0
Saturday 9 Aug 2014 00:57
پنجگور میں اسکولوں کی بندش قابل مذمت ہے

اسرائیل اپنی ریاستی دہشتگردی کے ذریعے فلسطینوں سے زندگی کا حق چھین رہا ہے، نصراللہ خان زیرے

خطے میں امن کیلئے پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ پالیسی اپنانی ہو گی
اسرائیل اپنی ریاستی دہشتگردی کے ذریعے فلسطینوں سے زندگی کا حق چھین رہا ہے، نصراللہ خان زیرے
نصراللہ خان زیرے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری اور ممبر بلوچستان اسمبلی ہیں۔ آپ گذشتہ برس 2013ء کے انتخابات میں کوئٹہ کے حلقہ پی بی 5 سے انتخاب جیت کر اسمبلی کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ نصراللہ خان زیرے اس سے قبل پاکستان پروگریسیو اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رکن بھی رہے ہیں۔ آپ محمود خان اچکزئی کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہیں اور صوبے کی سیاست میں آپکا گہرا اثر و رسوخ ہے۔ نصراللہ خان زیرے سے پاکستان کی افغانستان سے متعلق پالیسی، بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کی روک تھام اور غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپکی جماعت ہمیشہ سے افغانستان میں مداخلت کی پالیسی کیخلاف کیوں رہی ہے۔؟
نصراللہ خان زیرے: ہمارے حکمرانوں نے اس ملک کی بنیاد جس انداز میں رکھی، پھر ہماری پالیسیاں بنیں، نو سال تک یہ ملک یہ سرزمین بے آئین تھی۔ پھر جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰی خان، جنرل ضیاءالحق اور پھر جنرل مشرف جیسی آمرانہ قوتوں نے پاکستان پر حکمرانی کی۔ ہم نے اپنی تمام تر پالیسی میں مداخلت کی پالیسی کو دوام دیا۔ ہم ان قوتوں کو جو عوامی قوتیں تھی، جیسے عبدالصمد خان اچکزئی، خان عبدالغفار، باچا خان، امیر غوث بخش بزنجو اور جی ایم سید کو پیچھے کر کے دو نمبر کی لیڈر شپ کو آگے لائے۔ اس دو نمبر لیڈر شپ کے ذریعے ہم نے اس ملک کو چلانے کی کوشش کی، جس میں ہم ناکام ہوئے۔ یقیناً افغانستان ایک آزاد مملکت ہے اور رہے گا۔ وہاں پر مداخلت کی پالیسی جو اپنائی گئی، اسکا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔ ہم نے دنیا جہان کے دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کو لاکھوں کی تعداد میں لا کر یہاں پر آباد کیا۔ خود جنرل ضیاء نے کہا تھا کہ ہم نے چار لاکھ پاسپورٹ جاری کئے ہیں غیر ملکیوں کو۔

آج پورے ملک میں موجودہ تمام ریاستی ادارے ان دہشتگردوں پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان دہشتگردوں کو ہم ختم نہیں کر پا رہے۔ ان کی کمین گاہیں اتنی مضبوط بنی ہوئی ہیں، کہ اس ملک کے طول و عرض میں نہ مسجد، نہ بازار اور نہ دفاتر کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔ یہ سب اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ 1990ء میں محمود خان اچکزئی نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں کسی قسم کی مداخلت تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ البتہ ہم نے خود اس زمانے میں تعلیم مکمل کرکے پاکستان پروگریسیو اسٹوڈنٹس الائنس بنایا تھا، جس میں ہمارا مطالبہ بھی یہی رہا تھا کہ ہمسایہ ملک میں مداخلت نہیں ہونی چاہیئے۔ آج بھی ایسی قوتیں موجود ہیں کہ وہ اس پالیسی کو جاری رکھنا چاہتی ہے، جو پچھلے حکمرانوں کی رائج کردہ تھی۔ لہذٰا ہماری پارٹی پاکستان اور پاکستانیوں کی خوبی و بہتری کیلئے ہی کسی بھی ہمسایہ ملک میں مداخلت کی ہمشیہ سے مخالف رہی ہے، اور رہے گی۔

اسلام ٹائمز:‌ گذشتہ دنوں محمود خان اچکزئی صاحب کی افغانستان میں صدر حامد کرزئی سے ملاقات کا اصل مقصد کیا تھا۔؟
نصراللہ خان زیرے: جیسا کہ میڈیا پر بھی اس کی رپورٹس آ چکی ہیں۔ ہمسایہ ملک سے پاکستان کے تعلقات پہلے سے قابل تعریف نہیں، اسی لئے کوئی بھی غلط حرکت دونوں کیلئے بڑا مسئلہ پیدا کرسکتی ہیں۔ افغانستان سے موصول ہونے والی خبروں‌ کے مطابق پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کا باقاعدہ منصوبہ بنانے کی خبریں آ رہی تھیں۔ اسی لئے حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے میاں محمد نواز شریف نے صدر کرزئی سے ملاقات کیلئے محمود خان صاحب کو ہدایات دیں تاکہ افغانستان سے کسی بھی ممکنہ حملے کو روکنے کیلئے بروقت اقدامات کئے جائیں۔

اسلام ٹائمز: افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد یہ خطہ کسطرح کا سیاسی منظر نامہ پیش کررہا ہے۔؟
نصراللہ خان زیرے: 2014ء کے آخر میں فوجیوں کے انخلاء سے کافی حد تک مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ خاص کر پاکستان کو اس ضمن میں اپنی پالیسی پر نظر ڈالنی پڑے گی۔ تعلقات میں تلخیوں کے باوجود موجودہ حکومت اگر چاہے تو افغانستان سے بہتر روابط بنائے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں افغان حکومت کی خودمختاری کو ماننا ہوگا۔ اسکے علاوہ کابل میں کسی بھی خفیہ ایجنسی کی کاروائیوں کو روکنا چاہیئے۔ مستقبل میں کابل حکومت اور پاکستان میں ایک ہی قسم کے خطرات لاحق ہیں، اسی لئے دونوں کو ملکر اس ضمن میں پیشرفت کرنا ہوگی

اسلام ٹائمز: بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے صوبائی حکومت اب تک کیوں ناکام نظر آ رہی ہے۔؟
نصراللہ خان زیرے: بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ انتہائی گھمبیر صورتحال اختیار کرگیا تھا لیکن موجودہ حکومت کے آنے کے بعد اس میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور میاں محمد نواز شریف صاحب تو اس حوالے سے فوجی قیادت اور خفیہ ایجنسیوں سے کئی مرتبہ بات بھی کرچکے ہیں، جسکی وجہ سے اب لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے واضح کمی آئی ہے۔ البتہ ایک آدھ واقعات اگر ہوتے ہیں، تو اس میں بھی خفیہ اداروں کو مورد الزام نہیں ٹھرایا جا سکتا۔ گذشتہ دنوں جنرل ناصر خان صاحب نے خود میڈیا کو بتایا تھا کہ اس سال کے شروع سے اب تک ملنے والی مسخ شدہ لاشوں میں کسی بھی خفیہ ادارے کا ہاتھ نہیں ہے۔ لہذٰا اب یہ صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے بھرپور تحقیقات کرتے ہوئے مبینہ واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار کریں۔

اسلام ٹائمز: پنجگور میں اسکولوں کی بندش کے پیچھے کون ہے اور اب تک اسکولوں کو بحال کیوں نہیں کیا گیا۔؟
نصراللہ خان زیرے: گذشتہ دنوں وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ خود پنجگور گئے تھے، اور متاثرین سے ملاقات بھی کی۔ ایسے واقعات کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ جس طرح جہادی پالیسی کو اس ملک میں فروغ دیا گیا، اسکے اثرات اب پنجگور جیسے علاقوں میں بھی پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ نام نہاد مذہبی تنظیمیں اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ایسی حرکتیں کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کا مسلمان تو کیا انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ ان عناصر کیخلاف تمام مکاتب فکر، سیاسی و مذہبی پارٹیوں کو جدوجہد کرنا ہوگی۔

اسلام ٹائمز:‌ غزہ میں‌ جاری اسرائیلی جارحیت کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
نصراللہ خان زیرے: اسرائیل اپنی ریاستی دہشتگردی کے ذریعے مظلوم فلسطینی عوام سے زندگی کا حق چھین رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یہ ظلم تمام مسلمانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہماری پارٹی کا شروع دن سے یہ موقف رہا ہے کہ ظلم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہمیشہ رہینگے۔ ایک جانب مغربی طاقتیں متحد ہوکر اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں، جبکہ دوسری جانب مسلمانوں کے آپس میں اختلافات، ہماری سب سے بڑی ناکامی ہے۔ پاکستان سمیت تمام ممالک کو چاہیئے کہ غزہ میں جاری اس آگ و خون کے کھیل کو بند کرانے میں عملی اقدامات اٹھائیں۔
خبر کا کوڈ : 403430
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش