1
0
Wednesday 30 Oct 2013 14:31

امریکہ کا دوغلاپن اور امت مسلمہ

امریکہ کا دوغلاپن اور امت مسلمہ
 تحریر: محمد علی نقوی

عالم اسلام بالخصوص بحرین، شام اور عراق کے حوالے سے مغرب، امریکہ اور اسکے حواریوں کی پالیسیاں ہمیشہ سے دوغلی رہی ہیں، لیکن بعض اوقات یہ دوغلاپن اتنا واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے کہ عالمی حالات سے بے خبر لوگ بھی چیخ اٹھتے ہیں کہ آخر ایسی اندھیر نگری کیوں! امریکہ جس نے دنیا پر تسلط کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے، اپنے تسلط کی برقراری کے لئے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈہ استعمال کرتا ہے، آج امت مسلمہ کے دو ملکوں میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے حالات ہیں، لیکن امریکہ کا دونوں کے حوالے سے جو رویہ ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ اور اسکے اپنے حواریوں کے بقول شام میں عوام بشار الاسد کی حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ لہذا بشار الاسد کو اقتدار سے علیحدہ ہو جانا چاہے، حالانکہ صورتحال اسطرح بھی نہیں ہے، جیسے امریکہ اور اسکے حواری بتاتے ہیں۔ 

شام میں بشار الاسد کو وسیع عوامی حمایت حاصل ہے، جس کا انہوں نے بارہا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ عوامی مظاہروں کے علاوہ انتخابات میں شامی عوام کی بھرپور شرکت اس بات کا مظہر ہے کہ امریکہ، مغربی ممالک، ترکی، قطر اور سعودی عرب کا کہنا سو فیصد غلط ہے کہ شامی عوام بشار الاسد کو اقتدار سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور اسکے حواریوں نے بشار الاسد کے خلاف اتنا واویلا کیا کہ مسئلہ سکیورٹی کونسل میں چلا گيا، اگر روس اور چین ویٹو نہ کرتے تو شام کب سے بیرونی حملوں سے تباہ و برباد ہوچکا ہوتا اور لیبیا کی طرح شام کی اینٹ سے اینٹ بجا کر بشار الاسد کو کنارے لگا دیا جاتا۔ 

امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کے اس منفی کردار کی تو کسی حد تک سمجھ آتی ہے، لیکن عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور قطر کا انتہائی گھناونا کردار ناقابل فہم ہے، ترکی بھی امریکہ سے قربت کے لئے شام کے مسائل کو الجھانے میں برابر کا حصّہ ڈال رہا ہے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ اب ایک اور عرب ملک پر نگاہ ڈالتے ہیں، جہاں ایک سال سے زيادہ عرصے سے ڈکٹیٹر آل خلیفہ رجیم کے خلاف عوامی تحریک چل رہی ہے، لیکن اس کو قابل ذکر بھی نہیں سمجھا جاتا۔ بحرین جہاں کے عوام آل خلیفہ کے خلاف مسلسل مظاہرے کرکے اور پے در پے قربانیاں دے کر اپنی احتجاجی تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہیں، اس پر انسانی حقوق اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے امریکہ، برطانیہ اور ترکی و قطر خاموش ہیں۔ سعودی عرب نے تو اس عوامی تحریک کو کچلنے کے لئے اپنے فوجی بھی آل خلیفہ حکومت کو کرائے پر دے رکھے ہیں۔
 
ملک شام جہاں پر بشار الاسد کے خلاف عوامی تحریک بھی نہیں ہے، بلکہ مٹھی بھر مسلح گروہ سرگرم عمل ہیں، وہاں امریکہ اور اسکے حواری اپنے مفادات کے لئے مسئلے کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں گویا دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانا ہے، جبکہ دوسری طرف بحرین کے مظلوم عوام کی آواز پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں۔ کیا بحرین کے عوام کا یہ قصور ہے کہ وہ ایسے ڈکٹیٹر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جو امریکہ اور برطانیہ کا منظور نظر ہے۔؟ کیا بحرین کے عوام کا یہ قصور ہے کہ وہ اسرائيل کو عربوں کا غاصب سمجھتے ہیں۔؟ کیا بحرین کے انقلابیوں کا قصور یہ ہے کہ وہ جمہوریت اور ملک میں عرصے سے جاری ڈکٹیٹرشپ سے اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں۔؟ کیا بحرین میں بہنے والا خون انسانوں کا خون نہیں ہے۔؟ کیا بحرین کا عوامی احتجاج جمہوریت اور حق رائے دہی کے لئے نہیں ہے؟ کیا بحرینی عوام کا احتجاج شہری حقوق اور سماجی آزادی کے لئے نہیں ہے۔؟

کتنے افسوس کی بات ہے کہ شام میں اپنے مفادات کے لئے صدر بشار الاسد کے مخالفین کو مسلح کیا جاتا ہے اور بحرین میں آل خلیفہ حکومت کو انقلابیوں کو کچلنے کے لئے خطرناک ہتھیار دیئے جاتے ہیں۔ دونوں جگہ ہتھیار دینے والے امریکہ اور برطانیہ ہیں۔؟ امریکہ اور اسکے حواری کب تک حمد بن آل خلیفہ جیسے ڈکٹیٹروں کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ امریکہ دنیا میں اپنی ساکھ برباد کرچکا ہے اسے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں میں انسانیت، جمہوریت، انسانی حقوق، سماجی آزادیوں اور اس طرح کے دیگر دلفریب نعروں سے ہاتھ اٹھا لینا چاہیے۔ دنیا پر اس کا خونخوار چہرہ واضح ہوگیا ہے۔
 
سعودی عرب، قطر اور ترکی بھی اپنے آپ کو امریکی مفادات کا ایندھن نہ بنائیں۔ سعودی عرب اور قطر امریکی قربت کے لئے آپس میں دست بگریبان ہیں، البتہ ترکی سلطنت عثمانیہ کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے اسلامی ممالک کی بجائے امریکہ سے تعاون کا طلبگار ہے اور امریکہ کے بارے میں تو یہ بات زبان زد خاص و عام کے ہے کہ "ہوئے تم دوست جسکے دشمن اسکا آسمان کیوں ہو۔"
بہرحال قطر اور سعودی عرب نے چند دوسرے شیخ نشینوں کے ساتھ شام کے بشار الاسد کو اپنا دشمن اوّل قرار دے رکھا ہے۔ دوسری طرف عرب امارات ایرانی جزائر ابو موسٰی، تنب بزرگ و تنب کوچک کے بارے میں متنازعہ بیان دیکر امریکہ کی خدمت کر رہا ہے۔ خلیج فارس کے تمام ڈکٹیٹر اس نصیحت کو پلّے باندھ لیں کہ مصر، تیونس اور لیبیا کے بعد ان کا نمبر آیا ہی چاہتا ہے۔ امریکہ اور مغرب اگر حسنی مبارک، بن علی اور عبداللہ صالح کو عوامی غیض و غضب سے نہیں بچا سکے تو آل سعود، آل خلیفہ اور قطر کے تخت نشینوں کو کیسے بچا سکتے ہیں۔
 
آج امریکہ نے شام کے حوالے سے جو پینترے بدلے ہیں، اس نے پوری دنیا میں اسکی حقیقت کا پول کھول دیا ہے، البتہ اس بار جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں امریکی صدر نے بحرین کا بھی نام لیا ہے، جس پر آل خلیفہ حکومت نے بہت زيادہ واویلا کیا، یہاں تک کہ بحرین میں موجود امریکی سفیر کو بھی طلب کرلیا۔ امریکہ نے بحرین میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کی طرف اشارہ کرکے اپنے آپ کو غیر جانبدار اور انسانی حقوق کا علمبردار ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن آہستہ آہستہ یہ بات سب پر واضح ہو رہی ہے کہ بحرین کا ذکر دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں تھا، کیونکہ باراک اوباما کی اس تقریر کے بعد نہ صرف یہ کہ بحرین میں انقلابیوں پر ظلم و ستم کم نہیں ہوئے، بلکہ چند دنوں میں کئی افراد کو عمر قید اور پھانسیوں کی سزا سنائی گئی ہے۔
 
بعض تجزیہ کاروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ باراک اوباما نے ظاہری تنقید کرکے آل خلیفہ حکومت کو فری ہینڈ دے دیا کہ وہ حکومت مخالف عناصر کے خلاف جو چاہیں کرتے پھریں، کیونکہ اگر امریکی صدر کے بیان میں سنجیدگی ہوتی تو دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی باراک اوباما کی ہمنوا ہوجاتیں اور سکیورٹی کونسل کے اندر بھی شور اٹھتا، البتہ اہم بات یہ ہے کہ شام میں عوام کے درد میں بلبلانے والے باراک اوباما اور اسکے حواریوں کو بحرین کے مظلوم عوام کا اس لئے خیال نہیں کیونکہ آل خلیفہ حکومت اسرائيل کی حامی ہے اور عوام اس غاصب حکومت کو قبول نہیں کرتے، جبکہ شام میں بشار الاسد کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ خطے میں اسرائيل کا زبردست مخالف ہے، لیکن شامی عوام اسکے ساتھ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 315627
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
شکر ہے کسی نے بےچارے بحرینیوں کا بھی نام لیا۔
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش