0
Sunday 17 Aug 2014 17:24

شام میں داعش کیخلاف سنی قبائل شعیطات کی بغاوت

شام میں داعش کیخلاف سنی قبائل شعیطات کی بغاوت
رپورٹ: ایس این حسینی

تکفیری جہاں کہیں بھی سر اٹھاتے ہیں، خود انکی سفاک پالیسیاں انکے زوال کا باعث بن جاتی ہیں۔ شروع میں وہ لوگوں کو سبز باغ دکھا کر یا ڈرا دھمکا کر اپنی حمایت پر مجبور کردیتے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ ان سے ایسی پالیسیاں سرزد ہو جاتی ہیں کہ عوام الناس کے لئے اپنی عزت کا سوال پیدا ہوکر وہ خود ہی ان نئے امریکی اسلام لانے والوں کے خلاف اٹھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال آج کل شام اور عراق کی بھی ہے، دونوں ممالک میں آج کل ایک دوسرے کے خون کے پیاسے قبائل اور مسالک کے لوگ بھی داعش کے خلاف متحد نظر آ رہے ہیں۔ داعش کے ہاتھوں کئی ماہ تک زیادتیاں جھیلنے کے بعد شام کے شعیطات قبائل نے بالآخر مزاحمت شروع کر دی ہے۔ داعش کی جانب سے عراق اور شام میں مختلف قبائل اور دھڑوں کے ساتھ قائم کئے گئے اتحاد ٹوٹنے کی ابتداء ہو چکی ہے نیز ان کے زیر کنٹرول مقامی آبادیوں میں اب مزاحمت کا خوف کم ہونے لگا ہے۔ یہ بات تجزیہ نگاروں اور سرگرم کارکنوں نے الشرفہ سے گفتگو کے دوران کہی۔ 

انہوں نے بتایا کہ الداعش کے مسلح اراکین اور سنی شعیطات قبیلے کے جنگجوؤں کے درمیان حالیہ جھڑپوں نے الداعش کے حلقہ اثر کو کمزور کردیا ہے اور عوام میں خوف کی رکاوٹ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ داعش کی جانب سے دیر الزور کے دیہی علاقوں میں جولائی کے اواخر میں تین قبائلیوں کو گرفتار کرنے کے بعد دونوں گروپوں میں پر تشدد جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔ شعیطات قبیلے کے نزدیک یہ قدم اس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ قبیلے پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔ شامی مرکز برائے انسانی حقوق نے اس حوالے سے بتایا کہ شعیطات قبیلے کے افراد نے مقامی آبادی کی حفاظت کے بدلے ہتھیار ڈالنے اور الداعش سے لڑائی ختم کرنے پر اتفاق کیا تھا جبکہ اے ایف پی نے بتایا کہ اس کے ردعمل میں قبیلے کے بعض افراد نے ٹویٹر پر ایک مہم چلائی جس کا عنوان تھا "الداعش کے خلاف شعیطات کی مزاحمت"۔

داعش کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی:
ذرائع ابلاغ کے سرگرم کارکن اور شعیطات سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ محی الدین العکیدی، جو اپنے قبیلے کے سماجی رابطہ کاری کے صفحات پر تازہ ترین معلومات شائع کر رہے ہیں، نے کہا کہ تازہ ترین جھڑپ نئی نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے حالیہ مہینوں میں الداعش کے عناصر کی زیادتیوں اور اسکی جانب سے علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور قبائلیوں پر غلبہ حاصل کرنے کی مسلسل کوششوں کے باعث تناؤ پہلے ہی سے بڑھ رہا تھا۔ العکیدی نے کہا کہ الداعش اور دیر الزور کے بعض قبائل کے درمیان معاہدوں سے یہ مراد نہیں کہ انہوں نے الداعش کی بیعت کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں کے درمیان یہ محض عارضی صلح کے معاہدے ہیں جن میں یہ شرط موجود ہے کہ کوئی فریق دوسرے پر حملہ نہیں کرے گا۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ الداعش انکے قبیلے کے اراکین پر حملہ نہیں کرے گی اور اس کے بدلے یہ قبیلہ اپنے بھاری ہتھیار اس کے حوالے کر دے گا۔

شعیطات کی جانب سے مسلح بغاوت کے عوامل:
العکیدی نے کہا کہ الداعش اور شعیطات کے درمیان تناؤ میں اس وقت اضافہ ہوا جب 29 جولائی کو الداعش کے مسلح افراد نے الکشکیہ میں شادی کی ایک تقریب پر دھاوا بول کر دولہا کو اغوا کرلیا۔ انہوں نے بتایا کہ اگلے روز الداعش کے جنگجوؤں نے قبیلے کے بعض افراد کو گرفتار کرلیا۔ اس پر الداعش کی ایک چوکی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا اور دونوں جانب بعض افراد ہلاک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس تناؤ سے قبل الداعش کی جانب سے قبیلے کے دیہات کے معاملات میں عدم مداخلت سے متعلق معاہدوں کو توڑنے کی متعدد کوششیں کی گئی تھیں اور اسکے نتیجے میں جھڑپوں کا دائرہ وسیع ہو کر قبیلے کے دیہات اور اسکے زیر اثر علاقوں تک پہنچ گیا جن میں خاص طور پر ابو حمام، الکشکیہ اور غرانیج شامل ہیں۔

ردعمل سے الداعش کے فریب کا انکشاف:
العکیدی نے بتایا کہ الداعش کے خلاف بغاوت دیگر شہروں اور دیہات تک پھیل گئی جن میں درنج، القرعان، شنان، ابو حردوب، الطیانہ، جرزی اور دیر الزور شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الداعش نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں قبائلی اراکین کو گرفتار کرنے کی مہم شروع کی، جن میں بڑی تعداد میں وہ شہری بھی شامل تھے جنہوں نے لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اس کا مقصد قبائلی عمائدین پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ جھڑپیں بند کردیں۔ العکیدی نے مزید بتایا کہ الداعش کے خفیہ نشانہ بازوں نے قبائل کے دیہات کا محاصرہ کرلیا اور الداعش چوبیس گھنٹے ان پر گولہ باری کر رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر لڑائی جاری رہی تو اسکے نتیجے میں انسانی آفت آ سکتی ہے کیونکہ رسد کے راستے بند ہیں اور خوراک کے ذخائر بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔ قاہرہ میں رہائش پذیر شامی صحافی محمد ال عبداللہ نے کہا کہ شعیطات قبیلے کے ساتھ الداعش کی لڑائی سے اسے شام اور عراق دونوں میں نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ الداعش کا قبیلے کے اراکین سے اہانت آمیز سلوک اور قبائل کی حالیہ ہلاکتوں کے نتیجے میں دیگر قبائل اور گروپ الداعش کے ساتھ اپنے اتحاد پر نظر ثانی کریں گے۔ ال عبداللہ نے الشرفہ سے گفتگو میں کہا کہ سنی فرقے کے شعیطات قبیلے کے ساتھ جھڑپوں نے الداعش کے تمام دعووں کی قلعی کھول دی ہے کہ وہ خوارج اور مرتد مسلمانوں کے خلاف لڑ رہی ہے، جو کہ وہ عام طور پر مسلمانوں کو قتل کرنے کا جواب پیش کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 405258
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش