24
1
Friday 9 May 2014 10:00

شیعہ تنظیموں کا پیام تا بقیۃ اللہ قیام

شیعہ تنظیموں کا پیام تا بقیۃ اللہ قیام
تحریر: عرفان علی

یہ ایک ’’ٹو دی پوائنٹ‘‘ بحث اور نتیجہ خیز مقالہ ہے۔ ہم نے گذشتہ دو مقالوں میں کچھ معروضات پیش کیں۔ درخواست ہے ان برادران سے جو اتفاق نہیں کرتے کہ وہ ان دلائل کے مقابلے میں دلائل پیش کریں۔ امام خامنہ ای کا نظریہ برادر روحانی میثم ہمدانی بیان کرچکے، اس لئے اب اس کی روشنی میں اپنی اصلاح کرلیں۔ بہتر ہوگا کہ اب علامہ اقبال کی تنظیمی حیثیت واضح ہونے کے بعد انکے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں۔ انقلاب اسلامی کے تنظیمی بزرگان کے بارے میں بھی آپ اپنی اصلاح کرلیں اور امام خمینی کو ایسا سپر مین نہ بنائیں کہ جو صرف فلموں میں ہی پایا جاتا ہے۔ ان الفاظ پر معذرت کیونکہ امام کو تنظیمی بزرگان پر اعتماد تھا، لیکن مدعی سست گواہ چست والا موقف ہمیں ان الفاظ پر مجبور کرتا ہے۔ مودبانہ عرض کہ امام امت کے ان فرزندان حقیقی کی سیرت کا مطالعہ فرمائیں، جو دنیا بھر میں تنظیمی ڈھانچوں کے ذریعے اسلامی تحریکیں چلایا کرتے تھے اور اب بھی ایسا کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک سید بزرگوار اور امام خمینی کے الفاظ میں سید اعلام علامہ عارف حسین الحسینی تھے۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نامی ایک پارٹی کے سربراہ تھے، اسی عہدے پر شہید ہوئے۔ تنظیم کی اہمیت پر ان کی گفتگو کی آڈیو، وڈیو اور تحریری متن موجود ہے۔ انکی شہادت پر امام امت کا پیغام بھی پڑھیں، امام نے ان کو امام حسین علیہ السلام کا فرزند حقیقی لکھا۔

لبنان میں امام امت کے فرزندان حقیقی امام موسٰی صدر، راغب حرب، عباس موسوی جیسی قابل فخر ہستیوں کی تنظیمی وابستگی کے بارے میں آگاہی حاصل کریں۔ لبنانی حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کی کتاب حزب اللہ، دی ان سائیڈ اسٹوری میں بھی ان بزرگان کا تنظیمی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ پڑھیں، میرے بھائی پڑھیں۔ امور زندگی میں نظم پیدا کریں۔ جماعت سے وابستہ رہیں، ان دو اقوال زریں کے بارے میں معلوم کریں کہ کیا امیر المومومنین امام المتقین نے یہ جملے نہیں کہے؟ آیت اللہ حسین فضل اللہ نے تنظیم الاخوان قائم کی۔ آیت اللہ شیخ مہدی شمس الدین بھی امام موسٰی الصدر کی پارٹی کے تنظیمی عالم دین تھے۔ بحرین کے شیعہ علمائے دین کو دیکھیں، معلوم کریں کہ جمعیت الوفاق الوطنی الاسلامیہ بحرین کے الیکشن میں سنگل لارجیسٹ پارٹی کی حیثیت سے جیت چکی۔ عراق میں دیکھیں، سید عمار الحکیم، ابراہیم جعفری، نوری المالکی کی اپنی جماعتیں ہیں، الیکشن میں حصہ لیتی ہیں۔ سید مقتدیٰ صدر کے حامیوں کی جماعت بھی عراقی پارلیمنٹ میں موجود ہے۔

تحریکیں یا نہضت تنظیمی قائدین کے ذریعے ہی چلائی جاتی ہیں۔ کفاح المسلمین فی تحریر الہند پڑھیں۔ اس کتاب کو فارسی میں امام خامنہ ای نے تالیف و ترجمہ کیا ہے۔ اس کا نام ہے "مسلمانان در نہضت آزادی ہند۔" اس میں بھی مسلمانان ہند کے تنظیمی قائدین کی سیاسی جدوجہد کا تذکرہ ہے۔ حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کی کتاب کے پہلے باب کا عنوان جادہ و منزل ہے، اسکا مطالعہ ضرور کریں، اس میں پاکستان سمیت ہر اس ملک کے شیعہ کے لئے حکمت عملی موجود ہے کہ جہاں شیعہ اصولوں کے مطابق نظام حکومت نہیں ہے۔ اس میں اسلامی ریاست کا قیام کے عنوان کے تحت ایک حکمت عملی بیان کی گئی ہے، اسے ضرور پڑھیں اور سمجھیں۔ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں: ’’ایک تخیل کی صورت میں ہم اسلامی ریاست کے قیام کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں اور دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنی ساری تمناؤں کو اسی میں مضمر سمجھیں، جبکہ عملی اظہار کے طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ اس کام کے لئے ایک موزوں بنیاد کی ضرورت ہے، جس پر ریاست کی مضبوط عمارت تعمیر ہوسکے۔ ایسی بنیاد کا مظہر وہ عوام الناس ہیں جنہیں ایسے حکمران ادارے کے انتخاب کی آزادی دی گئی ہے۔ قرآن کے الفاظ میں دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘

اپنے اس پیغام کے بارے میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ: ’’یہ ایسی اسلامی ریاست کی تشکیل کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو عوام کی آزاد مرضی و منشا پر استوار ہو۔ اس لئے ہم اپنے ایمان و عقیدے کو اپنے گردوپیش کے حالات سے مکمل طور پر ہم آہنگ پاتے ہیں۔ جب تک یہ حالات ہمارے منصوبے کی تائید نہیں کرتے (خواہ اختلاف کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں یا کسی اور وجہ سے) ہم اپنے آپ کو قابل معافی سمجھتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کہ ہم نے اپنا پیغام دے دیا ہے اور اپنے موقف کا اعلان کر دیا ہے، پھر یہ بات لوگوں پر چھوڑ دی ہے کہ وہ جس نظام کو چاہیں، اختیار کریں اور اپنے اس انتخاب کی ذمہ داری بھی قبول کریں۔‘‘ 
سورہ یونس کی آیت نمبر 10: اگر تیرے رب کی یہ مشیت ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے، پھر تو کیا لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ لبنان میں ہمارے سیاسی تجربے نے ایک ایسے لائحہ عمل کے درست ہونے کا ثبوت دے دیا ہے، جو ایک مخلوط معاشرے کے اندر اسلامی بصیرت سے ہم آہنگ ہے۔‘‘

’’لیکن عملی کامیابیوں کے لئے کچھ بنیادیں اور کچھ معروضی طریق کار کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ بات ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ ہم خدا کے دین کے لئے کوئی دانشمندانہ طریق کار اختیار کریں۔‘‘ ’’اسلام کو اختیار کرنے کا تقاضا ہے کہ اس بارے میں بصیرت حاصل کی جائے اور اس کے سیاق و سباق کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت جتنے اسلامی مکاتب فکر ہیں، وہ شریعت سے متعلق اپنے اپنے بانیوں کی تشریحات کی روشنی میں ایک رائے قائم کرتے ہیں۔ اس طرح ہماری پارٹی نے پیغمبر (ص) کی اولاد کی تشریح کی پیروی کا فیصلہ کیا ہے۔ اہل تشیع کا عمومی راستہ یہی ہے۔ وہ تعلیمات جنہیں ہماری پارٹی نے حرز جان بنایا ہوا ہے، انہی بنیادی اصولوں کا مجموعہ ہے اور یہ حزب اللہ کے لئے اسلام کی تفہیم کا ایک پس منظر ہے۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ نے دیگر اسلامی عقائد میں سے کسی ایک کا انتخاب کیوں نہیں کیا اور ان سب میں سے کوئی مشترکہ راہ کیوں نہیں تلاش کی، جو کہ تمام مسلمانوں کو متحد کرنے کے چیلنج کا جواب ہوتی۔ اس سلسلے میں ہمارا جواب یہ ہوگا کہ مختلف مکاتب فکر کو متحد کرسکنا ہماری عزیز ترین خواہش ہے۔ کاش ہم اسے پورا کرسکیں، لیکن یہ ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے، جسے سلجھانے کے لئے فقہائے کرام نے صدیوں کام کیا مگر کامیاب نہیں ہوسکے۔‘‘

اس کتاب کے دوسرے باب میں حزب اللہ یا امت اللہ کے عنوان سے لکھا گیا کہ ’’امام خمینی نے اپنے منشور میں جن مقاصد کی توثیق کی تھی، ان پر عملدرآمد کے مسئلے پر غور و فکر شروع کر دیا گیا۔ پارٹی کی لیڈرشپ کی سطح پر متعدد امور پر صلاح و مشورہ ہوا، خاص طور پر مثالی تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل، ڈائریکٹوریل فریم ورک اور قوم کے اجزاء کو یکجا کرکے اسے ایک وحدت بنانے کے لئے قابل عمل تجاویز زیر بحث آئیں۔ ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بھی ضرورت تھی کہ کیا پارٹی کا نام حزب اللہ رکھا جائے یا امت اللہ۔‘‘ ’’دوسری طرف قوم کے تصور کا انحصار ایک ایسے پلیٹ فارم پر ہوتا ہے، جو سب کو تسلیم کرتا ہو، خواہ ان کی وفاداریاں کچھ بھی ہوں اور وہ کوئی بھی کام کرتے ہوں، لیکن پروگرام پر عمل درآمد میں رکاوٹ نہ بنتے ہوں، اس کی بنیاد ایسی قیادت کی موجودگی پر استوار ہوتی ہے جو مساجد، علماء اور دیگر تنظیموں کو ہدایت جاری کرتی ہو۔ یہ ہدایات عمومی نوعیت کی ہوں، اور خاص خاص مواقع پر جاری ہوتی ہوں، جن پر قوم کان دھرتی ہو اور عمل کرتی ہو۔ تاہم لبنان جیسے متنوع معاشرے کے لئے ایسی ہدایات کوئی معنی نہیں رکھتیں، کیونکہ یہ ایک مختلف النوع عناصر پر مشتمل معاشرہ ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد بالآخر پارٹی کے لئے ایک تنظیمی فارمولا وضع کرلیا گیا۔‘‘ اسی کتاب سے مزید: ’’جس طرح ہر پارٹی یا تنظیم چند نظریات رکھتی ہے اور لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتی ہیں، حزب اللہ بھی یہی کر رہی ہے۔‘‘ ’’پارٹی کے دیگر بہت سے ارکان فرقے (شیعت) سے تعلق نہیں رکھتے، لہٰذا پارٹی کا مشترکہ میدان نظریاتی ہے نہ کہ مذہبی عقیدے سے وابستگی۔‘‘

’’بیسویں صدی کی اسلامی تحریکیں‘‘، اس عنوان کے تحت شہید بزرگوار استاد مرتضٰی مطہری نے ایک بہت ہی کارآمد بات کی ہے، اگر ہم اس کو سمجھ پائیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’ارسطو نے فلسفہ کے بارے میں یہ جملے کہے ہیں کہ اگر تم فلسفی بننا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو فلسفیانہ رنگ میں رنگو، اور اگر تم فلسفی نہیں بننا چاہتے تو بھی اپنے آپ کو فلسفی رنگ میں رنگو۔ اس کی وضاحت میں اس طرح کروں گا کہ ارسطو نے کہا کہ اگر فلسفہ صحیح ہے تو اس کی تائید کرو اور اگر غلط ہے تو اس کا انکار کرو۔