0
Friday 7 Mar 2014 08:38

سفیر انقلاب

سفیر انقلاب
تحریر: عابد حسین سیال ایڈووکیٹ

انقلابی سوچ اور نظریات کے حامل انسان ہمیشہ اپنے دور اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں جو مٹائے بھی نہیں مٹتے۔ ان کی ایک خاصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کا سفر ہمیشہ حالات کے مخالف سمت ہوا کرتا ہے۔ ان کی مثال چاند اور سورج جیسی ہوتی ہے، جو سب کو روشنی اور حرارت مہیا کرتے ہیں، یہ اور بات کہ ان کا تعلق کسی بھی رنگ یا مذہب سے ہوسکتا ہے۔ اگر ہم تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ہمیں بے تحاشہ ایسی مثالیں مل جائیں گی۔ آج ہم بھی ایسے ہی انقلابی، محبِ وطن، انسان دوست کا ذکر کر رہے ہیں جو بعد میں ارضِ پاکستان کی منظم طلبہ تنظیم امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائریشن پاکستان کے بانی ٹھہرے۔ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کا نام بھی ایسی ہی شخصیات میں آتا ہے کہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں بندگانِ خدا کی خدمت اور ان کی فکری اور نظریاتی تربیت کیلئے انتھک جدوجہد کی۔ شہید ڈاکٹر کوئی عام انسان نہیں تھے بلکہ غیر معمولی شخصیت کے حامل تھے۔ ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہونا ان کا مقدر ٹھہرا۔ اس کے بعد انہوں نے خود کو اسلام کے سانچے میں ایسا ڈھالا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی یوں تو بہت سی خصوصیات کے مالک تھے، مگر ایک بات جو ان میں تھی، وہ یہ کہ شہید ایک رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ایک محنتی کارکن بھی تھے۔ اگر کوئی ایسا شخص جو شہید سے پہلے کبھی نہ ملا ہو، اگر ان کو کارکنوں کے درمیان کام کرتا دیکھ بھی لیتا، تو تمیز کرنے سے قاصر رہتا کہ ان میں سے رہنما کون ہے اور کارکن کون؟ آج شہید کو ہم سے بچھڑے دو دہائیاں گزرنے کو ہیں، پر آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان ہی ہیں، اور یہ شعر
"میرے قاتل کو پکارو کہ زندہ ہوں میں"

شہید کی صدا بن کر ہمارے کانوں میں گونجتا ہے۔ شہید ڈاکٹر نے اپنے زمانہِ طالب علمی میں طلباء کے حقوق کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ایک طلبہ تنظیم کی بنیاد بھی ڈالی، بعد میں وہ تنظیم دیگر آرگنائزیشنز کے وجود میں آنے کا باعث بھی بنی۔ شہید ڈاکٹر سرزمیں پاکستان میں وحدت اسلامی کے علمبردار تھے۔ انہوں نے پاکستان میں وحدتِ اسلامی کے فروغ کیلئے عملی اقدامات بھی کئے۔ لاہور مینارِ پاکستان کے سائے تلے ہونے والی عظیم قرآن و سنت کانفرنس اس بات کی دلیل ہے۔

شہید ڈاکٹر پاکستان کی خود مختاری کے خواہاں تھے۔ اس دور میں بھی پاکستان بھی بڑھتے ہوئے امریکی اثرونفوذ کی شدت کے ساتھ مخالفت بھی کی، جس کے بدلے میں ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اگر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے فلاحی کاموں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پاکستان بھر میں شہید ڈاکٹر کے تاسیس کردہ فلاحی ادارے جیسے المصطفٰی اسکول سسٹم، امداد فاؤنڈیشن اور کئی ادارے جو آج بھی اپنے الگ تشخص کے ساتھ کام کر رہے ہیں، زندہ مثالیں ہیں۔ شہید ڈاکٹر غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرنے کو اپنی انقلابیت کی توہین نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنا فرضِ اول سمجھ کر انجام دیتے۔ شہید اپنی گونا گوں مصروفیات کے باوجود غریب لوگوں کے علاج معالجے کیلئے فری ڈسپنسری کو بھرپور وقت دیتے تھے۔ میں نے شہید کو عزیزوں سے یہاں تک سنا ہے کہ جب شہید ڈاکٹر کی میت ان کے گھر لائی گئی تو ایک بوڑھی خاتوں زار و قطار رو رہی تھی، ہمیں یہ احساس ہوا یہ خاتون شہید کی کوئی قریبی رشتہ دار ہے۔ جب اس خاتون سے پوچھا گیا تو وہ یہ کہہ رہی تھی کہ "یہی تو تھا جو ہماری چھپ چھپ کے مدد کیا کرتا تھا۔"

شہید اسلام دشمن قوتوں کی مخالفت میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ سرزمینِ پاکستان میں اپنی فعالیت کے سبب استعماری قوتوں کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگے۔ آخر 7 مارچ 1995ء کی صبح یتیم خانہ چوک لاہور میں ڈاکٹر محمد علی نقوی کو اس کے جانثار ساتھی آغا تقی حیدر سمیت ظلم کا نشانہ بنا دیا گیا۔ دشمن شہید کو اپنے ظلم کا نشانہ بنا کر یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اس نے شہید ڈاکٹر کو ہم سے جدا کر لیا ہے۔ اس شعر کے مصداق کہ
بدلہ نہ تیرے بعد بھی موضوعِ گفتگو
تو جا چکا ہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے

آج 19 سال گزرنے کے باوجود بھی وہ ہماری محفلوں کو گرماتے ہیں اور شہید کی وہ فکر ہماری رہنمائی کر رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 358882
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش