4
0
Thursday 9 Jan 2014 23:01

نئی مذہبی تقسیم یا صبح نو کی تازہ کرن

نئی مذہبی تقسیم یا صبح نو کی تازہ کرن
تحریر: سید اسد عباس تقوی

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

جی چاہتا ہے کہ یہ شعر روزنامہ دنیا کے کالم نویس خورشید ندیم کی نظر کروں۔ ممکن ہے اس شعر میں بیان کردہ کہانی کو پڑھ کر ان کا زاویہ نگاہ بھی مقتولین کے حق میں بہتر ہوجائے۔ روزنامہ دنیا کی آٹھ جنوری 2014ء کی اشاعت میں فاضل لکھاری نے نئی مذہبی تقسیم کے عنوان سے ایک تحریر سپرد قلم کی۔ جذبہ حب الوطنی اور اسلام پسندی سے مملو یہ تحریر خورشید صاحب کے درد دل کی عکاس ہے۔ موصوف نے اپنے کالم میں 5 جنوری 2014ء کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں ہونے والی ایک کانفرنس پر اظہار خیال کیا۔ ان کی نظر میں یہ ایک ناپسندیدہ مسلکی اتحاد کی صورت ہے، جو ملک کے لیے فائدہ مند نہیں۔ موصوف نے ایک مخصوص گروہ کو فراموش کرکے بلائی جانے والی اس کانفرنس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے خود ہی ان اسباب کا بھی احاطہ کیا جو دیوبندی مسلک کی باقی مسالک سے دوری کا سبب ہیں۔ 

انھوں نے لکھا کہ:
میرے نزدیک اس کے دو اسباب ہیں۔ پاکستان کے دیوبندی علماء نے فی الجملہ دہشت گردی اور بے گناہ انسانوں کے قتل عام کی مذمت کی ہے، لیکن اس کا مصداق متعین کرنے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ اگر کبھی ایسا کرنا ناگزیر ہوا تو انھوں نے ریاست اور غیر ریاستی تشدد پسند گروہوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا بلکہ دونوں کو ایک جیسا فریق قرار دیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا تعلق دیوبندی مکتب فکر سے ہے۔ اس کے ساتھ فرقہ وارانہ تشدد میں جو لوگ ملوث سمجھے جاتے ہیں، ان کا انتساب بھی انہی کی طرف ہے۔

چونکہ بات کی ابتداء ہوچکی، لہذا اس پر اظہار خیال اب چنداں مشکل نہیں رہا۔ خورشید صاحب آپ نے مسئلے کا بہت خوب تجزیہ کیا اور آپ کے حل سے بھی مجھے اتفاق ہے کہ اگر علمائے دیوبند طالبان یا شدت پسندوں کو درست سمجھتے ہیں تو انہیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ یہ ان کی اخلاقی اور شرعی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو انھیں ہر مشکل کو عزیمت سے برداشت کرکے انجام دینا چاہیے اور اگر وہ انہیں درست نہیں سمجھتے تو انہیں متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ پھر بھی نہ مانیں تو پھر انھیں سختی سے جھٹک دینا چاہیے۔

خورشید صاحب نہایت ادب کے ساتھ عرض گزار ہوں کہ اس اجتماع کو آپ نے دو مسالک کا اجتماع قرار دیا۔ انتظامی حوالے سے تو شاید یہ مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل کا ہی اجتماع تھا، تاہم میں نے سے اس اجتماع میں ملک میں بسنے والی اقلیتوں منجملہ سکھ، ہندو اور عیسائی نمائندوں کو بھی تقاریر کرتے دیکھا۔ اس اجتماع میں مذکورہ بالا دو مسالک کے شہداء کے لواحقین کے علاوہ پاک فوج، ملک کے دیگر سکیورٹی اداروں اور پشاور چرچ کے شہداء کے لواحقین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اجتماع میں اپنائے گئے موقف سے اگرچہ اختلاف کیا جاسکتا ہے، تاہم اس اجتماع کو قطعی طور پر فرقہ وانہ یا مسلکی اجتماع نہیں کہا جاسکتا، بلکہ یہ اجتماع ملک کی اس اکثریت کا نمائندہ اجتماع تھا، جو افغان جہاد کے دوران بننے والی حکومتی پالیسی اور اس کے سبب منظر عام پر آنے والے بعض شدت پسند گروہوں کے حملوں کا براہ راست نشانہ بنے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ اس اجتماع میں یقیناً پاکستان کے تمام مسالک منجملہ دیوبند اور اہلحدیث کی بھی نمائندگی ہونی چاہیے تھی، لیکن جیسا کہ دوری کے اسباب بیان کرتے ہوئے آپ نے خود نے عرض کیا کہ ’’پاکستان کے دیوبندی علماء نے فی الجملہ دہشت گردی اور بے گناہ انسانوں کے قتل عام کی مذمت کی ہے لیکن اس کا مصداق متعین کرنے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ اسی طرح اگر کبھی ایسا کرنا ناگزیر ہوا تو انھوں نے ریاست اور غیر ریاستی تشدد پسند گروہوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا بلکہ دونوں کو ایک جیسا فریق قرار دیا۔‘‘

جن دو مسالک کے اتحاد کو آپ نے مسلکی اور فرقہ وارانہ اتحاد قرار دیا، افغان جہاد کے وقت سے سوتیلے بیٹوں کی مانند حکومتی سرپرستیوں اور اداری نوازشات سے محروم ہیں، جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دیوبند اور اہلحدیث مکتب فکر کے علماء اور تنظیمیں عرب ڈونرز کے ساتھ ساتھ ہمارے حکومتی اداروں کی چہیتی رہی ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل جسے بجا طور پر اس دور کے چہیتوں کا اجتماع قرار دیا جاسکتا ہے، میں زیر بحث دونوں مسالک کی ایک بھی نمائندہ جماعت شریک نہیں، کیا آپ کو یہ اتحاد بھی مسلکی اور فرقہ وارانہ نظر آتا ہے۔؟

آپ کے عرض کردہ اسباب اور میری گزارشات کے باوجود شیعہ اور بریلوی ابتداء سے پاکستان کے تمام مسالک کے ساتھ مل کر چلتے رہے، 1951ء میں علماء کے متفقہ بائیس نکات سے ملی یکجہتی کونسل کے قیام تک، متحدہ مجلس عمل کی ساخت سے کونسل کے پھر احیاء تک، شیعہ اور سنی ہمیشہ دیگر مسلمان بھائیوں کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے اور ملک میں امن و امان کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے ہر میدان میں آمادہ نظر آئے۔ آج بھی یہ شیعہ اور بریلوی مسلمان ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ اتحاد و وحدت کے لیے کوشاں ہیں۔

جہاں تک ان گروہوں کے مل بیٹھنے اور ایک مخصوص گروہ کو نہ بلانے کا سوال ہے تو شاید آپ نے کچھ عجلت سے کام لیا۔ اس پروگرام میں دیوبندی تو کیا شیعہ اور بریلوی مسلک کی تمام جماعتیں بھی شریک نہ تھیں۔ اس اجتماع کو ابتدائے کارواں کہا جاسکتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ قافلے اس کارواں کا حصہ بنتے رہیں گے۔ آپ کی یہ بات درست ہے کہ یہ گروہ تکفیریت اور شدت پسندی کا مخالف ہے، جس کا یقینی مطلب یہ ہے کہ یہ گروہ افغان جہاد پالیسی اور بعض مخصوص مسالک کے مسلسل نوازے جانے کے بھی خلاف ہے اور اپنا حق طلب کرنے نیز اسلام کا حقیقی تصور پیش کرنے کے لیے میدان عمل میں اتر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا پرامن اقلیتی طبقہ جو اس شدت پسندی کا متعدد بار نشانہ بنا، اس کاروان کا ہر اول دستہ ہے۔

جیسا کہ آپ نے فرمایا، کیا یقیناً اب وہ وقت آچکا ہے کہ علمائے دیوبند کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ تکفیری فکر کے حامی ہیں یا مخالف۔ اگر وہ بقول آپ کے بے گناہ انسانوں کے قتل کے حقیقی مصادیق کا تعین کر لیتے ہیں تو وہ فطری طور پر اس اتحاد کے رکن ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ یہ افراد عملاً بھی اس گروہ میں شامل ہوں۔
میں آپ کی اس رائے سے بھی اختلاف رکھتا ہوں کہ یہ کوئی نئی مسلکی یا مذہبی تقسیم ہے بلکہ یہ تو ملک کے پرامن باسیوں کی جانب سے جن میں شیعہ، بریلوی، سکھ، ہندو اور عیسائی سبھی شامل ہیں، پاکستان کو اس عذاب سے نجات دلانے کی ایک سعی ہے، جس نے گذشتہ تین دہائیوں سے مادر وطن کو ویران کر رکھا ہے۔ دھرتی ماں کے ہزاروں سپوت اس بلا کی نظر ہوئے۔ وطن عزیز کا قیمتی سرمایہ اس جنگ کا ایندھن بنا۔ خدا ہمیں حقائق کو درک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 339441
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
great great ............we r with u mwm and sic
Pakistan
very nice article SHARIKA NOO AGG LAG GAI MATHI MATHI
we are with real ISLAM not with American Israeli Zionist indian islam.

MWM and SIC ZINDABAAD
ماشاءالله اچھی تحریر هے
بہت اعلٰی
اللہ مزید زور قلم دے، اسد بھائی اس طرح کے ایشوز پر خاص کر قومی و ملی امور پر اٹھائے جانے والے سوالوں کے لازمی جوابات دیا کریں۔ افسوس کہ کسی نے اوریا جان مقبول کا جواب نہیں دیا۔
ہماری پیشکش