0
Thursday 20 Mar 2014 00:56

بیدار باش کی صدا

بیدار باش کی صدا
تحریر: سید قمر رضوی

"آپکی آنیوالی زندگی تاریک ہے۔ ہر طبقے اور ہر طرف سے بے شمار دشمن آپکے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ آپکو اور مراکزِ علمی کو تباہ کرنے کے خطرناک  اور شیطانی منصوبے بنائے جا چکے ہیں۔ سامراجی طاقتیں آپکے خلاف بہت برے ارادے اور سخت پروگرام رکھتی ہیں۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کے خواب دیکھتے ہیں۔ ظاہراً اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آپکے متعلق خطرناک نقشے بنا چکے ہیں۔ آپ فقط تہذیب کے سائے میں اور صحیح تنظیم و ترتیب کے ساتھ  نہ صرف ان مفاسد و مشکلات کو اپنے راستے سے ہٹا سکتے ہیں، بلکہ انکے سامراجی منصوبوں کو مفلوج بھی کرسکتے ہیں۔ میں اپنی زندگی جی چکا۔ اب کسی بھی وقت میرے اور آپکے درمیان پردہ حائل ہوجائیگا، لیکن آپکو تاریک و سیاہ مستقبل کی نوید سنا رہا ہوں۔ اگر آپ نے اپنے گریبان میں نہ جھانکا، اپنی زندگی کے امور اور حصولِ علم کی راہوں میں نظم و ضبط  پیدا نہ کیا تو آنیوالے تاریک دور کی سیاہ بھول بھلئیوں میں بھٹک جانے کا قوی خدشہ ہے۔ جب تک فرصت ہے اور آپ کے دینی و علمی مراکز دشمن کی دسترس سے محفوظ ہیں، غور و فکر کر لیجیے اور ہوشیاری کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں۔

اولین مرحلے میں جس چیز پر توجہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ ہے تزکیہء نفس اور اپنی ذات کی اصلاح! دوسرے مرحلے میں آپس کے اتحاد و اتفاق کو اپنا شعار بنا لیں۔ اپنے علمی مراکز میں نظم و ضبط کو بنیادی حیثیت میں رکھیں۔ کسی دوسرے کو یہ موقع نہ دیں کہ وہ باہر سے آکر آپکو نظم و ضبط کا درس دے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن آپکی بیکاری اور نااہلی کے بہانے آپکے مراکز میں نفوذ کر جائے اور اصلاح و نظم و ضبط کے نام پر فساد اور بدنظمی کو فروغ دینے کی کوشش کرے اور بالآخر آپ پر اپنا تسلط قائم کر لے۔ آپ ہرگز دشمن کو ایسا بہانہ فراہم نہ کریں۔ اگر آپ مہذب و منظم ہوگئے تو کسی میں آپکی جانب غلط نگاہ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوگی۔ چنانچہ آپ اپنے آپکو آمادہ کریں تاکہ مہذب، بااخلاق اور باکردار انسان بن کر مفاسد و مفسدین کا سدِباب کرسکیں۔ ساتھ ہی اپنے مراکز کو ان حوادث کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی تیار رکھیں۔

آپکے سامنے خدانخواستہ ایک مشکل مستقبل ہے کہ سامراجی قوتوں کو اسلامی ترجیحات اور امتیازات کی نابودی سے غرض ہے۔ اب آپکا فرض ہے کہ انکے سامنے ڈٹ جائیں، لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ نفس پرستی، خود پسندی، غرور و تکبر  اور حبِ جاہ و حشم کا آپکی زندگیوں میں کوئی عمل دخل نہ ہو۔ آپ اپنے آپ کو خدا کے لئے وقف کر دیں۔ دنیا کی محبت کو دل سے نکال دیں، تب ہی مقابلہ ہوسکتا ہے۔ ابھی سے اپنے قلب کی تربیت اس نقطہء نگاہ سے کریں کہ مجھے صرف اسلام کا مسلح سپاہی بننا ہے، مرتے دم تک اسلام کے لئے کام کرنا ہے اور اسلام ہی پر قربان ہونا ہے۔ وقت کی کمی اور نامناسبی کے بہانے نہ تراشئے، بلکہ ابھی سے کوشش کا آغاز کر دیجئے، تاکہ مستقبل میں کہیں آپکا کردار نظر آسکے۔ المختصر یہ کہ اچھے انسان بن جائیں۔

سامراجی قوتوں کا خوف صرف انسان سے ہے۔ انکی خواہش ہے کہ ہمارا سب کچھ خود ہی ہضم کرجائیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے علمی مراکز انسان سازی کریں۔ انہیں محض یہی خوف ہے کہ اگر کوئی ایک بھی انسان پیدا ہوگیا تو وہ انکے مقابلے میں آن کھڑا ہوگا۔ آپکی ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو سنواریں اورا نسانِ کامل بن کر دشمنانِ اسلام کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ اگر آپ منظم نہ ہوئے اور انکے حملوں کے خلاف خود کو تیار نہ کیا تو نہ صرف آپ تباہ و برباد ہوجائیں گے بلکہ اسلام کے قوانین و احکامات بھی فنا ہوجائیں گے، جسکی تمام تر ذمہ داری آپکے کاندھوں پر ہوگی اور اسکے لئے علماء اور مسلمان جوابدہ ہوں گے۔ 
کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ۔ تم میں سے ہر ایک محافظ، بادشاہ ہے اور ہر ایک سے اسکی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔

اب نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنے ارادوں کو مضبوط کریں، تاکہ کسی بھی قسم کے نامساعد حالات کا مقابلہ کرسکیں۔ اسکے علاوہ اور کوئی حل نہیں۔ آپ کا ذاتی، اسلام کا اور اسلامی ممالک کا وقار اس بات میں ہے کہ آپ مقابلے کے لئے کمر بستہ رہیں اور مقاومت کریں۔ خداوندِ عالم اسلام، مسلمین اور بلادِ اسلامیہ کو مخالفین کے شر سے محفوظ رکھے۔ اسلامی شہروں اور مراکزِ علمی کو ان سامراجی خائنین کی نگاہوں سے کوتاہ رکھے۔ علمائے اسلام اور مراجعینِ عظام کو قرآنِ کریم کے مقدس قوانین کی حفاظت اور اسلام کے پاکیزہ مقاصد کی  ترویج و تبلیغ  کی توفیق عطا فرمائے۔

خداوندِ عالم کالج و یونیورسٹیوں کے طلاب اور تمام انسانوں کو خود سازی  اور تہذیب و تزکیہء نفس کی توفیق عنایت فرمائے۔ ملتِ اسلام کو خوابِ غفلت سے چونکا کر اٹھا دے۔ سستی، کم فہمی اور جمود فکری سے آزاد کر دے، تاکہ وہ الہام سے قرآن کی نورانی اور انقلابی تعلیمات سے فیض حاصل کرکے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔ اتحاد و اتفاق کے سائے میں سامراج اور اسلام کے دیرینہ دشمنوں کے ہاتھوں کو اسلامی ممالک کی جانب بڑھنے سے روکیں اور آزادی، استقلال اور اپنی عظمتِ رفتہ کو بارِ دیگر حاصل کریں۔
ربنا افرغ علینا صبرا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکفرین۔ ربنا وتقبل دعائنا۔
اے ہمارے پروردگار! ہم پر صبر کا ساون برسا دے اور ہمارے قدموں میں مضبوطی پیدا فرما اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری نصرت فرما۔ بارِ الٰہا! ہماری دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخش دے۔"

مندرجہ بالا کلمات اس وقت میری نظر سے گزرے، جب میں شیلف میں رکھی پرانی کتابوں کی صفائی اور چھان بین میں مشغول تھا۔ میرے ہاتھ بہت بیش قیمت کتب و رسائل لگے، لیکن جب ان صفحات کو پڑھنا شروع کیا تو اپنے گریبان میں جھانکتے جھانکتے اوندھے منہ جاگرا۔  کچھ دیر تک تو کچھ نہ سوجھا کہ یہ سب کیا اور کیسے ہے۔ ورق الٹا کر تاریخ ِ اشاعت دیکھی تو میں بھی وقت کے قالین پر الٹے پیروں چلتا ہوا ماضی میں سجے اسی پنڈال کی کسی نشست پر جا بیٹھا، جسکے سامنے یہ خطاب ہو رہا تھا۔ کم و بیش تیس سال پہلے ادا ہونے والے یہ الفاظ ہیں اس مردِ درویش ۔۔۔۔ بلکہ مردِ دوراندیش کے جو اپنے ملک کے غیور عوام کے سامنے انکے حال کی روشنی میں انکا مستقبل عیاں کئے کھڑا تھا۔ جی ہاں! یہ اقتباس ہے امام خمینی کے ایک لیکچر سے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ درس مدرسہء فیضیہ میں ہو رہا تھا، مسجدِ حرم میں، مسجدِ لطف اللہ اصفہان میں یا جامعہ تہران میں۔  لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ جہاں اس خطاب کے ظاہری مخاطبین ملتِ  ایران کے اساتید و طلباء تھے، وہیں باطنی اور حقیقی طور پر ان کلمات کے مخاطبین دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پیروانِ مکتبِ اہلِ بیتؑ تھے۔ وہ مردِ مومن بیم و رجا کے پل پر اپنے شانوں کو سبک کرتا ہوا ذمہ داری کے بوجھ کو ہم سب کے کاندھوں پر منتقل کرتا ہوا قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا تھا۔

آج اس درس کا تجزیہ کیا جائے تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ امام خمینی کے ادا کئے گئے جملوں کا پاس ایرانی قوم نے رکھا اور ان احکامات پر عمل پیرا ہوکر اپنے رہبر کی امیدوں پر پورا اتری۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے محبانِ اہلبیتؑ کے بارے میں تو مجھے کچھ معلوم نہیں لیکن ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اگر غلط نہ کہوں تو امام خمینی کے تمام تر خدشات اور خوف کو ہم پاکستانیوں نے سچا ثابت کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ شاید اُس وقت اسی پنڈال میں بیٹھے بیٹھے ان لوگوں نے ان تمام باتوں کو نائبِ امامؑ کے احکامات کا درجہ دے کر ان کو پلے باندھ لینا اپنے اوپر واجب کر لیا تھا اور اسی لمحے کمربستہ ہوگئے تھے، جبکہ جلد یا بہ دیر یہ باتیں دیگر ممالک کی مانند ہمارے ملک کے مومنین تک بھی پہنچ گئیں، لیکن ہم نے ان باتوں پر یہ سوچ کر توجہ نہ دی کہ یہ باتیں ہمارے لئے نہیں، بلکہ ایران کے باسیوں کے لئے مخصوص ہیں، چونکہ انقلاب ایران کی سرزمین پر وارد ہوا ہے، اس لئے پاکستان کے شیعوں پر یہ باتیں لاگو نہیں ہوتیں۔ ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ انقلابِ اسلامی تھا، نہ کہ انقلابِ ایرانی۔ زمین کے مختلف خطوں میں برپا ہونے والے انقلابات اور ہوتے ہیں اور انکی عمریں بھی محدود ہوتی ہیں، جبکہ زمین پر بسنے والے انسانوں کے دلوں میں برپا ہونے والا انقلاب نہ صرف حقیقی انقلاب ہوتا ہے، بلکہ وہ دائمی بھی ہوتا ہے۔ اس انقلاب کے لئے کسی وقت یا کسی سرزمین کی کوئی قید نہیں ہوتی۔

لیکن بصد افسوس! ہم نے غور کیا نہ فکر ۔۔۔۔ اور آج وہ وقت آگیا کہ ایک ولی اللہ کے پیش کردہ خدشات محض تیس سال کے قلیل عرصے میں حقیقت کا روپ دھار کر ہمارے سامنے ہماری کوتاہ نظری کا منہ چڑا رہے ہیں۔ تہذیب و تزکیہء نفس کیا ہے اور کیونکر ہوسکتا ہے، یہ ہماری فکروں کا دور دور تک کا مسئلہ نہ رہا۔ اتحاد، اتفاق، یگانگت، ہم آھنگی اور نظم و ضبط کن چڑیوں کے نام ہیں، ہمیں اس سے کوئی غرض نہ رہی۔ مراکزِ علمی کو حقیقتاً علم اور جدوجہد کا گہوارہ کیسے بنانا ہے، شاید ہم سیکھ ہی نہ سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گذشتہ تیس برسوں میں پاکستان میں نہ صرف انقلابِ اسلامی کے اثرات پھیلے ہیں بلکہ تشیع نے ترقی بھی کی ہے۔ لیکن حقیقی جائزہ لیا جائے تو اس ترقی سے زیادہ ہم اخلاقی تنزلی کا شکار ہوئے۔ ہماری ظاہری عبادتگاہوں اور درس گاہوں کی تعداد میں یقیناً ایک واضح اضافہ ہوا، لیکن ہم انسان سازی میں بلاشبہ ناکام رہے۔ ہمارے یہاں عابدین و عزاداران تو کثیر تعداد میں ملیں گے، لیکن تزکیہ، نظم و ضبط اور اتفاق کی بنیادوں سے محروم۔

اسلام کی خوبی ہی یہی ہے کہ اس کے ہر حکم کا نتیجہ انسان سازی، تہذیبِ نفس، نظم و ضبط اور روحانی بالیدگی ہے۔ مثال کے طور پر اسلام کے بنیادی ترین رکن نماز کو ہی لے لیجئے۔ یہ ایک عام معاشرتی حیوان کو انسان، انسان کو مومن اور مومن کو اسکی معراج تک پہنچا کر دم لیتی ہے، جہاں ملائکہ اسکی ملاقات کے مشتاق ہوتے ہیں۔ اس کو اسکی شرائط اور معصومینؑ کی تعلیمات کی روشنی میں ادا کیا جائے تو یہ تربیتِ نفس کا اکثیر نسخہ ہے۔ اس کو اسکے مخصوص اوقات میں مخصوص انداز سے بجا لانا نظم و ضبط کا احسن ترین مظاہرہ ہے، اور اسکے نتیجے میں انسان جو روحانی کمالات حاصل کرتا ہے، وہ خود اپنی ذات میں محسوس کرسکتا ہے۔ لیکن  ہمارے معاشرے میں اسی نماز کو ادا کرنے والے اکثر جب مساجد کا رخ کرتے ہیں تو دوسروں کے لئے مشکلات کا باعث بن جاتے ہیں۔ 

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسجد تک پہنچنا، غلط پارکنگ، جائے وضو کو کیچڑ زدہ تالاب میں تبدیل کر دینا، نمازیوں کے اوپر سے پھلانگ کر اگلی صفوں تک رسائی، حضورِ قلب اور خضوع و خشوع سے پاک نماز، نماز کے اختتام پر بھاگم دوڑ اور مسجد سے پہلے نکلنے کی جلدی کرنا ایسے گناہ ہیں جو ہماری دانست میں گناہ کی حیثیت نہیں رکھتے، لیکن دراصل ہماری نماز کو اپنے ہی منہ پر واپس لوٹا دینے کی بھرپور صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ یہ تمام مشقت نہ تو تزکیہ کی اہلیت رکھتی ہے اور نہ ہی اس سے معاشرتی زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہوسکتا ہے۔ چنانچہ یہ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ جتنی مساجد بڑھ رہی ہیں، اتنا ہی معاشرے سے انسانیت، اخلاق اور نظم ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ دکھ کا مقام یہ ہے کہ جن علماء کو خطاب کرتے ہوئے امام خمینی نے ان امور کی نگہداشت کی تنبیہ کی تھی، انہوں نے شاید ان باتوں کو سبک سمجھا اور اپنے پسِ پشت نماز ادا کرنے والوں کو ان ذمہ داریوں کا احساس نہ دلایا۔

آج عزاداری اور رسومِ عزاداری کا سلسلہ ماشاءاللہ چہاردانگِ عالم میں پھیل چکا ہے۔ دنیا میں اس اس مقام پر امامِ عالی مقام ؑ کا ذکر جاری ہے، جہاں کوئی اس ذکر کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ تائیدِ غیبی کے ساتھ ساتھ اس عظیم کاوش کا سہرا یقیناً ان حقیقی عزاداران کے سر ہے جو ذکرِ کربلا کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلانے کا وسیلہ بنے۔ لیکن کہیں کوئی کوتاہی ضرور ہوئی، جسکے نتیجے میں خلا پیدا ہوا اور منبرِ رسول پر پیشہ ور مداری کمالِ ہوشیاری سے قابض ہوگیا۔ ہمیں بھی اس سامراجی دشمن کو پہچاننے میں غلطی ہوئی کہ بہروپ حقیقت سے اتنا قریب تر تھا کہ ہم بہروپ کو ہی حقیقت سمجھ کر اپنے ایمان کا سودا کر بیٹھے۔ مراکزِ علمی کی حفاظت میں کچھ اس طرح سے روگردانی ہوئی کہ دشمن نے احکاماتِ شرعیہ اور قوانینِ معصومینؑ پر اس انداز میں ڈاکہ ڈالا کہ سادہ لوح افراد باآسانی اس شیطانی غچے کا شکار ہوکر اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

امام خمینی نے ہمیں دعا دی تھی کہ ہم قرآن سے فیض حاصل کرکے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں۔ لیکن بصد افسوس! ہم نے قرآن کو ایسے فراموش کیا کہ کبھی مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لئے ہی کھولنے کی زحمت کرلیا کرتے تھے۔ لیکن اب اسکی بھی نوبت نہیں آتی۔ ہمارے لئے کبھی جنتری باعثِ فیض بنی تو کبھی فرضی بی بی جھٹ پٹ کی فرضی اور مضحکہ خیز کہانیاں۔ ہماری امیدیں اہلِ بیتؑ کی بجائے دھاگوں اور گلاب جامن میں جڑے چھلوں سے وابستہ ہوگئیں۔
اتحاد و اتفاق کو ہم نے اپنی زندگیوں سے یوں محو کیا، جیسے کبھی گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوئے تھے۔ ایک مرکز محض ہمارا افتخار تھا لیکن ہم نے ٹولیوں میں بنٹنا اپنا افتخار سمجھا۔ ہم اتنا تقسیم ہوئے کہ ایک ایک تحریک، ایک ایک تنظیم اور ایک ایک جماعت کے کئی کئی دھڑوں میں بنٹتے چلے گئے۔ عزاداریء سیدالشہداؑ انجمنوں اور سنگتوں کے پروگراموں، حلیم، بریانی، تیری اور میری مجلس کی نذر ہوگئی۔ مذہبی  و سیاسی تحریکوں پر شخصیات اور گروہوں کا غلبہ ہوگیا۔ منبر و محراب پر کاروباری چرب زبان قابض ہوگئے۔ ہم یوں تقسیم در تقسیم ہوئے کہ مظلومین ِ فلسطین کے لئے صدائے احتجاج بلند کرنے والے بھی ایک مقام سے علیحدہ علیحدہ پرچموں تلے علیحدہ علیحدہ راہوں پر نکلے۔

لیکن چونکہ امام ِ راحل کی پیش گوئی کے مطابق ہمارا پالا ایک پست ترین دشمن سے پڑنا تھا کہ جسکی سازش کا کوئی اختتام نہیں۔ چنانچہ ہم سے ہماری تہذیب، نظم، اتحاد، اتفاق اور وسائل کو نابود کرکے آخری مرحلہ ہماری فنا کا آن پہنچا۔ اب وہ وقت ہے کہ دشمن ہمیں چن چن کر شناخت کرکے ختم کر رہا ہے۔ اب ہم گھر کے باہر محفوظ ہیں نہ گھر کے اندر۔ ہمیں مساجد میں، امام بارگاہوں میں، بازاروں میں، سڑکوں پر، درس گاہوں میں، درگاہوں میں ۔۔۔ حتیٰ کہ اپنے گھروں کے اندر گھس کر قتل کیا جا رہا ہے۔ ایک ایک کرکے ہمارے جوان، بزرگ، عورتیں اور بچے تک شہید کئے جا رہے ہیں۔ ہم سب کے نام دشمن کی فہرست میں موجود ہیں، لیکن ہمارا رویہ اپنی باری کے انتظار والا ہے۔

تیس سال قبل وابستہ کی گئی امیدوں پر رنگ لانے والی قوم کا وقار آج دنیا بھر کے سامنے ہے۔ انسان بن کر عظمتِ رفتہ، استقلال اور آزادی کو جنہوں نے اپنا مقدر بنا لیا، وہ آج  سامراج کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ طاغوت کو جنکے محض انسان بننے سے خوف تھا، وہ اسکے سامنے وہ اشرف مخلوق بن کر کھڑے ہیں کہ جنکی ملاقات کے ملائکہ مشتاق ہیں۔ جنہیں انکے رعایا کے متعلق سوال سے خوفزدہ کیا گیا، وہ واقعتاً اپنی عوام کے نگہبان بن گئے۔ انہوں نے اپنے نفوس کا ایسا تزکیہ کیا کہ شیطان ہار بیٹھا لیکن انکے پایہء ثبات میں لغزش نہ آئی۔ تعلیمی اداروں اور علمی مراکز کو نظم و ضبط اور تہذیب و تربیت کے ایسے گہواروں میں ڈھال دیا کہ بلادِ اسلامیہ تو درکنار، دیگر اقوام کے لئے نشانِ راہ بنا دیا۔

امام خمینی کی امید اس قوم نے ہم جیسے سست، کم فہم اور جمود فکر لوگوں کے لئے عملی مثال پیش کر دی کہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے رہبر کی رہنمائی میں قرآن و اہلبیتؑ سے فیض حاصل کرتے ہوئے بیدار بھی ہوا جاسکتا ہے، تزکیہ نفس بھی کیا جاسکتا ہے، اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق اور نظم  و ضبط بھی پیدا کیا جاسکتا ہے اور اپنے معاشرے کو ایک انسانی معاشرے میں ڈھال کر دیگر پسی ہوئی اقوام کے لئے مثال بنا جاسکتا ہے۔ اب یہ ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ اگلا قدم ہم اٹھائیں اور اپنے آپ کو کئے جانے والے سوال کا جواب دینے کے قابل بنائیں۔ انشاءاللہ کامیابی ہماری قدم بوسی کو منتظر ہے کہ خدا اپنے اولیاء کی دعاؤں کو رد نہیں کرتا۔
امام خمینی کی مانگی گئی دعا 
"ربنا افرغ علینا صبرا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکفرین۔ ربنا وتقبل دعائنا۔
اے ہمارے پروردگار! ہم پر صبر کا ساون برسا دے اور ہمارے قدموں میں مضبوطی پیدا فرما اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری نصرت فرما۔ بارِ الٰہا! ہماری دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخش دے"
۔۔۔۔۔تیس سال قبل اسی وقت قبول ہوگئی تھی۔ اس کا نتیجہ سرزمینِ پاکستان پر کب جلوہ افروز ہوتا ہے، کب یہ تاریک دور روشن صبحوں میں ڈھلتا ہے، کیسے سامراج ہمارے لئے بُنے گئے جال میں خود الجھتا ہے۔۔۔۔۔ یہ ہماری قوتِ ارادی پر منحصر ہے۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔
خبر کا کوڈ : 363741
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش