0
Sunday 13 Jul 2014 22:41
آل سعود اور آل یہود میں کوئی فرق نہیں

غزہ میں جاری انسانی المیے پر خاموشی اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے، صاحبزادہ حامد رضا

غزہ میں جاری انسانی المیے پر خاموشی اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے، صاحبزادہ حامد رضا
صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین ہیں، آپ سنی اتحاد کونسل کے بانی چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم کے فرزند ہیں۔ ابتدائی تعلیم پاکستان میں اور اعلٰی تعلیم انگلینڈ میں حاصل کی۔ صاحبزادہ فضل کریم کی وفات کے بعد انہیں قائم مقام چیئرمین منتخب کیا گیا، تاہم بعد ازاں مجلس شوریٰ کے فیصلے کے بعد انہیں باقاعدہ چیئرمین سنی اتحاد کونسل بنا دیا گیا۔ تاحال سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کے منصب فائز ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں، تکفیریت، دہشتگردی کیخلاف شروع سے ہی ایک واضح موقف رکھتے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ ملکر فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے عوامی سطح پر متحرک ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے انقلاب کا نعرہ بلند کیا تو آپ نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ اسلام ٹائمز نے ملکی سیاست، داعش کی سرگرمیاں اور غزہ کی صورتحال پر تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: طالبان کے خلاف جو آپریشن ہو رہا ہے آپ اس سے کتنے فیصد مطمئن ہیں اور یہ بتائیں کہ حکمران اس پر راضی تھے یا مجبوراً اُنھیں اس پر راضی ہونا پڑا۔؟

صاحبزادہ حامد رضا: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ افواج پاکستان نے اس آپریشن کا جو فیصلہ کیا ہے یہ بالکل بڑا احسن فیصلہ ہے، یہ پوری قوم کا فیصلہ تھا اور جب تک یہ آپریشن جاری ہے ہم اس سے بالکل مطمئن ہیں اور انشاءاللہ پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہے، ہم کامل یقین رکھتے ہیں کہ انشاءاللہ یہ آپریشن بڑی تیزی کے ساتھ اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے اور مکمل ہوگا اور دہشت گردی کے ناسور سے جان چھڑانے کے لئے یہ آپریشن اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ شمالی وزیرستان طالبان کی کمین گاہ بنا ہوا تھا، یہاں سے انفراسٹرکچر تباہ ہونے کے بعد اُن کی طاقت پر ایک گہری ضرب لگے گی، جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے تو اتنا کہوں گا کہ ہماری اس بارے میں کوئی
دو رائے نہیں ہیں کہ حکومت اس فیصلے پر آن بورڈ نہیں تھی اور وہ آپریشن کرنا نہیں چاہتی تھی، حکومت خود طالبان کی سپورٹ کے ساتھ اقتدار میں آئی، اس لئے حیلے بہانے سے مذاکرات کا عمل چلایا گیا، جس کا مقصد طالبان کو مضبوط بنانا تھا۔ سب نے دیکھا کہ جب فوج نے آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا تو حکومت نے مجبوراً اس فیصلے کو قبول کیا۔

اسلام ٹائمز: شمالی وزیرستان کے علاوہ بھی دہشتگردوں کی کمین گاہیں ہیں، جیسے جھنگ، ڈیرہ اسماعیل خان اور جنوبی پنجاب ہے، کیا ان علاقوں میں بھی فوجی کارروائی ہونی چاہئے۔؟

صاحبزادہ حامد رضا: جی بالکل! یہ ابتدائی مرحلہ ہے، اُن کی کمین گاہیں نہ صرف پنجاب بلکہ صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان میں بھی ہیں اور مختلف جگہوں پر بھی ہیں، شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کے بعد ان تک رسائی بھی آسان ہوگی اور یہ آپ سمجھ لیں کہ ایک سرجری کی گئی ہے، آج جس طرح وزیرستان میں آپریشن کیا گیا ہے اسی طرح ہمارا یہ مطالبہ بھی ہے اور یقیناً اس مشکل فیصلے کے بعد اور پاکستانی افواج کی شہادتوں کے بعد اور اُن کا انفراسٹرکچر تباہ کرنے کے بعد پنجاب اور پورے ملک میں جہاں بھی ان کی کمین گاہیں موجود ہیں، وہاں پر کریک ڈاون کیا جائے اور دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: یہ جو سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا ہے یہ کس چیز کی غمازی کرتا ہے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاون کرکے آپریشن ضرب غضب کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے، مجھے تو غصہ بھی آتا ہے، حیرانی اور پریشانی بھی ہوتی ہے اور کبھی میرا ہنسنے کو دل بھی کرتا ہے کہ جب حکومتی نمائندے ٹی وی پر بیٹھ کر یہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ یعنی طاہر القادری، سنی اتحاد، مجلس وحدت مسلمین یا مسلم لیگ قاف یہ وہ لوگ ہیں جو آپریشن کو سبوتاژ کرنا چاہ رہے ہیں، دراصل سبوتاژ تو خود حکمران کرنا چاہ رہے ہیں۔ چار سال پہلے ہمارے قائد فضل کریم کی زندگی
میں سوات آپریشن کو سنی اتحاد کونسل نے سپورٹ کیا تھا۔ جب صوفی محمد سرعام پورے پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کو للکار رہا تھا تو وہ پارلیمنٹ کے اندر واحد آواز تھی جو طالبان کے خلاف اُٹھی بھی اور بولی بھی اور اُن کو جام شہادت بھی نوش کرنا پڑا۔ بہت سے لوگ جن کے فتویٰ جات موجود ہیں آج تک دہشت گردی کے حوالے سے، جن کا موقف غیرمتزلزل ہے، اُن کے بارے میں یہ کہنا کہ ضرب غضب کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہوگا۔

حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کرکے دراصل پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ جو طالبان مخالف قوتیں ہیں، اگر آپ باز نہ آئے تو ہم آہنی ہاتھوں سے آپ سے نمٹیں گے، یہ یقیناً ایک پری پلان منصوبہ تھا، جوڈیشل کمیشن میں معطل وزیر قانون نے خود تسلیم کیا ہے کہ ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں اس حوالے سے بات ہوئی، اس سے بڑھ کر توقیر شاہ نے اور سی پی او لاہور کے بیان نے شہباز شریف پارٹی کا سارا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یقیناً اُن کو علم تھا اور ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات موجود ہیں کہ باقاعدہ وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلٰی پنجاب ماڈل واقعہ کے حوالے سے آن بورڈ تھے۔ انہوں نے رانا ثناء اللہ کو یقین دہانی کرائی کہ ہم آپ کو تحفظ دیں گے، یہ بالکل فل پلاننگ منصوبہ تھا، اس واقعہ سے طالبان مخالف قوتوں کو سبق سکھانے کی کوشش کی گئی۔ دہشت اور بربریت کا جو کھیل کھیلا گیا پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایسی مثال ہمیں کسی آمریت کے دور میں بھی نہیں ملتی۔ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں شہداء کو اور یقیناً ان شہیدوں میں ہمارے بھائی تھے، ہمارے بزرگ تھے، جو ہماری بہنیں تھیں اور ہماری جو بیٹیاں تھیں، اُن کا خون یقیناً رنگ لائے گا۔

اسلام ٹائمز: یہ بتائیں یہ جو حکومت مخالف گرینڈ الائنس بن رہا تھا، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فی الحال اس اتحاد کو ملتوی
کردیا گیا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: لندن میں چوہدری برادران اور طاہر القادری کی ملاقات ہوئی اور وہاں پر ان کی الائنس بنانے کے حوالے سے بات ہوئی، اس حوالے سے ان کا سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین اور دیگر جماعت سے رابطہ ہوا، لیکن سانحہ ماڈل ٹاون کی وجہ سے یہ معاملہ موخر کیا گیا، اس حوالے سے اے پی سی بھی ہوئی، جس میں تمام جماعتوں کا موقف کھل کر سامنے آیا، اے پی سی میں سوائے دو تین جماعتوں کے تمام جماعتیں شریک ہوئیں اور شاندار موقف سامنے آیا۔ یہ معاملہ اب دوبارہ شروع ہوگا اور غیر جمہوری حکومت کو بتائیں گے کہ وہ کس طرح چلتی ہے۔

اسلام ٹائمز: تحفظ پاکستان بل منظور ہوا، اس پر کیا کہیں گے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: ہنستے ہوئے، جیسے لوگ ویسا بل، یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، جو کبھی انصاف کی بات کرتے ہیں اور ملک کی تقدیر بدلنے کی بات کرتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنے عمل سے ان تمام دعووں کی نفی کی ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کو پامال کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بل انسانی حقوق کو پامال کریگا اور بنانے کا مقصد بھی یہی نظر آتا ہے۔ حکومت اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کسی کو بھی گرفتار کرسکے گی، اس بل کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عراق کی صورتحال آپ کے سامنے ہیں کئی مزارات منہدم کر دیئے گئے اور خلافت کا اعلان بھی کیا گیا ہے، سینکڑوں لوگوں کو بے گناہ قتل کر دیا گیا ہے۔ اس پر کیا کہتے ہیں۔؟

صاحبزادہ حامد رضا: دیکھیں کہ بغدادی صاحب نے یہ جو اقدام اُٹھایا ہے، ہم اس کو کسی طور پر بھی سپورٹ نہیں کرسکتے، خلافت قتل و غارت سے نافذ نہیں ہوتی، اگر آپ خلافت کا اسٹرکچر دیکھیں کہ لوگ اس شخص پر متفق ہوں، جو اخلاقیات کے اعلٰی مناسب پر فائز ہو، اس میں تمام وہ چیزیں ہونی چاہیں جو ایک خلیفہ کیلئے ضروری ہوتی ہیں، لیکن ابو بکر بغدادی
کو دیکھ لیں، یہ کوئی خلافت نہیں ہے، داعش القاعدہ کی نئی شکل ہے، کیونکہ دنیا میں اب القاعدہ کا نام بہت گس پٹ گیا تھا اور فنکشنل بھی نہیں رہی تھی، اب اس طریقہ سے ایک نئی القاعدہ لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو غیر مسلموں کی تو دور کی بات مسلمانوں کے عقیدہ اور نظریے کا احترام نہیں کرتی۔ آپ دیکھ لیں کہ یہ لوگ مسلمانوں کے مقدسات کا احترام نہیں کرتے، مزارات کو شہید کیا گیا ہے، جو شخص اتنی عظیم ہستیوں کے مزارات کو شہید کرنے کی بات کرے اور اُن پر اپنا پالیسی بیان دے، آپ اسے کیسے خلیفہ کہہ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس ساری صورتِحال میں سعودی عرب کا کردار آپ کہاں دیکھ رہے ہیں۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: سعودی عرب حسب سابق، حسب روایت اور حسب منشاء مسلمانوں کی تباہی اور بربادری میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آل سعود اور اسرائیل کے حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں جو ایک ہی ایجنڈے پر ہیں، ان کے خیال میں انھوں نے شام کی ساری طاقت کو منتشر کر دیا ہے، وحشیانہ قتل عام کیا گیا ہے، یہ چاہتے ہیں کہ اپنی مرضی کا ایک اسلام لے آیا جائے، ایسا اسلام جہاں پر عوام کو تو سزائیں دی جاسکیں لیکن ان پر وہ اسلام نافذ نہ ہوسکے، عام آدمی کو کوڑے پڑتے رہیں لیکن یہ ہر چیز سے آزاد ہیں، یہ لوگ کھلے عام شراب نوشی کرتے ہیں، ان کے ہاں تمام خرافات کی اجازت ہے۔ ان کے لندن میں گھروں میں جاکر دیکھیں تو انداز ہوگا کہ یہ کس طرح کی زندگی گذار رہے ہیں، لگژری زندگیاں گزار رہے ہیں، نائٹ کلب میں جاتے ہیں، ان پر شریعت نافذ نہیں ہوتی، لیکن عام آدمی کا ہاتھ تک کاٹ دیتے ہیں اور سر تک اتار دیتے ہیں۔ ان کا پروٹوکول دیکھ لیں کہ حرم شریف کے اعتکاف کے لئے بھی ان کی لائنوں کا انتخاب علیحدہ ہے۔ خدا کا وہ گھر جہاں پر ہر امیر سے غریب تک ایک شہنشاہ سے لے کر ایک حقیر انسان تک وہ سب برابر ہو کر خدا کے ہاں سر بسجود ہوتے
ہیں تو یہ وہاں پر بھی اپنے آپ کو شہنشاہ سمجھتے ہیں، آل سعود کا حقیقی اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

اسلام ٹائمز: غزہ کی صورتحال پر کیا کہیں گے۔؟
صاحبزادہ حامد رضا: عالمی دہشتگرد اسرائیل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، غزہ عصر حاضر کی کربلا ہے، جس میں خاموشی اختیار کرنا اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے، پورے معاملے پر اسلامی ممالک کی خاموشی نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ حکمران عوام کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتے، یہ یہود و ہنود کے غلام ہیں، اس معاملے پر ایران کا کردار تاریخی ہے۔ ہم سجھتے ہیں کہ پاکستان اور ایران کو ملکر اس جنگ کو رکوانے کیلئے اپنا بھرپور اور مشترکہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے کوئی کردار ادا نہ کیا تو ہم اللہ کے حضور سوائے شرمندگی کہ کوئی جواب نہیں دے سکیں گے۔

اسلام ٹائمز: یوم القدس کے حوالے سے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟

صاحبزادہ حامد رضا: تمام مسلمانوں کو متحد ہوکر قبلہ اول کو آزاد کرانے کی کوشش کرنی چاپیے۔ ہم جو مختلف فرقوں میں بٹ گئے ہیں، ہم میں اختلافات موجود ہیں، جو موجود رہیں گے اور ان کو رہنا بھی چاہیے۔ معاشرے میں ان اختلافات کا بہت اہم رول ہے۔ لیکن ان اختلافات کی بنیاد پر قتل عام شروع کر دیں تو اس پر اسلام کی کوئی اجازت نہیں، ہمیں اپنے جزوی اختلافات سے بالا تر ہوکر یہود اور ہنود کے خلاف اکٹھی جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم سے قیامت کے دن یہ سوال بھی پوچھا جائے گا کہ آپ نے اپنی عملی زندگی میں اسلام کیلئے کیا کیا۔؟ اللہ تعالٰی کی طرف سے پوچھا جائے گا کہ قبلہ اول کو یہودیوں کے چنگل سے آزاد کرانے کیلئے تم نے کیا ہے۔ شام کے حالات، عراق کے حالات اور اسی طرح پاکستان کے حالات ہمارے سامنے ہیں، دشمن چاہتا ہے کہ مسلم ممالک میں ہمیشہ بدامنی رہے اور یہی چیز اسرائیل کے فائدے میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 398419
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش