1
0
Wednesday 13 Aug 2014 15:21

غزہ، دوستوں اور دشمنوں کی آزمائش کی سرزمین (2)

غزہ، دوستوں اور دشمنوں کی آزمائش کی سرزمین (2)
تحریر: عرفان علی 

سال 2006ء جون میں آپریشن برسات موسم گرما اور یکم نومبر کو آپریشن خزاں کے بادل، 2007ء میں غزہ کا محاصرہ اور سال 2008ء فروری میں آپریشن سرما گرم کے بعد27 دسمبر میں آپریشن کاسٹ لیڈ نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو مسلسل جاری رکھا۔ 2008-2009ء کی اسرائیلی جارحیت کا ہم اسی تحریر میں پہلے تذکرہ کرچکے کہ اس میں بھی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے پہل کی اور غزہ سے صرف جوابی کارروائی کی گئی۔ مارچ 2012ء میں آپریشن بازگشت تکرار (اقوال یا آواز) میں لجان المقاومۃ الشعبیہ کے زہیر ال قیسی کو شہید کیا گیا۔ نومبر 2012ء میں آپریشن ستون ہائے دفاع ہوا تو حزب جہاد اسلامی فلسطین نے آپریشن حجارۃ سجیل کے ذریعے جواب دیا۔ 2012ء کی جنگ بندی ختم کرتے ہوئے اب تین یہودیوں کے اغوا کے بعد جو پہلا آپریشن کیا گیا، اس کا نام حفاظت برادران رکھا گیا اور جو آپریشن دفاعی برتری میں تبدیل ہوا۔

مقاومت فلسطین کا کہنا ہے کہ وہ درجنوں اسرائیلی فوجی واصل جہنم کرچکے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے ایک مہینے کے بعد فلسطینی شہداء کی تعداد  1900 سے زائد ہوچکی ہے۔ ساڑھے 9 ہزار سے زائد زخمی ہیں جبکہ مالی نقصانات اپنی جگہ ہیں، لیکن مشرق وسطیٰ کے اُمور کے ماہر تجزیہ نگار حسن ہانی زادہ کا کہنا ہے کہ صہیونی حکومت کو اس جارحیت پر روزانہ ایک بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کی کئی سرنگیں پکڑ کر کھود ڈالی ہیں۔ غزہ پر زمینی یلغار بھی شروع ہوچکی ہے لیکن مقاومت کا کہنا ہے کہ صہیونیوں کو اس جنگ کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ تل ابیب، نقب، اشدود، ایشکول، اشکیلون، بیر شعبا تک حماس کے راکٹ پہنچ رہے ہیں۔ اسرائیلی شدید خوف زدہ ہیں اور پناہ گاہوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ غزہ اپنی استقامت کی تاریخ دہرا رہا ہے۔

ادھر امریکی صدر باراک اوبامہ نے انتہائی منافقانہ انداز اختیار کرتے ہوئے مسلمان ممالک کے سفیروں کے اعزاز میں دعوت افطار میں، امریکہ میں متعین صہیونی سفیر رون ڈرمر کو بھی مدعو کیا۔ نہ صرف یہ کہ اسے دعوت میں شریک کیا بلکہ سب سے پہلے خطاب کی دعوت بھی دی۔ اس نسل پرست صہیونی نے اس خطاب میں مسلمانوں کی بے عزتی کی اور کہا کہ مسلمان بنیادی طور پر جنگ پسند اور جھگڑالو ہیں اور یہ رجحان اُن میں مذہب کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔ ٹھیک یہی الفاظ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت 1980ء کے عشرے میں سیاہ فام افریقیوں کے بارے میں کہتی تھی اور اسے ثقافتی رجحان قرار دیتی تھی۔ خود صہیونی اخبار ھا آرتس نے اس کی امریکہ تعیناتی پر لکھا تھا کہ بش خاندان سے قریبی تعلقات رکھنے والا نیوکنررویٹو اگلا سفیر ہوگا۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نیتن یاہو سے زیادہ انتہا پسند ہے اور آزاد فلسطینی ریاست، امن عمل، اور غیر قانونی یہودی بستیوں پر اس کا موقف امریکی و یورپی حکومتوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتا ہے، کیونکہ امریکا و یورپ کھل کر ساتھ دینے کے بجائے زبانی طور پر مخالفت اور عملی طور پر صہیونیوں کی حمایت کے قائل ہیں۔

میں فلسطینی ماؤں سے اور ان بچوں سے شرمندہ ہوں کہ ان کی مدد کو نہیں جاسکا، لیکن اس تحریر کے ذریعے اپنے حصّے کے قلمی جہاد میں مصروف ضرور ہوں۔ ٹی وی پر ایک روتی ہوئی ماں کا یہ سوال اپنے جواب کے انتظار میں ہے کہ عالم اسلام اور عالم عرب کہاں ہیں؟ کیا دیکھ نہیں رہے کہ ہمیں قتل کیا جا رہا ہے، ہمارے بچے بے دردی سے بموں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پھر اس خاتون نے یہ کہہ کر بے غیرت عرب حکمرانوں کو خود ہی جواب دیا کہ ہم تاآخر مقاومت کریں گے! میں اس شہید بچے کو دیکھ کر رو پڑا، جس کے بال اور چہرہ تو ہے لیکن سر کے اندر کچھ بھی نہیں۔ وہ دو بچے جو ایک دوسرے کے گلے لپٹ کر شہید ہوئے، اُنہیں دیکھ کر بھی دل کو جھٹکا لگا۔ ایک ایک گھر سے کئی کئی نوجوانوں کے جنازے اٹھے ہیں۔ خاندان کے خاندان لقمہ اجل بنے ہیں۔ میں غزہ کی شام غریباں کا نوحہ لکھتے وقت حیران ہوں کہ اُردن، مصر، لبنان اور سعودی عرب کی حکومتیں اور افواج، سرحد پار کرکے اسرائیلی فوج کو صفحہ ہستی سے نابود کیوں نہیں کر دیتے۔ ترکی بحر متوسط سے اپنی افواج کو اسرائیل پر حملے کا حکم کیوں نہیں دیتا۔

عرب لیگ اور او آئی سی کے جنازے کہاں چھپے ہیں؟ لبیک یاغزہ کی صدائیں کیوں نہیں آتیں۔ عراق اور شام کی حکومتوں کے سقوط کے لیے مسلمانوں کو دہشت گرد بنانے والے، افغانستان سے چیچنیا تک کے معاملات میں ’’مسلمانی‘‘ دکھانے والے اپنے پڑوس میں موجود عرب دشمن، اسلام دشمن، انسانیت دشمن ناجائز صہیونی وجود کا خاتمہ کیوں نہیں کر دیتے۔ سعودی عرب کے ادارے موتمر عالم اسلامی نے خود ہی 1970ء میں صہیونی پروٹوکولز نامی دستاویز کا انگریزی ترجمہ شایع کروایا تھا۔ پاکستان میں شایع اس کتاب میں گریٹر اسرائیل کے نقشے میں صرف ترکی اور شام ہی نہیں بلکہ مصر، مدینہ منورہ، اردن، فلسطین، کویت اور ترکی کے علاقے بھی شامل دکھائے گئے تھے۔ آج یہ ممالک اپنے ہی وجود کو بچانے کے لیے اسرائیل کو مٹا دیں، غزہ کی مدد تو وہ نہیں کرسکتے، کیا اپنے دفاع کی جنگ بھی نہیں لڑیں گے۔؟

امت اسلام ناب محمدی کو ایک ٹائم فریم مقرر کرنا ہوگا۔ امریکا و اسرائیل کے اتحادی عرب و مسلم ممالک نے اگر اس ٹائم فریم میں غزہ کی مدد نہیں کی تو پھر لبنان کی حزب اللہ اور ایران کی قدس فورس سمیت پوری دنیا سے مسلمان اور فلسطین کے غیر مسلم دوستوں کو غزہ کی آزادی کی جنگ لڑنا ہوگی۔ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہوگا۔ ہم سے غزہ کی شام غریباں نہیں دیکھی جاتی۔ غزہ میں جن فلسطینی بچوں کا مقدس خون ارزاں بنا دیا گیا ہے، وہ ہمارا اپنا خون ہے، اگر مسلمانان عالم ایک جسد واحد ہیں تو غزہ کی قیامت پر ہم پُرسکون کیسے رہ سکتے ہیں؟ غزہ دوستوں اور دشمنوں کی آزمائش کی سرزمین بن چکی ہے۔ کون غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہے اور کون ان کے دشمن اسرائیل اور امریکا اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ ہے، یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے۔ ایران اور حزب اللہ نے غزہ اور حماس کی حمایت کا رسمی اعلان بھی کر دیا ہے۔ ماضی میں بھی غزہ میں ایران کی مدد پر اس کے شکریہ کے بینرز آویزاں کئے گئے تھے۔ حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ نے حزب جہاد اسلامی کے رمضان عبداللہ شلاح اور حماس کے خالد مشعل سے فون پر گفتگو بھی کی ہے۔ انہوں نے ہر ممکن مدد کا یقین دلا دیا ہے۔ 

ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی اور پاسداران انقلاب اسلامی کے سابق سربراہ محسن رضائی نے اعتراف کیا کہ ایران نے مقاومت اسلامی فلسطین کو ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی فراہم کی اور آئندہ بھی کریں گے۔ ایران کا امدادی قافلہ مصر میں موجود ہے لیکن سعودی بادشاہ کی حمایت یافتہ مصری حکومت اسے غزہ جانے کی اجازت نہیں دے رہی۔ ایران کا پارلیمانی وفد بھی غزہ کے دورے کا اعلان کرچکا ہے۔ دوسری جانب سعودی بادشاہت اور اس کے نمک خوار دانشور حماس اور دیگر مقاومتی گروہوں کو اس صورتحال کا ذمے دار قرار دے کر صہیونیوں سے اپنی وفاداری نبھا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں قدس فورس کے سربراہ حاج قاسم سلیمانی نے مقاومت اسلامی کو پیغام بھیجا ہے، جس میں ان کی شجاعت کی داد دی گئی ہے۔ قاسم سلیمانی نے کہا ہے کہ آسمان و زمین اور سمندر کو صہیونی جارح دہشت گردوں کے لئے جہنم بنا دیا جائے۔

مقاومت اسلامی فلسطین نے محض دو جائز مطالبات تسلیم کئے جانے پر جنگ بندی کا فیصلہ سنایا۔ ان کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ غزہ کا محاصرہ مکمل طور پر ختم کر دیا جائے اور فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے آزاد کر دیا جائے۔ تنظیم آزادی فلسطین نے بھی ان مطالبات کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ بال اب ناجائز و غاصب صہیونی حکومت اور ان کے سرپرست امریکہ کی کورٹ میں ہے، جب وہ مطالبات مان لیں گے یعنی اس یکطرفہ جارحیت کو جو انہوں نے خود شروع کی، اسے روک کر دیگر دو مطالبات مان لیں گے تو مسئلہ عارضی طور پر حل ہوجائے گا۔ مسئلے کا مستقل حل ناجائز و غاصب صہیونی ریاست کا خاتمہ ہے۔

یہ حقیقت تو واضح ہوگئی کہ آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم بھی صہیونی حکومت کے زیر انتظام علاقوں میں راکٹ اور مارٹر گرنے سے نہ روک سکا۔ امریکہ کا فراہم کردہ یہ دفاعی نظام بھی اسرائیل کے دفاع کو ممکن نہ بناسکا۔ مقاومت اسلامی فلسطین کی مقاومت برقرار ہے۔ اسرائیل کوئی شرط نہیں منواسکا۔ کوئی ہدف حاصل نہیں کرسکا۔ حماس غیر مسلح نہیں کی جاسکی۔ غزہ پر قبضہ نہیں کیا جاسکا۔ اسرائیلی جارحیت کے بارے میں تہران کی سڑکوں پر ایرانیوں کا یہ نعرہ اس حقیقت کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ تیر، تفنگ، بمباران، ہیچ اثر ندارد، از قدرت حماس و غزہ، اسرائیل خبر ندارد۔ اور اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی دنیا کے سامنے آشکار ہوئی کہ آزمائش کی اس گھڑی میں غزہ کے بے یار و مددگار فلسطینیوں کا دوست کون ہے اور دشمنوں کی طرفداری کرکے دشمنوں کی صف میں کون جا کھڑا ہوا ہے؟ کیا دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ معلوم نہیں کہ غزہ پر حملے کی جرات صہیونی جارح کو کیوں ہوئی؟ اس لئے کہ مئی 2014ء میں سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی ال فیصل برسلز میں صہیونی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل اموس یادلن کے ساتھ بیٹھے امن کی باتیں کر رہے تھے اور غزہ پر حملے سے صرف ایک دن قبل ان کا صہیونیوں کو امن کی پیشکش پر مبنی مقالہ اسرائیلی اخبار ہا آرتس میں شایع ہوا تھا!
خبر کا کوڈ : 404222
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

یہ چیزیں، یہ نکات ہی تو اس امت پر آشکار ہونے چاہئیں۔
ہماری پیشکش