0
Sunday 6 Jul 2014 21:56

بھارتی ہندو انتہا پسندوں کے اچھے دن جاری

بھارتی ہندو انتہا پسندوں کے اچھے دن جاری
تحریر: جاوید عباس رضوی
 
نریندر مودی کو وزیراعظم بنوانے کیلئے میڈیا کمپین میں بہت سارے نعروں میں ایک نعرہ یہ بھی تھا ”مودی جی آنے والے ہیں ،اچھے دن آنے والے ہیں“۔ جیت کے بعد اور وزارت عظمیٰ کے حلف لینے تک تو لگا کہ واقعی اچھے دن آگئے، وجہ یہ تھی کہ انہوں نے جشن حلف برداری میں سارک ممالک کے نمائندوں جس میں پاکستان بھی شامل ہے کو دعوت دی حالانکہ پاکستان اور سری لنکا کو مدعو کرنے کیلئے داخلی اور خارجی پیمانے پر مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود ان مہمانوں کی آمد سے ایسا لگ رہا تھا کہ بھارت میں روایتی پاکستان اور مسلمان مخالف رویہ کے دور میں کوئی فرق آنے والا ہے لیکن یہ خوش فہمی دوسرے دن ہی دور ہوگئی جب مقبوضہ کشمیر کو حاصل دفعہ 370 مسترد، سول کوڈ اور مسلم اقلیت کے تعلق سے نجمہ ہپت اللہ کے بیانات سامنے آئے، اس کے بعد حسب روایت خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے مہاراشٹر کیلئے ایک الرٹ بھی جاری کیا گیا کہ مہاراشٹر میں فساد کا خطرہ ہے اس الرٹ کو شاید تین دن ہی گزرے ہونگے کہ فیس بک پر شیواجی جی، بال ٹھاکرے اور دیگر ہندو شخصیات کی تضحیک آمیز تصاویر اپلوڈ کردی گئیں، جس پر تشدد بھری واقعات رونما ہوئے اور نتیجے میں مسلم انجینئر نوجوان مارا گیا، حتیٰ کی ابھی بھی اعتدال پسند ہندو لوگ ظلم و تشدد کے شکار ہیں اور ہر آئے دن مار پیٹ کے واقعات پیش آتے ہیں، شاید انہیں دنوں کے بارے میں نعرہ دیا گیا تھا کہ ”اچھے دن آنے والے ہیں“ واقعاً اچھے دن آگئے ہیں لیکن مسلمانوں کے نہیں اور نہ اعتدال پسند ہندوں کے بلکہ ہندو انتہا پسندوں کے، ہندو انتہا پسندوں کے سامنے مسلمان ہونا اور ان کے چہروں پر داڑھی ہونا جرم ہے، باقی جرائم تو بعد کی بات ہے، ان عناصر کا ایک عام درس جو ان کے مذہبی و سیاسی لیڈر کھلے عام دیتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں، بھارت کا کوئی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں ہے جہاں کشمیری مسلم طلاب کھل کر اظہار رای کر سکتے پاکستان کی حمایت تو دور کی بات ہے۔

کانگریس سے ایک قدم آگے بڑھ کر بی جے پی کا ایجنڈہ ہمیشہ سے ہی مسلم مخالف رہا ہے اور یہ امید کرنا بھی خطا ہوگی کہ کبھی مستقبل میں ان سے ایسی حرکات و کلمات صادر ہوںگے جو کم از کم مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ ہندوستانیت کے حق میں ہی ہوں کیونکہ جس تنظیم کی پشت پناہی میں یہ جماعت کاربند ہے وہ ہمیشہ سے ہی سیکولرزم مخالف شوشہ چھوڑتی رہتی ہے، جس سے بھارت کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا رہتا ہے اور آپسی مصالحت و مفاہمت کے بجائے عصبیت اور بوالہوسی بیدار ہوجاتی ہے، ایک ماہ قبل کی بات ہے تیس افراد پر مشتمل ایک ہندو دہشت پسندوں کا گروہ مسلم نوجوان پر صرف اس وجہ سے ٹوٹ پڑا کہ اس کے سر پر ٹوپی اور چہر ے پر ہلکی ہاں ہلکی داڑھی تھی ، مسلم گھرانے کا چراغ بجھ گیا، مقتول محسن کو ابھی دوگز زمین میں دفن بھی نہیں کیا گیا تھا کہ پونے کے سوشیل میڈیا میں اس کی موت کا مذاق دہشت پسندوں نے یوں کہہ کر اُڑانا شروع کیا کہ ”پہلی وکٹ گرگئی“، شکوہ اور گلہ کس سے کریں؟ لاکھ چیخ و پکار کے بعد وزیرِاعلیٰ نے سرکاری معاوضہ کا اعلان کیا اور محسن کی جان کی قیمت پانچ لاکھ روپے لگائی، اور بس۔ 5 روز قبل مرادآباد میں ہندو انتہا پسندوں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے، مسلمان مارے گئے پیٹے گئے اور ہندو انتہا پسند پولیس کی نگرانی میں محفوظ۔ اس کے علاوہ پاکستان کی محبت اور حمایت میں کشمیری طلاب کو بھارت کی مختلف یونیورسٹیز میں تشدد کا نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے، ہر آئے دن کشمیریوں کو یا تو ان تعلیمی مراکز سے نکال باہر کیا جاتا ہے یا پھر پاکستان جانے کا دھمکی آمیز مشورہ۔

بھارت کے حالیہ پارلیمانی الیکشن رزلٹ آنے کے بعد مسلمانوں کو تحفے میں آسام کے مسلم کش فسادات ملے، بھارت کا ماحول بدل رہا ہے، فرقہ وارانہ حالات تبدیل ہورہے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف مذہب کے نام پر بھید بھاﺅ بڑھ رہا ہے، یوپی میں فرقہ وارانہ چھڑپوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے اور اندیشہ ہے کہ کبھی بھی، کہیں بھی کوئی فساد ہوجائے، کیا کسی شخص کے ساتھ اس لئے الگ طرح کا برتاﺅ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہندو نہیں ہے یا اسلئے کہ وہ اتفاق سے مسلمان ہے؟ اسے ملک کی بدقسمتی کہا جائے یا قوم کی ذہنی پسماندگی کہ اس ملک کی فرقہ وارانہ فضا مسموم ہوئی ہے اور ایک شخص کے ساتھ بھید بھاﺅ کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو مسلمان نہیں صرف ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں لہٰذا انھیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب سے نریندر مودی بی جے پی کی طرف سے وزیراعظم کے امیدوار بنے ہیں تب سے ماحول اور بھی خراب ہوا ہے اور ایک طبقہ فکری اعتبار سے انتہا پسندی کی طرف راغب ہوا ہے۔

کچھ دن پہلے ہندوسان کے ایک انگریزی اخبار میں سمرہلارنکر کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنی کسی جاننے والی ’’رادھا خان‘‘ کا ذکر کیا ہے جو مسلمان نہیں ہیں مگر اپنے نام کے ساتھ ”خان“ کا ٹائیٹل ہونے کے سبب پریشان ہیں، انہیں بس اسی سبب سے کئی جگہوں ہر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بھید بھاﺅ کی شکار ہوتی ہیں، یہ پریشانی صرف انہیں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان کے بچوں کے ساتھ بھی ہے، ان کی ایک بیٹی کو کہا گیا کہ وہ پاکستان چلی جائے، ظاہر ہے کہ اسے مسلمان سمجھ کر ایسا کہا گیا، خان سر نیم کے سبب ’’رادھا‘‘ کو سوتیلے برتاﺅ کا سامنا کرنا پڑا جس سے گھبرا کر انہوں نے لوگوں کو اب اپنا نام صرف رادھا بتانا شروع کردیا ہے، فیس بک پر بھی وہ اب صرف رادھا ہیں، انہیں یہ ٹائیٹل اپنے دادا سے ملا تھا جو کہ بھارتی شہر رام پور سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان تھے مگر ان کی دادی کشمیری پنڈت تھیں، وہ لوگ مذہب کے معاملے میں دادی کے زیر اثر رہے مگر سر نیم دادا کا مل گیا جو آج ان کے لئے ایک بوجھ بن گیا ہے، بہرحال یہ ان کا درد ہے جن کے نام مسلمانوں سے ملتے جلتے ہیں مگر وہ کس قدر بھید بھاﺅ کا شکار ہوتے ہونگے جو نام ہی نہیں کام کے بھی مسلمان ہیں، انہیں سرکاری ملازمت نہیں ملتی کیونکہ وہ مسلمان ہیں، انہیں شڈول کاسٹ اور شڈول ٹرائب ریزرویشن نہیں ملتا کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ ان کے بچوں کو اچھے اسکولوں میں داخلہ نہیں ملتا کیونکہ وہ مسلمان ہیں، انہیں ہندو اکثریتی علاقوں میں مکان نہیں ملتے کیوںکہ وہ مسلمان ہیں، انہیں پرائیویٹ کمپنیوں میں اونچے عہدے نہیں ملتے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ انہیں ہندو اکثریت کے بیچ سوتیلے برتاﺅ کا شکار ہونا پڑتا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں، وہ فسادات میں مارے جاتے ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ ان کے قتل کے سبب کسی کو سزا نہیں ملتی کیونکہ وہ مسلمان ہیں، ان کے نام پر سیاسی پارٹیاں سیاست کرتی ہیں اور ان کے حق مارتی ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں، جس ملک میں جانوروں کے تحفظ کے لئے بھی قانون موجود ہیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے کے سبب بہت سے لوگوں کو سزائیں ہوتی ہیں وہاں انسانوں کے قتل پر کوئی توجہ بھی نہیں دیتا کیونکہ اتفاق سے وہ مسلمان ہوتے ہیں اور ملک ہندوستان۔
خبر کا کوڈ : 397636
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش