0
Saturday 11 Jan 2014 16:39

آل سعود اور اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم سے قربت کی تڑپ

آل سعود اور اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم سے قربت کی تڑپ
اسلام ٹائمز- تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق لبنان سے شائع ہونے والے روزنامے "السفیر" نے معروف تجزیہ نگار سمیر کرم کے تحریر کردہ مقالے میں لکھا ہے کہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم اپنے ناجائز وجود کے آغاز سے ہی عالم اسلام اور امت عرب کیلئے ایک بڑے خطرے کے طور پر ظاہر ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سب قبول کرتے ہیں اور حتی دو ایسے افراد نہیں ملیں گے جو اس بارے میں ایکدوسرے سے اختلاف رکھتے ہوں۔ حتی اکثر غیرمسلم اور غیرعرب افراد بھی اس موقف میں مسلمانوں کے ساتھ ہم عقیدہ نظر آتے ہیں۔ عالم اسلام اور عرب دنیا کیلئے اسرائیل کی جانب سے خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ اسرائیل روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام اور عرب دنیا کی زیادہ تر طاقت اسرائیلی اور امریکی سازشوں کے مقابلے میں استعمال ہونے کی بجائے اندرونی مسائل میں صرف ہو رہی ہے اور یقینا اس عمل میں امریکہ بنیادی کردار کا حامل رہا ہے۔ 
 
یہ ایسے حقائق ہیں جن سے انکار حتی عرب اور مسلمان حکمرانوں کیلئے بھی ممکن نہیں۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم نے موجودہ غیرمعمولی صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ گذشتہ عشرے کے دوران اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے عرب اور اسلامی دنیا میں جنم لینے والی سیاسی تبدیلیوں کے دوران زیادہ طمع اور لالچ اور زیادہ خباثت کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور ان حالات سے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں اس نکتے کو بیان کرنا ضروری ہے کہ بعض عرب حکام کی سازباز اور سازشوں نے بھی اسرائیل کو موجودہ حالات سے بہرہ برداری کرنے اور مسلمان اور عرب اقوام کی دولت کو لوٹنے اور ان کے حقوق کو پامال کرنے پر مزید جری کر دیا ہے۔ ان عرب ممالک میں سعودی عرب کا نام سب سے اوپر ہے۔ آج سعودی عرب ایک ایسے عرب ملک کا واضح نمونہ ہے جو مختلف انداز میں اسرائیل کے ساتھ سازباز کرنے اور اس کے تعاون سے مسلمانان عالم اور عرب اقوام کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہے۔ 
 
چونکہ سعودی عرب خلیج فارس کے خطے اور عرب ممالک میں گہرے اقتصادی اور سیاسی اثرورسوخ کا حامل ہے لہذا دوسرے عرب ممالک کی نیابت میں اسرائیل سے قربتیں بڑھانے اور اس کے سیاسی اہداف اور مفادات کی تکمیل کیلئے کوشاں ہے۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ آل سعود یہ دعوا کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ یہ اس کے اپنے مفادات ہیں۔ سعودی عرب اس کردار کو اپنی مرضی سے اور رضاکارانہ طور پر ادا کر رہا ہے۔ وہ تڑپ اور پیاس جو آل سعود میں اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی قربتیں حاصل کرنے کیلئے پائی جاتی ہے کسی اور ملک کے حکمرانوں میں قابل مشاہدہ نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیلی حکام آل سعود کی طرف کسی قسم کے جھکاو یا دوستی کا اظہار نہیں کرتے اور سعودی عرب کی اسرائیل سے دوستی یکطرفہ ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران سعودی انٹیلی جنس سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان کی جانب سے انجام پانے والے اقدامات نے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سازباز اور تعاون کو کافی حد تک برملا کر دیا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب صرف اسی حد تک رہنے یعنی مظلوم اقوام کے خلاف اسرائیل کے ساتھ سازباز اور تعاون کرنے پر قانع نظر نہیں آتا بلکہ اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ گویا خطے میں اسرائیل کی جگہ سنبھالنا چاہتا ہے اور گویا اسرائیل کے منحوس اور ناپاک اہداف و مقاصد کو اپنے اہداف و مقاصد میں تبدیل کر چکا ہے۔ جیسا کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ سعودی عرب آج اسرائیل کی نیابت میں شام کے اندر جنگ کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہے۔ 
 
ماضی میں صورتحال ایسی تھی کہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم بذات خود شام پر فوجی حملے کیلئے پر تولتی نظر آ رہی تھی لیکن آج اسرائیل کو اس کام کی ضرورت بالکل محسوس نہیں ہوتی۔ کیونکہ سعودی عرب اپنے تیل کی پیداوار سے حاصل ہونے والے ڈالرز کو اسرائیل کے حق میں شام کے خلاف اسلحہ خریدنے اور عرب اور اسلامی ممالک سے جنگجو اور دہشت گرد اکٹھے کرنے میں لگا رہا ہے۔ سعودی عرب کے نزدیک اسرائیل کے مفادات پہلی ترجیح کے حامل ہیں اور وہ سب سے پہلے اسرائیلی مفادات پر توجہ دیتا ہے۔ سعودی عرب کا کمال یہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران وہ اسرائیل کی جگہ عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنانہ اقدامات انجام دینے میں مشغول ہے۔ سعودی عرب شام حکومت کے خلاف ہر مجرمانہ فعل انجام دینے میں خود کو حق بجانب تصور کرتا ہے۔ سعودی عرب اس کام میں اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے اور اب اس کی پینگیں اسرائیل سے ملنا شروع ہو گئی ہیں۔ 
 
آل سعود رژیم، شام کے خلاف سازشیں کرنے میں تین سال کا عرصہ گزر جانے اور کروڑوں ڈالر کے اخراجات کے بعد بھی اپنے اور اسرائیل کے مطلوبہ منحوس اہداف و مقاصد میں سے حتی ایک مقصد بھی حاصل نہیں کر پایا اور خونخوار آل سعود رژیم کی جانب سے شروع کی گئی اس خانہ جنگی کا واحد نتیجہ نسل کشی، بیگناہ انسانوں کا قتل عام اور عرب تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہونے کے ناطے شام کی نابودی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ سعودی عرب اب شام میں انجام پانے والی ناپاک سازش کو مصر میں بھی دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ خطے میں اس کا ایک بڑا رقیب ملک بھی اندرونی کشمکش اور خانہ جنگی کا شکار ہو کر رہ جائے تاکہ اس ذریعے سے شائد شام میں کھوئی ہوئی آرزووں کو فراعین کی سرزمین مصر میں حاصل کر سکے۔ 
خبر کا کوڈ : 340016
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش