2
0
Sunday 15 Jun 2014 13:32

داعش کے حملے میں پنہاں مثبت پہلو

داعش کے حملے میں پنہاں مثبت پہلو
تحریر: سید اسد عباس تقوی

شام میں دہشت گردی کا بازار گرم کرنے کے بعد نام نہاد دولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام کا گروہ جسے "داعش" بھی کہا جاتا ہے عراق کی جانب گامزن ہے۔ گذشتہ دنوں اس گروہ کے مسلح دہشت گردوں نے عراق کے شمالی صوبوں نینوا اور صلاح الدین کے اہم شہروں موصل اور تکریت پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کی بنیادی وجہ موصل اور تکریت میں تعینات عراقی فورسز کی فوری اور بلا مزاحمت پسپائی تھی۔ ان علاقوں پر آسان قبضے کے بعد داعش نے بغداد، نجف اور کربلا کی جانب پیش قدمی کا اعلان کیا۔ گذشتہ دنوں ہی اس گروہ کے چند ہزار دہشت گردوں نے عراق کے شہر سامرہ پر بھی حملہ کیا، جسے عراقی فورسز نے چند گھنٹوں کی کوششوں کے بعد پسپا کر دیا۔ داعش بنیادی طور پر القاعدہ کی ایک فکری شاخ ہے۔ یہ گروہ شام میں بھی اسی نام سے برسر پیکار ہے۔ شام کے شمالی علاقوں دیر الزور، رقہ میں داعش کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ اردن کو بھی اس تنظیم کا محفوظ ٹھکانہ تصور کیا جاتا ہے بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق تو اردن ہی اس گروہ کا تربیتی مرکز ہے، جہا ں مغربی ادارے داعش کی تربیت میں پیش پیش ہیں۔ شام میں لڑنے والے داعش یمن، ترکی، لیبیا، تیونس، عراق، اردن، شام، لبنان، مصر، صومالیہ، الجزائر، بحرین، سعودیہ، قطر، عرب امارات، افغانستان، چیچنیا، پاکستان کے علاوہ مغربی ممالک سے آئے ہوئے جنگجوؤں پر مشتمل ہیں۔

یہ گروہ پورے عالم اسلام میں خلافت کے قیام کا داعی ہے اور اس کے لیے جہاد و قتال کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ داعش کی حکمت عملی کو جہاد کے بجائے دہشت گردی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ یہ گروہ جہاں بھی گیا شریعت کے نفاذ کا آغاز گردن زدنی سے کیا۔ اس گروہ نے شام میں کئی ایک بے گناہ لوگوں کو سرعام ذبح کیا۔ آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں جبکہ موت کی سزا کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دے کر اس کے خاتمے کی باتیں ہو رہی ہیں، یہ گروہ سرعام انسانوں کو ذبح کرکے جو خوف اور دہشت پیدا کرنا چاہ رہا ہے اس عمل کو کوئی بھی ذی شعور اور مخلص مسلمان جہاد کا عنوان نہیں دے سکتا۔ نہ فقط یہ کہ لوگوں کو سرعام ذبح کیا جاتا ہے بلکہ اس واقعہ کی تصاویر اور ویڈیوز نشر کرکے دوسروں تک بھی اپنی بربریت کا پیغام نشر کیا جاتا ہے۔ یہ ویڈیوز انٹرنیٹ پر عام ہیں۔ بہت سے مغربی میڈیا چینلز ان ویڈیوز کو یہ کہ کر کہ کمزور دل افراد نہ دیکھیں، سینکڑوں بار نشر کرتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس فعل کے پیچھے قدامت پسند مسلمان اور اسلامی شریعت کے احکام ہیں۔ ویڈیو کو بار بار دکھانے کے بہت سے فوائد ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں بڑھتے ہوئے اسلام کے رسوخ کو کم کیا جائے۔ علاوہ ازیں ان ویڈیوز کے ذریعے عالمی سطح پر سرگرم مغربی افواج کی حمایت کے لیے ذہن سازی بھی کی جاتی ہے۔ عوام کو بتایا جاتا ہے کہ ہماری افواج ان درندوں کو انہی کے علاقوں میں نیست و نابود کر رہی ہیں، تاکہ وہ ہماری پرامن بستیوں کا رخ نہ کرسکیں۔

داعش اس وقت ابو بکر بغدادی کی سربراہی میں سرگرم عمل ہیں۔ ابوبکر بغدادی 2003ء سے 2009ء تک امریکہ کے زیر حراست رہا، بعد ازاں اسے رہا کر دیا گیا۔ ایک سابق داعش جنگجو کے مطابق اس گروہ کو ابو بکر بغدادی کی سربراہی میں منظم کرنے میں عراق کی بعثی افواج کے دو سابق افسران کا بہت اہم کردار ہے۔ ایک خبر کے مطابق سابق صدر صدام حسین کے مخصوص فوجی دستے جو "فدائیان صدام" کے نام سے جانے جاتے تھے، بھی داعش میں شامل ہیں۔ اس جنگجو کے مطابق ہمارے گروہ کو ہمسایہ عرب ریاستوں سے فنڈنگ ہوتی ہے، علاوہ ازیں ہماری آمدن کا ایک بڑا حصہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں سے اکٹھا ہوتا ہے۔ بہت سے عرب سیٹلائیٹ چینل بالواسطہ طور پر ان کی حمایت میں پروگرام نشر کرتے رہتے ہیں، جس میں انتہائی جذباتی کالز نشر کی جاتی ہیں۔ اسی طرح کی ایک نشریات میں نے بھی دیکھی، جس میں دکھایا جا رہا تھا کہ عراق میں سنی مسلمانوں پر شیعہ حکومت کی جانب سے کس قدر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ ایک شخص پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ ہماری عزتیں سلامت نہیں ہیں، ہمارے علماء کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ کال کرنے والا رو رو کر فریاد کر رہا تھا کہ اے مسلمانو! ہماری مدد کو آو۔ ہمارے مجاہدین کی مدد کرو۔ ہمیں روافض سے نجات دلاؤ۔

لہذا اس سلسلے کو ہم دو یا تین سالوں کا شاخصانہ قرار نہیں دے سکتے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس منصوبہ بندی کے مقاصد متعدد ہیں۔ ایک مقصد جو حالات و واقعات سے عیاں ہے، یہ ہے کہ خطے کی اہم ریاستوں منجملہ عراق، ایران، شام، لبنان کو غیر مستحکم کیا جائے۔ اس مقصد کا ذیلی ہدف یا ذریعہ پورے عالم اسلام میں فرقہ وارانہ تقسیم کو فروغ دینا ہے، تاکہ دو اہم مسلم مسالک کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کیا جائے۔ داعش دونوں حوالوں سے بہترین ٹول ہے۔ مغرب کی جانب سے اس گروہ کی مخالفت بے مقصد نہیں کی جاتی۔ اس مخالفت کے فوائد کی دوجہتیں ہیں۔ ایک جانب تو مغرب اور اس کے اتحادیوں کا یہ تاثر برقرار رہتا ہے کہ وہ القاعدہ اور شدت پسندی کے مخالف ہیں جبکہ دوسری جانب اس ٹول کو مزید موثر بنانے کے لیے مسلکی سطح پر ہمدردیاں حاصل ہوتی ہیں۔

عراق کی حالیہ پیش رفت کو شام میں جاری دہشت گردی سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، تاہم عراق کی صورتحال کئی حوالوں سے شام سے بہت مختلف ہے۔ عراق میں طاقت کے کئی مراکز ہیں، جو خوش قسمتی سے اس وقت مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ وہاں ایک منتخب حکومت گذشتہ کئی سالوں سے قائم ہے، یہ حکومت عراق کے دفاع کے لیے مستعدد ہے، تاہم عراق میں طاقت کا دوسرا بڑا اور اہم مرکز نظام مرجعیت ہے۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی اس مرکزک ی ایک اہم شخصیت ہیں، گذشتہ جمعہ سید علی سیستانی نے جہاد کا فتویٰ صادر کرکے اس مرکز کے فعال اور متحرک ہونے کا مظاہرہ کیا۔ لاکھوں نوجوان، علماء اور اساتذہ فوجی مراکز کی جانب دوڑ پڑے۔ اس مرکز میں سید مقتدیٰ الصدر کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے۔ سید مقتدیٰ الصدر عراق کے طاقتور عسکری گروہ جیش المہدی کے سربراہ ہیں۔ اس گروہ نے کربلا، نجف اور بغداد میں استعاری قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ سید مقتدیٰ الصدر بھی اس وقت میدان عمل میں اتر چکے ہیں، انہوں نے اگلے ہفتے اپنے پیروکاروں کو عراق کے مختلف علاقوں میں فوجی قوت کے مظاہرے کا حکم دیا ہے۔ عراق میں دینی لحاظ سے تیسری بڑی قوت سید عمار الحکیم ہیں۔ سید عمار الحکیم اس وقت باقاعدہ طور پر عسکری لباس زیب تن کرچکے ہیں، ان کے پیروکار بھی عسکری اداروں کے شانہ بشانہ ملک کے دفاع کے لیے آمادہ نظر آتے ہیں۔ ملک کی چوتھی بڑی مذہبی قوت اہلسنت علماء ہیں۔ داعش نے موصل پر قبضے کے بعد اس علاقے کے بارہ اہل سنت علماء کو بیعت نہ کرنے پر قتل کر دیا۔ بصرہ اور عراق کے مفتیان کرام نے بھی ارھابیوں سے جنگ کا فتویٰ صادر کر دیا ہے۔ اس وقت عراقی افواج ہی نہیں بلکہ عراقی علماء اور عوام سب اس فتنے کی سرکوبی کے لیے مجتمع ہیں اور اپنی مقدس سرزمین کے چپے چپے کے دفاع کے لیے میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔

عراق داعش کے لیے ایک مشکل میدان بن چکا ہے۔ داعش کے موصل اور تکریت پر قبضے کو عراقی حکومت اس وقت ایک موقع میں تبدیل کرنے کی جانب گامزن ہے۔ عراقی سکیورٹی ادارے جو نیٹو فورسز کے تربیت یافتہ نیز انہی کے انتخاب کردہ ہیں، کو ایک مرتبہ پھر ری اسٹرکچر کیا جا رہا ہے۔ اس ری اسڑکچرنگ میں عراق کے اہم ہمسائے کا کلیدی کردار ہے۔ یہی وجہ ہے داعش کے حملے کا سنتے ہی امریکی صدر اوباما کو عراق میں داعش کے خلاف لڑنے کی سوجھی اور انہوں نے اعلان کیا کہ ہم داعش کے خلاف عراق کی ہر طرح سے مدد کے لیے تیار ہیں، تاہم ماضی کے تجربات نیز شام کی صورتحال کے تناظر میں اب وقت آچکا ہے کہ خطے کے یہ اہم ممالک اپنے دفاع کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم اور حکمت عملی ترتیب دیں۔ یہ بہت بہترین وقت اور موقع ہے کہ جس میں داعش کے فتنہ کو اس خطہ سے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 392181
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

خوب تجزیہ کیا گیا ہے
United States
سلام آغا
بے شک مرجعیت عراق نے بروقت فتویٰ دے کر عراقی عوام اور ملت تشیع عراق کو بڑے نقصان سے بچا لیا ہے۔ آپ کا تجزیہ بہت اچھا ہے۔ اللہ آپ کو مزید لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور پاکستان کے شیعوں کو بھی تیار رہنے کی۔
ہماری پیشکش