروع ہونے کو تھا۔ پانچ اگست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانچ اگست ۔۔۔۔۔۔۔۔ پانچ اگست۔ یہ لفظ قلب و ذہن کی دیواروں سے ٹکرانے لگا۔ آج سے 28 سال پہلے کی 5 اگست 1988ء کی صبح نے ایک بار پھر مجھے تڑپا کے رکھ دیا۔ میں اسلام آباد کے دینی مدرسہ جامعہ اہلبیت میں آئی ایس او کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے موجود تھا۔ نماز فجر کے بعد احکام کے امتحان کی تیاری میں مصروف تھا، لیکن طبیعت انتہائی اچاٹ اور دل انتہائی اداس تھا۔ مدرسہ پر بھی ایک ہو کا عالم طاری تھا۔ کمرے سے باہر نکل کر مدرسہ کے در و دیوار پر نگاہ دوڑائی ہر طرف مایوسی اور ویرانی کا دور دورہ تھا۔ دل میں ایک عجیب طرح کی بے تابی تھی لیکن وجہ نہ معلوم۔ اسی اثناء میں فون کی گھنٹی بجی۔ سجاد میکن بول رہے تھے، انہوں نے ایک جملہ کہا اور جب ٹیلی فون سننے والے نے اسے دہرایا تو ایسا محسوس ہوا جیسے مدرسہ کے در و دیوار گھوم رہے ہیں۔ زمین اوپر نیچے ہو رہی ہے۔ کیا۔۔۔۔۔۔؟ دوبارہ کہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

جی ہاں، قائد کو پشاور میں شہید کر دیا گيا ہے۔ یہ وہ جملہ تھا جس کی بازگشت کو میں آج بھی اپنے کانوں کے پردوں پر محسوس کرتا ہوں۔ آج اٹھائیس سال کے بعد بھی یہ جملہ مجھے رنجیدہ کر دیتا ہے۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کاش یہ سب کچھ خواب ہوتا۔ ساعتیں رک جاتیں۔ زمانہ ٹھہر جائے، میرا خواب ختم ہوجائے اور میں جب آنکھیں کھولوں تو میرے ساتھی کہیں مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد قائد سے ملاقات کے لئے پشاور جانا ہے اور آپ ابھی تک سو رہے ہیں۔ کاش یہ سب کچھ خواب ہوتا۔ کاش ٹیلی فون پر دیا گيا یہ پیغام کسی اور موضوع پر ہوتا۔ کاش قائد ہم سے جدا نہ ہوتے۔ کاش علم و عمل کا یہ کارواں قائد کی قیادت میں آگئے ہی بڑھتا رہتا اور ہم سب با آواز بلند یہ کہتے آگے بڑھتے رہتے۔
بڑھتے رہیں یونہی قدم، حئی علی خیر العمل
عارف سا قائد ہوا ہے نصیب نصر من اللہ فتح قریب


اب تو زندگی میں اتنے "کاش" ہوگئے ہیں کہ گویا اس کے علاوہ کچھ باقی ہی نہیں رہا۔ میں یہ الفاظ قلمبند کر رہا ہوں اور سوئی کی ٹک ٹک کی آواز مسلسل آرہی ہے۔ پانچ اگست کا دن شروع ہوچکا ہے۔ یہ پانچ اگست بھی گذشتہ اٹھائیس سالوں کی طرح چپکے سے گزر جائیگا۔ کہیں برسی مناکر شہید کو خراج عقیدت پیش کیا جائیگا، کہیں سیمینار منعقد کرکے شہید کے افکار کو بیان کرنے کی کوشش کی جائیگی۔ مجالس تراحیم برپا ہونگی۔ شہید کے غمزدہ ساتھی اپنے اپنے انداز میں شہید کے ساتھ گزرے ایام و واقعات کو دہرائیں گے۔ شہید کے افکار کو زندہ رکھنے کے وعدے کئے جائیں گے۔ تجدید عہد کیا جائیگا اور پھر اگلی پانچ اگست تک سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوجائيں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہید عارف الحسینی ہماری ملی اور اجتماعی زندگی میں ہمارے ہمراہ رہتے ہیں۔ قومی ترقی، نوجوانوں کی تربیت، تقویٰ و شہادت اور عوام کے لئے انتھک جدوجہد قصہ مختصر قومیات کا کوئی حوالہ شہید حسینی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، لیکن پانچ اگست کا پیغام کیا ہے ابھی اس پر کام ہونا باقی ہے۔

اس سال کی پانچ اگست کو میرا دل چاہ رہا ہے کہ اپنے شہید قائد کو ایک خط لکھوں۔ دل کی باتیں ان تک پہنچاؤں۔ درد دل بیان کروں۔ دکھڑے سناؤں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ گذشتہ اٹھائیس سال کے تمام شکوے شکایات ان کے سامنے کھول کر بیان کروں، لیکن کیا کروں ماحول ایسا بن گيا ہے کہ اگر شہید کی تعریف کرتے ہیں تو کچھ حضرات اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اس کے بعد ان حضرات کے چیلے چانٹے گالیوں، اعتراضات اور تہمتوں کا خنجر لیکر شہید کی تعریف کرنے والوں کا تیہ پانچہ کرنے کے لئے سوشل نیٹ ورک پر دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ایران میں امام خمینی کی تعریف پر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے چاہنے والے کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں، لیکن میں نے جب بھی شہید مظلوم کی زمان و مکان کی روشنی میں اوصاف بیان کئے تو لوگ ان صفات کو کسی اور میں تلاش کرنے لگتے ہیں اور جب اس تلاش میں ناکام ہوتے ہیں تو شہید کی تعریف کرنے والوں پر برسنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بعض اہل دل کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی میں شہید حسینی جیسی شخصیت پر تحریری اور تحقیقی کام نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انکے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنا مشکل ہے، اس غفلت میں کون کون سے افراد اور ادارے ذمہ دار ہیں، اس کی فہرست طویل ہے۔
بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائیگی

خدا بھلا کرے تسلیم رضا خان اور شبیر بخاری صاحب کا جنہوں نے ذاتی کوششوں سے شہید کے افکار و آثار کو چند کتابوں کی شکل میں اکٹھا کر دیا ہے۔ اے میرے قائد اس خط کا آغاز کہاں سے کروں۔ ان حسین لمحات اور ناقابل فراموش واقعات کی یاد آوری سے جب آپ تمام تر مخالفتوں، مشکلات، اندرونی اور بیرونی رکاوٹوں کے ملت تشیع کی ہچکولے کھاتی کشتی کو کنارے تک لے جانے میں مصروف تھے۔ اتنی مشقتوں، زحمتوں اور جفاکشیوں کے باوجود آپ کا مطمئن اور پرسکون چہرہ آج بھی قلب و نظر میں اضطراب پیدا کر دیتا ہے۔ آپ نے زبان اور قلم کے کتنے زخم برداشت کئے لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ میری نظروں میں لاہور کے ایک دینی مدرسے میں علماء کا ایک اجلاس آج بھی ایک فلم کی طرح چل رہا ہے، جب آپ پر بے جا اعتراضات کی ایسی بوچھاڑ کی گئی کہ آپ نے تنگ آکر قیادت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ شہید مظلوم جو آپ کی زندگی میں آپ کے اتنے مخالف تھے وہ اب کیا کر رہے ہیں، اس کا حال آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں لیکن آپ سے محبت کرنے والوں کو آج بھی اسی رویے کا سامنا ہے۔ شہید قائد آپ نے جن اداروں اور تنظیموں کو اپنے مقدس لہو سے سینچا تھا، وہ یا تو پہلے سے زیادہ سکڑ گئے اور کہیں وسعت بھی آئی تو نظریاتی کھوکھلاپن نمایاں اور آشکار ہے۔

اے میرے عزيز قائد۔ میں اس طرح کی باتیں کرکے آپ کو پریشان اور مایوس نہیں کرنا چاہتا، لیکن کیا کروں آپ نے پاکستان میں شیعہ قوم کو ایک انقلابی قوم اور شیعہ تنظیموں کو تنظیم کی بجائے ظلم و سامراج کے خلاف برسر پیکار تحریک میں بدلنے کی کوشش کی، لیکن آج ۔۔۔ اے میرے محبوب قائد آج جب بھی قوم و ملت پر دشمن کا کوئی حملہ ہوتا ہے یا کوئی قومی و ملی اجتماع ہوتا ہے تو آپ کے تربیت یافتہ اور نظریاتی پیروکار کھوئی کھوئی نظروں سے خلاؤں میں کسی چیز کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔
اے خمینی بت شکن کے روایت شکن بیٹے
تیرے بعد قومی تنظيموں اور ملی اداروں کو ذاتی جاگیر اور گھر کی لونڈی بنا دیا گیا ہے۔
قومی مطالبات کے حصول کی بجائے لیڈری اور سربراہی تک پہنچنا ترجیحی ہدف ہوگیا ہے۔
لاشوں اور جنازوں کی سیاست نے ہر باشعور شیعہ کو دلبرداشتہ کر دیا ہے۔
مروجہ سیاستدانوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو فضيلت سمجھا جا رہا ہے۔
کارکن اور سربراہ کے درمیان تقدس کے نام پر خلیج میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، دینی تربیت اور معنویت و روحانیت کا حصول نچلے طبقے کے کارکنوں کے لئے مخصوص کر دیا گيا ہے اور عہدیداران اور مرکزی قائدین اپنے آپ کو اس سے مبرا سمجھتے ہیں۔

اے میرے محبوب قائد میں اس طرح کی باتوں سے آپ کے دل کو ملول نہیں کرنا چاہتا، لیکن کنویں میں منہ ڈال کر گریہ کرنے کی ہمت اور حوصلہ بھی تو نہیں ہے۔ البتہ ایک اہم بات جس سے زندہ رہنے کا حوصلہ ملتا ہے، وہ نوجوان نسل میں آپ سے اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے والہانہ محبت ہے۔ اس نسل نے نہ آپ کو بلاواسطہ دیکھا ہے اور نہ شہید ڈاکٹر محمد علی تقوی کو درک کیا ہے، لیکن ان نوجوانوں کے دلوں میں موجزن آپ حضرات سے عشق و محبت امید کی شمع روشن کئے ہوئے ہے، آپ کی تربیت یافتہ نسل جو اب سفید ریش اور ادھیڑ عمر کے افراد پر مشتمل ہے، کے جانے کے بعد بھی آپ کے افکار و نظریات کو آگے بڑھانے والے موجود ہیں، جو کام پہلی والی نسل انجام نہیں دے سکی، نئی نوجوان نسل اس کے لئے پرعزم نظر آرہی ہے۔ آخر میں ایک شہید کی ماں کا واقعہ نقل کرکے آپ سے التماس دعا۔

ایک شہید کی والدہ ہر جمعہ کو اپنے نوجوان بیٹے کی قبر پر جاتی تھی، ایک بار اس کا شہید بیٹا اسکے خواب میں آکر اس سے کہتا ہے، اماں جان آپ جمعہ کے دن میری قبر پر تشریف نہ لایا کریں، ہر جمعہ کو شہداء کو امام حسین علیہ اسلام کی خدمت میں لے جایا جاتا ہے، لیکن میں اس لئے محروم رہتا ہوں کیونکہ مجھے کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہارے مہمان آنے والے ہیں۔ اے میرے محبوب قائد آپ کو جب میرے مولا امام حسین علیہ السلام کا دیدار نصیب ہو تو ہمارا بھی سلام پہنچا دیجئے گا۔
بچھڑنے والے
چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ
کہ کتنی شامیں اداس آنکھوں میں کاٹنی ہیں
کہ کتنی صبحیں اکیلے پن میں گزارنی ہیں
کتنے سورج عذاب رستوں کو دیکھنا ہے
کتنے مہتاب سرد راتوں کی وسعتوں سے نکالنے ہیں
بتا کے جاؤ
کہ چاند راتوں میں وقت کیسے گزارنا ہے
خاموش لمحوں میں تجھ کو کتنا پکارنا ہے
کتنے لحمے شمار کرنے ہیں ہجرتوں کے
کتنے موسم ایک ایک کرکے جدائیوں میں گزارنے ہیں
خبر کا کوڈ : 403204
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
جناب راشد عباس صاحب، سلام۔ قیادت کی سطح پر یہ صورتحال بظاہر الگ نظر آنے والے ان سبھی سرکردہ افراد میں موجود ہے اور اس حوالے سے ان کے مابین کوئی فرق نہیں۔ مختلف پلیٹ فارم اور مختلف عنوانات سے کام کرنے والوں کی ذہنیت بھی مختلف ہوتی تو درست سمت میں تیزی سے منزل کی جانب سفر ہوتا ہمیں دکھائی دیتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے، خواہ وہ دھرنا پارٹی ہو یا میں سمجھتا ہوں کی گردان کرنے والے صاحب ہوں۔ بہت ہی افسوسناک صورتحال ہے۔ کبھی موقع ملے تو اس نئی قیادت کا بھی جائزہ لیں اور پھر بتائیں کہ اس ملت کو تبدیلی کے نام پر بھی کیا ملا ہے؟ جس ملت کے خواص کفران نعمت کرتے ہیں تو ان سے وہ نعمت اٹھالی جاتی ہے۔ لہذا فی الحال قیادت کے دعویدار سبھی پلیٹ فارم وقت گذاری والی سیاسی روش پر عمل پیرا ہیں۔
Iran, Islamic Republic of
خداوند متعال آپ کی توفیقات میں اضافه فرمائے اور هم سب کو شهید قائد کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (امین)
عابد گیلانی
United Kingdom
گذشتہ سے پیوستہ
ایک عرض کروںگا
ہم بھی مداح خواں بن گئے ہیں
جس طرح ذاکرین پر اعتراض کیا جاتا ہے
کہ آئمہ کی مدح سرائی کی جاتی ہے مگر سیرت پر عمل نہیں کیا جاتا
اسی طرح شہید سے محبت کا تقاضا ہے کہ شہید کی سیرت پر عمل کیا جانا چاہئیے
عمل سے ثابت کریں کہ شہید حسینی سے کون کتنا زیادہ عشق کرتا ہے
شہید حسینی نے ہمیشہ سب کا احترام کیا
ہمیشہ بردباری اور تحمل سے کام لیا
غیر جذباتی گفتگو نہیں کی
طنز و تشنیع نہیں کی
مخالفین پر تنقید نہیں کی
اصولوں پر ڈٹ گئے
اتحاد بین المسلیمین کے داعی تھے
مومنین سے محبت کرتے تھے اور علماء کا بے حد احترام کرتے تھے، اپنے سینیئرز کا بہت احترام کرتے تھے
میں نے ہمیشہ ان کو اپنے سینیئرز کا احترام کرتے دیکھا
اور جب ایک اجلاس میں سینیئر علماء نے ان پر تنقید کی تو انہوں سے بحث کرنے کی بجائے کہا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں اہل نہیں یا میری کارکردگی مایوس کن ہے تو میں آپ کی تنقید کے احترام میں استعفٰی دینے کے لئے تیار ہوں۔ شہید نے ہمیشہ تنظیم پرستی کی مخالفت کی
ہمیشہ شخصیت پرستی کی مخالفت کی
اور تنظیمی مافیا افراد کی مخالفت کی
شہید کہتے تھے
کہ ادارے افراد کے محتاج نہیں
ادارے مضبوط ہونے چاہئیں
افراد کو تنظیموں کے لئے نہیں بلکہ راہ خدا میں کام کرنا چاہئیے
شہید برداشت کے قائل تھے
شہید نے کبھی بھی تنہا فیصلے نہیں کئے، ہمیشہ مشاورت کی
مجھے یاد ہے کہ میرے والد صاحب سے ان کی روزانہ بات ہوتی تھی
صبح نماز کے بعد ان کا فون آجاتا
قائد محترم علامہ ساجد نقوی صاحب اور علامہ افتخار صاحب سے روزانہ مشاورت کرتے تھے
ان احباب پر بہت زیادہ اعتماد کرتے تھے
محسن ملت کا بہت احترام کرتے تھے
چار سال میں کوئی دن نہیں تھا کہ جب شہید نے والد صاحب سے رابط نہ کیا ہو، کہیں بھی ہوتے انکا رابطہ ضرور ہوتا، اکثر سفر میں ساتھ لے جاتے
تحریک کا دستور ہو یا سیاسی منشور
مظہر گیلانی صاحب اور ثاقب نقوی صاحب نے مل کر لکھا، قائد شہید نے ان پر مکمل اعتبار کیا
میں نے ہمیشہ شہید حسینی کے چہرے پر تبسم دیکھا
شہید نے
میں آج حیران ہوتا ہوں کہ شہید نے جب قیادت سنبھالی اٹھتیس سال کی عمر تھی
مگر اتنی بردباری تحمل اور حوصلہ واقعاً بے نظیر
آج ہمارے کئی سینیئرز جو اب پچاس سال سے بھی زیادہ ہیں، مگر ذرا بھی تحمل و بردباری نہیں، وہ اپنے سینیئرز پر ہر وقت تنقید کرتے ہیں
شہید کے ساتھیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی بجائے شہید کے ساتھیوں کو ہدف تنقید بنا لیا ہے
شہید نے ہمیشہ کوشش کی کہ نتیجہ کو خدا پر چھوڑا
شہید کے دور میں کوئٹہ میں ریاستی دہشت گردی کے نتیجہ میں پندرہ افراد کی شہادت
گلگت میں سو افراد دہشت گردی کا نشانہ بنے، مگر شہید نے نہ بھوک ہڑتال کی اور نہ ملک گیر دھرنا دیا
پاراچنار میں جب حالات خراب تھے تو بھی شہید نے بردباری سے کام لیا
کاش ہم بھی ان کی سیرت کو اپنائیں
سینیئرز کا احترام کریں
تنقید کا جواب گالی میں نہ دیں
شہید کے وارث بننے کے لئے شہید کی سیرت پر عمل کرنا پڑے گا
شہید کا اصلی وارث وہی کہلائے گا جو شہید کی سیرت پر مکمل عمل کرسکتا ہو۔
Iran, Islamic Republic of
سلام علیکم
عابد گیلانی کی باقی باتوں کا جواب تو راشد عباس کو دینا چاہیے، لیکن ایک وضاحت میری طرف سے بھی واجب ہے۔ عابد گیلانی نے قائد شہید کےنام پر اپنے باپ کی مدح سرائی کی ہے، اب اس کل کے بچے کو کون بتائے کہ شہید عارف کےنام پر مظہر گیلانی المعروف ایم ایچ حسنی نے کتنے لوگوں کو شہید عارف کا مخالف بنایا۔ مظہر گیلانی کی بد تمیزیاں اور ان کا منہ پھٹ ہونا تنظیمی حلقوں میں زبان زد خاض و عام تھا۔ آپ کی علماء سے محبت تو اتنی مشہور تھی کہ علامہ ساجد نقوی کی قیادت کے بعد بزرگ علماء کے ایک بڑے دھڑے نے علامہ ساجد سے اس شرط پر تعاون کرنے کا وعدہ کیا کہ علامہ ساجد مظہر گیلانی کو اپنی کابینہ میں نہیں لیں گے۔عابد میاں تم سوشل میڈیا پر جہاں بھی اپنے باپ کی صفائیاں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہو، اس بیچارے کی ساری برائیاں پھر سے لوگوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ برخوردار ایسا نہ کیا کرو۔
والسلام
محمد علی
Iran, Islamic Republic of
جب ایک اجلاس میں سینیئر علماء نے ان پر تنقید کی تو انہوں سے بحث کرنے کی بجائے کہا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں اہل نہیں یا میری کارکردگی مایوس کن ہے تو میں آپ کی تنقید کے احترام میں استعفٰی دینے کے لئے تیار ہوں۔ ------- کیا ان احباب پر تنقید کرنا اور انکو عالم دین یا سینئیر سمجھ کر تنقید کرنا گیلانی مکتب میں جائز نہیں ہے؟ شہید کے دور میں کوئٹہ میں ریاستی دہشت گردی کے نتیجہ میں پندرہ افراد کی شہادت -----کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ گیلانی فیملی کو خوش کرنے کے لئے تھا؟ گلگت میں سو افراد دہشت گردی کا نشانہ بنے، مگر شہید نے نہ بھوک ہڑتال کی اور نہ ملک گیر دھرنا دیا۔ کاش اس حوالے سے آپکو تاریخ سے آگاہی ہوتی, شہید نے اس مسئلہ پر حکومت سے کس طرح کی ٹکر لی تھی۔؟ میاں برخوردار اپنے کسی نااہل کو اہل ثابت کرنے اور اسکی تن آسانی کا جواز بنانے کے لئے شہید کو بدنام اور تاریخ کو مسخ تو نہ کرو۔
علی حسین
غلام حسین
Pakistan
عابد گیلانی نے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؟ کیا قائد شہید احتجاج کی سیاست کے قائل ہی نہ تھے، حالانکہ ان کی قیادت اسی تحریک جعفریہ کے لئے تھی، جو جنرل ضیاء کے خلاف دھرنے سے وجود میں آئی تھی۔ دھرنا اتنی بری چیز تھا تو مفتی جعفر کی قیادت میں یہ سبھی خواص و علماء کیوں اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے تھے؟ اصل مسئلہ آج کے دور کے دھرنا دینے والوں سے ذاتی عناد کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مرجع تقلید آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے بھی دھرنا دینے والے عالم کی خدمات کو سراہا ہے۔ اب جناب مظہر گیلانی صاحب کے فرزند ارجمند بھی مان جائیں۔ مخالفت کی کوئی ٹھوس دلیل بھی تو ہو، تاکہ میرے جیسے لوگ قائل ہوجائیں۔
ہماری پیشکش