0
Saturday 23 Jun 2012 10:02

عراق میں اردنی کمپنیز کی آڑ میں موساد کی وسیع سرگرمیاں

عراق میں اردنی کمپنیز کی آڑ میں موساد کی وسیع سرگرمیاں
اسلام ٹائمز- فارس نیوز ایجنسی کے مطابق عراق کی ایک نیوز ایجنسی "النخیل نیوز ایجنسی" نے فاش کیا ہے کہ موساد سے وابستہ اسرائیلی کمپنیز اردنی کمپنیز کی آڑ میں وسیع پیمانے پر سرگرم عمل ہیں۔ النخیل نیوز ایجنسی نے اس بارے میں شائع کردہ اپنی رپورٹ میں لکھا ہے:
"عصائب اہل حق نے اینٹرنٹ پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں ۱۷ مئی ۲۰۰۶ کو ایک امریکی گاڑی کو نشانہ بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس میں اسرائیلی انٹیلی جنس افسران سوار تھے، اس ویڈیو میں اس حملے میں زخمی ہونے والے افراد کی تصاویر بھی جاری کی گئیں جنہوں نے اپنے بازو پر صہیونیستوں کے ساتھ مخصوص ڈیوڈ اسٹار لگا رکھا تھا"۔
عراق کی سرزمین پر اسرائیلی انٹیلی جنس اور سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی ایک مسلمہ حقیقت ہے جسکے بارے میں مختلف خبریں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان میں سے اکثر خبروں کا ذریعہ عراق میں موجود امریکی فوجی ہیں۔ مثال کے طور پر ابوغریب جیل کا سابقہ امریکی زندانبان جنٹ کاربنسکی جولائی ۲۰۰۴ میں ریڈیو بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اس جیل میں ایک اسرائیلی انوسٹی گیٹر قیدیوں سے بازپرس کرتا ہے۔
اسی طرح عراق کے مختلف صوبوں میں اسرائیلی جاسوسی نیٹ ورکس کی موجودگی کے بارے میں بھی بہت سی خبریں شائع ہو چکی ہیں۔ محدود مدت کیلئے جیل جانے والے بعض عراق قیدی بھی یہ کہتے ہیں کہ امریکی افسروں کی تحقیق اور انوسٹی گیشن کے بعد اسرائیلی افسر ان سے پوچھ گچھ کرتے تھے جو ان سے عراقی عوام میں حزب اللہ لبنان اور حماس کی مقبولیت، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے کردار اور عراق میں انبیای بنی اسرائیل سے مربوط جگہوں اور یہودیوں سے متعلق آثار قدیمہ کے بارے میں سوال پوچھتے تھے۔ ان عراق قیدیوں کے مطابق یہ افسر جنہوں نے اپنے چہرے کو نقاب کے ذریعے چھپا رکھا تھا لبنان کے لہجے میں عربی بولتے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ عرب زبان نہیں بلکہ انہوں نے عربی کو سیکھ رکھا ہے۔
اسکے علاوہ بی بی سی نے ایک ڈاکومنٹری فلم شائع کی ہے جس میں اسرائیلی افسروں کو شمالی عراق میں رائج کرد زبان سیکھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس فلم سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کس طرح عراق میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
عراق میں اسرائیل کی اقتصادی موجودگی:
اسرائیلی اخبار یدیعوت آحارنوٹ وہ پہلا اسرائیلی روزنامہ تھا جس نے ۲۰۰۵ میں عراق میں اسرائیلی کمپنیز کی موجودگی کا اعتراف کیا اور اعلان کیا کہ عراق میں دسیوں اسرائیلی کمپنیز کمیونی کیشن، انٹیلی جنس، ٹیلی کمیونی کیشن اور دوسرے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ فعالیت کر رہی ہیں۔ اسکے بعد ایک اور اسرائیلی اخبار معاریو نے بھی ۲۰۰۷ میں عراق میں اسرائیل کے گہرے اثر و رسوخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے پہلے صفحے پر یہ بڑا ٹائٹل شائع کیا کہ "اسرائیلی اس طرح عراق میں دولت مند ہو رہے ہیں"۔ اسرائیل کے روزنامہ معاریو نے اس عنوان کے ذیل میں شائع ہونے والی خبر میں لکھا کہ عراق میں اسرائیل کی ستر سے زیادہ کمپنیز سرگرم عمل ہیں جو کھلم کھلا اپنی فعالیت انجام دے رہی ہیں اور اپنے پروڈکٹس عراقیوں کو فروخت کر رہی ہیں۔ عراق میں تجارت کے ذریعے حاصل ہونے والا ان کمپنیز کا سود کئی میلین ڈالر کے برابر ہے اور انہیں توقع ہے کہ مستقبل میں حاصل ہونے والے سود میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔
یہ اسرائیلی اخبار لکھتا ہے: "اسرائیل کی مختلف کمپنیز ۲۰۰۳ میں اسرائیلی وزیر اقتصاد بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے عراق میں فعالیت کرنے کی اجازت مل جانے کے بعد اس ملک میں سرگرم عمل ہو چکی ہیں۔ عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کے دور میں اسرائیلی کمپنیز کو عراق میں فعالیت کی اجازت نہیں دی گئی تھی کیونکہ تل ابیب عراق کو اپنا دشمن ملک تصور کرتا تھا۔
عراق میں سرگرم اسرائیلی کمپنیز میں سے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی "ڈان" ہے جو عراق میں استعمال شدہ بسیں بیچنے کا کام کرتی ہے۔ اسی طرح ایک اور اسرائیلی کمپنی "رنٹکس" کا کام ماسک بیچنا، "ڈلٹا" کا کام ماسک بیچنا اور "سونول" عراق میں ایندھن کی خرید و فروش کی سب سے بڑی اسرائیلی کمپنی ہے۔ سونول کمپنی عراق میں امریکی فوج کو ہر روز کروڑوں لیٹر پٹرول فراہم کرنے کا کام انجام دے رہی ہے۔
عراق میں اسرائیل کی اقتصادی سرگرمیوں کا اصلی مقصد نئی انٹرنیشنل مارکیٹس کا قیام اور اسکے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہے تاکہ موجودہ اقتصادی بحرانی صورتحال کا جبران کیا جا سکے کیونکہ اس وقت اسرائیل میں بھی بیروزگاری کی شرح ۱۰ فیصد سے اوپر جا چکی ہے۔ اسکے علاوہ جنگ کی وجہ سے نابود ہونے والے عراق میں تعمیر و ترقی کی ضرورت بھی ان کمپنیوں کو اس ملک میں کھینچ لائی ہے۔
اسرائیل ایکسپورٹس سنٹر کے سابق ڈائریکٹر شراگا براوش کے مطابق عراق میں تعمیر و ترقی سے مربوط اسرائیل کی برآمدات کا حجم تقریبا سو میلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ یہ برآمدات براہ راست عراق منتقل نہیں ہوتیں بلکہ ترکی، اردن اور ہالینڈ جیسے ممالک کے ذریعے عراق ارسال کی جاتی ہیں۔
اسرائیلی اخبار یدیعوت آحارنوٹ کے مطابق عراق میں اسرائیل کی سرگرم کمپنیز میں "سولیل بونیہ" جسے افریقہ اور مشرقی یورپ میں کنسٹرکشن کے کام میں زبردست تجربہ حاصل ہے، "ارنسون"، "کاردان" جسے پانی سے متعلق پراجیکٹس پر عبور حاصل ہے، "اشتروم"، "افریقہ – اسرائیل" کمپنی، "بزان" جو ڈسٹلیشن پروسس میں عبور رکھتی ہے بھی شامل ہیں۔
خبر کا کوڈ : 173427
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش