8
0
Friday 11 Apr 2014 16:34

گدھے پن کو ترک کیجئے

گدھے پن کو ترک کیجئے
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com


ہم نے گذشتہ تحریروں میں عرض کیا تھا کہ حکومت کی طرف سے دہشت گردوں کو روڈ میپ دیا جا رہا ہے۔ اب اسی روڈ میپ کے تحت طالبان کے بجائے نت نئی تنظیموں نے دہشت گردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنا شروع کر دی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ  اب تو طالبان کی طرف سے بھی خودکش حملوں کی مذمت آنے لگی ہے۔ اس وقت طالبان کی طرف سے مذمت کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہمارے علاوہ جو بھی دہشت گردی کرے وہ قابل مذمت، کافر اور مشرک ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ کا ایجنٹ بھی ہے، البتہ اگر ہم خود کریں تو یہ سب عین شریعت اور توحید و اسلام ہے۔

ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ گذشتہ منگل کو جعفر ایکسپریس جیسے ہی ایک بج کر دس منٹ پر سبّی ریلوے جنکشن  پہنچی تو بوگی نمبر نو میں زوردار بم دھماکہ ہوا، جس سے 17 مسافر جاں بحق اور 49 زخمی ہوگئے۔ یاد رہے کہ جس روز دوپہر کو جعفر ایکسپریس بم دھماکے کا نشانہ بنی، صدر مملکت ممنون حسین نے اسی شام گورنر ہاؤس کوئٹہ میں بلوچستان کی کابینہ کے ارکان سے ملاقات کے دوران بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ "بات چیت سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔" ابھی جعفر ایکسپریس کے زخم ہرے ہی تھے کہ  بدھ کے روز علی الصبح سوا آٹھ بجے وفاقی دارالحکومت دھماکوں کی گھن گرج سے لرز اٹھا اور پیرودھائی راولپنڈی کے قریب آئی ٹین کی فروٹ مارکیٹ میں بم دھماکے سے 22 افراد جاں بحق اور 116 سے زائد زخمی ہوگئے۔ مزے کی بات یہ ہے ان دونوں دھماکوں کی ذمہ داری یونائیٹڈ بلوچ آرمی نے قبول کی اور طالبان نے مذمت کی۔ یہاں پر ایک تیسرے فریق کا ذکر بھی ضروری ہے جسے ہم پولیس کہتے ہیں۔ اس ساری گیم میں طالبان، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور پولیس کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی سی ہے۔ ان کٹھ پتلیوں  کا کام فقط بیانات داغنا ہے۔

ہم یہاں پر اپنے قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ طالبان کی طرح بلوچوں میں بھی متعدد دھڑے ہیں، جنہیں اقتدار کا خواب دکھایا گیا ہے۔ مثلاً بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ری پبلکن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ ری پبلکن پارٹی، بلوچ نیشنل فرنٹ اور بلوچ لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت سب یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر بے گناہوں کا خون بہاکر اقتدار کی دیوی طالبان پر مہربان ہوسکتی ہے تو پھر دوسروں پر کیوں نہیں۔ حکومت نے بات چیت کے عنوان سے دہشت گردوں کو جو روڈ میپ دیا تھا، اب وہ اگلے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور دیگر دہشت گرد ٹولے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے میدان میں اتر آئے ہیں۔

طالبان اقتدار کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایک جنگل کا بادشاہ "شیر" بہت بوڑھا ہوگیا تھا (اتفاق سے ہمارے وزیراعظم نواز شریف صاحب کا انتخابی نشان بھی شیر ہی تھا)، وہ شیر اتنا بوڑھا ہوگیا تھا  کہ اب شکار بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ایک دن لومڑی نے اس سے کہا کہ اگر اسے اور اس کی قوم کو شکار میں سے بہترین حصہ دیا جائے تو وہ موٹا تازہ گدھا بھلا پھسلا کر کچھار میں  لاسکتی ہے۔ لومڑی اور شیر کے درمیان جب انعام و اکرام طے ہوگیا تو لومڑی نے گدھے سے مذاکرات کے لئے اپنی قوم میں سے ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دی۔ اگلے چند دنوں میں لومڑیوں پر مشتمل یہ مذاکراتی ٹیم  "گدھے" کی طرف چل نکلی اور اسے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے یقین دلایا کہ  "بادشاہ سلامت" بہت کمزور ہوچکے ہیں اور اب وہ اکیلے اس ساری سلطنت کو نہیں چلاسکتے, لہذا اپنے "اقتدار" کو آپ کے نام کرنا چاہتے ہیں یا آپ کو شریک اقتدار کرنا چاہتے ہیں، یا۔۔۔

اقتدار سے تو سب کو پیار ہوتا ہے چنانچہ گدھے میاں بھی فراٹے بھرتے ہوئے بادشاہ سلامت کی بارگاہ میں پہنچے۔ گدھے کو دیکھتے ہی شیر کے منہ میں پانی بھر آیا، بادشاہ سلامت نے آو دیکھا نہ تاو، دھڑام سے گدھے میاں کے سر پر حملہ کر دیا، گدھے میاں بوکھلا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور بھاگتے ہوئے ان کا ایک کان بھی بادشاہ سلامت کے ہاتھ میں ہی رہ گیا۔ شیر کے ضعف اور کمزوری سے مذاکراتی ٹیم  کے اعتماد کو بھی ٹھیس لگی، بہرحال لومڑیوں کی ٹیم نے بادشاہ سلامت کو یقین دلایا کہ اگر اب کی بار بچ نکلا ہے تو کوئی بات نہیں, گدھا بالآخر گدھا ہی ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہیے۔

مذاکراتی ٹیم از سرِنو عزمِ مصمم کے ساتھ "گدھے میاں" کی طرف روانہ ہوگئی، گدھے نے جیسے ہی مذاکراتی ٹیم کو دیکھا تو غصے سے دھاڑا، دفعہ ہوجاو۔۔۔ کیا مجھے گدھا سمجھ رکھا ہے؟ لومڑیوں نے روایتی مکاری کے ساتھ جواب دیا کہ گدھے ہونگے آپ کے دشمن، آپ تو ہمارے آئندہ کے حکمران ہیں۔"گدھے  میاں" بولے پھر تمہارے بادشاہ سلامت نے کیوں میرا سر دبوچا اور کان کاٹ ڈالا۔۔۔ مذاکراتی ٹیم نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا کہ جناب یہ (ڈرون حملے) تو "اعتماد کے فقدان" کے باعث ہوا ہے۔ اصل میں بادشاہ سلامت تو آپ کے کان میں رازداری کے ساتھ حکومتی اسرار و رموز بیان کرنا چاہتے تھے کہ آپ ڈر سے اچھل کر بھاگ نکلے اور یوں آپ نے اپنا کان بھی کھودیا۔

جب گدھے نے یہ جواب سنا تو دکھ سے اس کی آواز بھر آئی، کہنے لگا مجھے خود جنگل کی بے کس رعایا کا بہت دکھ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اقتدار کو اپنے ہاتھ لے کر یا شریک اقتدار ہوکر رعایا کو اس کسمپرسی سے نجات دلاوں، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اعتماد کی فضا بحال کی جائے۔ لومڑیوں نے جب گدھے میاں کو یوں رال ٹپکاتے دیکھا تو فوراً پوچھا کہ اعتماد کی فضا کیسے بحال ہو؟ گدھے میاں بولے ہمارے لئے "فری زون" قائم کیا جائے۔ لومڑیوں نے حامی بھرلی اور پھر اگلے روز فری زون میں دوبارہ گدھے میاں نے خود جاکر اپنا سر "بادشاہ سلامت" کے قدموں میں رکھدیا۔ شیر نے چند ہی لمحوں میں آناً فاناً گدھے کے ٹکڑے کر دیئے اور لومڑیوں کو ان کا حصہ دیدیا۔

ہماری تمام اقتدار خواہوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ درندوں اور لومڑیوں کو صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے، لہذا حصولِ اقتدار کے لئے "گدھے" مت بنیں۔ درندوں اور لومڑیوں کی طرف سے دکھائے گئے خوابوں کو منسوخ کرکے، اصلاح ملت، تعمیر ملت اور وحدت و اخوت کی طرف لوٹ آیئے۔
بے گناہوں کا خون بہانے، ملت کے نونہالوں کو یتیم کرنے، مزدوروں اور مسافروں پر شب خون مارنے کے بجائے اور اس "گدھے پن" کو ترک کرکے، بہادروں، مسلمانوں، ذمہ دار پاکستانیوں اور حقیقی مجاہدوں کا کردار ادا کیجئے۔
ویسے بھی
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا​
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک​
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے​
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے​
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے​
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے
خبر کا کوڈ : 371760
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

"گدھے پن" کو ترک کرکے، بہادروں، مسلمانوں، ذمہ دار پاکستانیوں اور حقیقی مجاہدوں کا کردار ادا کیجئے۔
بات تو سچ ہے مگر۔۔۔۔۔
فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
تو جینا کس قدر آسان ہوتا
میرے بیٹے بھی امریکا میں پڑھتے
میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا
مری انگلش بلا کی چست ہوتی
بلا سے جو نہ اردو دان ہوتا
جھکا کے سر کو جو ہو جاتا سر میں
تو لیڈر بھی عظیم الشان ہوتا
زمینیں مری ہر صوبے میں ہوتیں
میں واللہ صدر پاکستان ہوتا
(حبیب جالب)
nice...very nice
گدھے نے جیسے ہی مذاکراتی ٹیم کو دیکھا تو غصے سے دھاڑا، دفعہ ہوجاو۔۔۔ کیا مجھے گدھا سمجھ رکھا ہے؟
very good
سلامت رہیں۔۔۔
کیا کہنے جناب
جاری رکھیں، جب تک لومڑیوں کے دانت کھٹے نہیں ہوجاتے
آغا صاحب اچها لکها لیکن ان حکمرانوں سے ابهی بهی امید لگانا کہ وه گدها نہ بنیں عجیب ہے، درحقیقت انہوں نے همیں گدها بنا دیا ہے کہ خود طالبان یا ان کے محافظوں سے اس قسم کی توقع رکهے ہوئے ہیں۔
اللہم اصلح کل فاسد من امور المسلمین
good
ہماری پیشکش