29
0
Wednesday 20 Aug 2014 21:27

غزہ سے اسلام آباد تک، انقلابی شیعہ تیروں کی زد میں

غزہ سے اسلام آباد تک، انقلابی شیعہ تیروں کی زد میں

تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

وفاقی دارالحکومت کے حساس ترین قرار دیئے گئے علاقے ریڈ زون میں لبیک یاحسین علیہ السلام کی گونج نے ایک بار پھر مفتی جعفر حسین مرحوم کے دور کی یاد تازہ کر دی ہے۔ چار اور پانچ جولائی، 1980ء میں انہوں نے سابق صدر ضیاءالحق کے زکواۃ اور عشر آرڈیننس کے خلاف دارالحکومت میں لانگ مارچ کی کال دی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ضیاءالحق کی آمریت نے حسینی جذبوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے۔ آج کا لانگ مارچ فقط اہل تشیع کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کیخلاف احتجاج تک محدود نہیں، بلکہ علامہ مفتی جعفر حسین کے وارث، وطن عزیز کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی ضیائی آمریت کی سیاسی باقیات کے ہاتھوں، ماڈل ٹاون لاہور میں شہید ہونے والے اہلسنت عاشقان رسول و آل رسول علہیم السلام کے خون کا حساب مانگنے آئے ہیں۔ ضیاءالحق نے اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لیے اہل تشیع کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور اہل سنت کو دیوار کیساتھ لگا دیا۔ مفتی جعفر حسین کی رحلت کے بعد، قائد شہید علامہ عارف حسینی نے، سرزمین پاکستان پر حسینیت کا پرچم بلند رکھا۔ کالعدم سپاہ صحابہ جیسے گروہ ضیاءالحق کے مذہبی وارث ٹھہرے اور ضیائی آمریت کا سیاسی ترکہ نواز شریف کے حصے میں آیا۔

مفتی جعفر حسین مرحوم کی رحلت کے بعد پاکستان میں اہل تشیع کی روایتی جدوجہد جمہوری، سیاسی، انقلابی قوت میں ڈھل گئی۔ اسی زمانے میں لبنان سے تعلق رکھنے والے علماء نے علامہ عباس موسوی شہید کی قیادت میں امام خمینی سے ملاقات کے بعد حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ پاکستان میں شیعہ حقوق، اتحاد بین المسلمین، فلسطین کی حمایت اور ولایت فقیہ کی منہج پر اسلامی جمہوریت کے نفاذ کی جدوجہد کرتے ہوئے، علامہ عارف حسین حسینی شہید ہوگئے۔ علامہ عباس موسوی شہید اور علامہ عارف حسین حسینی کا راستہ اور منزل ایک تھی۔ اگر علامہ عارف حسین حسینی لبنان میں ہوتے تو وہی طرز عمل اور حکمت عملی اختیار کرتے جو حزب اللہ نے اختیار کی، اگر علامہ عباس موسوی پاکستان میں ہوتے تو ایسی ہی سیاست انجام دیتے جو شہید عارف حسینی نے انجام دی۔ حزب اللہ نے لبنان کے شیعہ نشین علاقوں سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور پورے عالم اسلام کے لیے ڈھال بن گئے۔ اسکی تازہ ترین مثال حماس اور اسرائیل کی جنگ میں حزب اللہ کا کردار ہے۔ اسی طرح پاکستان میں شہید عارف حسینی کی سیاسی جدوجہد نے پاکستان کے مسلکی رسوم و قیود میں محدود ماحول کو مثبت اور موثر انداز میں متاثر کیا۔ زمانہ جانتا ہے کہ دنیائے تشیع کے اجتماعی مزاج میں آنے والی یہ تبدیلی امام خمینی کی قیادت میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب کا ہی ایک جلوہ ہے۔ 

دنیائے تشیع میں حزب اللہ جیسے گروہوں کے کردار کو عالمی سامراجی قوتیں اپنے مفادات کے لیے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔ جس طرح انقلاب اسلامی ایران نے دنیائے تشیع کو براہ راست متاثر کیا، اسکے براہ راست اثرات دوسرے مسالک کے مسلمانوں نے بھی قبول کرنا شروع کئے۔ دنیا کے شیعہ نشین علاقوں میں بالجبر سیاسی سرگرمیوں کو روکا گیا اور پاکستان میں شیعہ سنی مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے تشدد اور قتل و غارت کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ مولانا نورانی کی قیادت میں ملی یکجہتی کے لیے ہونے والی کوشش کے نتیجے میں سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، تحریک جعفریہ، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی ایک پلیٹ فارم پر جمع تو ہوگئیں، لیکن فرقہ وارانہ تناو برقرار رہا۔ جنرل مشرف کے دور میں سپاہ صحابہ، سپاہ محمد اور تحریک جعفریہ پر پابندی لگا دی گئی۔ سپاہ صحابہ کی کھوکھ سے جنم لینے والے دہشت گروہ لشکر جھنگوی اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے مساجد، امام بارگاہوں، مزاروں، درباروں اور بازاروں کو نشانہ بنایا۔ جماعت اسلامی جیسی قوتوں نے ایک طرف ملی یکجہتی کونسل جیسی مسلکی ہم آہنگی کی کوششیں شروع رکھیں، دوسری طرف پاکستان کے شیعہ سنی عوام پر طالبان اور لشکر جھنگوی کے ہر حملے ڈرون حملوں کا ردعمل کہہ کر اسکی حمایت بھی جاری رکھی۔ اسکی بہترین مثال فلسطین کے مسئلے پر سعودی عرب کا کردار ہے۔

قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی سرزمین، پاکستان اور شیعہ انقلابی قوت کے موجودہ تقاضے پورا کرنا ایسے ہی تھا جیسے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ حزب اللہ اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہی تھی۔ تکفیری دہشت گردوں اور منافق حکمرانوں کے ہاتھوں تباہ حال پاکستان میں، ایم ڈبلیو ایم کے رہنما کربلائے کوئٹہ پہنچے، پورے ملک میں بیداری کی لہر اٹھی، پاکستان کی انقلابی شیعہ، سنی قوت یکجا ہوئی۔ حزب اللہ کی طرح پاکستان کے شیعہ نشین علاقوں میں مجلس وحدت کا مضبوط کردار، پاکستان میں اہلسنت کی غالب اکثریت رکھنے والی معتدل مزاج آبادی کے لیے کشش کا باعث ہے۔ دوسری طرف علامہ ناصر عباس جعفری بھی کھلے دل سے اہلسنت مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں، انہوں نے کبھی اہل سنت کے تعاون کو حقیر نہیں جانا، بلکہ علمدار کربلا عباس علیہ السلام کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جس طرح اہلسنت بھائیوں نے مشکل حالات میں ہمارا ساتھ دیا، ہم انکا احسان کبھی نہیں بھولیں گے اور وفا کریں گے۔ سچ کہوں تو یہ درد مندی اور مصنوعی خردمندی سے پاک، سچے دل سے نکلنے والی اس آواز میں بہت طاقت ہے۔ 

میں چند دفعہ منہاج القرآن کے دوستوں سے ملنے دھرنے میں گیا ہوں، منظر یہ ہے کہ جونہی ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکن کسی علم بردار یا عمامہ پوشش کو دیکتھے ہیں تو بے ساختہ لبیک یاحسین علیہ السلام کے نعرے لگاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہوتی ہے وفا اور وفا داری، جس طرح ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ انکے خون کا علم بنا کر شہر اقتدار تک لے آئے ہیں، اسی طرح راجہ ناصر عباس نے ہماری قیادت کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں، ہم بھی یہ احسان کبھی نہیں بھولیں گے، ہمیشہ وفا کریں گے۔ پاکستانی تکفیری دہشت گردوں کے سرغنہ مجلس وحدت مسلمین کو حزب اللہ کی ذیلی تنظیم قرار دیتے ہیں اور عالمی تکفیری دہشت گرد حزب اللہ کو کافر کہتے ہیں۔ حزب اللہ نے حماس کی خاطر اپنا سینہ پیش کیا ہے اور مجلس وحدت مسلمین نے اہلسنت پر ہونے والے مظالم کیخلاف احتجاج میں شریک ہے، غزہ سے اسلام آباد تک شیعہ انقلابی دشمن کے تیروں کی زد میں ہیں، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ تکفیری دہشت گرد پاکستان کی مسلکی فضا کو مسموم کرنے میں کامیاب ہوجاتے، اگر مجلس وحدت مسلمین، پاکستان میں وہ کردار ادا نہ کرتی جو حزب اللہ نے غزہ میں ادا کیا ہے۔

خبر کا کوڈ : 405726
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ
جناب ایم ایم اے سے اعظم طارق (تکفیری گروپ کے سربراہ) کو علامہ ساجد نقوی کی کوشش سے نکالا گیا تھا،
مجلس وحدت نے ابھی کام شروع کیا ہے لیکن جن لوگوں نے پہلے کام کیا، ان کا نام تک ذکر نہ کرنا آپ کی جہالت یا ذلالت کی دلیل ہے۔ تکفیروں کے خلاف پاکستان کی صحافت میں یہ اصطلاح بھی علامہ ساجد نقوی نے بتائی ہے۔ یہ کالم یکسر ایک جماعت کا ترجمان ہوسکتا ہے مگر حقائق پر مبنی اور غیر جانب دار نہیں۔ لہذا اس کو اسلام ٹائم والو کا چھاپنا اصول صحافت کے موافق نہیں ہے۔
جناب ایم ایم اے سے اعظم طارق (تکفیری گروپ کے سربراہ) کو علامہ ساجد نقوی کی کوشش سے نکالا گیا تھا، زیادہ ناراض نہ ہوں۔۔۔۔۔۔میرے خیال میں یہ کالم فقط انقلاب مارچ کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا ہے۔
Pakistan
mashallah.br keep it up.u must support this movement to make shia strenghthen and most powerfull nation of Pakistan.we can c strategy and pattern of shaheed arif in current shia sunni movement.long live Pakistan .long live mwm pak
جہاں تک علامہ ساجد نقوی کی کارکردگی رپورٹ کی بات ہے، وہ تو بہت طویل ہے، اسکے تمام گوشے نہ ہی بیان ہوں تو بہتر ہے۔
Pakistan
Mashallah,

Jis brother ko ye Article janibdar lagta hai unhe b haq hai k article likhe on reality basis.
truth samne aa jae ga
سلام
علامہ ساجد نقوی کے بارے میں محمد علی نقوی صاحب کی پالیسی پر عمل نہ کرنے والے نادان دوستوں سے گذارش ہے کہ کارکردگی رپورٹ پر بات نہ کریں تو بہتر ہے۔ مومنین باہمی محاذ میں نہیں الجھتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں تحریک جعفریہ نے تکفیری دہشتگردوں کو کئی محاذوں پر پسپا کیا تھا۔
عرفان علی
یہ کالم فقط انقلاب مارچ کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کی پالیسی پاکستانی شیعہ عوام کی ترجمان ہے، البتہ تحریک جعفریہ کی قیادت کے تکفیری گروہوں کے ساتھ ملتے جلتے بعض بیانات پر حیرت ہوتی ہے۔
Erfan sb ki ray saib hay, es main shak nahin, tamam ulama ki khidmat ko saraha jana chaiay.
sardarharak10@gmail.com
کوئی ایک جماعت شیعہ قوم کی ترجمان نہیں، اور تحریک جعفریہ کی قیادت کے بیانات کی تکفیری گروہوں کے بیانات سے مماثلت والی بات غلط اندازے اور غلط سوچ پر مبنی ہے، یوں تو پھر ایم ڈبلیو ایم کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کا ہمنوا ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے، ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔۔ مناسب ہے کہ لانگ مارچ کے حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کی پالیسی اور اسکے اثرات تک بات چیت کو محدود رکھیں۔
میرے بھائی شہید ڈاکٹر نقوی، شہید مظفر کرمانی، سمیت ایسے بہت سے عظیم انسان تھے جنہوں نے ایک درست رویہ رکھنے کا عملی نمونہ ہیش کیا۔ پاکستان میں جو کوئی بھی سیاسی کردار ادا کرے گا وہ تحریک جعفریہ کا تسلسل ہی ہے۔ مجلس وحدت آسمانی مخلوقات پر مشتمل نہیں، یہ بھی ماضی میں تحریک میں ہی تھے۔ علامہ ساجد نقوی اور علامہ عارف واحدی نے لانگ مارچ کے مطالبات کو آئینی طور پر جائز قرار دیا اور حکومت سے کہا کہ افہام و تفہیم اور پرامن طور پر مسئلہ حل کرے۔ اتحاد بین المومنین زیادہ اہم ہے۔ شریعتی نے علی (ع) امین وحدت لکھ کر یہ پیغام دیا کہ امت کا اتحاد اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اتحاد بین المسلمین کی خاطر مجلس وحدت کا یہ عمل احسن ہے تو اتحاد بین المومنین کے لئے شہید ڈاکٹر نقوی اور شہید مظفر کرمانی کی سیرت حسنہ پر عمل کرلیں۔ کج بحثی نہ کریں۔
عرفان علی
Erfan Ali Sb. Ap k liy munasib nahin k doroon ki bat ko kaj bethii karar dain, ye na mnasib hay.

Ap ka nukta e nazar bhi hay aur dosroon ka bhi apna nukta e nazar hay.
میرے خیال میں تو ایم ڈبلیو ایم ایسے ہی تحریک جعفریہ کا تسلسل ہے، جیسے حزب اللہ ، امل کا تسلسل ہوسکتی ہے۔
مدعی سست گواہ چست۔ خود ایم ڈبلیو ایم کے رہنمائوں سے پوچھ لیں۔ بھائی جان۔ اگر جانتے ہیں تو پھر ایسی باتیں نہ کریں۔ نکتہ نظر کو کج بحثی نہیں کہا، شہداء کی سیرت بیان کی ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو موجودہ حالات میں مایوس شیعہ سنی میں مجلس وحدت مسلمین نے عملی اتحاد اور وحدت کی وہ حزب اللہی جان ڈالی ہے جسکی قوت سے امریکی نوکر حکمران سیاستدان اور تکفیری گروہ پریشان ہیں۔
شہداء کی سیرت والی بات تو کہیں بھی ہے، عرفان صاحب اپنے خیالات کو شہداء کی سیرت کا نام نہ دیں، جو حقیقت ہے اسے ویسے ہی دیکھیں۔
تکفیری گروہ اور حکمرانوں کے پریشان ہونے سے زیادہ اہم یہ بھی ہے کہ ہمارے لوگ خوف اور گھٹن کی فضا سے نکل کر میدان میں آ رہے ہیں، یہی دشمن کا ایجنڈا تھا کہ اہل تشیع کو دیوار سے لگا دیا جائے۔ ملی یکجہتی کونسل جیسی کوششوں کی نسبت یہ اتحاد بین المسلمین اور خود تشیع کی سیاسی طاقت اور وجود کا ایک عملی مظاہرہ ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمارے لوگوں کا سیاسی شعور بھی بڑھ رہا ہے۔ اور وہ Activly اس میں شامل ہو رہے ہیں۔
اب شیعہ قوم میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور اسکا ذکر اس کالم میں بھی کیا گیا ہے کہ اپنے حقوق اور مطالبات سے بڑھ کر مین اسٹریم سیاست میں وارد ہو رہے ہیں، جیسا کہ
1۔ وزیراعظم اور وزیراعلٰی پنجاب استعفٰی دیں۔
2۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں فوری تحلیل کی جائیں۔
3۔ تین سال کیلئے قومی حکومت قائم کی جائے۔
4۔ کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا مکمل اور کڑا احتساب کیا جائے۔
5۔ 10 نکاتی سماجی بہبود اور اصلاحاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کیا جائے۔
6.نئے صوبوں کا قیام وغیرہ
ملی یکجہتی کونسل کا طرز عمل۔قابل فہم حد تک، غیر متوازن ہے۔ مثال کے طور پر انقلاب مارچ میں ملی یکجہتی کونسل کے رہنماوں کی شرکت پر انکے طرفداروں کا خیالات دیکھیں، خود ہی اندازہ ہوجائے گا۔
ان بزرگان کو کوئی قادری سے کسی قسم کی ہمدردی یا لالچ ہے، اور نہ ہی ان میں سے کوئی قادری و عمران سے کمزور ہے کہ جو قادری سے مرعوب ہوگئے ہوں گے۔
بلکہ پاکستان کی یہ امن کی داعی شخصیات بالخصوص بانی اتحاد و سفیر امن پاکستان قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی جیسی عظیم ہستی بھی مطالبات کو آئنی مانتے ہوئے صرف اور صرف جمہوریت کے سلسلے کو بچانے اور معصوم عوام کی جان و مال کو سانحہ ماڈل ٹاون کے تناظر میں تحفظ دلانے کے لیے گئے ہیں کہ جس عوام کو غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ بزرگان عمران خان و قادری پر اپنی حجت تمام کرنے گئے ہیں کیوںکہ پاکستان کی آزاد و مثبت عوامی طاقت رکھنے اور ریاست میں ایک یقنی اہم وجود رکھنے کی حیثیت سے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے گئے ہیں اور جس بند گلی میں پھنس کر حواس باختہ ناکام انقلابی تھرڈ ایمپائر کی ڈگڈگی پر ناچ رہے ہیں اس دلدل سے باعزت راستہ دلانے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہداء کی سیرت اگر وہ نہیں جو عرفان بھائی نے کہی تو پھر کیا تھی۔ کیا شہید محمد علی نقوی نے تحریک جعفریہ چھوڑ دی تھی، کیا اس وقت کے قائد کے خلاف ایسی زبان استعمال کی تھی۔ کیا شہید مظفر کرمانی نے کبھی ایسی بدزبانی کی تھی؟ کب کہاں؟ کسی میں اخلاقی جرات ہے تو بیان کرے۔ شہداء نے کبھی یہ موقف اختیار نہیں کیا تھا جس پر آج بعض لوگوں کو چلنے کا شوق ہے۔ میں جس رہنما کی بات کر رہا ہوں، ان کی جماعت کا رکن نہیں، لیکن ان کے بھی احترام کا قائل ہوں۔ مجلس وحدت بننے تک ان کے مخالفین کی کارکردگی کا بھی عینی شاہد ہوں۔ بہتر ہے کہ زبان بند رہے۔ اور جو ناکام تجربات کے بعد ایک کامیاب تجربہ ہو رہا ہے، اسے ماضی کی تلخ یادوں کی نذر نہ کر دیا جائے۔
فوج کا پریشر ککر اور نواز شریف کے محدود آپشنز۔۔۔۔ تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ ۔۔۔https://www.islamtimes.org/vdch6mnkk23nvqd.4lt2.html
اب اس تحریر کو پڑھ کر بتائیں کہ یہ انقلابی کہلا سکتے ہیں یا نہیں؟ بھائی خود ہی دونوں تحریر پڑھیں اور جذباتی نہ ہوں۔ فہیم
Pakistan
شہید محمد علی نقوی نے تحریک جعفریہ چھوڑی نہیں تھی بلکہ ان کی شخصیت کو مجروح کر دیا گیا تھا اور انکی خدمات کو فراموش کرتے ہوئے انہیں بے دخل کر دیا گیا تھا۔
Pakistan
یہ تو ہمارے لیے بالکل ایک نئی خبر ہے کہ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کو قومیات سے الگ کر دیا گیا تھا، سوال یہ ہے کہ اسوقت ڈاکٹر شہید بالکل تنہا کیوں ہوگئے تھے اور انکے ساتھی کہاں تھے؟ کیا ڈاکٹر شہید کو کسی سے اختلاف تھا یا ان سے کسی نے اختلاف کیا اور شہید کو تحریک جعفریہ سے الگ کر دیا؟
ارے میرے بھائی یہی بات تو عرفان صاحب نے کی کہ سیرت شہداء کو فراموش نہ کریں۔ جب انہوں نے تحریک نہیں چھوڑی اور قیادت کے خلاف اس طرح کی بد زبانی نہیں کی تو ان سے خود کو منسوب کرنے والے کس کی سیرت پر عمل پیرا ہیں۔ عرفان صاحب اتحاد بین المومنین کے لئے ایسا کہہ رہے ہیں۔ کم از کم میں تو یہی سمجھ رہا ہوں۔
Pakistan
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے جمود، بے حسی، اقربا پروری اور کارکنوں کی بجائے مفاد پرستوں کو جماعت میں اہمیت دیئے جانے پر کبھی خاموشی بھی اختیار نہیں فرمائی۔۔۔۔۔۔۔ہم تو اتحاد بین المومنین کے داعی عرفان صاحب سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں۔
میرے پیارے دوستو! مان جائیں کہ سیرت شہداء پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ جو باتیں وہ عام افراد میں نہیں کرتے تھے اس روش کی خلاف ورزی کی بات کی گئی ہے اور جن افراد کے پاس یہ دلیل ہے کہ عوامی پلیٹ فارم پر، میڈیا میں شہید نے ایسی کوئی بات کی جس پر اصرار کیا جا رہا ہے، تو رہنمائی فرمائیں۔ اور اگر نہیں تو پھر میں نہ مانوں والی روش ترک کریں۔
Pakistan
کس قسم کے میڈیا کا ثبوت درکار ہے عرفان صاحب؟
ڈاکٹر شہید نے قیادت کے خلاف جو بات عوام میں یا میڈیا میں کی اس کا ثبوت اور کس کا؟
United Kingdom
تنویر حیدر بلوچ یا ان کے دوست مجھے شہید حسینی کے ساتھیوں کے نام بتا سکتے ہیں، جن لوگوں نے دستور لکھا تھا یا منشور لکھا تھا یا ملک بھر میں تنظیم بنائی یا شعبہ جات کی تشکیل کی، جو ہر قدم پر شہید حسینی کے ساتھ ہوتے تھے۔
ہماری پیشکش