1
0
Sunday 25 May 2014 22:51
25 مئی 2000ء کو مقاومت نے ظلم کیخلاف ایک مثال قائم کی

شام میں دشمن اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کا چہرہ مسخ کر رہا ہے، سید حسن نصراللہ

شام کے دوست شام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے
شام میں دشمن اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کا چہرہ مسخ کر رہا ہے، سید حسن نصراللہ
رپورٹ: ابو کرار

25 مئی یوم تحریر کی مناسبت سے سید مقاومت سید حسن نصر اللہ نے بنت جبیل میں اتوار کی رات اہم خطاب کیا، جس میں سیکرٹری جنرل حزب اللہ کا کہنا تھا کہ شام میں پورے مشرق وسطٰی کی تبدیلی کا منصوبہ بنایا گیا ہے، لیکن نشانہ صرف شام کو بنایا گیا، شام میں اسلام کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا، سر کاٹے جا رہے ہیں، گھروں کو تباہ کیا جا رہا ہے، حالانکہ کہ اسلامی تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دشمن کے ساتھ لڑنے کی بہترین مثال 25 مئی 2000ء ہے، جب ہم نے غاصب صہیونی دشمن کو جنوبی لبنان سے مار بھگایا لیکن کوئی درخت، کوئی پتہ نہیں گرا، کسی کا نقصان نہیں ہوا۔ دشمن کے ساتھ لڑنے کی بہترین مثال یہ ہے۔ اور یہ دین اسلام ہے، یہ محمد عربی (ص) کی تعلیمات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم فوری طور پر لبنان کے صدر کا انتخاب چاہتے ہیں، ایسے شخص کو صدر دیکھنا چاہتے ہیں جو سب کو ساتھ لیکر چلے، اور مقاومت کی تحریک کو نقصان نہ پہنچائے۔
 
سید مقاومت سید حسن نصراللہ کی تقریر کا متن
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم، بسم الله الرحمن الرحيم، والحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيدنا ونبينا خاتم النبيين، أبي القاسم محمد وعلى آله الطيبين الطاهرين وصحبه الأخيار المنتجبين وعلى جميع الأنبياء والمرسلين
السلام علیکم جمعیاً

آپ سب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
اس ملک کی بڑی عید کے موقع پر، مناسبت کی بحث میں داخل ہونے سے قبل، ہجری تاریخ کی مناسبت سے کہ جس میں مبعث نبوی شریف ہے اور امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی شہادت ہے، جو بغداد کی جیل میں ہوئی۔ اس میں چند مناسبات حضور اکرم کی طرف لوٹتی ہیں، حضور کی معراج اور اہل بیت علیہ السلام سے متعلق اہم تاریخیں ہیں، جن کے حوالہ سے تعزیت و تسلیت عرض ہے۔
میرے بھائیو!
آج کے دن کی مناسبت سے بات کرنا چاہتا ہوں، بعض موضوع حساس ہیں، لیکن ان موضوعات پر بات کرنا ضروری ہے، سب سے پہلے 25 مئی کی مناسبت اور فتح کی مناسبت کے حوالہ سے بات کرتا ہوں کہ ہم ہر سال اس کی تاکید کرتے رہے کہ یہ فتح، اس کے اشارے اور دلیلیں، جن پر ہم نے بہت سی بحثیں کیں ہیں۔ اس فتح کے اثرات آج تک موجود ہیں، لبنان و فلسطین کے اندر اور ہمارے دشمن کی طرف، اگر یہ کامیابی نہ ہوتی تو اس کے بعد کی کامیابیاں بھی نہ ہوتیں، ہم اس کامیابی کو تمام کامیابیوں کا باعث قرار دے سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ کامیابی عربی، لبنانی ہے، اسکو کسی ایک تحریک گروہ یا تنظیم کے ساتھ مختص نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قوم صہیونیوں کے مقابل ڈٹ گئی، یہ عید ان معنوں میں ہے کہ یہ عید وطن و قوم کی عید ہے۔

تیسری بات قربانیاں دینے والوں سے متعلق ہے کہ جنہوں نے اپنی  اولاد اور مال کے ساتھ مقاومت کی تحریک کو کامیاب کیا۔ شامی فوج نے جو عظیم قربانیاں دیں، ان  کا تذکرہ بھی ہونا چاہیے۔ یہ کامیابی بہت بڑی قربانیاں دے کر حاصل کی گئی۔ دشمن کے ساتھ مبارزہ کی یہ ثقافت اور قوم کی روش و طریقہ کار جس میں ہمارے بچوں اور عورتوں کا جذبہ ایثار و قربانی بھی دیدنی تھا، انتہائی قابل رشک ہے، اس ثقافت کے باعث اس زمانہ کو کامیابیوں کا دور قرار دیا جائے۔ 2005ء کی کامیابی اور پھر 2006ء کی کامیابیاں اسی طرح عملیات القصیر کہ جس کے تحت سکوت کو توڑا گیا، یہ کامیابیاں اسی ثقافت کی وجہ سے حاصل ہوئیں۔ ہمارے ارادہ کے مقابل مضبوط دشمن شکست کھا گیا۔ ہمارا ایمان اور جذبہ اس کامیابی کا باعث بنا۔ ہمارے علاقہ کی صورتحال افسوسناک ہے، اسلام کا نام اجتماعی قتل عام کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ قبریں کھودی جا رہی ہیں۔ سروں کو کاٹا جا رہا ہے، ظلم کیا جا رہا ہے، اس کے پس پردہ سیاسی عوام کارفرما ہیں، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

25 مئی ایک نیا تجربہ دکھایا گیا، جس میں جنوبی لبنان کے اندر جو کہ مقبوضہ علاقہ تھا، ہمارے مسلح نوجوانوں نے بڑے دشمن کو شکست دی اور یہ وہ دشمن ہے جو ناقابل شکست سمجھا جاتا تھا۔ یہ وہ آپریشن تھا کہ جس میں ایک پتہ تک نہیں ٹوٹا اور نہ ہی کسی معصوم کو قتل کیا گیا، ہم نے دشمن کو نقصان پہنچایا اور اس سے اپنا علاقہ واپس لیا۔ مقاومت اسلامی نے کسی کو کوئی نقصان نہیں دیا، نہ ہجر نہ شجر، نہ کسی بے گناہ انسان کا قتل کیا، چونکہ یہ مقاومت اسلام کی سچی تعبیر ہے۔ یہ محمد ابن عبداللہ کا اسلام ہے۔ کوئی بھی مسلم اسلام کی دعوت کرنے والا، جب برا کام کرتا ہے تو اسلام کو بدنام کر رہا ہوتا ہے۔ اسلام کا چہرہ مسخ کر رہا ہوتا ہے۔

دشمن کی سیاست کے حوالہ سے بات کرتا ہوں۔ یہ مقاومت کی قوت دشمن کے مقابل اس سرزمین کے دفاع اور اسلام کے مقدسات کے دفاع کے لئے کافی ہے۔ آج کی یہ کامیابی اس فارمولے کی وجہ سے ہے جو مقاومت، قوم اور فوج نے اختیار کیا۔ علاقہ کی تمام تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت مقاومت کے پاس موجود ہے اور مقاومت دن رات اس کوشش میں ہے کہ طاقت کو بڑھا کر دشمن کے مقابل ڈٹا جائے، دشمن بھی اس بات کا برملا اعتراف کرچکا ہے۔ ہمارا مقابلہ دنیا کی طاقتور اسرائیلی فوج کے ساتھ ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم خود کو تیار کریں۔ ہمارا ایمان ہے کہ لبنان کے مسائل کا حل نکالیں، قیدیوں کے مسائل، فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ، دنیا اور لبنانی حکومت شیبا کی زمین بھول چکی ہے لیکن مقاومت اپنی زمین دشمن کو نہیں دے گی۔ اس عمل کو چھپایا نہیں جاسکتا، گذشتہ دنوں اسرائیلیوں نے تمام حدیں عبور کیں، ہماری سرحدیں پامال کیں۔ ہمارے کسانوں اور باغات پر حملہ کیا گیا، فصلوں کو تباہ کیا گیا، اور اس کے ساتھ ہماری فضائی حدود کو بھی پامال کیا گیا، ہم ہر جگہ ان کا مقابلہ کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔

اس کا حل یہ ہے ہماری فوج اس مسئلہ کا حل سوچے اور یونیفل کے ساتھ رابطہ کرے، لیکن یہ نہیں ہو رہا۔ اسرائیلی منصوبہ دوسرے کو تحقیر کرنے کے تیار کیا گیا، ایک زمانہ تھا کہ لوگ اسرائیل سے خائف تھے، لیکن آج اسرائیل ہمارے کسان اور ہمارے پانی کی آواز تک سے خوفزدہ ہے۔ دشمن اس وقت صرف سرحدوں پر ہم سے خوفزدہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنی فوج کے جلسوں میں بھی ہم سے خوفزدہ ہیں، دشمن ہماری اعلٰی درجے کی تیاری کو دیکھے۔ میں آج کہتا ہوں کہ 25 مئی 2000ء میں ثابت قدم تھے۔ ہمارا دشمن حملہ کی جرات نہیں کرسکتا، اور کسان اپنا کام جاری رکھے، آج ہم اعلان کرتے ہیں کہ کوئی اسرائیلی فوجی ہمارے کسانوں کو خوفزدہ نہیں کرسکتا۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ کوئی اسرائیلی فوجی ہمارے کسانوں کو نقصان دے گا تو ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
 
شام کا تذکرہ کرتے ہیں، شام میں حزب اللہ کے مختلف اہداف تھے، حزب اللہ کے نظریہ نے علاقہ پر اپنے اثرات مرتب کئے۔ لبنان عراق اور شام میں یہ اثرات واضح ہوئے۔ میں اجمالاً بیان کرتا ہوں کہ حزب اللہ شام کی جنگ میں کیوں شریک ہوئی، شام مشرق وسطٰی کا قلب ہے، اور شام وہ واحد ملک ہے جو دو خلیجی ممالک اور ان کے حواریوں کے مقابل ڈٹ گیا۔ ہم شام کی قربانیاں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ شام میں دہشت گردوں کی فکر پہنچی، ہم شام میں گئے، تاکہ ہم اس سوچ کا قلع قمع کریں۔ یہ دہشت گرد شام اور علاقہ کی تقسیم کا خواب دیکھ رہا ہے اور تقسیم کی صورت میں ہر مسلح دہشت گرد گروہ کو ایک امارت ملنے والی تھی۔ یہ دشمن اس خطہ کو تباہ و برباد کرنے کے لئے یہاں آئے ہیں۔
 
یہ صہیونیوں اور صہیونی منصوبہ کے مقابل مختلف آپشن موجود تھے، جن میں ارجنٹائن، یوگنڈا اور یمن جیسے ممالک، جہاں وہ اپنے منصوبے پر عمل کرسکتے تھے لیکن انہوں نے فلسطین کا انتخاب کیا، چونکہ یہ اس وقت بلاد شام کا دل تھا، صہیونی منصوبہ کے تحت اب دنیا کے صہیونی دہشت گرد لوگ شام میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ لوگ عرب حکمرانوں کے دستخط اور امداد لیکر آئے ہیں۔ تاکہ وہ مقاومت کے مرکز کو تباہ کرسکیں۔ اگر شام ان طاقتوں کے سامنے ثابت قدم نہ رہتا تو اس کے اثرات پورے منطقہ پر مرتب ہوتے اور شام کی ثابت قدمی نے ان مسلح گروہوں کو بے نقاب کیا، جو اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں اور اسرائیلی مداخلت کا پتہ چلا ہے۔ اب جب وہ بے نقاب و ناکام ہوئے تو منافقین خلق جیسے مسلح گروہ اسرائیل کے آلہ کار بنے اور اسرائیل کے لئے شام میں لڑ رہے ہیں۔

شام دشمن کے مقابل ڈٹا ہوا ہے اور کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ میدانی حوالہ سے پیش قدمی کر رہا ہے اور اصلاحات بھی ہو رہی ہیں۔ اندرونی مصالحت میں بھی پیش رفت ہو رہی ہے، آج یہ دشمن انتخابات کو ناکام کرنے کے لئے گھناونا پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ مسلح گروہ عوام کو دھمکانے کی کوشش میں مصروف ہیں، لیکن عوام اس کے باوجود انتخابات کے لئے پرجوش ہیں۔ داعش نے انتخانات میں حصہ لینے والوں کا کافر قرار دے دیا ہے اور یہ جماعتیں عراق میں شیعہ سنی تمام کو انتخابات کی وجہ سے کافر کہہ چکی ہیں۔ شام پیش قدمی کر رہا ہے، چونکہ عوام ووٹ دینے کے لئے تیار ہے، باوجود اس کے دشمن انہیں مسلسل دھمکا رہا ہے۔ داعش اور النصرہ جیسوں کو کہنا چاہتا ہوں اگر آپ کے پاس اجتہاد ہے کہ ووٹ دینا حرام ہے تو اہل سنت علماء کی بات کو مان لو۔ 2000ء میں لڑائی صرف لبنان میں تھی لیکن منصوبہ پورے مشرق وسطٰی کے لئے تھا، دشمن جدید مشرق وسطٰی کا خواب دیکھ رہے تھا۔ ایران، شام اور مقاومت اس منصوبہ کے مقابل ڈٹ گئے اور آج شام میں ہونے والی کارروائیاں اسی منصوبہ کا حصہ ہیں، شام کے دوست شام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ لبنان کے دوستوں نے مقاومت کی مدد کی، اسی طرح آج شام کے دوست بھی اس کی مدد کریں گے اور شام کامیاب ہوگا۔ کون کہتا ہے کہ شام ڈٹا ہوا ہے، تین سال قبل کہا جاتا تھا کہ شام کی حکومت گر جاتی لیکن شام کا ڈٹا رہنا فلسطین اور مقاومت کے لئے ہے، ایک دن آئے گا عرب ممالک شام کا شکریہ ادا کریں گے کہ شام ثابت قدم رہا۔
 
اب لبنان کا تذکرہ کرتے ہیں، ہم بہت حساس دور سے گزر رہے ہیں، لوگ مختصر وقت میں صدر کے انتخاب کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر اب باصلاحیت ہو، تمام لوگوں کو ساتھ لیکر چلے۔ وہ لوگ پرانے صدر کو باقی رکھنا چاہتے ہیں، اس کام کے لئے انہیں بہت سے اقدامات اٹھانا پڑے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ انتخابات پیچیدہ صورت اختیار کرچکے ہیں۔  ان انتخابات میں ایک ناممکن کام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ انتخابات نہیں ہوسکتے۔ جو الیکشن میں ہوا ایک ناممکن بندے کو لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو منتخب نہیں ہوسکتا، ضروری ہے کہ انتخابات رکنے نہیں چاہیں، پارلیمنٹ میں ہماری وفا پارٹی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ صدر کا انتخاب نہ ہونے کا باعث ہم ہیں۔ ہم اب بھی نئے صدر کو لانے کے لئے تیار ہیں اور صدر کا انتخاب ایک بھاری ذمہ داری ہے، ایک واجب ہے، کیونکہ ہمارا علاقہ ایک حساس دور سے گزر رہا ہے۔
 
وفا پارٹی سے کہوں گا کہ جو مناسب سمجھو کر لو، مگر کہنا چاہتا ہوں کہ پرانے صدر کو دوبارہ لانے کا منصوبہ ناکام ہوگیا ہے، ہم نئے صدر کا انتخاب چاہتے ہیں اور بہت جلد چاہتے ہیں۔ ہم اس حد تک تیار ہیں کہ بہت سی باتیں بھول جائیں، ہم کوئی ایسا صدر نہیں چاہتے جو مقاومت کی حمایت کرتا ہو اور آج لبنانیوں سے یہ کہتا ہوں کہ یہ سب لوگ ایک دن مقاومت کی حمایت کریں گے۔ ہم ایسا صدر چاہتے ہیں، جو مقاومت کے خلاف سازشوں سے باز رہے، جو مقاومت کی پیٹھ میں خنجر نہ گھونپے۔
میرے عزیزو، آج 25 مئی کی مناسبت سے ہم سب کو اپنی قوت پر یقین ہونا چاہیے کہ ہم بہت سے منصوبوں کے خلاف ڈٹ سکتے ہیں، ہم اس خطے میں کامیابی کے بانی ہیں اور علاقہ میں جو منصوبے مقاومت کے خلاف لائے گئے ہیں، وہ ناکام ہوگئے اور مقاومت زیادہ طاقتور ہوگی۔ ہمارا عہد ہے قائد موسی الصدر سے، شہداء سے، سید عباس موسوی اور دیگر شہداء سے کہ ہم دشمن کے مقابل ثابت قدم رہیں گے اور اس مقاومت کے راستہ پر ڈٹے رہیں گے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بشکریہ اے آر اے میڈیا سروسز 
خبر کا کوڈ : 386223
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
bohut acha hy
ہماری پیشکش