1
0
Sunday 18 Dec 2011 22:11

اور ترک بلّی تھیلے سے باہر

اور ترک بلّی تھیلے سے باہر
تحریر: سید علی جواد ہمدانی
آج کل ترکی کی متضاد پالیسی اور رویّہ اس شخص کی مانند ہے جس نے اپنے ہمسایے کا کبوتر چرا کر اپنے کوٹ کی جیب میں دبوچ رکھا تھا اور اس کے پوچھنے پر قسم اٹھا کر کبوتر کے بارے میں صاف لاعلمی کا اظہار کردیا۔ مگر بدقسمتی سے جیب سے باہر نکلی کبوتر کی دم صاف نظر آ رہی تھی، اس پر ہمسایہ کہنے لگا میں تمہاری قسم پر یقین کروں یا کبوترکی دم پر۔
ترکی کا قصّہ بھی کچھ یوں ہی ہے، اس کی اسرائیل مخالفت کا ڈرامہ اور عالم اسلام کے لیئے بھاگ دوڑ کو دیکھیں یا اس کے صیہونی اور امریکی ایجنڈے اور ان کے مفادات کے تحفظ میں کٹھ پتلی کردار پر یقین کریں۔
سوئیزرلینڈ میں ۲۰۱۰ کی عالمی اقتصادی کانفرنس کے دوران ایک پروگرام میں ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان نے غاصب اسرائیلی صدر شیمون پیریز کے خلاف جو رویّہ اپنایا تھا اور پھر غزّہ کے مسئلے پر جس طرح فلسطینیوں کی حمایت اور اسلامی ممالک کے اختلافات کے حل کے لیے جو ثالثی کی کوششیں شروع کیں، انہیں ترکی کے عالم اسلام کی طرف پلٹنے سے تعبیر کیا گیا لیکن اب ترکی نے شام کے خلاف امریکہ، اسرائیل اور عرب ممالک کے ساتھ مل کر جو سازشیں شروع کر رکھی ہیں اور ساتھ ہی اس کا نیٹو (US-NATO ABM Missile System) کے میزائیل ڈیفینس سسٹم کو اپنی سرزمین پر قائم کرنے کی اجازت دینا اور عراق چھوڑنے والی آمریکی فوج کا اپنے ڈرون (Drones) ترکی ائیربیس پر منتقل کرنا جنہیں عراقی قوم نے اپنے ملک میں مذید پڑاو کی اجازت نہیں دی وغیرہ ایسے اعمال ہیں جن سے عالم اسلام کو براہ راست سخت نقصان کا خطرہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ترکی میں رجب طیب اردگان کی قیادت میں برسراقتدار آنے والی "ترقی اور انصاف پارٹی (AKP) "، در اصل نجم الدین اربکان کی "قومی نجات پارٹی" (MSP) سے علیحدہ ہونے والے افراد کا ایک گروہ ہے۔ نجم الدین اربکان جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، ان کی اسلامی پارٹی MSP کو عثمانی سلطنت کے زوال کے بعد سے ۱۹۹۵ء میں پہلی بار دین مخالف (Laic) آئین والے اسلامی ملک میں حکومت بنانے کا موقع ملا تھا مگر ایک سال بعد ہی ۱۹۹۶ء میں فوج نے بغاوت کرتے ہوئے انہیں نہ صرف حکومت سے برخاست کر دیا بلکہ ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلا کر انہیں سیاست میں حصّہ لینے سے بھی روک دیا۔ اسی پارٹی کے اقتدار کے دوران ہی رجب طیب اردگان استنبول کے میئر بنے تھے۔ سیاسی پابندی کے بعد اربکان کی قومی نجات پارٹی کے باقی اراکین نے ایک اور جماعت "فضیلت پارٹی" بنا کر فعالیت شروع کی مگر اس پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
ایک طرف تو ۱۹۴۰ء سے نیٹو میں شمولیت کے بعد سے ترکی یورپی اتحاد (EU) میں شمولیت کا خواہاں تھا جس نے اس عضویت کی خاطر نہ صرف عالم اسلام بلکہ مکمل طور پر اپنے ہمسایے میں مشرق وسطیٰ سے بھی برائے نام رابطہ رکھا ہوا تھا، اور ترکی کی تمام تجارت اور قومی سالمیت کا دارومدار فقط یورپ پر ہی تھا۔ اس کے ساتھ ترکی کا آئین بھی اسلام مخالف قوانین سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ملک بین الاقوامی فری میسن نظام میں بری طرح جکڑا ہوا ہے اور یہاں بے شمار فری میسنری ادارے علنی طور پر پوری آزادی سے اپنا کام کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے غاصب صیہونی ملک اسرائیل کو بھی ۱۹۴۹ء میں سب سے پہلے ترکی نے بطور اسلامی ملک تسلیم کیا تھا اور یہاں فری میسنری ایجنڈے کو چلانے کے یے ہمیشہ سے فوجیوں کو سیاست میں برتری حاصل رہی۔ لیکن یورپی یونین میں شمولیت کے لیئے دکھاوے کے لیئے جمہوریت کی اشد ضرورت تھی، اس بنا پر جب ۱۹۹۵ء میں آزاد انتخابات ہوئے تو پہلی بار دین مخالف ترکی میں نجم الدین اربکان کی اسلامی نظریات والی پارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ لے کر دوسری پارٹیوں سے ایڈجسٹمنٹ سے ایک کمزور حکومت بنا ڈالی۔ اس صورتحال میں فری میسنری مشین پوری طرح سے فعال ہوئی اور اسی تنظیم پر ایک سال میں فوجی بغاوت کے ذریعے پابندی لگا دی گئی، ساتھ ہی عوامی اسلامی استقبال کو ایک غلط رخ پر موڑنے کے لیے اربکان پارٹی کے سیکولر اور نیشنلسٹ افراد پر مشتمل ایک جماعت "ترقی اور انصاف (AKP) پارٹی" بنائی گئی، جبکہ اربکان کی قومی نجات پارٹی کے دوسرے افراد نے اربکان پر سیاسی فعالیت پر پابندی لگ جانے پر جو فضیلت پارٹی بنائی اسے سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ لینے سے روک دیا گیا۔ اسی لیئے فری میسنری ایجنڈے پر عمل درآمد والی رجب طیب اردگان اور عبداللہ گل وغیرہ کی اسلام نما "ترقی اور انصاف پارٹی (AKP)" ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں کامیاب ہوئی، جس کی حکومت رجب طیب اردگان کی قیادت میں اب تک قائم ہے۔
اب ہمارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ رجب طیب اردگان کی AKP فری میسنری ایجنڈے پر قائم ہے۔ تو اس کا واضح ثبوت نجم الدین اربکان جو اسلامی سوچ کے حامی تھے ایک سال بھی برسراقتدار نہ رہ سکے مگر یہ پارٹی تقریباً دس سالوں سے برسراقتدار ہے اور عوامی حمایت میں اضافے کی خاطر ہر دفعہ کچھ عرصے بعد ایک فوجی بغاوت پکڑے جانے کی نوید بھی سناتی چلی آرہی ہے، لیکن ان کے اقتدار کو کوئی زک نہیں پہنچتی۔ جبکہ ۲۰۱۰ء کا فری میسنری چیٹم ہاؤس انعام (Chattam House Prize) بھی برطانوی ملکہ کے ہاتھوں، ترکی کے موجودہ صدر، اسیAKP کے عبداللہ گل کو دیا گیا ہے۔
اردگان کی AKP کی مکمل اسلامی اور عوامی حمایت کے حصول میں عالمی اقتصادی فورم داؤس (Davos) میں اردگان کا صیہونی صدر شیمون پریز کے ساتھ وہ ڈرامہ اور پھر غزہ کے لیئے امدادی کشتی بھیجنا اور اسرائیل کے خلاف گاہ بگاہ کی بڑکوں نے نہ صرف ترکی میں کافی مدد کی بلکہ انہی حربوں کی بدولت باہر کی دنیا میں ترکی کو عالم اسلام کی طرف واپسی سے تعبیر کیا گیا اور پھر ترکی نے اپنے ہمسایوں سے تمام اختلافات ختم کرنے کی کوششوں اور عرب ممالک سے تجارت میں بے پناہ اضافہ کیا جسکی وجہ سے ترکی ۲۰۰۸ء کے اقتصادی بحران کو بھی آسانی سے عبور کر گیا۔ اس بڑھتی تجارت سے عربوں کے درمیان اسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں اس نے لبنان کے بحران، شام اور سعودی عرب، ایران کے ایٹمی پروگرام پر برازیل کے ساتھ مل کر اور عراق میں حکومت کی تشکیل پر ایک فعال کردار ادا کیا۔ اس عرب حمایت کے نتیجے میں ترکی نے سرتوڑکوشش کی تا کہ اپنے اصل مشن، شام اور غاصب اسرائیل کے براہ راست مذاکرات ہو سکیں، مگر شام تو تین طرفہ براہ راست نشست یعنی اسرائیل، ترکی اور شام کے لیئے بھی راضی نہ ہوا۔
ساتھ ہی علاقے میں آنے والی امریکہ اور اس کے محافظوں کے خلاف عوامی نفرت اور اسلامی انقلابات کی بھی ترکی نے اخوان المسلمین تعلقات کی وجہ سے فوراً ہی حمایت کی۔ حتی مصر میں حسنی مبارک کے خلاف تو ظاہری طور پر اپنے مغربی آقاؤوں سے پہلے ہی موقف بیان کر ڈالا۔
یہاں تک تو سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا ہر ایک کو اسلام پسندی کے نقطہ نظر سے دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن جلد ہی بھانڈا پھوٹ گیا اور ترک بلی فری میسنری تھیلے سے باہر آ گئی۔ مصر میں حسنی مبارک کے خلاف تحریک کی کامیابی کے فوراً بعد اردگان صاحب وہاں اپنے اخوانی بھائیوں کو مبارک دینے خود پہنچ گئے، اور ان سے خطاب میں انہیں انتہائی اہم نصیحت کی کہ اپنا نیا آئین سیکولربنیادوں پر بنانا! اس پر نہ صرف خود مصری عوام بلکہ ترکی کے اندر بھی عوامی حلقوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔
اس کے علاوہ پچھلے ماہ نیٹو کے دفاعی میزائیل سسٹم کو ترکی میں نصب کرنے کی اجازت دے دی جو سراسر علاقے کے اہم اسلامی ملک ایران جو کہ علاقائی اسلامی بیداری میں ایک اہم حوصلہ افزا ماڈل کے طور پر موجود ہے، کے خلاف کھلی جارحیت شمار ہوتی ہے۔ عراق سے نکلنے کی تیاریاں کرنے والی امریکی فوج بھی اپنے ہوائی اثاثے ترکی اڈے میں منتقل کر رہی ہے۔
بات صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوتی، بلکہ بحرین اور یمن کے عوامی احتجاج پر چپ سادھنے والے ترکی نے شام کے خلاف امریکی اور صیہونی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے علاقے کے عرب ممالک کے ساتھ انتہائی دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے، شام جہاں لاکھوں افراد بشارالاسد کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں وہاں انہیں عوام کی فکر لاحق ہے لیکن یمن، بحرین اور اب تو سعودی عرب میں بھی حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں اور حکومت عوام کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہی ہے، لیکن وہاں کیونکہ امریکہ کے مفادات ان حکومتوں سے وابستہ ہیں تو کسی کو بھی عوامی مشکلات کی فکر نہیں ہے۔ جبکہ شام اس وقت علاقے کی تین اہم ترین امریکی اور صیہون مخالف قوتوں یعنی ایران، حزب اللہ اور فلسطینی مزاحمت کاروں سے جڑا ہوا ہے اور شام میں کوئی بھی تبدیلی ان تینوں پر کافی اثرانداز ہو گی، اور علاقے میں اسلامی مفادات پر کاری ضرب پڑنے کا خدشہ بھی ہے۔ لہٰذا تمام تر صیہونی بلکہ فری میسنری ہرکارے امریکہ سے لے کر عرب اتحاد اور ترکی اس وقت شام کے خلاف متحد ہیں۔ باقی تمام تر مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے اس معاملے میں تو ترکی کا اسلام دشمن اور مغربی مفادات کے محافظ کی حیثیت سے حقیقی چہرہ سب کے سامنے پوری طرح سےعیاں ہے۔
مسلمہ طور پر علاقے میں آئے ایرانی انقلاب کے بعد سے اس علاقے کی دیگر اقوام میں بھی ایران کے کامیاب اسلامی نظام کے تجربے کے بعد اسلامی جذبات ابھرنا شروع ہو گئے تھے اور اس انقلاب کے خلاف نیشنلزم اور سیکولزم کے سامراجی ہتھکنڈے جب آہستہ آہستہ اپنی افادیت کھونے لگے تو اس ناکامی کے بعد پہلے اسلامی جذبات کو ایران کے مقابلے میں افغانستان میں ایک نفرت انگیز اور پرتشدد جہادی چہرہ دکھا کر خاموش کرنے اور اسلام سے دور کرنے کی کوشش کی گئی، اور اس کوشش میں جن علاقوں کی عوام حقیقی اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ اور اقتصادی ضعف کا شکار تھی، وہاں انہیں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی؛ جیسے پاکستان، مشرقی ایشیاء اور روسی تسلط سے نو آزاد ممالک میں، لیکن عرب ممالک جہاں پیسے کی ریل پیل بھی تھی اور لوگون کو قرآن کی زبان سے آشنائی بھی، وہاں کے لیے یہ حربہ اتنا کامیاب نہ تھا، لہٰذا ان کے لیے ترکی کا غرب زدہ اسلامی ماڈل تیار کیا گیا۔ اور موقع شناس اور مغرب کے گرویدہ اس ملک نے یہ رول ادا کرنے میں ذرا بھر بھی غلطی نہ کی۔ قبل ازاں ایران پر جنگ مسلط کرنے کے لیئے ۱۹۷۹ میں عراق کی جگہ پہلے ترکی کو ہی منتخب کیا گیا تھا، کیونکہ تاریخی اعتبار سے ترک عوام اور علاقے کے اہل سنت افراد کو ایران کے خلاف اکسانے کے لیئے عثمانی-صفوی مخاصمت موجود تھی اور شاید یہ حربہ زیادہ کارگر بھی ہوتا لیکن ترک حلقوں میں اس کے شدید ردعمل کی وجہ سے یہ مشن عراق کو سونپا دیا گیا۔
اس نئے رول کی ادائیگی کے سلسلے میں کیونکہ اردگان کے نجم الدین اربکان کی قومی نجات پارٹی میں رہنے کی وجہ سے علاقے کی اسلامی نظریاتی تنظیموں سے تعلقات بھی ہیں لہذا روشن خیالی اور مغربی اتحاد میں شمولیت کی آرزو اور وطن پرستی کے خول میں مبحوس یہ افراد مسلمانوں کے درمیان عالمی استعمار کی ایک انتہائی نایاب سواری ہیں۔
ایک مسلمان ملک جہاں سیکولر جمہوری نظام حاکم ہو، دین کی نام لیوا جماعت برسراقتدار ہو، جو صنعتی اور علمی ترقی میں یورپ کے ہم پلّہ ہے، ساتھ ہی واحد اسلامی ملک جو نیٹو کا باقاعدہ رکن ہے، عوامی رائے عامہ کو اپنی ہم نوائی کے لیے ہر چند گاہ عثمانی عظمت رفتہ کی یاد بھی تازہ کرتی رہتی ہے اور مسلمانوں کے درمیان فعال کردار ادا کرنے کی اہلیّت اور صلاحیّت بھی رکھتی ہے، جو اپنے اقتدار کے بھی پیاسے ہیں اور امریکی مفادات کا خیال رکھنے میں بھی پیش پیش ہیں۔ ایک ایسا بہترین ماڈل ہے جس کے اسلامی ہونے سے امریکی اور عالمی شیطانی نظام کو بے انتہا فائدہ ہے۔ عوام بھی سرگرم اور شیطانی نظام بھی علاقے میں اپنے اھداف کی نسبت مطمئن، اور یہی دین اور حقیقی اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
اس قسم کے شیطانی حربے صرف ہمارے دور میں ہی نہیں بلکہ شیطان انہیں پیغمبر اکرمص کے دور سے آزماتا چلا آرہا ہے؛ سورہ بقرہ کی آیت ۲۰۴ میں جیسے ذکر ہے: وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اﷲَ عَلَی مَا فِی قَلْبِہِ وَہُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ : ترجمہ: انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی باتیں آپ کو زندگانی دنیا میں بھلی لگیں گی اور وہ اپنے دل کی باتوں پر خدا کو گواہ بناتے ہیں حالانکہ وہ ہی بدترین دشمن ہیں۔
ترکی کا کیس دیکھیں ان کی دنیائے اسلام کے لیے کوشش دیکھیں ہم سب کو بھلی لگیں گی، ساتھ ہی اپنی اسلام دوستی کے لیے چند اسلامی آداب اور اسلام نما پارٹی بھی ہے، مگر ایجنڈا دیکھیں، اسلام کے سخت ترین دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ اپنی اسی اسلام دوستی کی بنیاد پر اخوان المسلمین مصر کو مشورہ دے رہے ہیں: وہ بھی کیا؟ امریکی ایجنڈا؛ یعنی ایسا آئین بنایا جائے جو ظلم کے خلاف اٹھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ ساتھ ہی افغانستان اور پاکستان میں ترکی کی طرف سے تعلیمی میدان میں سکولوں کا قیام بھی اس امریکی منصوبے کے تحت شروع ہو چکا ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد طالبانی سوچ کی بنا پر حقیقی اسلام سے دور ہو چکی ہے، باقی رہی سہی کسر ان سکولوں کے ذریعے سیکولر تعلیمی نظام کے نفاذ سے اصلی اسلام سے دور ہو جائیں گے۔ ان سکولوں میں دیندار افراد، دوسری جگہوں سے ناامیدی کے بعد، اسلامی ترقی یافتہ تعلیم کی خاطر اپنے بچوں کو بھیجیں گے، اور کچھ عرصے بعد جب تک ان کی آنکھیں کھلیں گی، پانی سر سے گذر چکا ہو گا۔ ہماری بھولی قوم کے لیے تو صرف اسلام کا ظاہری نام لینے والا ہی کافی ہے چاہے باطن اس کا جیسا بھی ہو ثبوت کے طور پر بعثی(بے دین، نیشنلسٹ) رجیم کے صدام کی مثال موجود ہے جب صرف برائے نام پتا چلا کہ اسنے اسرائیل پر دو سکڈ میزائیل داغے ہیں، جن سے حقیقت میں فلسطینیوں کے دیسی راکٹ جتنا بھی نقصان نہ ہوا تھا، تو خیبر سے کراچی تک تمام ذرائع نقل و حمل پر صدام کی تصاویر آویزاں ہو گئی تھیں۔ جبکہ واقعیت یہ ہے کہ خود امریکہ نے ہی صدام سے کویت پر عربوں سے پیسہ ہتھیانے اور اپنا پرانا اسلحہ ٹھکانے لگانے کے لیے حملہ کروایا تھا۔ البتہ ماننا پڑے گا کہ یہ شیطانی طاقتیں ڈرامہ اتنی خوبصورتی سے رچاتی ہیں کہ ہمیں وقت گذرنے کے بعد بھی ان کی جعل سازیوں پر حقائق دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا جبکہ قرآن میں بھی ان کے اس قسم کے حربوں کی کئی بار وضاحت ہوئی ہے مثلاً سورہ قصص کی آیت ۱۵ میں جب حضرت موسیٰ خداوند متعال کی عطا حکمت اور علم کے ساتھ اس شہر میں داخل ہوتے ہیں اور انکا ماننے والا، ایک قبطی شخص سے جو ان کا دشمن ہوتا ہے، کے ساتھ لڑائی میں حضرت موسیٰ سے مدد مانگتا ہے اور جب ان کے مکا مارنے پر وہ قبطی مرتا ہے تو فوراً حضرت موسیٰ اس بات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ اب اس قوم والے ان کے پیچھے پڑ جائیں گے اور وہ اپنے اصلی ہدف یعنی لوگوں کی تبلیغ اور تربیت سے کچھ عرصے کے لیے دور ہو جائیں گے لہٰذا فوراً کہتے ہیں: ھذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ اِنَّہُ عَدُوّ مُضِلّ مُبِین (۱۵) یعنی کیا مطلب، ایک شخص کی ظالم کے خلاف مدد کرنا شیطانی عمل ہے کیا؟ درواقع شیطان نے حضرت موسیٰ کو اپنے الٰہی مقصد سے ہٹانے کے لیے اس قسم کا ڈرامہ رچایا تھا اور بعد میں حضرت موسیٰ اس مدد طلب کرنے والے کو اِنَّکَ لَغَوِیّ مُبِین (۱۸) تو آشکارا گمراہ ہے؛ قرار دیتے ہیں۔
یہ ہی حال اس وقت ترکی کا ہے جو آشکارا اور کھلم کھلا گمراہی اور مذمت میں گھرا ہوا ہے اور دوسروں کو اصل راہ سے، اصل اسلام سے ہٹانے کے در پے ہے۔ ہمیں اردگان کے دو چار ظاہری اور سرسری اسلامی کام دیکھ کر غفلت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت یہ ہی دیکھ لیں کہ ترکی اور کئی عرب ممالک کس طرح کٹھ پتلیوں کی طرح اسرائیل اور امریکی پروگرام پر عمل درآمد کرتے ہوئے شام کے خلاف شیطانی کھیل میں مصروف ہیں، اور اگر خدا نہ کرے انہیں کوئی کامیابی ہوئی، جس کا امکان کم ہی ہے، تو اس کی وجہ سے علاقے کے حقیقی اسلام کی راہ میں جد و جہد کرنے والوں کو سخت نقصان پہنچے گا۔
خبر کا کوڈ : 123332
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ہمیں اردگان کے دو چار ظاہری اور سرسری اسلامی کام دیکھ کر غفلت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت یہ ہی دیکھ لیں کہ ترکی اور کئی عرب ممالک کس طرح کٹھ پتلیوں کی طرح اسرائیل اور امریکی پروگرام پر عمل درآمد کرتے ہوئے شام کے خلاف شیطانی کھیل میں مصروف ہیں......well said
ہماری پیشکش