0
Thursday 12 Dec 2013 22:55

امریکی کانگریس اسرائیلی غلام (1)

امریکی کانگریس اسرائیلی غلام (1)
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)

Sheldon Adelson جو کہ امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کے بہت بڑے ڈونر ہونے کے ساتھ ساتھ pro-Israel political action committees کے Fund Raiser بھی ہیں، امریکہ میں نیو یارک سٹی میں Yeshivaیونیورسٹی میں 22 اکتوبر 2013ء کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ کو چاہئیے کہ وہ ایران پر ایک ایٹم بم پھینک کر ایران کے ایٹمی پروگرام کو نیست ونابود کر دے۔ دوسری طرف برطانوی پارلیمنٹ کے ایک سابقہ رکن اور لیبر پارٹی کے رہنما Jack Straw کا کہنا ہے کہ اسرائیلی لابی امریکی کانگریس کو پورے طریقے سے کنٹرول کرتی ہے، جس کی واضح مثال امریکہ میں صیہونیوں کی تنظیم AIPAC کا لامحدود انداز میں کام کرنا اور اس گروہ کی فنڈنگ کے باعث امریکی کانگریس کے فیصلوں کا رخ موڑنا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

Dr.James Petras کا کہنا ہے کہ یہ وقت ہے کہ امریکی کانگریس میں صیہونیوں کے اثر و نفوذ کے خلاف قیام کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ صیہونیوں کی جانب سے امریکی کانگریس پر اثر انداز ہونے کے معاملات کو منظر عام پر لایا جائے، کیونکہ امریکہ میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکی عوام کی رائے سے بننے والا صدر اور اس کے دیگر اراکین کانگریس امریکی مفادات کے لئے نہیں بلکہ اسرائیلی جنگ کو لڑتے ہیں۔ اب جبکہ حال ہی میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پاجانے والے معاہدے کے بعد یہ بات تو بڑی واضح ہوچکی ہے کہ امریکہ اس بات پر مجبور ہوچکا ہے کہ ایران کو ایک طاقت تسلیم کرے، اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکہ ہرگز ہرگز ایران کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع نہ کرتا بلکہ امریکہ میں موجود صیہونیوں کے پیسے پر پلنے والے صیہونی ایجنٹ کانگریسی ممبران کی رائے کے مطابق ایران پر حملہ کر دیتا۔ جیسا کہ درج بالا سطور میں ہم نے مطالعہ کیا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے صیہونی غاصب ریاست اسرائیل ہی واحد ایسی حکومت ہے جس نے دنیا کے مختلف ممالک پر بم گرائے، اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی اور دوسرے ممالک بالخصوص افریقا میں اور مشرق وسطٰی کی سرزمینوں پر غاصبانہ تسلط قائم کیا، اس عنوان سے اگر ہم چند ممالک کی مثال پیش کریں تو فلسطین، لبنان، شام، سوڈان، مصر، اردن اور یمن جیسے ممالک شامل ہیں اور اگر اس سے بڑھ کر ہم اسرائیلی خفیہ دہشت گردانہ کاروائیوں کا سلسلہ بیان کریں تو ایک بہت طویل فہرست موجود ہے جس میں خود امریکہ، یورپ اور ایشیائی ممالک بھی اسرائیلی دہشت گردی اور دخل اندازی کا نشانہ بنے ہیں۔

اسرائیلی ہٹ دھرمی کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ اپنے ناجائز قیام کے روز اول سے ہی اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت کو بے پناہ بڑھانے کی کوشش کی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ایٹمی ہتھیاروں سے متعقلق مشاہدہ کاروں کو آج تک اپنے ایٹمی ری ایکٹر تک رسائی نہیں دی ہے، جبکہ خفیہ رپورٹس کے مطابق اسرائیل دنیا کا واحد ایسا علاقہ ہے کہ جس کے پاس دو سو ایٹم بم موجود ہیں جبکہ حال ہی میں شائع ہونے والی متعدد رپورٹس کے مطابق ان ایٹم بموں کی تعداد چار سو ہوچکی ہے۔ اسرائیل نے ہمیشہ بین الاقوامی قوانین کو پائمال کیا ہے، لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ اسرائیل کو ان بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر عدالت کے کٹہرے پر لائے، اسرائیل پر کبھی اس کے ظلم و ستم کے رویوں اور فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے خطرناک مظالم اور دیگر خلاف ورزیوں کے بدلے میں کسی قسم کی معاشی پابندی کا اعلان نہیں کیا گیا، کیونکہ امریکہ اور امریکی کانگریس اسرائیل کی سب سے بڑی اتحادی ہے اور اس کا ثبوت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی جانب سے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت میں ویٹو کا استعمال کرنا ہے۔

امریکی خفیہ ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نہ صرف اپنے لئے کیمیائی ہتھیاروں کو بنا رہا ہے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں ان خطرناک اور مہلک ہتھیاروں کو خفیہ طریقوں سے اسمگل بھی کر رہا ہے، اور دنیا کے دیگر خطوں میں یہ مہلک ہتھیار پہنچانے میں امریکہ اور فرانس صیہونیوں کے سب سے بڑے حامی اور مددگار ہیں۔ اسرائیل کے پاس تباہی پھیلانے والے بڑے پیمانے پر کیمیائی اور بیالوجیکل اور ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور اسرائیل نے تاحال این پی ٹی نامی بین الاقوامی معاہدے پر دستخط نہیں کئے اور اقوام متحدہ کے مشاہدہ کاروں کو اجازت نہیں دی ہے کہ وہ اس کے ہتھیاروں کا معائنہ کرسکیں۔ صیہونیوں کی امریکہ میں موجود ایک تنظیم ZPC(Zionist power configuration) کے دبائو میں امریکہ نے ہمیشہ اسرائیلی ہتھیاروں کی روک تھام کے لئے ہونے والی کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے اور اس تنظیم کے دبائو میں ہمیشہ اسرائیل کو بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی سپلائی جاری رکھی ہے۔

اس طرح امریکی افواج کی جانب سے اسرائیل کو ٹیکنالوجی کی مد میں دی جانے والی امداد گذشتہ نصف صدی میں ایک سو بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ سنہ1973ء میں اسرائیل کو عربوں کے مقابلے میں شکست سے نکلوانے میں امریکی سفارت کاری اور امریکی افواج کا بڑا کردار رہا۔ اسرائیل نے امریکہ کے ایک بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی کو سنہ1967ء میں سمندر میں نشانہ بنا ڈالا تھا، تاہم امریکہ نے اپنے ہی فوجیوں اور شہریوں کے قتل پر اسرائیل کے جرائم پر نہ تو کوئی احتجاج کیا اور نہ ہی اسرائیل سے اس کا انتقام لیا، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے باوجود امریکہ نے نہ تو سفارتی سطح پر کوئی آواز بلند کی بلکہ اپنے شہریوں کے قتل پر خاموشی اختیار کرلی، جس پر صیہونی انتظامیہ نے امریکہ کا شکریہ ادا کیا۔ حیرت کی بات ہے کہ امریکہ نے اپنے ہی شہریوں کے قتل پر خاموشی اختیار کی اور اسرائیل جو آج بھی اپنے پڑوسی ممالک میں دہشتگردانہ کارروائیاں انجام دے رہا ہے اس سب کا ذمہ دار دراصل امریکہ ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 329857
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش