0
Wednesday 25 Jun 2014 18:55

تکفیری دہشتگرد عناصر اور در پردہ حامی قوتیں

تکفیری دہشتگرد عناصر اور در پردہ حامی قوتیں
تحریر: حسن احمدی
 
ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس سال امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی برسی کے موقع پر عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے تکفیری دہشت گرد عناصر کے پیچھے کارفرما مغربی قوتوں کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، "میں معتقد ہوں کہ ہمارے حقیقی دشمن وہ مغربی ممالک ہیں جو ان عناصر کی آڑ میں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور لڑائی ڈالنا چاہتے ہیں اور یہ فریب خوردہ تکفیری دہشت گرد گروہ ہمارے حقیقی دشمن نہیں"۔
اسی طرح قائد انقلاب اسلامی ایران نے حقیقی اور ظاہری دشمن کے مصادیق کی مزید وضاحت کرتے ہوئے شیعہ مسلمانوں کے خلاف تکفیری جاھل گروہوں کی جانب سے انجام پانے والے بھیانک اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، "سب کو اچھی طرح جان لینا چاہیئے کہ ہماری حقیقی دشمن وہ انٹیلی جنس ایجنسیز اور قوتیں ہیں جو ان دہشت گرد گروہوں کو ہمارے خلاف اکساتی ہیں اور انہیں پیسہ اور اسلحہ فراہم کر رہی ہیں"۔

شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا میں اسلامی بیداری کی تحریک جنم لینے کے بعد شام میں بدامنی اور سیاسی بحران کے آغاز نے اس حقیقت کو آشکار کر دیا کہ مغربی قوتوں اور انکی ہمنوا عرب ریاستوں کی جانب سے خاص منصوبے کے تحت تکفیری دہشت گرد گروہوں کی پیدائش کا مقصد عالم اسلام پر اپنی جاہلانہ سرگرمیوں کو مسلط کرنا تھا۔ یورپ کے بعض بڑے ممالک نے امریکی منصوبہ بندی اور سعودی عرب اور اس کی حامی دوسری عرب ریاستوں کی جانب سے بھرپور مالی امداد کے ذریعے شام میں بدامنی اور سیاسی بحران کے آغاز سے ہی اپنی تمامتر انٹیلی جنس، میڈیا اور فوجی سپورٹ کو تکفیری دہشت گرد عناصر کے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے۔ ان تمام کاوشوں کا واحد مقصد صدر بشار اسد کی سربراہی میں شام کی موجودہ حکومت کو سرنگون کر کے خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی بلاک پر کاری ضرب لگانا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان ممالک نے 2011ء میں شام میں بدامنی اور سیاسی بحران کے آغاز سے لے کر آج تک تکفیری دہشت گرد عناصر کو بھرپور مالی، سیاسی اور فوجی امداد مہیا کی ہے اور انہیں اپنے اس کام کو کھلم کھلا بیان کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان ممالک کی جانب سے تکفیری دہشت گرد گروہوں کو ملنے والی مالی اور فوجی امداد اس قدر بڑے پیمانے پر ہے کہ اس کا انکار ممکن نہیں۔ اسی طرح ان ممالک نے دنیا بھر کے ممالک سے تکفیری سوچ کے حامل افراد کو جمع کر کے شام کے ہمسایہ ممالک میں پہنچانے، انہیں منظم کرنے کے بعد ترکی، لبنان، اردن اور عراق کی سرزمین سے شام میں داخل کرنے کا کام بھی انتہائی احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ اسی طرح امریکہ، سعودی عرب، اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم، برطانیہ، فرانس وغیرہ کی جانب سے ان تکفیری ذہنیت کے حامل افراد کو ترکی اور اردن میں فوجی ٹریننگ دینا اور شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کو انٹیلی جنس معلومات اور فوجی سازوسامان فراہم کرنے کا کام بھی انجام پایا ہے۔

یہ تمام اقدامات اس بڑی اسٹریٹجی کی بنیاد پر انجام پا رہے ہیں جس کی روشنی میں دشمن تراشی اور ایک فرضی دشمن کی ایجاد مغربی قوتوں خاص طور پر امریکہ کے توسیع پسندانہ منصوبوں کا لازمہ قرار پایا ہے۔ امریکہ کی جانب سے دشمن سازی پر مبنی اسٹریٹجی "میکیاولی" اور "اسٹراس" جیسے معروف مغربی سیاسی مفکرین کے نظریوں کے عین مطابق ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اگر حقیقت میں ایک بڑا بیرونی خطرہ موجود نہ بھی ہو تو ایک مصنوعی بیرونی خطرہ ایجاد کر کے مطلوبہ سیاسی نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ درحقیقت نائن الیون کے بعد امریکہ کی جانب سے اپنائی جانے والی بنیادی پالیسی جس کی بنیاد کنزرویٹو سوچ پر استوار ہے اور اس کی تکمیل گذشتہ دو عشروں کے دوران انجام پائی ہے تین اہم خصوصیات کی حامل ہے: ۱۔ جارحانہ کثیرالجہتی کے خلاف ہے، ۲۔ جنگ طلبی پر استوار ہے اور ۳۔ امریکی اقدار اور اخلاق کی مطلق العنانیت پر مبنی ہے۔

تکفیری دہشت گرد گروہوں کو مغربی امداد اور حمایت کے ثبوت:
مغربی، عربی بلاک کی جانب سے شام اور مسلم دنیا کے دوسروں حصوں میں سرگرم تکفیری عناصر کی حمایت اور مدد جس کی بنیاد اسلام اور مسلمانوں پر کاری ضرب لگانے پر مشتمل امریکہ کی خفیہ سازش پر استوار ہے اگرچہ انتہائی خفیہ انداز میں انجام پاتی ہے لیکن اس کے بہت زیادہ ثبوت موجود ہیں۔ ان ثبوتوں کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حامی مغربی اور عربی ممالک کا حقیقی مقصد اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کر کے دنیا والوں کے سامنے پیش کرنا، عالم اسلام میں تفرقہ اور دشمنی کے بیج بونا اور مشرق وسطٰی میں اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خطے کی بعض عرب ریاستیں مغربی قوتوں کے ان حقیقی اہداف سے غافل ہیں اور اس غفلت کے نتیجے میں لاشعوری طور پر امریکہ کی پیادہ فوج کا کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں۔

1991ء میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر گراہم نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا بھر میں موجود دہشت گردی کے اصلی حامی ہیں۔ امریکہ نے اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے لاطینی امریکہ، عراق اور شام میں ڈیتھ اسکواڈز تشکیل دے رکھے ہیں لہذا مصنف کے بقول امریکی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ انتہائی منافقت اور دوغلے پن پر مبنی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے معروف محقق اور سیاسی تجزیہ نگار نوام چامسکی اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں، "اوباما کی حکومت نے دہشت گردی کو مزید فروغ دیا ہے اور اسے پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے"۔ نوام چامسکی کے بقول امریکی صدر براک اوباما کے دور حکومت میں شاید تاریخ کا سب سے بڑا دہشت گردانہ اقدام انجام پایا ہے جس میں امریکی ڈرونز کے ذریعے بڑے پیمانے پر بیگناہ بچوں اور عام شہریوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔ چامسکی نامحدود ڈرون حملوں کو امریکہ کی جانب سے جنگی جرم کا ارتکاب قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں، "امریکہ کے اثرورسوخ سے انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات نے تیسری دنیا اور لاطینی امریکہ کے دس ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے"۔ نوام چامسکی کی نظر میں عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی ریاستی دہشت گردی امریکی خارجہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

یہ مفروضے آج شام کی سرزمین پر سچ ثابت ہو چکے ہیں۔ بی بی سی نے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک رپورٹ میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ مغربی طاقتیں شام کے ہمسایہ ملک اردن میں شام میں سرگرم مسلح باغیوں کو فوجی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ مزید یہ کہ اردن میں موجود مذہبی شدت پسند عناصر شام میں جا کر حکومت کے خلاف لڑنے کا زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک امریکہ نے اردن میں مسلح باغیوں کو فوجی ٹریننگ دینے میں اپنی فورسز کے ملوث ہونے کے الزام پر کوئی رسمی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے اور صرف اس نکتہ پر تاکید کرتا آیا ہے کہ فری سیرین آرمی کو دی جانے والی امریکی امداد فقط اور فقط غیرمہلک اشیاء تک محدود ہے لیکن صحافیوں کی غیرموجودگی میں اور رسمی بیانات سے ہٹ کر ہر دو ملک کے حکام نے اردن میں موجود ٹریننگ کے مراکز اور امریکی ٹرینرز کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے۔

گذشتہ سال اپریل کے آغاز میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک خبر میں اعلان کیا تھا کہ شام کے جنوبی حصوں میں مسلح باغیوں [تکفیری دہشت گرد عناصر] کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے پیش نظریہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اردن میں ان کی ٹریننگ کے عمل میں بھی تیزی لائی جائے گی۔ مغربی انٹیلی جنس ذرائع کہا کہنا ہے کہ اس بات کے بھی قوی امکانات موجود ہیں کہ مسلح باغیوں کی فوجی ٹریننگ کی ذمہ داری امریکہ کی پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیز کو دے دی جائے۔ ایک باخبر سکیورٹی ذریعے نے جو شام کی خانہ جنگی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے لبنان کے ڈیلی البناء کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک نے شام آرمی کے خلاف فوجی کاروائی کے بارے میں بہت دقیق انداز میں کام کی تقسیم کر رکھی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اس ضمن میں ریڈار سے موصول ہونے والی معلومات کو جمع کر کے منظم انداز میں پیش کرنے، جاسوسوں سے حاصل شدہ معلومات اور فوجی مکالمات کی خفیہ شنود کی ذمہ داری جرمنی پر ہے۔ اسی طرح برطانیہ کی ذمہ داری اردن میں قائم کنٹرول روم سے شام آرمی کے خلاف انجام پانے ولے آپریشنز کی منصوبہ بندی اور نظارت کرنا ہے جبکہ امریکہ کے ذمے شام کے شمالی حصوں میں ترکی کی سرحد کے قریب واقع علاقوں میں انجام پانے والی مسلح کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر نظر رکھنا ہے۔ اس باخبر ذریعے نے مزید کہا کہ اس ضمن میں فرانس کے ذمے اپنے فوجی مراکز سے وابستہ گھاگ انٹیلی جنس افسران کی مدد سے شام کے مغربی حصے میں لبنان کی سرحد پر واقع علاقوں میں سرگرم مسلح باغیوں کو لاجیسٹک اور انٹیلی جنس سپورٹ فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح شام کے ان اعلی سطحی انٹیلی جنس افسران کے ذمے ایک اہم کام شام آرمی کے اعلی سطحی فوجی عہدیداروں کی ٹارگٹ کلنگ ہے۔ شام کی قومی سلامتی کے دفتر میں بم دھماکہ بھی انہی کی کارستانی ہے۔

امریکہ کے ایک معروف صحافی اور تجزیہ نگار سیمور ہرش شام میں امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادی ممالک کی مداخلت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں شام آرمی کو ملوث قرار دینے کی کوشش میں ترکی کی انٹیلی جنس ایجنسی نے انتہائی بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ وہ London Review نامی مجلے میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں مزید لکھتے ہیں کہ جب شام آرمی نے مسلح باغیوں کے مقابلے میں واضح کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دیں تو ترکی کی انٹیلی جنس ایجنسی نے شام آرمی پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگانے کی منصوبہ بندی انجام دی تاکہ اس طرح شام پر امریکہ کی جانب سے فوجی حملے کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ سیمور ہرش نے اپنے اس مقالے میں دمشق کے نواح میں واقع علاقے الغوطہ الشرقیہ میں انجام پانے والے کیمیائی حملے کے پس پردہ حقائق اور اس حملے میں استعمال ہونے والی زہریلی گیس "سیرائن" کی ترکی سے شام منتقلی کے بارے میں بھی بہت اہم انکشافات کئے ہیں۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس حملے کے بارے میں تازہ ترین شواہد شام سے متعلق اقوام متحدہ کے سابق خصوصی نمائندے اخضر ابراہیمی کی زبانی منظرعام پر آئے ہیں۔ اخضر ابراہیمی نے گذشتہ ہفتے پہلی بار انتہائی واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ حلب شہر پر انجام پانے والے کیمیائی حملے میں حکومت مخالف مسلح دہشت گرد ملوث تھے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں جاری خانہ جنگی کا سب سے بڑا فاتح اسرائیل ہے۔ شام میں اقوام متحدہ کے سابق خصوصی نمائندے اخضر ابراہیمی نے کہا کہ 2013ء میں شام مخالف مسلح باغیوں نے حلب شہر میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔ اسی طرح خیال کیا جا رہا ہے کہ شام کے شمال میں واقع شہر "خان العسل" میں پہلی بار کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ حملہ بھی حکومت مخالف مسلح دہشت گردوں نے انجام دیا تھا۔

مغربی ممالک کی جانب سے شام میں سرگرم مسلح دہشت گردوں کی مالی، فوجی اور انٹیلی جنس سپورٹ کے علاوہ خطے میں مغربی طاقتوں کے ہمنوا ممالک نے بڑے پیمانے پر شام میں دہشت گرد بھی بھیجے ہیں۔ اس بارے میں لبنان کے ڈیلی المنار ایک امریکی تحقیقاتی ادارے کے بقول اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے کہ شام میں تقریبا 250 غیرملکی دہشت گرد موجود ہیں جن میں ترکی کے دسیوں اعلی سطحی فوجی عہدیدار بھی شامل ہیں۔ ان غیرملکی دہشت گردوں میں سے 60 ہزار دہشت گرد اب تک شام آرمی اور سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 80 دہشت گرد شام سے فرار ہو کر دوسرے ممالک میں جا چکے ہیں۔ اسی طرح شام میں جاری خانہ جنگی میں اب تک تین سو ترک فوجی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران مغربی، عربی، ترکی، صہیونیستی محاذ کی جانب سے شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے کی غرض سے انجام پانے والے اقدامات اور بےپناہ مالی امداد دنیا بھر سے تکفیری سوچ رکھنے والے دہشت گرد عناصر کا شام کی جانب امڈ آنے کا باعث بنے ہیں۔ دنیا بھر سے تکفیری دہشت گرد عناصر کو شام میں جمع کرنا ایک بڑا پراجیکٹ تھا جو مغربی طاقتوں اور ان کی پٹھو عرب ریاستوں کی جانب سے مکمل حمایت اور امریکہ نواز بڑے بڑے سرمایہ داروں کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ڈیلی المنار کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس بارے میں یوں تفصیلات بیان کی گئی ہیں، "کولمبیا میں واقع ایک امریکی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام میں مسلح بغاوت شروع ہونے سے لے کر گذشتہ سال 31 دسمبر تک تقریبا 2 لاکھ 48 ہزار غیرملکی جنگجو شام میں داخل ہوئے۔ ان میں سے تقریبا 58 ہزار جنگجو مارے جا چکے ہیں اور تقریبا 82 ہزار جنگجو شام چھوڑ کر دوسرے ممالک میں جا چکے ہیں جبکہ تقریبا 12 ہزار جنگجووں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں اور وہ گمشدہ ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں داخل ہونے والے ان غیرملکی جنگجووں میں سے تقریبا 96 ہزار جنگجو اب بھی النصرہ فرنٹ، دولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام یا داعش اور دوسرے باغی دہشت گرد گروہوں کے زیر پرچم حکومت کے خلاف لڑنے میں مصروف ہیں۔ یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ موجودہ خانہ جنگی کے دوران شام کی تاریخ میں غیرملکی جنگجووں کا سب سے بڑا اکٹھ معرض وجود میں آیا ہے جس میں دنیا بھر کے 87 سے زیادہ ممالک سے دہشت گرد اس ملک میں داخل ہوئے ہیں۔

امریکی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے شائع کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر 2013ء میں تقریبا 1 لاکھ 43 ہزار غیرملکی جنگجو ایک ساتھ شام میں موجود تھے لیکن اس کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں تیزی سے کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اسی طرح اس رپورٹ میں آیا ہے کہ شام میں موجود امریکہ اور یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلح تکفیری دہشت گردوں کی تعداد تقریبا 12 ہزار 760 کے قریب تھی جن میں سے 2 ہزار 83 افراد شام چھوڑ کر واپس چلے گئے جبکہ ان میں سے 574 افراد کی شہریت منسوخ کر دی گئی۔ اس امریکی تحقیقاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ شام میں مسلح دہشت گرد عناصر کی موجودگی کے اعتبار سے سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے جس کے تقریبا 19 ہزار 700 شہری تکفیری دہشت گردوں کے روپ میں شام میں موجود تھے جن میں سے 4 ہزار کے قریب دہشت گرد شام آرمی کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔

دوسری طرف تکفیری دہشت گرد عناصر کی حمایت میں اسرائیل بھی انتہائی اہم کردار ادا کرنے میں مشغول ہے۔ انگلش زبان میں شائع ہونے والا اخبار "نیشنل" اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے کہ شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کے کم از کم تین گروہ ایسے ہیں جو مسلسل اسرائیل کے انٹیلی جنس حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ یہ اخبار شام کے جنوبی حصے میں سرگرم ایک تکفیری دہشت گرد گروہ کے بقول لکھتا ہے کہ شام میں کوئی ایسا دہشت گرد گروہ نہیں جس نے کم از کم ایک بار اسرائیل سے لاکھوں ڈالر کی امداد وصول نہ کی ہو۔ اسی طرح "گارجین" اخبار "امریکہ شام کی حکومت مخالف اتحاد کے اراکین کو واشنگٹن میں غیرملکی سفارتکار کی حیثیت دے چکا ہے" کے عنوان سے شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں لکھتا ہے کہ امریکہ نے شام کے حکومت مخالف گروہوں کو 2 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی امداد دینے کا عندیہ دیا ہے۔ اس مقالے میں مزید آیا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان "میری ہارف" نے اس بارے میں کہا ہے کہ امریکی حکومت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ شام کے حکومت مخالف گروہوں کو 27 ملین ڈالر کا امدادی سامان فراہم کرے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بالا موارد مغربی ممالک کی جانب سے شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کو مہیا کی جانے والی فوجی، مالی اور انٹیلی جنس سپورٹ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان اخراجات کا واحد ہدف مسلمانان عالم کے درمیان تفرقہ اور اختلاف کی آگ بھڑکانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا کی جانب سے عالم اسلام کے خلاف انسانی حقوق کے نام پر انجام پانے والی سازشیں اور فتنہ گری اب زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکتیں اور ان ناپاک منصوبوں کی ناکامی کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بلکہ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی تکفیری دہشت گرد عناصر جنہیں مغربی ممالک اور خطے میں ان کی پٹھو عرب ریاستوں نے امت مسلمہ کے دامن میں تفرقہ کی آگ لگانے کیلئے پالا تھا اور جوان کیا تھا خود انہیں کیلئے ایک بڑا خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔

تکفیری دہشت گرد عناصر کے حامی اپنی حمایت کے بھیانک نتائج سے شدید خوفزدہ:
اس وقت شام میں بھرپور انداز میں صدارتی انتخابات برگزار ہونے کے بعد صدر بشار اسد ایک بار پھر بھاری عوامی مینڈیٹ کے ذریعے صدارت کا عہدہ سنبھال چکے ہیں۔ یہ امر ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام کی بحالی اور ملک کے تمام حصوں پر آرمی کے مکمل کنٹرول میں تیزی کا باعث بنا ہے۔ موجودہ حالات میں اگرچہ بعض تکفیری دہشت گرد گروہ ماضی کی طرح تخریب کاری اور دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے کیلئے شام کی سرزمین پر باقی رہنے کا فیصلہ کریں لیکن ان تکفیری دہشت گرد عناصر کی اکثریت شام سے نکل کر ہمسایہ ممالک کا رخ کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ یہ امر ان تمام ممالک کیلئے خطرے کی گھنٹی تصور کی جاتی ہے جن کے شہری شام میں تکفیری دہشت گردوں کے روپ میں فعالیت انجام دیتے رہے ہیں۔ ایسے ممالک میں بڑی تعداد میں مغربی اور یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چند ہفتے قبل امیر کویت سے اپنی ملاقات کے دوران تکفیری دہشت گرد عناصر کے حامیوں کو اس حمایت کے عبرتناک اور بھیانک نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ یہ وہ ناقابل انکار حقیقت ہے جس کا اعتراف خود تکفیری دہشت گرد عناصر کے حامی مغربی ممالک اور خطے میں ان کے پٹھو حکمران بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس بارے میں برطانوی اخبار "فائنینشیل ٹائمز" کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں آیا ہے کہ برطانیہ کے وہ شہری جو تکفیری عناصر کے طور شام میں نام نھاد جہاد کی غرض سے گئے ہیں اور اب وطن واپس آنے کے خواہش مند ہیں برطانیہ اور یورپ کیلئے ایک بڑا خطرہ تصور کئے جاتے ہیں۔

مزید یہ کہ اخبار Independant نے گذشتہ ہفتے شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کی ممکنہ واپسی سے درپیش خطرات کا جائزہ لیا ہے اور کہا ہے کہ اس بارے میں انٹرپول نے متعلقہ ممالک کو وارننگ بھی جاری کر دی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انٹرپول نے خبردار کیا ہے کہ شام سے تکفیری دہشت گرد عناصر کی ممکنہ وطن واپسی اور دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے سے متعلق برطانیہ کو بہت زیادہ خطرات درپیش ہوں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال برطانیہ میں دسیوں دہشت گردانہ منصوبے ناکام بنائے گئے ہیں جبکہ اس وقت تمام یورپی ممالک کے درمیان برطانیہ وہ ملک ہے جو دہشت گرد عناصر کا اصلی نشانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں فرانس کی پوزیشن برطانیہ سے بھی زیادہ خطرناک بتائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یورپی یونین کے 28 رکن ممالک کے درمیان تکفیری دہشت گرد عناصر سے درپیش خطرات کے اعتبار سے فرانس پہلے نمبر پر ہے۔

یہ اخبار انٹرپول کے سربراہ راب وائن رائے کے بقول مزید لکھتا ہے کہ شام کا بحران موجودہ خطرات کو ایک نیا رخ بخش دے گا کیونکہ یہ بحران باعث بنے گا کہ نت نئے دہشت گرد گروہ دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے کیلئے یورپ کا رخ کریں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انٹرپول کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک شام میں بدامنی اور خانہ جنگی جاری ہے دنیا بھر میں تکفیری دہشت گردانہ سوچ رکھنے والے افراد شام کی جانب رواں دواں رہیں گے۔ 2013ء کے اواخر تک شام میں سرگرم مسلح شدت پسند عناصر کے درمیان غیرملکی افراد کی تعداد ایک ہزار تک جا پہنچی تھی جبکہ ان میں سے اکثریت برطانوی شہریوں کی تھی۔ ان میں سے تقریبا بیس افراد مارے جا چکے ہیں۔ اخبار میں کہا گیا ہے کہ انٹرپول نے خبردار کیا ہے کہ بعض این جی اوز خفیہ طور پر یورپی ممالک سے شام میں مسلح تکفیری دہشت گرد عناصر کیلئے جوانوں کو بھرتی کا کام کر رہی ہیں۔ ان جوانوں کو ترکی سے شام بھیجا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ترکی گذشتہ کچھ عرصہ سے شام جانے والے تکفیری دہشت گرد عناصر کی ایک اہم راہداری میں تبدیل ہو چکا ہے۔

دوسری طرف یورپین یونین کے کاونٹر ٹیروریزم کوآرڈینیٹر جیلیز دی کیرشوف (Gilles de KERCHOVE) نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یورپ ایک انتہائی سنجیدہ اور غیرمعمولی خطرے سے روبرو ہے کہا کہ 2 ہزار سے زائد یورپی شہری، 5 ہزار شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے افراد، بلقان سے تعلق رکھنے والے 500 افراد اور خلیج عرب ریاستوں کے ہزاروں شہری اس وقت شام میں مسلح دہشت گرد سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سے 20 سے 30 کے درمیان القاعدہ کے کمانڈرز شام جا چکے ہیں۔

مغربی ممالک کی جانب سے شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کی حمایت کا ایک اور بھیانک نتیجہ مغرب کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ڈھونگ کی قلعی کھل جانا ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں شاید ہی ایسا کوئی سیاسی تجزیہ نگار ہو جو تکفیری دہشت گروہوں کی درندہ صفتی اور وحشیانہ پن کا اعتراف نہ کرتا ہو۔ دوسری طرف شام میں جمہوریت کی بحالی کے بہانے مغربی ممالک کی جانب سے ان تکفیری دہشت گرد عناصر کی حمایت اور مدد کسی پر پوشیدہ نہیں۔ لہذا عالمی رائے عامہ اس وقت ایک بڑے سوال سے روبرو ہے کہ مغربی طاقتیں ان وحشی اور درندہ صفت دہشت گردوں کی حمایت میں کیونکر مصروف ہیں؟

امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے تکفیری دہشت گرد عناصر کی حمایت کا ایک اور منفی نتیجہ شدت پسندی اور فرقہ وارانہ منافرت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ جیسا کہ روسی اخبار رشیا ٹوڈے ایک امریکی تھنک ٹینک “Rand Corporation” کے بقول مشرق وسطٰی خاص طور پر شام کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے کہ گذشتہ تین سال کے دوران بین الاقوامی حالات خاص طور پر مشرق وسطی کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر دنیا کے مختلف حصوں میں شدت پسندی اور مسلحانہ اقدامات انجام دینے کی جانب رجحانات میں 50 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ رینڈ کارپوریشن کے ایک سرگرم کارکن سیٹ جونز نے دہشت گردانہ گروہوں کی سرگرمیوں اور ان کی جانب سے امریکہ کو درپیش ممکنہ خطرات کے بارے میں ایک جامع رپورٹ تیار کی ہے۔ وہ اپنی اس رپورٹ میں لکھتا ہے، "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شدت پسند گروہوں کے فروغ کا مناسب زمینہ فراہم ہو چکا ہے۔ ان شدت پسند گروہوں کی جانب سے پیدا کردہ خطرات کی وجہ سے امریکہ شمالی افریقہ، مشرق وسطٰی اور جنوبی ایشیا میں معرض وجود میں آنے والے بحرانوں پر قابو پانے کی صلاحیت کھو چکا ہے، لہذٰا ان علاقوں میں اپنی موجودگی کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتا"۔

نتیجہ گیری:
مختصر یہ کہ امریکہ کی جانب سے دشمن تراشی پر مبنی اپنائی جانے والی پالیسیاں جن کے تحت تکفیری دہشت گرد عناصر کا سہارا لیا گیا اور انہیں عالم اسلام میں متحرک کر دیا گیا تاکہ ایک طرف خطے میں موجود اسلامی مزاحمت کی تحریک کو کمزور کیا جا سکے اور دوسری طرف مستقبل میں انہیں دہشت گرد عناصر کا بہانہ بنا کر خطے میں اپنی فوجی موجودگی کو ممکن اور جائز بنایا جا سکے اور اس طرح عالم اسلام میں ایک نئی لشکرکشی کا زمینہ فراہم کیا جا سکے، پورے یورپ اور خطے میں مغرب نواز ممالک کے سیاسی استحکام اور ان کی موجودیت کیلئے ایک بڑا خطرہ جنم لینے کا باعث بن گئی ہیں۔ لہذا یورپی اور خطے کے امریکہ نواز حکام جو عنقریب تکفیری دہشت گرد عناصر کا نشانہ بننے والے ہیں کو چاہیئے کہ وہ وائٹ ہاوس کی جانب سے لگائی گئی اس آگ کے سنگین نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہو جائیں۔
خبر کا کوڈ : 394846
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش