1
1
Tuesday 29 Jul 2014 15:05
ناجائز و غاصب نسل پرست صہیونی ریاست

اسرائیل کے قیام میں امریکہ کا کردار (2)

اسرائیل کے قیام میں امریکہ کا کردار (2)
تحریر: عرفان علی

اسی خفیہ صہیونی سوسائٹی کے بارے میں نیویارک ٹائمز کے سابق منیجنگ ایڈیٹر پیٹر گروز جو خود صہیونیوں کے ہی ہمدرد ہیں، نے اپنی کتاب اور کئی آرٹیکلز میں اس سوسائٹی کے بارے میں لکھا۔ سارہ شمٹ کا آرٹیکل جو امریکن جیوش ہسٹاریکل کوارٹرلی میں شایع ہوا، اس کے مطابق کلچرل پلورل ازم کی تھیوری پیش کرنے والے امریکا کے سوشل فلسفی ہوریس ایم کیلن نے ہارورڈ پروفیسر اور ادب کے مورخ بیریٹ وینڈل اور ہارورڈ پروفیسر ولیم جیمز سے متاثر ہو کر 1903ء میں صہیونت اختیار کرلی تھی، کیونکہ ان کی نظر میں 20ویں صدی کے امریکا میں یہودیوں کی مذہبی شناخت یا روایات ہم آہنگ نہیں تھیں، اس لئے انہوں نے سیکولر شناخت میں پناہ ڈھونڈی۔ (حالانکہ صہیونیت محض سیکولر نہیں بلکہ نسل پرستانہ شناخت تھی)۔ وینڈل کو امریکی بانیان قوم کے نظریہ عدل اجتماعی (سماجی انصاف) کو عبرانی روح کے مطابق سمجھا۔ ولیم جیمز نے اپنی تھیوری کی بنیاد پر یہودیوں کی ماڈل ڈیموکریسی اور امریکا کے نظریئے میں ہم آہنگی دیکھی۔

پیروشم کے بارے میں تصور یہ تھا کہ یہ زیر زمین خفیہ گوریلا فورس ہے جو خاموش اور نامعلوم طریقوں سے حالات اور واقعات کے ذریعے اپنے اہداف میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔ پیروشم عبرانی لفظ ہے، جس کا ترجمہ فریسی و ’’علیحدہ‘‘ کیا جاتا ہے۔ سارہ شمٹ کے مطابق برینڈائس پیروشم کا اہم اور سرکردہ رہنما ضرور تھا مگر اس کا بانی ہوریس ایم کیلن تھا۔ میڈیسن میں قائم یونیورسی آف وسکونسن میں فلسفے کے پروفیسر ہوریس کیلن نے 1913ء میں پیروشم کی داغ بیل ڈالی تھی۔ Hrrace M Kallen: Prophet of American Zionism کے پہلے باب Kellen\'s Secret Armt: The Parushim میں پروفیسر سارہ شمٹ نے لکھا کہ جب وڈرو ولسن پرنسٹن یونیورسٹی کے صدر تھے تو انہوں نے ہوریس کیلن کو وہاں انگریزی کا ٹیچر مقرر کیا تھا۔ یاد رہے وڈروولسن 1913ء سے 1921ء تک امریکی صدر رہے جبکہ 1902ء سے 1910ء تک وہ پرنسٹن یونیورسٹی کے صدر تھے۔ 1912ء میں خواتین کی صہیونی تنظیم بنانے والی ہینریٹوزولڈ بھی پیروشم کی رکن تھیں۔ فیلکس فرینکفرٹراس کی آرڈرز ایگزیکیٹو کاؤنسل کے بھی رکن تھے جو احکامات جاری کرتی تھی۔ (دی امریکن جیوش ہسٹاریکل سوسائٹی کی اسپانسرڈ 13جلدوں پر مشتمل کتاب امریکن جیوش ہسٹری، ایڈیٹر: جیفری گروک،،میں 1880-1930 Americanization of Zionism کے عنوان سے بن ہالپرن کا مقالہ )۔

مشرق وسطٰی کی تاریخ پڑھانے والے امریکی اسکالر پروفیسر جیمز ایل جیلوین کے مطابق امریکی صدر وڈروولسن کے دو قریبی صہیونی مشیروں کو بالفور اعلامیہ پسند آیا تھا۔ یہ دونوں برینڈائس اور فرینکفرٹر تھے۔ برطانیہ (UK) کو اس وقت جرمنی کے خلاف روس اور امریکا کے یہودیوں کی حمایت درکار تھی۔ روس کے انقلابیوں میں سے لیون ٹراٹسکی سمیت کئی رہنما یہودی النسل تھے۔ امریکا اور برطانیہ میں عیسائی صہیونیت بھی تھیوڈور ہرزل کی صہیونی تحریک کی حمایت میں موجود تھی اور اسی ذہنیت کے حامل افراد خاص طور پر حکومت میں موجود تھے۔ یہودیوں کی دولت پر بھی برطانوی سامراج کی نظر تھی۔ اس لئے بالفور اعلامیہ پیش کیا گیا۔ (The Israel-Palestine Conflict---One Hundred Years of War)۔

معروف امریکی صحافی ڈونالڈ نیف نے کئی سال تک ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل میں ٹائم میگزین کے بیوروچیف کی حیثیت سے کام کیا۔ انہوں نے اپنی کتاب فالن پلرز میں لکھا کہ برینڈائس نے برطانوی صہیونیوں اور صدر ولسن کے درمیان کنڈیوٹ (conduit) کا کردار ادا کیا۔ 1916ء میں وڈروولسن نے اسے جج بنا دیا تھا۔ دباؤ کے پیش نظر اس نے صہیونی تنظیموں سے استعفٰی دے دیا تھا لیکن پس پردہ اس نے سارے کام جاری رکھے۔ روزانہ کی بنیادوں پر اپنے چیمبر میں صہیونیوں سے رپورٹس لے کر انہیں احکامات جاری کیا کرتا تھا۔ وڈروولسن کی اقتصادی پالیسیوں اور فیڈرل ریزرو کی تشکیل میں بھی اس نے اہم کردار ادا کیا۔ 1918ء میں جب زایونسٹ آرگنائزیشن آف امریکا کی تشکیل نو کی گئی تو برینڈائس کو اس کا اعزازی سربراہ تسلیم کیا گیا، لیکن عملی طور پر وہ اعزازی سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں صہیونی تنظیموں کے اراکین کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا، حالانکہ بعض یہودیوں نے صہیونی تحریک کو غیر ملکی، غیر امریکی، نسل پرست اور علیحدگی پسند بھی قرار دیا تھا۔

1917ء میں فرینکفرٹر نے امریکی سفیر ہنری مورجنتھن کے ہمراہ ترکی اور مصر کا دورہ کیا۔ یہ دورہ دراصل جائزہ مشن تھا۔ وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ جنگ عظیم کے دوران فلسطین میں یہودی بستیاں قائم کرنے کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے۔ اس نے امریکی صہیونی نمائندہ کی حیثیت سے پیرس میں امن کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا (ریورسائیڈ) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مائیکل اسکوٹ الیگزینڈر نے اپنی کتاب جاز ایج جیوز میں لکھا کہ تھیوڈور روزویلٹ اور اس کے بعد جو بھی لبرل امریکی صدر آئے، فرینکفرٹر، ان کے کان کی حیثیت رکھتا تھا۔ تھیوڈور روزویلٹ کا عہد صدارت 1901ء میں شروع ہوا اور 1909ء میں ختم ہوا۔ تاریخ میں ٹاپ ٹین امریکی صدر تصور کئے جانے والوں میں فرینکلن روزویلٹ، تھیوڈور روزویلٹ، وڈروولسن اور ہیری ایس ٹرومین کی صہیونیت نوازی کا تذکرہ بعض انگریزی تحریروں میں بھی موجود ہے۔ برینڈائس امریکی سپریم کورٹ کا پہلا یہودی جج تھا اور دوسرا یہودی جج بنجامن ناتھن کارڈوزو تھا۔ صدر ہربرٹ ہوور نے اسے مقرر کیا تو واشنگٹن اسٹیٹ کے سینیٹر کلیرنس ڈل نے اس تقرری کو ہربرٹ کی صداررت کا بہترین عمل قرار دیا۔ جیوش ورچوئل لائبریری کے مطابق بنجامن ناتھن امریکا میں قائم صہیونی تنظیم سے متفق تھا اور اس میں شمولیت پر بھی راضی تھا۔ ایک دور میں امریکن جیوش کمیٹی کے بورڈ کا رکن بھی رہا۔ وہ امریکی جج ہومز کے بعد جج بنایا گیا۔ ہومز فرینکفرٹر کا دوست اور عیسائی صہیونی تھا۔

کیتھلین (میک گریتھ) کرسٹیسن امریکا کی معروف سیاسی تجزیہ نگار اور مصنف ہیں۔ انہوں نے 1979ء تک 15 سال امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے لئے تجزیہ نگار کی حیثیت سے کام کیا۔ 1963ء سے 1972ء تک ویتنام کے موضوع پر ان کی توجہ رہی اور 1972ء سے 1979ء تک سی آئی اے کی ملازمت کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مشرق وسطٰی کے موضوع پر لکھتی رہیں۔ وہ اور ان کے مرحوم شوہر بل کرسٹی سن فلسطین پر قابض ناجائز و غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے نقاد تصور کئے جاتے ہیں۔ کیتھلین ایک دور میں سابق امریکی صدر ریگن کے نظریات کی حامی ری پبلکن تھیں۔ 1999ء میں انہوں نے Perceptions of Palestine: Their Influence on U.S. Middle East Policy میں لکھا کہ کنگ کرین کمیشن نے 1919ء میں صہیونی منصوبے کے بارے میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ منصوبہ حق خودارادیت کے اصولوں کی بہت بڑی نوعیت کی خلاف ورزی ہے، لیکن وڈ رو ولسن نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ اس وقت کے امریکی صدر وڈرو ولسن حق خودارادیت کے دفاع میں بہت بیان بازی کیا کرتے تھے لیکن صہیونیوں کے مفاد میں انہیں ان کی اپنی پالیسی یاد نہ رہی۔

فلسطینی نژاد امریکی ہشام ایچ احمد، کیلیوفورنیا کے سینٹ میری کالج آف کیلیفورنیا کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر ہیں، فلسطین کے علاقوں مقبوضہ یروشلم اور بیت اللحم میں بھی 1994ء سے 2006ء تک پڑھا چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب Roots of Denial: American Stand on Palestine, Self-Determination from Balfour Declaration to World War II میں لکھا کہ وڈرو ولسن کی صہیونیت نواز پالیسی ہی بعد میں آنے والی ہر امریکی حکومت نے اپنائی۔ امریکی حکومت امریکی شہریوں اور فلسطینیوں سے سچ کو چھپا کر صہیونیوں کی مدد کرتے رہے۔ باتیں لکھنے کے لئے بہت ہیں۔ مائیکل سلیمان عرب نژاد امریکی پروفیسر تھے۔ انہوں نے U.S. Policy on Palestine, from Wilson to Clinton ایڈٹ کی، اس میں بھی کئی اہل قلم کی تحریریں جمع ہیں۔ شامی نژاد خاتون پروفیسر ایلائن سی ہیگوپیئن بوسٹن میں پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے The Palestine-Israel Conflict: A Short History کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ 1916ء سے 1919ء تک وڈرو ولسن نے حق خود ارادیت کی حمایت کا اعلان کیا، لیکن فرانس اور برطانوی سامراج کی طرف سے اس کی خلاف ورز کے باوجود ان کی مخالفت نہیں کی۔ بالفور اعلامیہ سے 6 ماہ قبل برینڈائس نے لندن میں بیٹھ کر امریکی دفتر خارجہ کو صہیونیوں کے موقف پر مبنی دستاویز بھجوائی۔
 
وڈرو ولسن کے وزیر خارجہ رابرٹ لانسنگ نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کا حق خودارادیت صہیونیت سے ہم آہنگ نہیں، لیکن ولسن کی صہیونیوں سے کمٹمنٹ تھی۔ 1919ء کی پیرس پیس کانفرنس سے پہلے ہی وڈرو ولسن نے صہیونیت کی حمایت کا ذہن بنا لیا تھا، حالانکہ یروشلم میں امریکی قونصلر جنرل نے متنبہ کیا تھا کہ صہیونی مقاصد پر عمل سے خون بہے گا۔ بعد ازاں دباؤ کے تحت کنگ کرین کمیشن قائم کرکے تحقیقات کے لئے خلافت عثمانیہ بھی بھیجا گیا۔ لیکن اس کمیشن پر بھی پیشگی واضح کر دیا گیا تھا کہ بڑی طاقتوں نے فلسطین اور میسوپوٹیمیا (یعنی موجودہ عراق) کے مسئلے کی فائل بند کردی ہے۔ کنگ کرین کمیشن کے مطابق فلسطین کی آبادی کی اکثریت یہودی وطن کی مخالف تھی۔ وہ یا آزاد فلسطینی ریاست یا پھر گریٹر شام کے ساتھ اتحاد کے خواہاں تھے۔ کمیشن نے بھی شام کے ساتھ اتحاد کی تجویز دی تھی۔ جولائی 1919ء میں جمہوری طور پر سیرین نیشنل کانگریس میں لبنانی، شامی اور فلسطینی نمائندوں کی جانب سے بھی یہی مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کمیشن نے یہودیوں کی یورپ سے فلسطین نقل مکانی کو نوآبادیات (کالونی ازم) سے یا عام فہم میں سامراجیت (استعماریت) کہتے ہوئے اسے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے خلاف قرار دیا تھا۔ بالفور اعلامیہ کی طرح اس رپورٹ کو بھی کئی سالوں تک خفیہ رکھا گیا۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 402017
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
After a long break, second part of this article came but informative and researched
ہماری پیشکش