4
0
Wednesday 29 Oct 2014 08:25

شیخ محمد علی العمری کا باغ

مدینہ منورہ کے قابل دید مقامات
شیخ محمد علی العمری کا باغ
تحریر: ایس این حسینی

گنبد خضراء روضہ رسولؐ خدا (مسجد نبویؐ) سے صرف بیس منٹ کے پیدل فاصلے پر علی ابن ابی طالبؑ روڈ پر مستشفی الزھراء علیہا السلام کے نام سے موسوم کئی منزلہ ایک بڑا ہسپتال واقع ہے، جس کے ساتھ ہی تھوڑے فاصلے پر بائیں جانب ایک بہت بڑا مزرعہ (باغیچہ) ہے، جسے مقامی لوگ مزرعہ محمد علی العَمری کے نام سے پکارتے ہیں، اکثر ٹیکسی ڈرائیوروں کو بھی علم ہے، مسجد نبوی سے فی کس چار یا پانچ ریال کرایہ لیتے ہیں، اور سوار ہوتے ہی، وہ شیعوں والی مسجد، وہ شیعوں والا مرکز اور وہ شیعوں والا مزرعہ وغیرہ جیسے الفاظ سے تعارف کراکر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ 

صحرائی کشمیر
اسے باغ کہیں یا باغیچہ، مگر ہے بہت بڑا۔ ارد گرد دیوار ہے، جبکہ اندر کھجور کے بے شمار درخت ہیں اور ہر طرف صاف شفاف پانی کی ندیاں بہتی ہیں۔ ندیاں قدرتی چشمے کی نہیں بلکہ متعدد ٹیوب ویلز کے ذریعے نکالے جانے والے پانی سے جاری رہتی ہیں۔ جو غالباً صرف نماز ہی کے اوقات میں آنیوالے سیاحوں اور زائرین کے لئے چلائے جاتے ہیں۔ زائرین کے بیٹھنے کے لئے ندیوں کے کنارے مخصوص انداز سے نشستیں بنائی گئی ہیں۔ جن کے پیچھے پاکستانی طرز کے تکیے بھی رکھے گئے ہیں۔ سعودی عرب جیسے خشک اور صحرائی علاقے میں اس باغ کو بجا طور پر کشمیر یا سوات قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس میں بیٹھنا، ٹہلنا اور ٹھہرنا اگر ایک طرف جسمانی تفریح کا ساماں فراہم کرتا ہے تو دوسری جانب یہاں دن رات منعقد ہونے والے مذھبی پروگراموں سے انسان کو روحانی تسکین بھی حاصل ہوتی ہے۔ سفر حج خصوصاً مدینہ کے سفر کے دوران، دنیا بھر کے اہل تشیع اس مزرعہ کی سیر کئے بغیر اپنے سفر سعادت کو نامکمل تصور کرتے ہونگے۔ خصوصاً عراق، ایران، پاکستان، انڈیا، سعودی عرب اور افغانستان کے اہل تشیع کی بڑی تعداد ہر روز یہاں دیکھنے کو مل جاتی ہے۔

 باغ کے وسط میں ایک بہت بڑی مسجد ہے جس میں پانچوں وقت کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ مسجد کے ایک پہلو میں ایک عجائب گھر بنایا گیا ہے۔ جس میں مخلتف تبرکات رکھے گئے ہیں۔ جن میں اہلبیتؑ سے منسوب چکی، مٹی کے گھڑے اور گھر کا دوسرا سامان رکھا ہوا ہے۔ جسے نماز ظہرین کے بعد کھول دیا جاتا ہے اور مزرعہ آنے والے زائرین نماز کے بعد اس کی زیارت کرتے ہیں۔ صبح دس بجے کے بعد زائرین کی آمد شروع ہو جاتی ہے۔ مسجد کے باہر موجود کیچن میں آنے والے ہر مہمان کی تواضع، بلا تفریق ملک و قوم، کلچر و زبان، مذھب و مسلک چائے سے کی جاتی ہے۔ نماز سے پہلے لوگ مزرعے میں گھوم پھر کر تفریح کرتے ہیں، باغ کے مختلف حصوں میں تصاویر بناتے ہیں۔ کچھ ہہتے پانی کا انتخاب کرتے ہیں تو کوئی گھنی کھجوروں کے درمیان واقع راستے کا، کوئی نشستوں پر بیٹھ کر تو کوئی پانی میں اتر کر اپنے حسین لمحات کی تصاویر بنواتے ہیں۔ 

کیسی عجیب مسجد
گھنی کھجوروں کے درمیان جگہ جگہ دیکھا، سائے میں بیٹھ کر عربی، فارسی اور مختلف زبانوں میں مخصوص گروہ بیٹھے مجلس امام حسین برپا کر رہے تھے۔ مدینہ منورہ میں جہاں یہ کام شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے، صاحبان و وارثان مصائب (اہلبیتؑ) کے جوار میں رہتے ہوئے مصائب سے دور رہنا کیسا ہوگا، ایسا ہی نا! جیسے کسی ماں کو اپنے بیٹے کی لاش کے پاس بیٹھے ہوئے رونے سے منع کیا جائے، جو بمشکل گھنٹہ ڈیڑھ خاموش رہ کر یکایک چیخ اٹھتی ہے اور پھر اسے سنبھالنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔ لہذا جنت البقیع میں دل کا بھڑاس نہ نکال سکنے والوں کے دل، بقیع کے اطراف میں کھلے عام ایسی مجلس دیکھ کر پھٹتے نہیں ہونگے۔؟

مجلس عراقیوں کی ہو یا ایرانیوں کی، پاکستانیوں کی ہو یا انڈینز کی، ایک اجنبی یہاں آکر آو دیکھتا ہے نہ تاو، زبان جانتا ہے یا نہیں، پانی کی طرف لپکنے والے اس اونٹ کی طرح مجلس میں شامل ہوجاتا ہے، جس نے کئی ماہ پانی کی بو تک نہ سونگھی ہو۔ پانی کی صحت و عدم صحت کا خیال رکھے بغیر بعض اوقات مٹی سمیت پانی پینے لگتا ہے، بالکل اسی طرح اس مجلس میں شامل ہونے والا اپنا اور غیر پھر یہ نہیں دیکھتا کہ ذاکر کہتا کیا ہے۔ صرف مدینہ یا سیدہ کونین حضرت زہرا کا نام جب سنتا ہے نا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ماتم شروع کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ زار وقطار رونے لگتا ہے۔۔۔۔۔
بقیع میں رہ جانے والے اور کسی وجہ سے روک لئے جانے والے آنسوں کا جو دریا ہوتا ہے نا۔۔۔ دو تین دن سے جب یہ پانی رک جاتا ہے تو یہ ایک جھیل کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اور پانی کی یہ جھیل یکدم سے کیا شکل اختیار کرتی ہوگی۔ بالکل اسی طرح اپنی آنسوں کا نذرانہ خوب فراخ دلی سے پیش کرتے ہیں۔
 
پاکستانی بھی عجیب ماتم کرتے ہیں۔ عراقیوں کی مجلس عزا میں ایک پاکستانی کی حالت اتنی منقلب (غیر) ہوگئی کہ بالآخر عراقی ذاکر کو رحم آگیا اور اس نے نوحہ پڑھنا ہی بند کر دیا، اگرچہ اسے دیکھ کر دیگر عراقیوں کا حال بھی قابل رحم سا ہوگیا تھا، تاہم بعد میں جب انکو یہ پتہ چلا کہ یہ ہماری زبان نہیں جانتا تو انکے پاس موجود عالم دین کی حالت بھی غیر ہوگئی اور وہ اتنے متاثر ہوئے کہ میرے خیال میں عراق جاکر وہ اس واقعے کو اپنے عزاداروں کی خدمت میں پیش کرنا نہیں بھولیں گے۔ 
یہی نہیں بلکہ وقفے وقفے سے مختلف وفود مختلف زبانون میں نماز سے پہلے مسجد کے اندر بھی مجالس کا انعقاد کرتے ہیں۔

شیخ کاظم العمری تقریباً ساڑھے گیارہ بجے گھر سے نکل کر مسجد میں آجاتے ہیں۔ مقامی وقت کے مطابق 12:20 کو نماز ظہر شروع ہوجاتی ہے، اور نماز ظہرین اور مغربین کے بعد روزانہ زائرین میں امام حسن مجتبٰی علیہ السلام سے منسوب لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ نماز باجماعت کے بعد بعض لوگ لنگر کا رخ کرتے ہیں جبکہ بعض لوگ شیخ کاظم سے ملاقات کی تمنا رکھتے ہیں۔ مختلف ممالک کے لوگ وفد یا انفرادی طور پر شیخ کاظم سے ملتے ہیں۔ شیخ کاظم عربی کے علاوہ فارسی زبان بھی روانی سے بولتے ہیں۔ روزانہ بڑی تعداد میں اہل تشیع ان سے ملاقات کرتے ہیں۔ وہ ہر شخص سے فرداً فرداً ملتے ہیں۔ تھکنے کا نام تک نہیں لیتے، ایک بات جو شیخ صاحب میں منفرد ہے، وہ انکی انکساری ہے، وہ جس شخص سے بھی ملتے ہیں، اس کا ماتھا چومتے ہیں۔ ہم نے کئی افراد کو دیکھا، جو اپنے کیمرہ مین سے یہ خواہش کرتے تھے کہ شیخ بزرگوار اس کا ماتھا چوم رہے ہوں تو اسکی تصویر بنائی جائے۔ 

علامہ شیخ محمد کاظم العمری، مرد مجاہد مرحوم آیت اللہ شیخ محمد علی العمری کے فرزند ارجمند ہیں۔ جنہوں نے سعودی عرب کے وہابی ڈکٹیٹروں کے خلاف ایک عرصہ تک مزاحمت کی اور وہاں کے مظلوم شیعہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے صدائے احتجاج بلند کی۔ مرحوم آیت اللہ کی رحلت کے بعد انکے فرزند ارجمند علامہ شیخ محمد کاظم العمری اس وقت سعودی عرب بالخصوص مدینہ منورہ کے اہل تشیع کی قیادت کر رہے ہیں۔

سزائے موت سے شیخ العمری کی معجزانہ نجات:
جاتے جاتے شیخ العمری مرحوم کی ایک بات اپنے معزز قارئین کو بتا دیں۔ مدینہ منورہ کے رہائشی ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم جس سے میری دوستی گیارہ سال قبل شب عرفہ کو حرم امام حسینؑ میں ہوئی تھی۔ گیارہ سال بعد مدینہ منورہ میں اس سے جب ملاقات ہوئی، تو شیخ العمری کی سزائے موت سے بچنے کے حوالے سے میرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شیخ العمری سے ملاقات کے دوران خود انہون نے بتایا تھا کہ جب بندہ کو سزا دینے کے لئے ایک میدان میں لایا گیا۔ سزا دینے والا عملہ (جلاد سکواڈ) اور میرے قتل کا تماشا دیکھنے والے لوگوں کا ایک جم غفیر بھی موجود تھا۔ میدان کے ساتھ ہی ایک زیر تعمیر مکان کی دو تین منزلوں (چھتوں) پر بھی تماشائی موجود تھے۔ زیر تعمیر مکان کی چھتیں تیار تھیں جبکہ اسکے اندر اور باہر دیواریں ابھی تعمیر نہیں ہوئی تھیں۔ پتہ نہیں کس کا انتظار تھا، بندۂ لاچار کا تو بس نہیں چل سکتا تھا۔ صرف اللہ تعالٰی اور اہلبیتؑ کا سہارا تھا۔ بندہ نے اس وقت اپنے اللہ سے یہ دعا کی، بارا الہا، اگر میرے قتل سے شیعوں کو نفع پہنچتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر تیرے عاصی بندہ کے قتل سے اہل تشیع کے حقوق کو دھچکہ لگتا ہے تو، تو ہی میرا محافظ و نگہبان بن جا۔

میرے بس میں اور کیا تھا، میں اور کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ میرے جلاد کسی کے انتظار میں تھے، ادھر ادھر ٹہل رہے تھے کہ اسی اثنا میں سامنے زیر تعمیر کئی منزلہ عمارت دھڑام سے گر پڑی اور اس میں موجود درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں تماشائی اسکے نیچے یا تو دب گئے یا زندہ پھنس گئے۔ وہاں پر موجود عملے سمیت تمام لوگوں کو میری فکر نہ رہی۔ وہ سب گرنے والی عمارت کے نیچے پھنسنے والوں کو بچانے میں لگ گئے۔ یوں اس دن میری سزا ملتوی ہوگئی اور پھر ملکی سطح پر لوگوں کے احتجاجات اور بیرون ملک لوگوں اور تنظیموں کی مداخلت سے بندہ کی سزا ملتوی ہوگئی۔ ہاں اسی مرد مجاہد کی رحلت کے بعد ان کے فرزند شیخ کاظم العمری اس وقت مزرعے کے مسئول اور اس مسجد کے پیش امام ہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 416913
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
عجیب۔،،،
سلام ہو ایسے فرزندان توحید رسالت و امامت پر
خداوند متعال شیخ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور شیخ کاظم کی حفاظت فرمائے۔
very nice
Pakistan
khoda rhmat konad ein asheqan e pak theenat ra.
Pakistan
husini bhai shokria. achay awr dilchsp malomat farahm kiye han.
ہماری پیشکش