‘‘ شہید عالی قدر مطہری مزید فرماتے ہیں کہ ’’وہ لوگ جو کچھ علوم کو اس طرح حاصل کرلیتے ہیں کہ انکے علوم کا فلسفیانہ غور و فکر سے کوئی باہمی رشتہ نہیں ہوتا اور فلسفہ کی نفی کرنے لگتے ہیں، تو وہ بڑی سخت غلطی میں مبتلا ہیں۔ قطعاً صحیح نہیں ہے کہ ایک آدمی جو فلسفہ اور فقہ کی ایک کتاب کے متعلق کچھ نہیں جانتا، وہ صرف کتاب کو دیکھ کر ہی اس کی تردید کر دے۔‘‘ ماضی کے بزرگ علماء کا حوالہ دے کر لکھا کہ یہ علماء عصر حاضر کے مزاج کے مطابق ہونے چاہئیں اور انہیں اس دور کے تمام احساسات سے بخوبی واقف ہونا چاہیے۔‘‘ اس کے علاوہ لکھا کہ کچھ نوجوانوں نے جو ولولہ انگیز جذبہ ایمانی رکھتے تھے، نے رائے طلب کی کہ وہ یونیورسٹی تعلیم کو فوراً ختم کرکے اسلاف کی تعلیمات سیکھنا چاہتے ہیں، لیکن شہید مطہری نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔

پاکستان میں شیعہ علماء کونسل تحریک جعفریہ کا تسلسل ہے۔ اس کی نسبت مجلس وحدت مسلمین ایک نئی شیعہ تنظیم ہے۔ طلباء کی تنظیمیں آئی ایس او اور اصغریہ ہیں۔ ان کے دستور میں نے پڑھے ہیں۔ یہ سب نظام امامت و ولایت کے قائل اور متعہد افراد ہیں۔ کوئی ثابت کر دے کہ یہ تنظیمیں غرب زدہ ہیں۔ دنیا بھر کی جن شیعہ تنظیموں کی میں نے بات کی یہ التقاط کی قائل نہیں۔ امت اسلام ناب ایک ہی نصب العین پر یقین رکھتی ہے۔ مداح اہلبیت حاج محمود کریمی کے الفاظ میں عشق یعنی یہ کلام، تا بقیہ اللہ قیام، عشق یعنی یہ پیام، پا بہ پای فرزند امام۔ ہمارا نعرہ مرگ بر ضد ولایت فقیہ۔
(دوستوں سے معذرت کہ اب اس موضوع پر اسلام ٹائمز کے ان پیجز پر بات نہیں ہوگی۔ دوست چاہتے ہیں کہ پاکستان کی شیعہ تنظیمی سیاست پر لکھوں تو اسلام ٹائمز کی انتظامیہ کو راضی کرلیں۔ اگر اب بھی ہمارے بعض برادران کو شیعہ تنظیمی سیاست پر اعتراض ہے تو وہ مجھے براہ راست ایمیل کر دیں، انشاءاللہ اس فورم پر بات ہوگی)
خبر کا کوڈ : 380689
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Salam. Islam Times ki intizamia zaroor Irfan Ali sb se kahain keh wo iss topic pe likhaen.
Z B Najafi
سلام
ملت کے اجتماعی مفاد میں اس عنوان پر عرفان صاحب کو لکھنے کی اجازت دی جائے۔ فاضل کالم نگار سے گذارش ہے کہ پاکستان کی تنظیمی سیاست پر کم سے کم ایک مقالہ ضرور لکھیں، کیونکہ علامہ عارف حسینی بھی تنظیمی عالم دین تھے، ان کا نظریہ برائے تنظیم اور تنظیمی ڈھانچہ بھی آج کے شیعہ نوجوان کو معلوم ہو، تاکہ تنظیم کے مخالفین کی بدنیتی سب پرواضح ہوسکے۔
ثاقب
سلام
نام تو میرا بھی حسن عسکری ہی ہے، لیکن میں تنظیم کی اہمیت کا قائل ہوں، اس سے مفر ممکن نہیں۔ اجتماعی اور سیاسی امور میں اور شیعہ حقوق کی جدوجہد میں شیعہ تنظیموں کا حسینی کردار ہر پاکستانی پر واضح ہے۔ میں اس برادر حسن عسکری سے درخواست کروں گا جنہوں نے تنظیم کی حیثیت کو ضد اسلام ثابت کرنے میں وقت ضایع کیا کہ وہ اپنی غلطی کی معافی مانگیں۔ ورنہ ملت کو یہ نتیجہ قائم کرنے کا حق ہے کہ حسن عسکری صاحب نے عالم اسلام کے انقلابی علماء کی دانستہ توہین کی ہے۔
خوبصورت تحریر
محترم عرفان علی صاحب۔
ظفر جعفری
Pakistan
جناب عالی
برادر محترم عرفان علی کی اس پر مغز تحریر پر جو اعتراضات سامنے آئے ہیں، ان پر مزید جواب دینے کی ضرورت ہے، ورنہ ملت منقسم ہی رہے گی۔ ان کے پچھلے مقالے پر رائے دینے والے برادر نے شہید باقر الصدر کے بارے میں بھی بات کی۔ اس لئے ابھی مزید بات کی گنجائش ہے۔ اسلام ٹائمز کے مسئولین کی خدمت میں فارسی میں عرض تورو خدا آقا، لطف کنید، اجازہ بدہید، خدا اجر میدہ۔ تورو خدا۔
رضا
Pakistan
آداب
برادران کی اس موضوعاتی بحث سے بہت سے نکات سامنے آئے ہیں۔ اسلام ٹائمز کی ٹیم مناسب سمجھے تو عرفان بھائی کو اس عنوان پر عراق، بحرین، پاکستان کی شیعہ تنظیمی سیاست پر مزید کچھ تحریریں لکھنے کی اجازت دے۔ میں ذاتی طور پر ممنون رہوں گا۔
آصف
سلام
امام و امت نامی نظریہ کے موجد کا اصلی ادعاء یہ ہے کہ سب تنظیمیں امت کی صورت میں تبدیل ہوجا‏ئیں اور انکو اس امت (یعنی سب تنظیمیں) کا امام مان لیا جائے۔ اصل بات یہ ہے۔ لہذا نہ اپنا وقت ضائع کریں نہ دوسروں کا۔
Pakistan
سلام
سارے دوستوں نے پچھلی بحث پر جو رائے دی، اس میں اکثریت اس موضوع پر مزید پڑھنا چاہتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ اس بحث کو اس کے منطقی انجام تک پہنچنے دیا جائے۔ یعنی عرفان علی مزید لکھیں۔
التماس دعا۔
حامد
Pakistan
برادر حسن عسکری صاحب
حزب اللہ لبنان کے بارے میں یہ تفصیلات حزب اللہ کی اپنی بیان کردہ ہیں۔ ان کا منشور بھی موجود ہے، اسے بھی پڑھ لیں، دنیا میں شیعہ سیاسی تنظیمیں اسی طرح کام کرتی ہیں، یعنی تنظیمی ڈھانچے کے ذریعے اور امام خامنہ ای کو غیبت امام زمانہ میں نائب امام معصوم اور امام امت سمجھتی ہیں، اپنے ملک میں نیا امام امت پیدا نہیں کرتیں بلکہ جو امام امت ہوتا ہے، اسے تسلیم کرتی ہیں۔ امید ہے کہ اس جملے میں جو اہم پیغام چھپا ہے اسے سمجھ لیں گے اور تنظیم کی حیثیت کی آڑ میں تنظیم کو سامری کا بچھڑا ثابت کرنے کے بجائے اجتماعی زندگی میں نظم کے لیے تنظیم کی ناگزیریت کے قائل ہوگئے ہوں گے۔
Pakistan
تنظیم یعنی یہ پیام پا بہ پای فرزند امام
مرگ بر ضد ولایت فقیہ
جیو عرفان بھائی جیو۔
اللہ سلامت رکھے، آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
بلاشبہ تنظیمیں ہی اس منتشر قوم میں کسی حد تک امت کے تصور کو فروغ دے رہی ہیں۔ تفرقہ کون پھیلا رہا ہے، یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ شکریہ۔
یوسف
Pakistan
اصغریہ کو کوئی وجود ہی باقی نہیں رہا اور جے ایس او جیسی ملک گیر تنظیم کو شاید موصوف تنظیمی بغض و حسد میں بھول گئے۔
صد افسوس
Pakistan
Salam. JSO ke dost ki narazgi baja hay. Mushkil yeh thee bhai keh ap dosto ka dastoor mae nahi parh paya. Agar website ho tau batadain. ya kisi dost ko keh dain mujh tak pohnchaday. guzarish yeh hay keh Asgharia Sindh kay dehi ilaqo mae he rahi. mulk gir tanzeem nahi, isliyay shayad apko unka kaam nazar nahi aya. umeed hay keh maazarat qubool farmaen ga aur aenda sooay zan ki jaga husn-e-zan ki bunyad par faisla karain ga agar ap tanzeemi haen tau yeh article ap he ki himayat mae likha hay.
Pakistan
بہت خوب عرفان بھائی
مدلل تحریر ہے آپ کی، جاری رکھیں. خدا آپ کو سلامت رکھے
احسن عباس مہشدی
Iran, Islamic Republic of
بہت اچھا لکھا عرفان بھائی
اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔
ہمارا نعرہ مرگ بر ضد ولایت فقیہ۔
حسن
Pakistan
پیارے بھائی ہم سب امام و امت کے قائل ہیں اور جس نئے مکتب پر اعتراض ہے وہ یہ کہ وہ اس عنوان پر لفاظی کرکے جنجال پیدا کر ریا ہے۔ یہ وقت ضایع نہیں ہو رہا، مہربانی فرماکر آپ ایسی رائے دے کر ہمارا وقت ضایع نہ کریں۔ آپ اپنا قیمتی وقت دیگر کاموں میں خرچ کریں۔
قوسین
Pakistan
جے ایس او سمیت جن تنظیموں کا نام نہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ انکے دستور بندہ پڑھ نہیں پایا۔ اگر یہ دوست بہتر سمجھیں تو مجھ تک پہنچا دیں۔ جے ایس او کے دوست شیعہ علماء کونسل کے ترجمان برادر حیدر نقوی کے ذریعے مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ جب پاکستان کی شیعہ تنظیموں کی تاریخ پر بات ہوگی، تب ان کا بھی ذکر آئے گا، انشاء اللہ۔ جے ایس او کے افراد میری معذرت کو قبول فرمالیں۔
یہاں انگریزی میں بھی لکھی ہے۔
عرفان
United States
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: كُلُ‏ رَايَةٍ تُرْفَعُ قَبْلَ قِيَامِ الْقَائِمِ فَصَاحِبُهَا طَاغُوتٌ يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ.الكافي ج‏8 ؛ ص295
Pakistan
امام حسین علیہ السلام کا قول شریف بہشتی، مطہری، جواد باھنر، باقرالصدر، باقر الحکیم، راغب حرب، عباس موسوی جیسے عظیم فرزندان عظیم کو بھی یاد تھا لیکن حزب موتلفہ اسلامی، حزب جمہوری اسلامی، حزب الدعوی، حزب اللہ، بناکر، یا ان میں شمولیت اختیار کرکے حسینی تحریک چلانے کو انہوں نے درست سمجھا، امام خامنہ ای اور دیگر مراجعین کیجانب سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں شیعوں کو تنظیمیں بناکر سیاسی و اجتماعی کام کرنے کی اجازت حاصل ہے۔ مرگ بر ضد ولایت فقیہ۔
Pakistan
عرفان بھائی خود ماتمی تنظیم کے بانی ہیں۔ ماتمی انجمن بھی شیعہ تنظیموں میں شامل ہیں۔ عزاداری کے جلوسوں کی دیکھ بھال اور جشن ولادت و مجالس عزا در ایام شھادت معصومین وغیرہ کے لئے بھی عزاداری کی تنظیموں کی ضرورت ہوتی ہے۔ التماس دعا۔
صابر
برادر عرفان نے صحیح فرمایا کہ امام نے تنظیمی بزرگان پر اعتماد کیا لیکن کیا تنظیم پر بهی اعتماد کیا؟ اس کو آبائی دین کے تعصب کی عینک اتار کے دیکها جائے۔
دوسرا یہ کہ مختلف انقلابی و غیر انقلابی بزرگان کے تنظیم بنانے سے امام و رہبر و اسلام و انقلاب کے نظریے پر فرق نہیں پڑتا۔ یہ بات بالکل ایسے ہی ہے جیسے بعض لوگ جو اپنے آپکو امام خمینی کے پیروکار کا دعویٰ کرتے ہیں، انکو جب کہا جاتا ہے انقلابی اصولوں پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ تو کہتے ہیں ہمارے پاس دیگر بزرگان بهی تو ہیں نا، انکا کیا کریں۔
پس ہمیں اپنے آباء کی چند چیزوں کو قربان کرنا پڑے گا۔
United States
JAFFRIA STUDENTS ORGNIZATION PAKISTAN
JSO PAK bi ek studnt org hy Shia jamat hy bhai jan ASO sirf sindh tk hy but JSO pory pak mn pory wajod k sath mojod hy,ap writr hn,ap ko nzr andaz nhn krna chahiay tha
Pakistan
سلام
برادر چیزیں مکس نہ کریں۔ امام خمینی اور اب امام خامنہ ای معیار ہیں میرے لئے۔ جو وہ کہیں اس پر سر تسلیم خم، اطاعت امام بلا چون و چرا، یہ میرا نظریہ ہے۔ لیکن یہاں جو بحث ہے وہ یہ ہے کہ تنظیم شرعاً بن سکتی ہیں یا نہیں، میرا خیال ہے حزب جمہوری اسلامی سمیت کئی تنظیمیں ہیں جو یاران امام کی تھیں۔ خود شہید مطہری بھی تنظیمی عالم تھے۔ ان سب نے امام کی نہضت میں ساتھ دیا۔ بہتر ہوگا کہ آپ اپنا ایمیل لکھیں اور ہم اس فورم پر بات کریں۔ ملاقات میں بھی حرج نہیں۔ امام نے تنظیمی علماء کو منع نہیں کیا کہ تنظیم بند کردو۔ اور حزب جمہوری اسلامی بنانے کی امام سے اجازت لی گئی تھی۔
میں ایک عام مثال دیتا ہوں کہ ہم پاکستانی ہیں، لیکن ہم کراچی والے، سندھ والے بھی ہیں کیونکہ یہ شہر اور صوبے کے نام ہیں۔ تحریک سے پہلے فکری بنیاد مضبوط کرنے کے لئے تنظیم ناگزیر ہوتی ہے۔ اگر فدائیان اسلام نہ ہوتی تو آیت اللہ کاشانی کی مدد کون کرتا۔ شاہ ایران کے دور میں آیت اللہ کاشانی نے الیکشن لڑا اور اسلام کا دفاع کیا۔ کیا امام نے مخالفت کی، امام فدائیان اسلام کا خفیہ طور پر ساتھ دیتے تھے۔ لہذا تنظیم جو امامت و ولایت کے نظام پر ایمان رکھتی ہے وہ جائز ہے۔
صحیفہ امام کی ۲۲ جلدوں میں بتا دیں کہاں تنظیم کی مخالفت ہے؟ امام نے تو یاسر عرفات اور ابو جہاد سے بھی نہیں کہا کہ تنظیم آزادی فلسطین غلط نام ہے، اس سے غرب زدگی کی بو آتی ہے۔ حزب جمہوری اسلامی کی تحلیل کے لیے بھی امام خامنہ ای اور ہاشمی رفسنجانی نے مشترکہ خط لکھ کر امام سے اجازت مانگی کہ اب ہدف مکمل ہوگیا، تحلیل کرنے کی اجازت دیں، تب اجازت سے تحلیل ہوئی۔ بنائی گئی امام کی اجازت سے تحلیل ہوئی امام کی اجازت سے۔ آپ چاہتے ہیں کہ یہ موضوع آگے چلے تو اس ویب سایٹ کی نظارت سے اجازت لے کر دیں۔ انشاءاللہ ہم ابہامات دور کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
التماس دعا۔
آپ کا بھائی
عرفان علی
Pakistan
ماشاءاللہ بہت مدلل جواب دیا ہے، ہم اسلام ٹائمز کی انتظامیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ اگر قصہ چھیڑا ہی ہے تو اسے منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں۔
واسلام
علی حیدر
اسلام ٹائمز کی اتنظامیہ اب اپنا فیصلہ سنائیں، کیا آپ نہیں چاہتے کہ امت اسلام ناب محمدی امام خمینی اور امام خامنہ ای کے نظریہ برائے تنظیم سے آگاہی حاصل کریں۔ آپ عرفان علی صاحب کو اجازت دیں کہ اس عنوان پر نہضت امام خمینی کے دور پر کچھ لکھیں، پاکستان کی شیعہ تنظیموں نے مفتی جعفر سے اب تک جو کردار ادا کیا اس پر لکھیں۔ کم ازکم امام خمینی کے دور کی تنظیموں پر ضرور لکھنے کی اجازت دیں، پلیز، پلیز، پلیز، ممنونتم آْقا جون
ہماری پیشکش