0
Monday 10 Nov 2014 23:35

افسوس مجھے سحر بتول کی شہادت کا نہیں، بلکہ بےحس پاکستانی حکمرانوں‌ اور قوم کا ہے، سخی خان

افسوس مجھے سحر بتول کی شہادت کا نہیں، بلکہ بےحس پاکستانی حکمرانوں‌ اور قوم کا ہے، سخی خان
سخی خان چند روز قبل اغواء کے بعد شہید کئے جانے والی سات سالہ ننھی بچی سحر بتول کے والد ہیں۔ شہیدہ سحر بتول کے والد سخی خان محکمہ آرڈیننس ڈپو میں گذشتہ انتیس سالوں سے بحیثیت مالی سرکاری ملازم ہیں۔ چار مہینے قبل آپکا ٹرانسفر زرغون کالونی پی ایس پی میں ہوا تھا، جہاں گذشتہ دنوں‌ انکی بچی کیساتھ یہ سفاکانہ واقعہ پیش آیا۔ سحر بتول کی شہادت کے اصل محرکات کو جاننے کیلئے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو آپکی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوئے شہیدہ سحر بتول کیساتھ ہونے والے دردناک واقعے کی تفصیلات جاننا چاہوں گا۔؟
سخی خان: جس دن یہ واقعہ رونما ہوا، صبح کے وقت ہم سب اکٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ میری دو بڑی بیٹیوں نے کہا کہ اسکول میں گیم ویک کی وجہ سے آج پڑھائی نہیں ہوگی، اسی لئے ہم چھٹی کرینگے۔ سحر بتول چونکہ اپنی دونوں بہنوں سے چھوٹی تھی، اسی لئے میں نے اس سے کہا کہ تم بھی آج اسکول سے چھٹی کرلو کیونکہ تمہاری دو بڑی بہنیں نہ ہوں تو تمہارا خیال کون رکھے گا۔ اسی وجہ سے اس دن میری تینوں بیٹیاں گھر میں رہیں۔ ناشتے کے بعد جب میں موٹر سائیکل پر گھر سے نکلنے لگا تو میری چھوٹی بیٹی سحر بتول بھی میرے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی کہ اسے ایک مرتبہ موٹر سائیکل پر باہر کی سیر کراؤں۔ باہر کا ایک چکر لگا کر میں نے سحر بتول کو کالونی کے گیٹ پر چھوڑ دیا اور اسے کہا کہ تم گھر چلی جاؤ، مجھے نوکری کیلئے دیر ہو رہی ہے۔ بعدازاں مجھے نہیں معلوم کہ آیا سحر بتول گھر پر آئی یا نہیں۔ گھر پر اسکی والدہ اور دو بڑی بہنیں اپنے اپنے کام میں مصروف تھیں۔ جب ایک آدھ گھنٹہ گزر گیا تو سحر بتول کی والدہ تھوڑی پریشان ہوئی، اور اسکی بہنوں کو ہمسایوں کے گھر میں اسے ڈھونڈنے بھیجا۔ محلے میں تمام ہمسایوں اور آس پاس کی گلیوں میں ڈھونڈنے کے باوجود سحر بتول نہیں ملی۔ اتنے میں کالونی کی ایک خاتون رہائشی نے کہا کہ سحر بتول پاس ہی ایک کچرے کے ٹب میں پڑی ہے۔

یہ سنتے ہی شہیدہ سحر بتول کی والدہ دوڑتے ہوئے کچرے کے ٹب کے پاس گئیں اور دیکھا تو سحر بتول کی مسخ شدہ لاش اُدھر پڑی ہوئی تھی۔ اتنے میں اسکی والدہ بھی بیہوش ہوگئی۔ جب محلے والوں نے ملکر اسے جلد از جلد سی ایم ایچ ہسپتال پہنچایا تو مجھے اطلاع ملی کہ سحر بتول کیساتھ یہ واقعہ رونما ہوا ہے۔ میں جلدی سے سی ایم ایچ ہسپتال گیا اور وہاں پر مجھے معلوم ہوا کہ میری بچی شہید ہو چکی ہے۔ اتنے میں پولیس اہلکار شہیدہ سحر بتول کو سول ہستپال کوئٹہ میں مزید پوسٹ مارٹم کرنے لے گئے۔ جب ہم سول ہسپتال کوئٹہ پہنچے تو ڈاکٹروں نے اسکا معائنہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد سول ہسپتال کی ڈاکٹر آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ اس نے کئی مرتبہ زیادتی کے کیسز کا پوسٹ مارٹم کیا ہے، لیکن پہلی مرتبہ اتنی چھوٹی سی بچی کا معائنہ کرکے میرا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے کیونکہ پوسٹ مارٹم سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہیدہ سحر بتول نے آخری حد تک ملزم کیساتھ مقابلہ کرنے اور اپنی ماں باپ کی عزت بچانے کی کوشش کی ہے۔ ملزم نے آخر کار سحر بتول کی گردن میں رسی ڈال کر بے دردی سے اسکی پسلیاں توڑ دیں اور اسے شہید کردیا لیکن میں یہ بات واضح کردوں کہ بیشک سحر بتول کی شہادت کا غم ہمارے لئے انتہائی شدید ہے لیکن میری اس سات سالہ ننھی سے بچی کا اپنی عزت بچانے کیلئے آخری حد تک کوشش کرنا، ہمارے لئے ایک اعزاز سے کم نہیں جبکہ ڈاکٹر بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ملزم شہیدہ سحر بتول کیساتھ زیادتی کرنے میں ناکام رہا۔

اسلام ٹائمز: پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اب تک کتنا تعاون رہا ہے اور ملزمان تک پہنچنے میں کس حد تک آگے بڑھے ہیں۔؟
سخی خان: چونکہ میں خود ایک فوجی کرنل کے ہاں کام کرتا ہوں، تو اسی نے اپنی طرف سے حکام کیساتھ رابطے کئے ہیں۔ اسکے علاوہ خفیہ اداروں اور پولیس کے اہلکار بھی آئے تھے لیکن وہ صرف کیس کو رپورٹ کرنے تک ہی محدود دکھائی دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آپ کو دی گئی ہے۔؟
سخی خان: ابھی تک تو پوسٹ مارٹم والے ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ جب میں‌ نے خود ہسپتال والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ ابھی تک مکمل نہیں ہوئی، لہذٰا جب مکمل ہو جائے گی تو آپ کو فراہم کردینگے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ کیساتھ کسی کی کوئی ذاتی دشمنی تھی۔؟ یا محلے میں کبھی کسی سے جھگڑا ہوا ہو، یا کسی پر آپکو شک ہو۔؟
سخی خان: میں ایک غریب آدمی ہوں، میری کسی سے کوئی کیا ذاتی دشمنی ہو سکتی ہے۔ نہ مجھے محلے میں کسی شخص پر شک ہے۔ گذشتہ تین یا چار مہینے ہی ہوئے ہیں کہ میں اس محلے میں آیا ہوں اور اب تک تو کسی سے زیادہ جان پہچان بھی نہیں ہوئی۔ اسی لئے میں خود حیران ہوں کہ آخر میرا قصور کیا تھا کہ میری بچی کو اس طرح بے دردی سے مارا گیا۔

اسلام ٹائمز: کچھ افراد یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کے قتل میں کوئی تکفیری مولوی ملوث ہے۔ اسکے بارے میں کیا کہے گے۔؟
سخی خان: خفیہ اداروں‌ کی جانب سے جو ٹیم تفتیش کیلئے آئی تھی، انہوں نے ایک تفتیشی کتے کے ذریعے ملزم تک پہنچنے کی کوشش کی۔ جب وہ سونگھتا ہوا آگے بڑھنے لگا، تو ایک مولوی کے گھر کے سامنے جاکر رُکا۔ اسی بناء پر اس مولوی پر شک کیا جا رہا ہے۔ لیکن ذاتی طور پر مجھے اس مولوی سے کوئی شکایت نہیں تھی اور نہ ہی مجھے اس پر شک ہے۔ اب وقت آنے پر یہ معلوم ہو سکے گا کہ آیا اس واقعے کے پیچھے کونسے ہاتھ ملوث تھے۔

اسلام ٹائمز: کیا کوئی حکومتی اہلکار اور انسانی حقوق کی تنظیم آپکے پاس آئی ہے۔؟
سخی خان: شروع میں تو صرف سردار سعادت علی ہزارہ اور مجلس وحدت مسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے ہر سطح پر میرے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ایک عرصے تک تو میڈیا والے نہیں آئے، لیکن کچھ ہی دنوں سے میڈیا والے آکر واقعے کو کوریج دے رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ پوری پاکستانی قوم کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
سخی خان: پیغام تو میرا یہی ہے کہ دکھ مجھے اپنی بچی سحر بتول کی شہادت کا نہیں بلکہ ان بےحس حکمرانوں اور قوم کی سوئی ہوئی روحوں اور انکی خاموشی سے ہیں۔ میری بچی نے تو آخری دم تک انسان نما درندے کیساتھ مقابلہ کرکے اپنا زینبی (س) فریضہ ادا کردیا لیکن اس قوم کی خاموشی اور حکمرانوں کی بے حسی میرے لئے قابل افسوس ہے۔ یہ واقعہ تو آج میری سحر بتول کیساتھ ہوا ہے، لیکن خدانخواستہ اس آگ کو آگے پھیلنے سے قبل تمام پاکستانی قوم کو ان درندوں کیساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 418722
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش