0
Saturday 28 Jun 2014 01:10

بین الاقوامی دہشتگردی کا ازسرنو ظہور اور امریکہ کی پراسرار خاموشی

بین الاقوامی دہشتگردی کا ازسرنو ظہور اور امریکہ کی پراسرار خاموشی
تقریبا 6 ماہ قبل عراق کے مغربی حصے اور شام کے مشرقی حصے میں ابوبکر البغدادی نامی شخص کی سرکردگی میں ایک نئے مذہبی شدت پسند گروہ نے جنم لیا جس کا نام "دولہ الاسلامیہ فی العراق و الشام" یا "داعش" یا آئی ایس آئی ایس یا آئی ایس آئی ایل بتایا گیا۔ ابتدائی طور پر اس گروہ میں 6 ہزار دہشت گرد شامل تھے۔ اس نئے دہشت گرد گروہ کے معرض وجود میں آنے کے بعد بعض حلقے اس خوش بینی اور خوش خیالی کا شکار ہو گئے کہ امریکی حکومت حتما اس خطرناک دہشت گرد گروہ کے مقابلے کیلئے موثر اقدامات انجام دے گا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ نے نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پرچم اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے لہذٰا ہر شخص کے ذہن میں منطقی طور پر یہ تصور جنم لیتا ہے کہ اگر ایک ایسا نیا دہشت گروہ معرض وجود میں آتا ہے جس کا نشانہ کئی ممالک ہوں اور اس کی سرگرمیاں بین الاقوامی سطح تک پہنچ چکی ہوں تو امریکی حکومت حتماً اس کے خلاف سیاسی، سکیورٹی یا حتی فوجی اقدام کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔

امریکہ 11 ستمبر 2001ء میں رونما ہونے والے حوادث کے بعد سے اب تک عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے 1000 ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کر چکا ہے جس کا مقصد خطے کو دہشت گرد گروہوں اور دہشت گردانہ سرگرمیوں سے پاک کرنا تھا لیکن اب 13 سال گزر جانے کے بعد القاعدہ اور طالبان جیسا ایک نیا مذہبی شدت پسند گروہ ابھر کر سامنے آیا ہے جس کی فعالیت کا محور شام اور عراق کے سرحدی علاقے ہیں۔ اس دہشت گرد گروہ نے امریکہ کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا ہے کیونکہ اس کا ہدف اور موقف شام اور عراق میں ایک شدت پسند مذہبی ریاست کی تشکیل ہے اور اس کا انداز اور روش القاعدہ سے کہیں زیادہ خطرناک اور غیر انسانی ہے۔ درحقیقت اس قسم کے دہشت گرد گروہ کی پیدائش ہر چیز سے ہٹ کر امریکہ کو منہ چڑانے والی بات ہے اور ایک ایسی حکومت کو للکارنے کے مترادف ہے جو دنیا میں سپر پاور ہونے اور عالمی سطح پر دنیا بھر کے مسائل کا ٹھیکہ دار ہونے کی دعویدار ہے۔ ایسی صورتحال میں توقع یہ کی جا رہی تھی کہ امریکی حکومت اپنی حیثیت اور مقام کی حفاظت اور دفاع کی خاطر 6 ماہ قبل داعش کے ظہور کے وقت ہی میدان عمل میں کود پڑتی اور عالمی امن کیلئے خطرے کے طور پر ظاہر ہونے والے اس دہشت گرد گروہ کے نحس وجود کا خاتمہ کر دیتی چاہے یہ عمل شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کیلئے فائدہ مند ہی ثابت کیوں نہ ہوتا۔

لیکن امریکہ کی جانب سے انتہائی پراسرار خاموشی اور آنکھیں موند لینے کے باعث یہ دہشت گرد گروہ جو "داعش" کے نام سے پہچانا جاتا ہے روز بروز سرطانی غدے کی طرح بڑھتا چلا گیا اور اس نے اپنی افرادی قوت، فوجی طاقت، لاجسٹک سپورٹ اور مالی طاقت میں بے پناہ اضافے کے بعد دو ہفتے قبل عراق کے شمالی صوبے نینوا کے دارالحکومت موصل پر دھاوا بول کر اپنے قبضے میں لے لیا۔ البتہ داعش کی اس کامیابی میں صوبہ نینوا کے گورنر اور وہاں موجود عراقی فوجی کمانڈرز کی غداری نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ آئی ایس آئی ایس یا داعش نے موصل شہر کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد اردگرد کے علاقوں جیسے صوبہ صلاح الدین، کرکوک اور صوبہ الانبار کی جانب بھی پیش قدمی کی کوشش کی جو عراق آرمی، سکیورٹی فورسز اور عوامی فورس کی بھرپور مزاحمت کے باعث زیادہ کامیابی کا شکار نہ ہو سکی۔ عراق کے شمالی علاقوں پر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی جارحیت نے نہ صرف عراق کی قومی سلامتی اور ملکی سالمیت کو انتہائی سنجیدہ خطرات سے روبرو کر دیا ہے بلکہ خطے میں امریکہ کی انتہائی اہم سیاسی اور فوجی کامیابی یعنی سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی سرنگونی کے بعد عراق میں جمہوری نظام کے نفاذ کو بھی شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

البتہ ملک پر شدت پسند اور متحجر دہشت گرد عناصر کے قابض ہو جانے کے خطرے نے عراق کے تمام گروہوں اور شخصیات کو ان کے مقابلے میں متحد کر دیا ہے۔ عراق کے تمام سیاسی گروہوں اور محب وطن سیاسی شخصیات نے تکفیری دہشت گرد عناصر سے مقابلے کیلئے ایک مشترکہ محاذ تشکیل دے دیا ہے لیکن اس تحریر میں ہمارا موضوع عراق کی موجودہ صورتحال پر امریکہ کی جانب سے انتہائی پراسرار اور مشکوک پالیسی اتخاذ کرنا ہے۔ اس موقع پر اصلی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے گذشتہ 6 ماہ کے دوران مندرجہ ذیل اقدامات انجام دینے کی بھرپور صلاحیت رکھنے کے باوجود کیوں خاموشی اختیار کی اور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا؟

1. داعش کے اہم ترین نظریاتی، مالی اور لاجسٹک حامی ہونے کے ناطے سعودی عرب پر سیاسی دباو ڈال کر اسے اس حمایت سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنا۔

2. شام کی مشرقی سرحدوں اور عراق کی مغربی سرحدوں کی جانب سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو ارسال کئے جانے والے فوجی سازوسامان اور اسلحہ اور تکفیری دہشت گردوں کی صورت میں انسانی قوت کو روکنا۔

3. داعش جیسے خطرناک دہشت گرد تکفیری گروہ کے خلاف میڈیا مہم چلانا۔
4. تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو کمزور یا نابود کرنے کیلئے اہم سکیورٹی اور انٹیلی جنس اقدامات انجام دینا۔

5. تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خاتمے کیلئے راست فوجی اقدام انجام دیتے ہوئے اپنی فوجی قوت کو حرکت میں لانا تاکہ عالمی برادری کو اس خطرناک دہشت گروہ کے خطرات سے محفوظ بنایا جا سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ واشنگٹن نے مندرجہ بالا اقدامات میں سے کوئی اقدام بھی انجام نہیں دیا جبکہ ان دنوں دنیا بھر میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی جانب سے عالمی دہشت گردی کے خطرے کا چرچا ہر شخص کی زبان پر ہے۔ لہذا اس بنیادی سوال کا جواب دینے کیلئے کہ آخر امریکہ نے داعش جیسے خطرناک دہشت گرد گروہ کے بارے میں کیوں چپ سادھ رکھی ہے مندرجہ ذیل نکات پر غور ضروری ہے:

1. سعودی عرب عراق میں کامیاب پارلیمانی انتخابات کے انعقاد اور ان انتخابات میں عراقی عوام کی جانب سے بھاری تعداد میں شرکت کے بعد شدید مایوسی کا شکار ہو چکا ہے۔ دوسری طرف شام میں بھی گذشتہ تین سال کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود سعودی عرب وہاں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے اور شام میں حال ہی میں انجام پانے والے کامیاب صدارتی انتخابات اور اس کے نتیجے میں صدر بشار اسد کی کامیابی نے سعودی عرب کو مزید خشمگین کر دیا ہے۔ لہذا اس وقت سعودی عرب یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ کسی قیمت پر عراق میں ایران کی طرز پر دینی جمہوریت کو فروغ پانے کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ اس طرح دینی جمہوریت کا وہ ماڈل جو ایران نے پیش کیا ہے خطے میں مزید پھیل سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب اصل جمہوریت کا ہی مخالف ہے جبکہ امریکہ دینی جمہوریت سے شدید متنفر ہے۔ لہذا اس وقت ریاض اور واشنگٹن دونوں ہی عراق میں موجودہ صورتحال سے راضی دکھائی نہیں دیتے جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ریاض تو عراق میں دہشت گردی کی آگ پر مزید تیل ڈالنے میں مصروف ہے جبکہ امریکہ دوسری طرف خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ دونوں عراق کے موجودہ سیاسی نظام کی نابودی کے خواہاں ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ سعودی عرب کی جانب سے عراق میں دہشت گردی کی آگ جلانے کی ایک بڑی وجہ سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی سرنگونی کے بعد عراق میں اپنا مطلوبہ سیاسی نظام برسراقتدار لانے میں اس کی ناکامی ہے۔

2. گذشتہ دس برس سے امریکہ ایک بڑے سیاسی تضاد میں گرفتار ہے۔ ایک طرف تو وہ مشرق وسطٰی میں جمہوری اور لبرل اقدار کے فروغ کا خواہاں ہے جبکہ دوسری طرف مشرق وسطٰی کے جن ممالک میں بھی جمہوریت بحال کی گئی ہے اور وہاں آزادانہ انتخابات منعقد کروائے گئے ہیں ان کے نتیجے میں ایسی حکومتیں اور سیاسی جماعتیں برسراقتدار آئی ہیں جو امریکہ کی ہمنوا نہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو یہ حکومتیں امریکہ کے روبرو کھڑی ہو جاتی ہیں اور خطے میں امریکہ کے اتحادی ممالک خاص طور پر سعودی عرب سے شدید اختلافات رکھتی ہیں۔ امریکہ گذشتہ دس برس کے دوران ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ آیا مشرق وسطی کے خام تیل پر اپنے 25 فیصد انحصار کو ترجیح دے یا خطے میں جمہوری اقدار کے فروغ کے حق میں عملی اقدامات انجام دے۔ امریکہ ان سالوں میں جب بھی اس دوراہے پر پہنچا ہے تو اس نے انسانی حقوق، جمہوریت، آزادی اور حتی امن کو اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات پر قربان کرتے ہوئے ایسی حکومتوں سے فوجی اور اقتصادی اتحاد تشکیل دیئے ہیں جو جمہوریت کی بدترین دشمن کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ ایک وقت میں طالبان جیسی رژیم کے ساتھ مذاکرات اور معاہدہ انجام دینے پر بھی راضی ہو گیا تھا۔ یہ امر افغانی سیاستدانوں خاص طور پر افغانستان کے صدر حامد کرزئی کی جانب سے شدید اعتراض سامنے آنے کا باعث بنا تھا۔

3. آج تکفیری دہشت گرد گروہ "داعش" ماضی میں القاعدہ اور طالبان کی مانند متحجر، شدت پسند اور بے رحم دین کا نمائندہ گروہ ہے۔ ایک ایسا گروہ جو عالم اسلام کے بنیادی فرقوں جیسے اہل تشیع اور اہلسنت کے نزدیک بھی نامشروع جانا جاتا ہے اور اسلامی دنیا میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ تکفیری گروہ صرف اور صرف وہابیت جیسے کریہہ اور عقل سے تہی تفکر سے ہماہنگی رکھتا ہے۔ مغربی انٹیلی جنس ایجنسیز کی نظر میں دنیا میں جس قدر اس قسم کے تکفیری گروہوں کا اسلامی گروہوں کے طور پر پرچار کیا جائے بہتر ہے کیونکہ اس کا نتیجہ عالمی رائے عامہ میں اسلام کے حقیقی چہرے کے مسخ ہونے کا باعث بنے گا اور دوسری طرف اسلام اور اسلامی حکومت کا حقیقی چہرہ جو عقل و خرد، اجتہاد اور جمہوریت پر استوار ہے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتا جائے گا۔ آج مغربی معاشروں میں دین مبین اسلام کی جانب لوگوں کا بڑھتا ہوا رجحان مغربی حکام کیلئے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ لہذٰا وہ اپنے عوام کی نظروں میں اسلام کے چہرے کو زیادہ سے زیادہ مسخ کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں اسلام سے متنفر کر کے دین حق سے دور رکھا جا سکے۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے داعش جیسے دہشت گرد گروہ کے مقابلے میں پراسرار خاموشی کی اصلی وجہ یہی ہے۔ امریکہ اور امریکی پالیسیوں پر حکمفرما سیاسی سوچ ہر گز یہ نہیں چاہتی کہ خطے میں مغربی طرز کی لبرل ڈیموکریسی سے ہٹ کر اس کے مقابلے میں کوئی اور جمہوری نظام متعارف کروایا جائے خاص طور پر جب اس جمہوری نظام کی بنیاد دین اسلام پر استوار ہو۔ گذشتہ 35 سال کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ درمیان پائے جانے والے ٹکراو اور تضاد کی حقیقی وجہ بھی یہی ہے۔ امریکہ نے اپنے اس مقصد کی تکمیل کیلئے "جعلی متبادل ماڈلنگ" کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اس پالیسی کے تحت امریکی اور مغربی پروپیگنڈہ مشینری داعش جیسے منحرف تکفیری گروہوں کو سیاسی اسلام پسند گروہوں کے طور پر پیش کر رہی ہے اور ان تکفیری دہشت گردوں کو ایسے مجاہدین کے طور پر متعارف کروایا جا رہا ہے جو ایک اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنولوجی کے میدان میں انقلاب کے باعث نہ صرف مشرق وسطی کی مسلمان عوام بلکہ دنیا بھر کے انسان بخوبی آگاہ ہیں اور وہ ان شدت پسند متحجر دہشت گردوں کو کبھی بھی سیاسی اسلام پسند قوتوں کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔

4. امریکہ ان دنوں جوہری پروگرام سے متعلق تنازعات پر ایران سے براہ راست مذاکرات کر رہا ہے۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ امریکہ خطے میں موجود حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ایران سے یہ درخواست کرے کہ مستقبل میں خطے کے نئے انتظام سے متعلق بھی اس سے بات چیت اور مذاکرات کرے۔ اس درخواست کا پہلا عملی قدم عراق کی سرزمین کو داعش کے تکفیری دہشت گرد عناصر کے منحوس وجود سے پاک کرنے میں عراق اور ایران کو بھرپور تعاون فراہم کرنا ہے۔ دنیا کے سادہ سے سادہ انسان بھی اس بات کو قبول کرنے پر تیار نظر نہیں آتے کہ سعودی عرب نے داعش کی مالی اور فوجی معاونت امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے بغیر انجام دی ہے۔ ماضی کے تجربات سے بھی ظاہر ہوتا ہے داعش جیسے شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں کو آسانی سے مطیع اور فرمانبردار نہیں بنایا جا سکتا اور اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہوتا ہے کہ ایسا دہشت گروہ اپنے ہی آقاوں کے گلے پڑ جائے۔ القاعدہ کی صورت میں اس کی واضح مثال موجود ہے۔ لہذا تکفیری دہشت گرد گروہ داعش بھی مسلسل کامیابیوں کے بعد خود امریکہ اور مغربی ممالک پر کاری ضرب لگا سکتا ہے۔ موصل میں عراق آرمی کے سب سے بڑے اسلحہ کے ذخیرے پر داعش کے قبضے نے اس خطرے کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

نتیجہ گیری:
امریکہ اور اس کے اتحادی خطے سے متعلق ایک واضح اور واحد پالیسی نہ ہونے اور اپنی پالیسیوں میں گہرے تضادات ہونے کی وجہ سے ایسے حالات کا باعث بنے ہیں جو نہ صرف خطے میں ان کی گذشتہ محنت اور نتائج کو نابود کر سکتے ہیں بلکہ خطے کے مستقبل کو بھی مزید تاریکی کی جانب لے جا سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں حاصل ہونے والی شکست سب سے پہلے امریکہ کی ہو گی۔ امریکہ خطے میں موجود دہشت گردوں کی حامی حکومتوں کی بھرپور حمایت نہیں کر سکتا اور اسی طرح ایسی حکومتوں کے ساتھ دشمنی کو جاری نہیں رکھ سکتا جو خود کو جمہوری اقدار کا پابند سمجھتی ہیں۔ امریکہ تکفیری اور وہابی عناصر کی کھلم کھلا اور مسلحانہ دہشت گردی کے مقابلے میں خاموش رہتے ہوئے انسانی حقوق کی حمایت کا دعویدار نہیں ہو سکتا۔ امریکہ کا یہ سیاسی اور نظریاتی تضاد اسے مشرق وسطی کی دلدل میں روز بروز مزید نیچے کھینچتا چلا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 395647
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش