0
Friday 12 Sep 2014 00:05

پاک فوج کے سربراہ کے عملی اقدامات، تنقیدیوں پر خاموش جواب

پاک فوج کے سربراہ کے عملی اقدامات، تنقیدیوں پر خاموش جواب
رپورٹ: ایس این حسینی

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے یوم دفاع اور یوم فضائیہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کے اگلے محاذ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب میں شریک جوانوں کیساتھ مناکر پارلیمنٹ کو ایک خاموش پیغام دیا ہے، جہاں ایک ہفتہ سے جاری اجلاس کے ذریعے فوج اور اس کی قیادت کو تنقید اور الزامات کے طوفانی جھکڑوں کا سامنا ہے، پارلیمنٹ کا اجلاس جو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں سے پیدا شدہ سیاسی بحران پر بلایا گیا تھا مگر عمومی تقریروں بالخصوص وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کے قریبی حلیف اور مشاورتی ٹیم کا اہم حصہ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے توپوں کا رخ پنڈی اور آبپارہ کی طرف کردیا، تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ سب فوج اور آئی ایس آئی کا دھرا ہے، ہمیں توقع تھی کہ پارلیمنٹ سے گونجنے والی اس سوچ کا جواب آئے گا، مگر شاید ایسا کیا جانا بحران کو مزید سنگین اور ناقابل حل پوزیشن پر لے جاسکتا تھا۔

اسی لئے اب تک جو اب نہیں آیا، تاہم ایک خاموش جواب آگیا ہے اور وہ خاموش جواب یہ ہے کہ آپ اپنی ''ادائیں'' جاری رکھیں، ہم اپنی راہ سے بھٹکیں گے نہیں، یہ خاموش جواب سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے اپنی عملی مصروفیات سے دیا ہے، نسٹ میں پی ایم اے کے کانووکیشن میں شرکت ہو یا ملتان کور جاکر افسروں اور جوانوں کی میدان جنگ کے ماحول میں فوجی تربیت کا مشاہدہ، پھر 6 ستمبر کو یوم دفاع شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں سے برسرپیکار سپاہیوں کیساتھ منانا، اور اس کے بعد سیلاب ذدگان کے درمیان پہنچنا، پیغام واضح ہے کہ ریاست پاکستان کو درپیش اصل چیلنج دہشتگردی کی جنگ اور اب قدرتی آفت ہے، ہماری توجہ تقسیم نہ کرو، ہمیں ملک و قوم کے اصل محاذ پر مکمل یکسوئی سے لڑنے دو، پوری قوم میں اتفاق کی ضرورت ہے، آپ کا کام اس نازک لمحے میں اتفاق پیدا کرنا ہے، نفاق زہر قاتل ہوگا۔

ایسی الزام تراشی جس کا کوئی سر ہے نہ پیر، ناکامی اپنی اور الزام دوسروں پر، الزام بھی ایسا سنگین جس سے ادارے لرز اٹھیں، آمنے سامنے کھڑے ہوجائیں۔ ہمیں احساس ہے اپنی ذمہ داری کا، جسے ہم نبھارہے ہیں اور نبھاتے رہیں گے، ہمارے پاس بہت کام ہے، دشمن سرحدوں پر بھی ہیں اور ملک کے اندر بھی، قدرتی آفات کی آزمائش میں بھی پورا اترنے کا عزم ناقابل تسخیر ہے، مگر جو کچھ پارلیمنٹ کے ایوانوں میں کہا گیا، جو کچھ کہاجا رہا ہے، وہ برداشت کیا جا رہا ہے مگرکب تک۔ یقیناً یہ صورتحال ہمارے لیے پریشان کن بھی ہے، تشویشناک بھی۔ بے چینی بھی بہت ہے کہ ایسا کیوں اور کس لیے، لیکن سوچ حاوی ہے کہ ٹکراؤ نہیں، کسی صورت نہیں۔ مگریہ سوچ دوسری طرف بھی ضروری ہے، بے حد ضروری ہے۔ خاموش پیغام سن لیں اور سمجھ لیں۔
خبر کا کوڈ : 409254
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش