0
Wednesday 19 Nov 2014 21:21

مسلمان متحد ہوکر ہی دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا سکتے ہیں، سید قلب حسین رضوی

مسلمان متحد ہوکر ہی دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا سکتے ہیں، سید قلب حسین رضوی
سید قلب حسین رضوی مقبوضہ کشمیر کے معروف سماجی کارکن ہیں، انقلاب اسلامی ایران اور تحریک امام خمینی (رہ) کے ساتھ والہانہ جذبات اور وابستگی کی بناء پر سید قلب حسین رضوی کو جمہوری اسلامی ایران کی جانب سے سازمان تبلیغات اسلامی میں کام کرنے کی دعوت موصول ہوئی، آپ نے 1982ء میں تمام آرام و آسائش کو خیرباد کہہ کر سرزمین ایران پر قدم رکھا، 32 سال سے آپ انقلاب اسلامی ایران سے جڑے ہوئے ہیں، ایران میں آپ مترجم کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں، گذشتہ 31 سال سے انقلاب اسلامی ایران میں جو بھی اہم کتابیں اردو زبان میں شائع ہوئی ہیں وہ آپ ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں، علامہ عسکری کی 140 جعلی اصحاب کے نام کی کتاب جس کی 4 جلدیں ہیں اور ہر جلد 600 صفحات پر مشتمل ہے آپ ہی کو اس کتاب کا اردو ترجمہ کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے، ایرانی ثقافت و تہذیب کو کشمیر میں ترویج دینے میں آپ کا رول اہم ہے، سید قلب حسین رضوی ایران حج کمیٹی کے ممبر بھی ہیں، جس سال مکہ کی سرزمین پر حج خونین پیش آیا، اس سانحہ کے آپ چشم دید گواہ ہیں، اس سانحہ کے تین سال بعد سے اب تک آپ حکومت ایران کی طرف سے لگاتار حج پر جاتے ہیں اور برصغیر کے حجاج کرام کی راہنمائی فرماتے ہیں اور انہیں مناسک و احکام حج سے آگاہ کرتے ہیں، اس کے علاوہ سید قلب حسین رضوی امام خمینی (رہ) اور اس کے بعد رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے سالانہ حج پیغام کا اردو ترجمہ بھی کرتے ہیں، اسلام ٹائمز نے سید قلب حسین رضوی سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: حالیہ حج کے موقعہ پر اور دیگر ممالک و اہم مقامات پر داعش کے پرچم لہرائے جاتے ہیں، اس حوالے سے آپ کی تشویش کیا ہے۔؟

سید قلب حسین رضوی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، اولاً میں آپ کا اور آپکی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ آپ نے جموں و کشمیر میں اپنی فعالیت جاری رکھی ہوئی ہے۔ دیکھئے داعش کی شکل میں اسلام کی شبیہ بگاڑنے کی ایک اور کوشش سامنے آئی ہے، لیکن حالیہ حج کے دوران داعش کا پرچم لہرانے پر مجھے زیادہ تشویش نہیں ہوئی جتنی اس بات پر خوشی مل رہی ہے کہ خود سعودی عربیہ اور دیگر ممالک اب داعش سے خائف نظر آرہے ہیں، مسجد نبوی کے امام و خطیب نے اپنا ایک پورا خطبہ داعش و دہشت گردی کے خلاف دیا جو خطبہ میں نے خود سنا، حالانکہ انہوں نے داعش کا نام نہیں لیا لیکن انکے خطاب سے عیاں ہورہا تھا کہ اب بظاہر سعودی عرب داعش اور دہشت گردی کے خلاف ہوگیا ہے، سعودی عربیہ کی زمین اب داعش کے لئے تنگ ہو رہی ہے، انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ مسلمانوں کو کافر قرار دیکر ان کا قتل عام کرنا اسلام کے اصولوں کے سراسر منافی ہے، انہوں نے حرمین شریفین کی حفاظت کے لئے تمام مسلمانوں کو متحد ہوکر دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نبرد آزما ہونے کی بات بھی کی، ہمارے لئے یہ تعجب کی بات تھی کہ اس سے پہلے ہم نے کبھی بھی مسجد نبوی یا سعودی عرب کی کسی بھی جگہ ہم نے ایسے بیانات نہیں سنے ہیں، وہی دہشت گرد اور رہی داعش جس کو خود سعودی حکومت، امریکہ اور دیگر عرب و مغربی ممالک نے پروان چڑھایا، ہتھیار فراہم کئے، ہر صورت میں ان کو مستحکم کیا، آج ان ہی ممالک نے داعش کو ختم کرنے کے لئے مورچہ کھڑا کیا ہے، اگر دیکھا جائے تو امریکہ کی خاطر سعودی حکومت کے موقف میں بدلاؤ کو ہم دیکھ سکتے ہیں، سعودی عرب اپنے مفادات کم اور امریکہ کی خوشی اور ناراضگی کی زیادہ پرواہ کرتا ہے ورنہ داعش کسی بھی صورت میں سعودی عرب کی حکومت یا دیگر اسلامی ممالک کے لئے سودمند ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر سعودی حکومت کو داعش سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہوتا کیا ایسی صورت میں وہ داعش کی حمایت کھلے طور جاری رکھتی۔؟

سید قلب حسین رضوی: جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ سعودی حکومت ایک کٹھ پتلی حکومت ہے جو صرف امریکہ کے اشاروں پر چلتی ہے، انکے لئے ذاتی طور کوئی چیز اچھی یا بری نہیں ہے بلکہ وہ امریکہ کی اچھائی اور برائی دیکھتے ہیں، جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ امریکہ نے داعش کے خلاف محاذ کھڑا کیا تو فوراً داعش کے مخالف ہوگئے، اگر حکومتِ سعودیہ کو داعش سے کوئی خطرہ نہ بھی ہوتا تب بھی وہ دیکھتے کہ امریکہ کیا کر رہا ہے، اب جب کہ امریکہ نے داعش کے خلاف نام نہاد محاذ کھول رکھا ہے تو مجبوراً انہیں بھی ان کے ہمراہ ہوکر انکے ہاں میں ہاں ملانی پڑ رہی ہے، یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ کی داعش مخالف پالیسی مخلصانہ ہرگز نہیں ہے، امریکہ نے جب داعش کے خلاف نام نہاد محاذ کھڑا کیا تب امریکہ نے یہ سوچ لیا کہ ایران کہ جو روز اول سے ہی داعش کے خلاف تھا اور ہے، کو بھی داعش کے خلاف اس محاذ میں شامل کیا جائے لیکن رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے صراحتاً انکار کیا اور فرمایا کہ ان کا یہ محاذ مخلصانہ نہیں ہے، یہ اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لئے بظاہر داعش کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں، ہم اس محاذ میں شامل نہیں ہونگے۔ داعش کے خلاف امریکہ کے محاذ کھولنے کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس بہانے سے وہ عراق میں اپنے پیر پھر سے جمانا چاہتا ہے، رہبر معظم نے فرمایا کہ اگر ہمیں کوئی کام کرنا ہے تو وہ یہ کہ ہمیں متاثرہ ممالک کی باہر سے مدد کرنی چاہیئے براہ راست مداخلت کے ہم قائل نہیں ہیں، وہ ایران کے مفادات کو نشانہ بنا سکے اور عراق میں ایک کٹھ پتلی حکومت بنا سکے تاکہ ایران سے عراق کے روابط منقطع کئے جا سکیں، لیکن الحمدللہ اب تک جو بھی حکومت عراق میں بنی ہے وہ ایران دوست حکومت رہی ہے اور ایران نواز حکومت ہے، وہ ایران کو ایک سچے اور نیک ہمسایہ کی صورت میں دیکھتے ہیں اور ایران عراق کے ساتھ ساتھ تمام اسلامی ممالک کی پیشرفت اور ترقی کے لئے پیش پیش رہا ہے۔ یہ ایران اور عراق کے دوستانہ تعلقات امریکہ کی آنکھ میں کانٹا بنے ہوئے ہیں اس لئے وہ ہر ممکن کوشش کررہا ہے کہ عراق میں کھلبلی مچائی جائے، تمام دنیا جانتی ہے کہ امریکہ نے ہی داعش، القاعدہ اور طالبان کو وجود میں لایا آج اگر امریکہ ان عناصر کے خلاف کوئی محاذ بنا رہا ہے تو اس میں ضرور شک و شبہات پائے جاتے ہیں، میرے خیال سے داعش کو ابھی تک استعمال کرنا تھا اور جب پانی سر سے انچا چلا جائے تو اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے امریکہ آگے آیا اور داعش مخالف نعرے بلند کرنے لگا، ایران نے اس نام نہاد محاذ کا ساتھ نہ دے کر بڑی ہوشیاری سے کام لیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں پہلے امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے داعش جیسے تکفیری دہشت گردوں کو پروان چڑھایا اور اب انکے خاتمے کے لئے بظاہر کھڑے ہیں۔؟

سید قلب حسین رضوی: داعش اور النصرہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو وجود میں لانے کا امریکہ کا ایک مقصد شام میں قائم حکومت کو گرانا تھا اور وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا تھا، دنیا جانتی ہے کہ لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کی حماس کے روابط شام کے ذریعے ایران کے ساتھ مستحکم ہیں وہ واحد راستہ ختم کرنا تھا، یعنی شام ہی وہ واحد ملک ہے جس کو اگر ناامنی کا شکار بنایا جاتا یا کسی طرح سے وہاں کی حکومت کو پسپا کیا جاتا تو دونوں اسلامی تنظیموں کے روابط ایران سے منقطع ہو جائیں گے تو امریکہ کے لئے اسکا شیطانی راستہ آسان ہو جاتا۔ اسی وجہ سے امریکہ نے دنیا بھر سے دہشت گرد جمع کئے، انہیں ہتھیار دیئے، تکفیری دہشت گردوں کو ڈالر فراہم کئے، ٹریننگ دی اور انہیں شام روانہ کیا، تاکہ شام میں قائم بشار الاسد کی حکومت کو گرایا جائے، ان کا اندازہ تھا کہ داعش زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں میں شام کی سرکار گرانے میں کامیاب ہو جائے گی، مگر آج ساڑھے تین سال گذر جانے کے باوجود بشار الاسد کی حکومت قائم ہے اور داعش کو پسپائی اختیار کرنی پڑ رہی ہے، دلدل میں پھنسے ہوئے داعش کو اب شام سے نکال کر کوئی اور کام لیا جائے اسکے لئے امریکہ نے نئی کوشش انجام دی، شام میں ناکام ہونے کے بعد اب داعش نے عراق کا رخ کیا، امریکہ کا ہدف وہی ہے کہ ایران کو گھیرے میں لیا جائے اگر آپ دیکھیں تو افغانستان، عراق اور شام ان سبھی ممالک پر حملے کا مقصد ایران کو چاروں طرف سے گھیرنا تھا اور کچھ حد تک وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں، واقعاً تمام امریکہ ناپاک عزائم کا ہدف ایران کو محاصرے میں لینا ہے لیکن داعش کی ناکامی نے امریکہ کے سارے پلان پر پانی پھیر لیا، امریکہ داعش کے ذریعے جتنے مقاصد یا اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا ان میں کافی حد تک کامیاب ہوئے اب آخری پلان میں داعش کا خاتمہ ہے جو دھیرے دھیرے امریکہ کر رہا ہے، داعش کے خلاف محاذ کھڑا کرنا اسی پلان کا ایک حصہ ہے تاکہ عراق اور شام میں ہی داعش کا خاتمہ ہو جائے اور دوسرے ممالک جہاں سے انہیں لایا گیا تھا میں داعش کی انتہا پسندی پھیلنے نہ پائے اسی وجہ سے امریکہ داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ اب امریکہ بھی مشکل میں پڑ گیا ہے کہ داعش کو ختم کرے یا ان سے کوئی کام لیا جائے، اب امریکہ کا داعش پر اتنا قوی کنٹرول بھی نہیں رہا کہ ان سے پے در پے کام لیا جائے۔ امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ داعش جو کہ ایک خطرہ ناک درندگی کے بطور سامنے آیا ہے کو شام اور عراق میں ہی مکمل طور پر ختم کیا جائے، یہ درندگی جتنی پھیلے اتنا خود امریکہ کے لئے بھی خطرہ ثابت ہو سکتا ہے، یہ درندہ صفات عناصر جب تک زندہ ہیں ان کو کاٹنے اور چبانے کے لئے کچھ نہ کچھ چاہیئے، اگر انکو شام اور عراق سے صحیح سلامت اپنے اپنے ممالک جانے دیا جاتا ہے تو یہ وہاں بھی مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں، یعنی داعش نے امریکہ کو خود دوراہے پر کھڑا کردیا ہے۔

اسلام ٹائمز: شام اور عراق کے بعد امکانات پائے جاتے تھے کہ اسلام دشمن عناصر جیسے داعش کو ایران کی سرزمین کی جانب دھکیلا جائے گا، اس حوالے سے ایران سے کس جواب کی توقع کی جا سکتی ہے۔؟

سید قلب حسین رضوی: ایران کی سرحدیں محفوظ ہیں اور داعش کی ایران کے اندر دراندازی ناممکن ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ اگر کبھی ایسے حالات پیدا ہو بھی گئے تو ایران کے لئے یہ کوئی بڑی مشکل نہیں ہے، ایران ہر میدان میں ترقی کررہا ہے خاص کر عسکری لحاظ سے وہ بہت ترقی یافتہ ہے تو وہ ہر حال میں دشمنِ اسلام عناصر کے لئے دندان شکن جواب دینے کی طاقت رکھتا ہے، اسرائیل کو اگر پانچ فی صد بھی یقین ہوتا کہ ایران پر حملہ کرنے سے اسے کچھ فائدہ ملنے والا ہے یا وہ ایران کو شکست دے سکتا ہے تو انہوں نے کب کا حملہ کیا ہوتا مگر اسرائیل و امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک اور دشمن بھی جانتے ہیں کہ ایران دفاعی لحاظ سے بہت مضبوط ہے، شاید ایران کے دوست حضرات ایران کی طاقت سے ناآشنا ہوں لیکن دشمن ہرگز نہیں۔ میرے خیال سے ایران میں کوئی بھی دہشت گرد جماعت یا کوئی بھی شرپسند فرد پنپ نہیں سکتا ہے، ایسے عناصر کے لئے ایران کی سرزمین کبھی استعمال نہیں ہوسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت میں داعش کے وجود کے بارے میں جو چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں، جیسے کہ بہار اور مغربی بنگال میں داعش کے کتابچے وغیرہ ملنا، کیا نقطہ نگاہ ہے اس حوالے سے آپکا۔؟

سید قلب حسین رضوی: بھارت میں داعش کے وجود کے بارے میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہاں وہ ہرگز نہیں پنپ سکتے ہیں، میں نے خود یہاں کے بیشتر اہل سنت کے علماء اور دیگر مذہبی رہنماوں سے بات کی ہے وہ سب داعش کے کارناموں سے بخوبی واقف ہیں اور داعش کے بالکل خلاف ہیں، رہا سوال داعش کے پرچم لہرانے کا تو یہ کام بعض گنے چنے شر پسند عناصر انجام دے سکتے ہیں کہ جن کی کوئی مضبوط پشت پناہی حاصل نہیں ہے، غرض کی یہاں داعش کا وجود پیدا ہونا یا اسکا پنپنا بعید ہے، گنے چنے افراد کو موجود ہونا میرے خیال سے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے، یہاں داعش کے جال میں کوئی پھنسنے والا نہیں ہے، عام لوگ داعش کی ریشہ دوانیوں سے واقف ہیں، اور پھر حکومت بھی ایسے عناصر کے خاتمے کے لئے مثبت رول ادا کرسکتی ہے، ذاتی طور پر کوئی داعش سے وابستہ ہو سکتا ہے لیکن کوئی اجتماعی کوشش ہرگز نہیں پائی جاتی۔

اسلام ٹائمز: جموں و کشمیر کی پرامن تحریک آزادی پر داعش کا سایہ، اور شہر سرینگر کے در و دیواروں پر داعش ویلکم، القاعدہ ویلکم اور طالبان ویلکم کی عبارت درج ہے، اس سے کیا ثابت ہو سکتا ہے۔؟

سید قلب حسین رضوی: بنیادی طور اگر دیکھا جائے داعش، النصرہ، طالبان، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد جماعتیں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں، دیواروں پر ایسے نعرے لکھنا کوئی بڑی بات نہیں ہے، یہ کام کچھ عناصر کرسکتے ہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ داعش طالبان یا دیگر دہشت گرد جماعتوں کو جموں و کشمیر میں عوامی سطح پر کوئی سپورٹ حاصل نہیں ہے کیونکہ جموں و کشمیر کی عوام نے ان جماعتوں کی سفاکانہ کارروائیاں جگہ جگہ دیکھیں ہیں، تمام تر کوششیں جو ایسے عناصر کو وجود میں لانے کے لئے انجام دی جاتی ہیں وہ یہ کہ اسلام کے چہرے کو مسخ کیا جائے، اسلام سے لوگوں کو ڈرایا جائے، اسکے علاوہ امریکہ نے داعش و طالبان کو بنایا تاکہ وہ اپنے اہداف حاصل کرسکیں جن میں سب سے بڑا ہدف اسلام کو پوری دنیا میں بدنام کرنا ہے تاکہ اسلام کی طرف جو لوگوں کا رجحان بڑھ رہا ہے اس میں کمی آ جائے، آپ دیکھئے یہی امریکہ داعش کو ہتھیار فراہم کررہا ہے، پیسے دے رہا ہے اور مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں مروا رہا ہے اور دوسری طرف ان سفاکانہ حرکتوں کی ویڈیو بنا کر مغربی میڈیا کے ذریعے دکھائی جا رہی ہے، اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ دیکھو مسلمان کیا کررہے ہیں، اسلام کیسا دین ہے اس طرح سے امریکہ اپنے مقاصد حاصل کررہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایسے سنگین حالات کے پیش نظر مسلمان ممالک اور مسلم رہنماؤں کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں۔؟

سید قلب حسین رضوی: میرے خیال میں اتحاد ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے مسلمان موجودہ دلدل سے باہر نکل سکتے ہیں، اتحاد بین المسلمین کی جانب ایران کئی سالوں سے کوشش کررہا ہے حتیٰ کہ ان ممالک کے ساتھ بھی ایران نے اتحاد کا ہاتھ بڑھایا جو ہمیشہ ایران کے مخالف رہے ہیں، ایران کے خلاف کو ممالک دن رات سازشیں کررہے ہیں انکے ساتھ بھی ایران اتحاد کا قائل ہے، سعودی عربیہ کے ساتھ بھی ایران نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، ایران کی یہی کوشش ہے کہ عالم اسلام کو درپیش خطرات یا آنے والے خطرات و مشکلات سے بچایا جائے، استعماری طاقتیں ہمیشہ اسی طاق میں رہتی ہیں کہ کس طرح اسلام کی بیخ کنی ہو جائے، اسلام دنیا میں بدنام ہو جائے اور مسلمانوں کو دہشت گردوں کی علامت کی طور پر پیش کیا جائے، اس کے لئے وہ تمام حربے اور ہتھکنڈے آزماتے ہیں، مغربی ممالک نے ہمارے قرآن کی توہین کی ہے، ہمارے پیارے نبی اکرم (ص) توہین کی، جو تمام مسلمانوں کے پیغمبر ہیں، یہ توہین تمام اسلام کی توہین ہے، تمام مسلمانوں کی توہین ہے، نہ کہ اسلام کے کسی خاص فرقے کی توہین ہے، ان حالات میں جب دشمن کھلے طور مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہا ہے، مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے، مسلمانوں کے کاندھوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے دشمنوں سے آگاہ رہیں اور دشمن کی ہر سازش ناکام بنائیں، اس کے لئے مسلمانوں کا متحد ہونا اشد ضروری ہے، الحمدللہ ایران نے اس جانب قدم بڑھایا ہے اور ہر سال ایران میں اتحاد کے حوالے سے کانفرنسز اور سیمینارز کا اہتمام بھی ہوتا ہے، جن میں عالم اسلام کے دانشوروں و علماء کرام کو بلا کر مسلمانوں کو درپیش مسائل پر گفتگو ہوتی ہے اور ان کے لئے راہ حل تلاش کیا جاتا ہے، ایران اس کے علاوہ مسلمانان عالم کو متحد کرنے کے لئے بہت سے اقدام کررہا ہے، جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایران کی طرح ہر مسلمان ملک اتحاد کو ایک دینی فریضہ سمجھ لے تو کوئی بھی طاقت مسلمانوں کی ترقی و پیش رفت کو روک نہیں سکتا ہے، مسلمان متحد ہوکر ہی دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا سکتے ہیں اور ایران اسمیں پیش پیش رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 420304
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش