2
0
Friday 14 Feb 2014 23:42

تاریخی فتویٰ

تاریخی فتویٰ
تحریر: محمد علی نقوی

14 فروری 1989ء تاریخ کا وہ یادگار دن ہے جس دن امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے سلمان رشدی کے ارتداد کا تاریخی فتویٰ صادر کرکے اسے واجب القتل قرار دیا، اس تاریخی فتویٰ نے اسکی آسودہ زندگی کو جہنم میں تبدیل کر دیا۔ انٹرنیٹ کی مختلف سائیٹوں پر موجود معلومات کے مطابق کتاب "شیطانی آیات" کے مرتد مصنف سلمان رشدی کا شمار شاید بیسویں صدی کے ایسے بیمار ذہن مصنفین میں ہوتا ہے، جنکے بارے میں سب سے زیادہ خبریں شائع ہوئیں۔ مگر وہ اچھی شہرت کی بجائے بدنامی اور قارئین کی داد حاصل کرنے کی بجائے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی نفرت اور اشتعال کا نشانہ بنا۔ اس نے اپنی ناپاک جسارت کے باعث اپنے خلاف ایسی نفرت ابھاری کہ اب وہ ذاتی محافظ کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکل سکتا۔ آج اس کتاب کی تصنیف اور سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے پر مبنی امام خمینی (رہ) کے تاریخی فتوے کے صدور سے کئی سال گزرنے کے بعد اسلام دشمن عناصر اور صہیونیوں کے دل میں اس قدر خوف و ہراس بیٹھ چکا ہے کہ کوئی دوسرا ملعون اسلام کی توہین کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں سلمان رشدی نے شہرت حاصل کرنے کیلئے یہ بدترین راستہ انتخاب کیا اور آیا اس گھٹیا حرکت کا اسکی زندگی سے کوئی تعلق ہے۔؟

کہتے ہیں کہ ممبئی کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا سلمان رشدی اپنی جوانی ہی سے مختلف قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتا آیا ہے۔ سلمان رشدی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بھارتی رقاصہ اور ممبئی کے برطانوی میئر کے درمیان ناجائز تعلقات کا نتیجہ ہے۔ اسکے جرائم کے باعث اسکے والد کو لگ بھگ تیرہ مرتبہ تھانے میں پیشی دینی پڑی۔ ہندو معاشرے کے ساتھ نہایت قریب رہ جانے کے باعث رشدی ہندو ازم کے افکار سے بہت متاثر ہوا۔ کچھ عرصہ بعد دیگر ہندوستانی جوانوں کی طرح وہ بھی تعلیم کیلئے لندن روانہ ہوگیا۔

1968ء میں کیمبرج یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے دوران سلمان رشدی بائیں بازو کی جماعت میں شمولیت اختیار کر لیتا ہے۔ انہی ایام میں اس میں شوق پیدا ہوتا ہے کہ کوئی آرٹسٹک کام کرے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ ایک چھوٹی ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں نوکری کر لیتا ہے اور اسی دوران اپنا پہلا ناول لکھنا شروع کر دیتا ہے، جو ایک مسلمان روحانی شخصیت سے متعلق تھا۔ تاہم وہ اسے پبلش کرانے میں ناکام ہوتا ہے۔ اسی طرح اسکی دوسری کتاب "گریموس کی کہانیوں کا مجموعہ" بھی خاص مقبولیت حاصل نہیں کر پاتی۔ وہ مایوس نہیں ہوتا۔ پانچ سال بعد 1981ء میں اس نے اپنا ناول "آدھی رات کے بچے" پبلش کروایا۔ اس ناول نے برطانیہ کی مطبوعات کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔ یہ ناول انڈیا کی آزادی کی کہانی ہے، جو ایک مسلمان نوجوان کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ تاہم اس ناول میں بھی مسز اندرا گاندھی کو بیوہ خطاب کرنے اور اس وقت کی انڈین حکومت کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے ہندوستان میں شدید اعتراض کا باعث بنا۔ اسی طرح رشدی نے 1983ء میں اپنے ناول "Shame" میں بعض پاکستانی شخصیات پر تنقید کی تھی، خصوصاً اس میں بے نظیر بھٹو کو غیر اخلاقی الفاظ سے یاد کیا تھا، جس پر پاکستان میں اس پر پابندی لگا دی گئی۔ سلمان رشدی کی عادت رہی ہے کہ وہ شخصیات یا مذاھب و ادیان کی توہین کرکے شہرت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ 

بالآخر اس لعین نے اپنی جوانی کے خفیہ  اور گھٹیا اوصاف کو منظر پر لاتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی۔ 41 سال کی عمر میں رشدی نے اپنا ناول "شیطانی آیات" لکھ کر پانچ لاکھ برطانوی پاونڈ کی صورت میں ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی اذیت اور دل آزاری کا انعام وصول کیا۔ شیطانی آیات میں ایک من گھڑت اور ضعیف روایت کا حوالہ دے کر سرکار دو عالم حضرت محمد (ص) کی شان میں گستاخی کی گئی ہے۔ 547 صفحات پر مشتمل ناول "شیطانی آیات" سب سے پہلے انگریزی زبان میں 26 ستمبر 1988ء کو پینگوئن پریس کے ایک شعبے "وائکنگ" نے شائع کیا۔ سلمان رشدی انڈین نژاد مسلمان ہے اور برطانوی شہریت کا حامل ہے۔ یہ ناول اسکی پانچویں تصنیف تھی۔ رشدی نے یہ ناول وائکنگ پریس کے یہودی سربراہ "گیلن ریٹیکن" کی سفارش پر 5 لاکھ 80 ہزار برطانوی پاونڈ کے عوض لکھا۔ اتنی پرخرچ اور مہنگی کتاب کی کوئی مثال اس سے پہلے موجود نہیں۔ شروع ہی میں میڈیا کی زبردست توجہ کا مرکز بن گئِی اور بہت سے ممالک میں بڑی تعداد میں اس کے نئے نئے ایڈیشن شائع ہوئے۔ آھستہ آھستہ اس کتاب کے انتشار پر مسلمانوں کی صدائے احتجاج بلند ہونے لگی۔ بریڈفورڈ کے شہر میں کچھ مسلمانوں نے اس کتاب کے سینکڑوں نسخے جلا ڈالے۔ پاکستان اور بھارت سمیت تمام مسلمان ممالک میں مسلمانوں نے مظاہروں کی صورت میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا، جن میں کئی افراد شہید بھی ہوئے۔ 

آخر کار 14 فروری 1989ء کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے سلمان رشدی کے ارتداد کا تاریخی فتویٰ صادر کرکے اسے واجب القتل قرار دیا، جس نے اسکی آسودہ زندگی کو جہنم میں تبدیل کر دیا۔ امام خمینی (رہ) کے فتویٰ کے بعد کے ایام سے متعلق اپنی یادداشتوں میں رشدی لکھتا ہے: "بار بار اپنی رہائش گاہ کو تبدیل کرنا پڑتا ہے۔" امام خمینی (رہ) کے فتوے کے نتیجے میں برطانوی پولیس اسکی حفاظت کا ذمہ لیتی ہے، یہ صورتحال بالآخر اس کی بیوی کی طلاق کا باعث بن جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ابھی تک چار بیویاں اس سے طلاق لے چکی ہیں۔ امام خمینی (رہ) کے فتویٰ کے فوراً بعد رشدی روپوش ہوگیا اور برطانوی پولیس نے نامعلوم مقامات پر اسکی حفاظت کا ذمہ لیا۔ اسکی حفاظت کا سالانہ تخمینہ تقریباً ایک کروڑ پونڈ لگایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ شہزادہ چارلس نے ایک مرتبہ کہا: "سلمان رشدی برطانوی ٹیکس دھندگان کیلئے ایک غیر معمولی بوجھ بن چکا ہے۔" برطانوی ہوائی سروس "برٹش ایئر ویز" نے 1998ء تک اپنے جہازوں میں سلمان رشدی کے سفر پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ اسی طرح "کینیڈا ایئر لائنز" نے چند سال پہلے اپنی کمپنی میں رشدی کے سفر کو ممنوع قرار دیا تھا۔

مغرب نے اس بات کا احساس کئے بغیر کہ اس سے دنیا بھر میں موجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے، اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا بازار گرم کر دیا۔ مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ نے مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنے کی بجائے شیطانی آیات نامی اس کتاب کے مصنف پر انعامات کی بارش کردی اور برطانیہ کی ملکہ نے تو بےشرمی کی تمام حدود کو پھلانکتے ہوئے ملعون سلمان رشدی کو "سر" کا خطاب دے دیا۔ مغربی ممالک کی طرف سے اس متنازعہ کتاب کی حمایت ایک عادی اور روزمرہ کی بات نہ تھی، وہ اس حمایت کے ذریعے مسلمانوں کے تاثرات اور ردعمل کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اسلام کے مقدسات  بالخصوص قران اور پیغامبر گرامی کے خلاف توہین کے مذموم منصوبے کا آغاز کرنا چاہتے تھے۔ امام خمینی (رہ) نے ایک دور اندیش رھبر کی حیثیت سے مغرب کی اس سازش کو بھانپتے ہوئے قران و سنت کی روشنی میں سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کا تاریخی فتویٰ صادر کیا۔ اس فتویٰ کو تمام عالم اسلام میں زبردست پذیرائی ملی۔ امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی اس فتویٰ پر تاکید کی اور اسے ناقابل واپسی قرار دیا۔

امام خمینی (رہ) کے اس تاریخی فتویٰ پر مغربی ممالک کا ردعمل اس قدر شدید تھا کہ ایران میں تعینات بارہ یورپی ملکوں نے تہران سے اپنے سفیر واپس بلا لئے اور ایرانی حکومت اور عوام کو شدید ترین سیاسی اور اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دیں۔ ایرانی قوم اور حکومت کی استقامت اور پامردی اس بات کا باعث بنی کہ بارہ کے بارہ  یورپی ممالک کے سفیر بغیر کسی شور شرابے کے اپنا سا منہ لیکر تہران واپس آگئے۔ غاصب صیہونی حکومت اور برطانیہ ملعون سلمان رشدی کی حفاظت پر خطیر رقم خرچ کر رہے ہیں، لیکن اسکے باوجود سلمان رشدی اس فتویٰ پر عمل درآمد کے خوف سے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات میں زندگی گزار رہا ہے۔

مغرب کیطرف سے اسلامی مقدسات کی توہین کا جاری سلسلہ اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ امام خمینی (رہ) کی دور اندیشی اس حوالے سے کسقدر صحیح اور حقیقی تھی۔ بحران میں گھرے مغربی تمدن کے پالیسی ساز اس بات کو اچھی طرح درک کر رہے تھے کہ  اسلامی تمدن، بیداری اور عالمگیر ہونے کیطرف گامزن ہے اور یہ دین الہی اور آسمانی تعلیمات کا حامل ہونے کی وجہ سے مغرب کے مادیت پر مبنی نظریانی نظام کو تہس نہس کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ مغرب اسلام و مسلمیں کے مقدسات کی توہیں کرکے مسلمانوں کی غیرت و حمیت کو ختم کرنا چاہتا ہے اور آزادی بیان کے نام پر اس توہین کا دفاع کرکے مسلمانوں کی مخالفت کو نظر انداز کرتا ہے۔

گذشتہ سالوں میں رسول اکرم حضرت محمد مصطفٰی ۖ اور قران مجید کی شدید ترین توہین کی گئی۔ رسول اکرمۖ کے توہین آمیز خاکے بنائے گئے۔ امریکی پادری کے ہاتھوں قرآن مجید کے نسخے جلائے گئے۔ صیہونی ادارے "شنکار" میں خواتین کے لباس پر قرآنی آیات لکھ کر توہین کی گئی، اسی طرح سویڈن کے اخبارات میں رسول اکرم حضرت محمد مصطفٰی ۖکی توہین پر مبنی کارٹون شائع کئے گئے۔ مغرب کے مادہ پرستوں نے اس پر بس نہیں کی بلکہ اسلام اور اسلامی مقدسات کے خلاف فلمیں تک بنائیں۔ ان فلموں میں "فتنہ" اور "برات از مسلمیں" کا نام خصوصی طور پر لیا جاسکتا ہے۔ اسلامی مقدسات کے خلاف اس شدید حملے کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ ان توہین آمیز اقدامات کے ذریعے نہ صرف اسلامی مقدسات کی توہین کرتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو ان مقدسات کے حوالے سے بے حس اور غیر جانبدار کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ان کے اندر دینی غیرت اور حمیت ختم ہوجائے اور وہ اسلام مخالف سامراجی طاقتوں کے خلاف کسی قسم کا خطرہ نہ بن سکیں۔ وہ ان اقدامات کے ذریعے اسلام کی طرف غیر مسلموں کی بڑھتی ہوئی توجہ کو بھی کم کرنا چاہتے ہیں۔

مسلمانوں نے ان مذموم اور انسان دشمن اقدامات پر ہرگز خاموشی اختیار نہ کی اور مظاہروں، تنقیدوں اور احتجاجوں کے ذریعے اپنے  احساسات و جذبات کا اظہار کیا۔ مسلمانوں نے دنیا کی مختلف عدالتوں میں ان جرائم کے خلاف مقدمات بھی دائر کئے، لیکن ان عدالتوں نے آزادی اظہار کے نام پر ان مقدمات کو کسی طرح کی اہمیت دینے سے انکار کیا اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ امریکی وزیر خارجہ نے  "برات از مسلمیں" نامی فلم پر مسلمانوں کے شدید اجتجاج پر یہاں تک کہا تھا کہ امریکہ مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ سے اپنے شہریوں کو اپنے خیالات کے اظہار سے نہیں روک سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی اظہار کا عالمی کنونشن اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی آزادی اظہار کے نام پر ادیان اور مذاہب کی توہین کو جائز نہیں سمجھتے۔

ایک ایسے عالم میں جب مغرب اسلام کی توہین اور اسکے مقدسات کی اہانت کو آزادی بیان کے نام پر قبول کرتا ہے جبکہ دوسری طرف بعض مسائل منجملہ ہولوکاسٹ کے بارے میں کسی طرح کی علمی تحقیق کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ ہولوکاسٹ ان موضوعات میں سے  ایک ہے، جسکے بارے میں غاصب اسرائیل سمیت سولہ ملکوں میں سخت پابندیاں ہیں اور ان ملکوں میں اسکا انکار ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ 1988ء میں فرانس کی ایک عدالت نے معروف فلسفی اور سیاستدان راجر گارودی کو صرف اس وجہ سے چالیس ہزار ڈالر کا جرمانہ کیا تھا کیونکہ انہوں نے ہولوکاسٹ کے بارے میں ایک علمی اور مدلل تنقید کی تھی۔ مغرب کے اس رویے کو دیکھ کر بآسانی کہا جاسکتا ہے کہ اہل مغرب آزادی بیان کے حوالے سے بھی دوغلے رویوں اور دوہری پالیسیوں پر گامزن ہیں۔

امام خمینی (رہ) نے رشدی کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیکر اور رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ آئی نے اس فتویٰ کو برقرار رکھ کر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اسلام میں فتویٰ کسی کی ذاتی رائے نہیں ہوتا بلکہ حکم خدا کا اعلان ہوتا ہے اور حکم خدا کسی سیاسی اور وقتی مصلحتوں کے تابع نہیں ہوتا۔ عالم اسلام کے دیگر جید علماء بھی آج اسلام کو درپیش چیلنجوں کو سامنے رکھ کر اگر حکم خدا کا اعلان کریں تو اسلام اور مسلمین کو کئی مشکلات سے  باہرنکالا جاسکتا ہے۔ آج خودکش حملوں، بے گناہوں کی گردنیں کاٹ کر، مزارات، مساجد، امامبارگاہوں کو مسمار کرکے، اصحاب رسول کی قبروں کی توہین کرکے نیز تکفیریت کے ذریعہ اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کیا جا رہا ہے، اگر اس مسئلے پر عالم اسلام کے تمام مفتی اور فقہا بیک آواز ہوکر اسلامی فتوے کی روشنی میں اپنے موقف کا اظہار کریں تو اسلام کو درپیش اس عالمی سازش کو باسانی ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ ملعون سلمان رشدی نے اسلام اور پیغمبر (رہ) کی توہین کی تھی جبکہ موجودہ تکفیری گروہ اسلام اور پیغمبر (رہ) کی  مقدس تعلیمات کی توہین کر رہا ہے، اسکی سزا بھی ملعون سلمان رشدی سے کم نہیں ہونا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 351717
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

thanks for remembering this impotant day and FATWA
بھت اچھا، "اللہ کرے زور قلم اور زیادہ"
ہماری پیشکش