0
Saturday 2 Mar 2013 19:25

سعودی مفتیوں اور وزارت لیبر کے درمیان سیمی فائنل

سعودی وزیر لیبر کیطرف سے خواتین کو ملازمت کی اجازت، مفتیوں کیطرف سے موت کی بدعا کی دھمکی
سعودی مفتیوں اور وزارت لیبر کے درمیان سیمی فائنل
رپورٹ: ایس این حسینی

سعودی عرب کے وزیر لیبر عادل فاکح نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے زبردست دباو کے بعد سعودی عرب میں خواتین کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور انہیں کسی حد تک مردوں کے مساوی حقوق دینے کی غرض سے اپنے ہفتہ وار اعلامیہ کے دوران کہا ہے کہ بہت جلد خواتین کو فارمیسیوں میں خود ملازم ہو کر کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ جو کہ اس سے پہلے صرف مردوں سے مختص تھا۔

ٹاپ نیوز لاء (Top News Law) کے مطابق مذکورہ وزیر کا کہنا تھا کہ اسکی وزارت ایک منصوبہ پر کام کر رہی ہے جس کے تحت خواتین کو ایک مخصوص اور پرامن ماحول میں فارمیسیز میں جاب کرنے کے مواقع میسر آ سکیں گی، جبکہ اس سے پہلے 11 جنوری 2013ء کو سعودی بادشاہ عبداللہ نے ایک قرارداد کی منظوری دی ہے جس کے تحت ملک کے مشاورتی کونسل میں 30 خواتین کو اجازت دی گئی ہے۔ جو اس سے پہلے صرف مردوں سے مختص تھی۔

دوسری جانب سعودی عرب کی وزارت لیبر میں پچھلے منگل کو ہونے والے ایک اجلاس میں 200 کے قریب مذہبی شخصیات نے سعودی وزیر لیبر عبد الفاکح پر الزام عائد کیا کہ وہ ملک کو مغربی کلچر کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان مذہبی شخصیات کا مطالبہ تھا کہ خواتین کے زیر جامہ ملبوسات کی دکانوں پر خواتین کے کام کرنے پر ایک ماہ کے اندر اندر پابندی لگائی جائے ورنہ وزیر لیبر کو ان کی جانب سے خطرناک بدعا دی جائے گی۔

العربیہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی وزارت لیبر کی جانب سے 2011ء کے دوران یہ فیصلہ نافذ کیا گیا تھا کہ خواتین کے زیرجامہ ملبوسات کی دکانوں پر سیلز مین کی جگہ خواتین ورکرز کو بھرتی کیا جائے۔ اس طرح خواتین کے لیے بہت بڑی تعداد میں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے تھے۔ جبکہ اس سے قبل خواتین کے زیرجامہ ملبوسات کی دکانوں پر سیلز مین بھرتی کیے جاتے تھے اور خواتین ان سے خریداری کرتے ہوئے جھجک محسوس کرتی تھیں۔ وزارت لیبر نے سعودی خواتین کے اس دیرینہ مطالبے پر عمل کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا تھا۔

وزارت لیبر کے مذکورہ اجلاس کے دوران بہت سی مذہبی شخصیات نے پے در پے وزیر لیبر کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا، اور انہیں بہت کم وقت دیا کہ وہ اپنا مؤقف بیان کریں اور یہ واضح کریں کہ اس فیصلے سے سعودی معیشت اور سعودی خواتین پر کس قدر مثبت اثرات پڑیں گے۔ سعودی اخبار کے ایک اور اخبار الاقتصادیہ کے مطابق ایک مذہبی شخصیت نے وزیر لیبر سے کہا، “میں نے ایک سابق وزیر لیبر غازی الغوثیابی کو بددعا دی تھی اور وہ کینسر میں مبتلا ہو کر مرگیا، کیونکہ وہ ملک کے اندر خواتین کی سماجی ترقی اور ان کے معاشی کردار کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔” انہوں نے مذکورہ وزیر کو بھی براہ راست بددعا کی دھمکی سے نوازا، اور کہا کہ وہ بددعا کرے گا تو اسے بھی کینسر لاحق ہو سکتا ہے۔ 200 مذہبی شخصیات میں سے ایک نے منسٹر سے کہا کہ حکومت کا یہ کام نہیں کہ وہ خواتین کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کرے اور یہ فیصلہ کرے کہ خواتین کو کہاں کام کرنا چاہیئے۔

ان میں سے دوسرے نے وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “میں تمہیں خبردار کر رہا ہوں، تم بغاوت کی آگ مت بھڑکاؤ۔ ابھی ہم تمہیں صرف مشورہ دینے کے لیے آئے ہیں۔ تمہاری وزارت ہماری بیٹیوں کو ہم سے جدا کرنا چاہتی ہے، انہیں بازار میں بٹھانا چاہتی ہے، یہ ہماری اقدار پر حملہ ہے، تم ہماری خواتین کو ان کی اقدار سے دور نہ کرو۔” 200 افراد کے مسلسل ان تابڑ توڑ حملوں کے جواب میں وزیر لیبر کو بولنے کا موقع ہی نہیں مل رہا تھا، بالآخر انہوں نے اپنے سامنے بیٹھے ایک لمبی داڑھی والے مولوی کی باتوں کا جواب دیا اور اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم کے عہد میں خواتین ملازمتیں کرتی تھی۔ نیز مردوں کے شانہ بشانہ خدمات انجام دیتی تھیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ خواتین کے زیرجامہ ملبوسات کی دکانوں پر خواتین ہی کام کریں نہ کہ مرد، کیونکہ مرد کی موجودگی میں دکانوں سے ایسی چیزوں کی خریداری میں خواتین کو جھجھک محسوس ہوتی ہے۔ وزیر لیبر عبدالفاکح نے مرگ مفاجاۃ کی دھمکی کا کوئی خیال رکھے بغیر ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے انتہا پسند سعودی علماء کو واضح طور پر بتادیا کہ وہ اس سلسلے میں عدالت کی طرف رجوع کریں، عدالت ہی فیصلہ دے گی کہ میرا یہ منصوبہ ملک اور خواتین کے لئے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ۔ کہا کہ وہ لوگ اپنا کیس عدالت میں لے جا سکتے ہیں، پھر عدالت یہ فیصلہ کرے کہ وزارت لیبر نے کہاں قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
خبر کا کوڈ : 243645
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش