1
0
Saturday 19 Apr 2014 12:02

صیہونی لابی کا جال

صیہونی لابی کا جال
تحریر: محمد علی نقوی

حال ہی میں معروف مصنف مانویل گلیانوس کی  لکھی گئی کتاب "اسپین میں صیہونی لابی" منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب کے فارسی ترجمہ کی کتاب کا مقدمہ لکھنے والے معروف ایرانی مصنف رضا منتظمی نے اس کتاب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی لابیوں کے حوالے سے یورپ میں ایک اہم اتفاق پیش آنے والا ہے۔ آج یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ یورپ کے میڈیا، بنکاری، تجارتی مراکز، بڑی بڑی کمپنیوں اور پالیسی ساز اداروں پر صیہونی لابی کا گہرا اثر و نفوز ہے، جسکی وجہ سے امریکی اور یورپی ممالک کے مفادات کو صیہونی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ رضا منتظمی نے کہا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے حالیہ بحران میں صیہونی لابی کا ہاتھ ہے، کیونکہ ہم نے یورپ اور امریکہ کے مفکرین، یونیورسٹی اساتذہ، آرٹسٹوں اور فیلمسازوں کے ردعمل کا مشاہدہ کیا ہے، اس وقت یہ موضوع سیاسی موضوع میں بدل چکا ہے اور اس پر متعدد مقالات بھی لکھے جاچکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ لوگ اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ صیہونی حکومت صرف ایران کی نہیں، مغرب اور امریکہ کی بھی دشمن ہے۔

"اسپین میں صیہونی لابی" نامی کتاب کا مصنف مانویل گلیانوس 1951ء میں اسپین میں  پیدا ہوا، وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دنیا میں موجود حالیہ خرابیاں منجملہ روایتی فیملی سسٹم کی بربادی، ہمجنس پرستی، فیمینسم اور الحادی افکار و نظریات فری میسن کی سرگرمیوں کی وجہ سے ہیں اور فری میسن کے نظریات کا سرچشمہ عالمی صیہونیت ہے اور اس وقت امریکہ اور یورپ کو بھی صیہونی لابیوں نے اپنی کالونی بنا رکھا ہے۔ مانویل گلیانوس اپنی کتاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے اس سے پہلے عالمی بحرانوں اور فری میسن کے بارے میں تحقیقی کام انجام دیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عالمی صیہونیت کس قدر خطرناک ہے۔ یورپ اور بعد میں ایران کے موجودہ حالات کی روشنی میں میرے اوپر واضح ہوا ہے کہ عالمی صیہونیت ایران اور یورپ کی مشترکہ دشمن ہے۔ لہذہ اسکے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مصنف کا خیال ہے کہ عوام کی اکثریت صیہونی لابی کے تخریبی اثرورسوخ اور طاقت سے لاعلم ہیں اور ان کے بقول انہوں نے اسی بنیاد پر یہ کتاب لکھی ہے، تاکہ مغربی دنیا میں صیہونیت کے تباہ کن کردار سے لوگوں کو آگاہ کرسکیں۔ 

گلیانوس کہتے ہیں "جب میں نے اس کتاب کو لکھنا شروع کیا تو اس وقت میں ایک بین الاقوامی تجارتی کمپنی میں ملازم تھا، لیکن فری میسن اور صیہونیت کے بارے میں حقائق بیان کرنے کی وجہ سے مجھے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ گلیانوس کا کہنا ہے کہ اسپین میں بھی ایک ایسے قانون کی منظوری کے بارے میں غور و خوض ہو رہا ہے، جس میں ہولوکاسٹ پر تنقید کو جرم قرار دیا جائے گا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اسپین کی پارلیمینٹ کے اراکین اس قانون کو منظور نہیں ہونے دیں گے، تاکہ اسپین میں آزادی اظہار کا احترام باقی رہ سکے۔ اسپین میں اس وقت بھی مصنفین اور اہل قلم پر پابندیاں جاری ہیں۔ "اسپین میں صیہونی لابی"  نامی کتاب کے پبلشر کو بھی چار لاکھ یورو جرمانہ کیا گیا ہے اور صیہونی لابی اس کتاب کی حیثیت کو کم کرنے کے لئے تگ و دو میں مشغول ہے۔ اس کتاب میں اسپین میں موجود فری میسن اور صیہونی لابی سے وابستہ اداروں اور تنظیموں نیز انکے باہمی رابطوں کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں، اسی طرح اس کتاب میں صیہونی لابی کیطرف سے اس ملک کے سرمائے اور اقتصاد پر قبضے کے حوالے سے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔

اس کتاب میں صیہونیت کی ایک قسم "سفاردی" کے بارے میں بھی انکشافات کئے گئے ہیں، سفاردی صیہونی ان صیہونیوں کو کہا جاتا ہے جو مشرقی اور افریقی ممالک میں رہتے ہیں۔ مصنف کے بقول سفاردی صیہونیوں نے اسپین کو اپنے لئے محفوظ ترین جگہ قرار دیا ہے اور وہ نیو ورلڈ آرڈر کے حوالے سے یہاں منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس کتاب کے مقدمہ کے ایک حصہ میں آیا ہے کہ اس منصوبہ بندی میں ایک ایسی حکومت کا قیام عمل میں لانا ہے، جس میں ایک عالمی کرنسی اور ایک انحرافی مذہب ہو۔ صیہونی اس ھدف تک پہنچنے اور اس کے وسائل و امکانات کے لئے کہ جو ہمجنس پرستوں اور فیمانسٹوں کے ذریعے حاصل کئے جائیں گے، ان لابیوں کے سرمائے پر نظریں گاڑھے ہوئے ہیں۔

جبر، سازشوں اور پابندیوں کا سلسلہ صرف مانویل گلیانوس تک محدود نہیں، بلکہ فرانس کے پروفیسر Robert faurisson کو بھی ہولوکاسٹ کے بارے میں حقائق منظر عام پر لانے کے جرم میں اپنے پیشے، آزادی اور سہولیات سے ہاتھ دھونے پڑے۔ فوریسن نے اپنے تحقیقی مقالات اور فرانسیسی اخبار لومونڈ کو لکھے گئے خطوط میں ہولوکاسٹ اور اس کے بارے میں صیہونیوں کے دعوے کو غلط ثابت کیا تھا۔ فرانس میں 1990ء میں گیسوٹ ایکٹ gayssot act کی منظوری کے بعد Robert faurisson کے خلاف قانونی کاروائی انجام دی گئی اور انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا، اسکے بعد 2006ء میں ایک مقدمے میں ہولوکاسٹ کے انکار کی وجہ سے باقاعدہ مجرم قرار دیا گیا، کیونکہ انہوں نے ایران کے سحر چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جرمن فوجیوں نے دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے خلاف ایک بھی گیس چیمبر استعمال نہیں کیا تھا۔ اس تبصرہ پر فرانس کی عدالت نے فوریسن کو 7500 یورو جرمانہ اور تین ماہ کی سزا سنائی۔ اسطرح کے مختلف اقدامات مغرب میں دانشوروں اور محققین کے سکوت کا باعث نہ بن سکے اور بعض اوقات مغربی مصنفین کی جانب سے حقیقت پر مشتمل تحقیقات سامنے آتی رہتی ہیں۔

اس صورت حال میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ جن ممالک میں کتاب لکھنے اور کسی تاریخی واقعہ پر تحقیق کرنا جرم ہے، ان مماک کی حکومتیں اور پالیمینٹ ایران کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتی ہے اور امریکہ کی ڈھٹائی تو تمام حدیں عبور کر گئی ہے اور اسکے وزیر خارجہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ پانـچ جمع ایک مذاکرات میں ایران کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو بھی شامل کیا جائے۔ حال ہی میں یورپی یونین کی پارلیمنٹ کے ایک گروپ نے ایران کے ساتھ اسٹراٹیجیک تعلقات کے موضوع پر ایک دستاويز تیار کرنے کے بہانے ایک قرارداد منظور کی ہے، جس سے ایران کے داخلی مسائل میں یورپی یونین کی مداخلت کی حقیقت آشکار ہوگئی ہے۔ تین موضوعات پر تیئیس شقوں پر مشتمل اس قراردار میں ایران کے ایٹمی پروگرام، ایران اور یورپی یونین کے تعلقات اور خطے میں ایران کے کردار کا تعین کیا گیا ہے۔ اس قرارداد میں یورپی یونین کے خارجہ شعبے سے کہا گیا ہے کہ 2014ء کے اختتام تک تہران میں یورپی یونین کا نمائندہ دفتر قائم کیا جائے۔ اس دفتر کا کام ایران کی سیاسی پالیسیوں پر اثرانداز ہونا اور انسانی حقوق جیسے مسائل کا قریب سے جائزہ لینا ہے۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی اس قرارداد کی سولہویں شق میں ایران کی طرف سے انسانی حقوق کے پاسداری کو ایران اور یورپی یونین کے باہمی تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا اور یورپی یونین کے عہدیداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ انسانی حقوق پر عملدرآمد کے حوالے سے ایران سے بات چیت کریں۔ اس قرارداد کی سترہویں شق میں ایران آنے والے یورپی یونین کے وفود کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ ایران کی حکومت مخالف شخصیات کو ضرور ملیں، شہری حقوق پر توجہ دیں اور سیاسی قیدیوں سے رابطے میں رہیں۔

تاہم اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے یورپی پارلمینٹ کی قرارداد کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ وزارت خارجہ کے پریس آفس کے مطابق مرضیہ افخم نے کہا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد ایران کے ساتھ اسٹراٹیجیک تعلقات اور ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں بے بنیاد اور ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی پارلیمنٹ کے کچھ انتھا پسند اراکین نے صیہونی حکومت اور ایران مخالف دھڑوں کے زیر اثر اور اپنے آئندہ انتخابات کے لئے فائدہ اٹھانے کے لئے اس قرارداد کو منظور کروانے میں کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد کسی بھی سیاسی اور عالمی معیار و منطق کے مطابق نہیں ہے بلکہ تعصب اور نسل پرستی سے بھری تاریخ کی یاد دلاتی ہے۔ مرضیہ افخم نے کہا کہ یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد ایران کے لئے ذمہ داریوں کا تعین نہیں کرسکتی۔ ترجمان وزارت خارجہ نے یورپ کو نصحیت کی کہ تعاون کی راہیں بند کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو سمجھنے اور باہمی احترام و مفادات کے اصولوں پر مبنی اقدامات کرے۔

یورپی یونین نے ایک ایسے وقت یہ قرارداد منظور کی ہے کہ ایران اور یورپ کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لئے پانچ جمع ایک ممالک کے مذاکرات ہو رہے ہیں اور یورپی یونین کے اس اقدام کا مطلب ایک غلط راستے کا انتخاب ہے۔ غیر منطقی موضوعات کو چھیڑنا، مداخلت پر مبنی تسلط پسند رویہ اختیار کرنا اور دوسروں پر حکم چلانا، گذشتہ غلطیوں کے اعادے کے علاوہ کوئی مفہوم نہیں رکھتا۔ یورپی یونین کی خارجہ سیاست میں اس طرح کے فیصلے اور اقدامات اس ادارے میں موجود ایران مخالف صیہونی لابی کا ساتھ دینے اور یورپ کی سیاسی ساکھ اور حیثیت کو برباد کرنے کے مترادف ہے اور اس سے یورپی یونیں کے دیگر فیصلے بھی عالمی برادری میں مشکوک قرار پاسکتے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اور یورپ کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لئے ایران اور پانچ جمع ایک ممالک کے مذاکرات کے موقع پر انسانی حقوق اور اسطرح کے دوسرے غیر ضروری موضوعات کو چھیڑ کر مذاکرات کے ماحول کو سیاسی لحاظ سے مکدر کرنا ان سازشی عناصر کا کام ہے، جو ان مذاکرات پر خوش نہیں ہیں اور مذاکرات کے نتیجے میں کسی قابل حل نقطے پر پہنچنے کو اپنے لئے ایک شکست تصور کرتے ہیں۔ اس مین اب کوئی شک وشبہ نہیں کہ عالمی صیہونی لابی ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے آج تک اس انقلاب اور نظام کو سرنگوں کرنے کے لئے رات دن ایک کئے ہوئے ہے۔

آئپیک ہو یا دنیا بھر میں بکھری صیہونی لابی، وہ اسپین میں صیہونی لابی" نامی کتاب کے مصنف مانویل گلیانوس کے چند الفاظ کو تو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، لیکن ایران پر انسانی حقوق کی پامالی کے جھوٹے الزام لگا کر کبھی اقوام متحدہ اور کبھی پانچ جمع ایک مذاکرات میں اس سوال کو اٹھا کر اپنے دیرینہ صیہونی اھداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ بہرحال مانویل گلیانوس  نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے کہ میں نے اس سے پہلے عالمی بحرانوں اور فری میسن کے بارے میں تحقیقی کام انجام دیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عالمی صیہونیت کس قدر خطرناک ہے۔ یورپ اور بعد میں ایران کے موجودہ حالات کی روشنی میں میرے اوپر واضح ہوا ہے کہ عالمی صیہونیت ایران اور یورپ کی مشترکہ دشمن ہے، لہذہ اسکے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مصنف کا یہ خیال درست ہے کہ عوام کی اکثریت صیہونی لابی کے تخریبی اثر و رسوخ اور طاقت سے لاعلم ہیں۔
خبر کا کوڈ : 374325
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

this is very _important topic try to write more information about zionist.this is hundred percent correct that zionism is the base of all evils and problem of the world
ہماری پیشکش