0
Monday 20 Oct 2014 21:45

دھرنوں کے ثمرات اور مستقبل

دھرنوں کے ثمرات اور مستقبل
تحریر: ثاقب اکبر
 
اسلام آباد میں دھرنوں کا سلسلہ جو اگست 2014ء کے وسط میں شروع ہوا، آج ( 20 اکتوبر 2014ء) تک جاری و ساری ہے۔ ان دھرنوں کے حوالے سے دو کلی نظریات ہیں۔ ایک ان لوگوں کا نظریہ جو انھیں سرے سے ہی منفی سیاست کا شاخصانہ قرار دیتے ہیں اور دوسرا ان لوگوں کا نظریہ جو انھیں منفی سیاست کا ردعمل سمجھتے ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر دوسرے گروہ سے قریب تر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پاکستان میں نظام حاضر و موجود کے بارے میں یقین رکھتے ہیں کہ وہ نہ فقط عوام کی حالت کو سدھارنے کی اہلیت نہیں رکھتا بلکہ اسے مزید تنزل کی طرف لے جانے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور پھر اس کا نتیجہ خود پاکستان کے حق میں نکلتا ہو دکھائی نہیں دیتا۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ ان دھرنوں نے مندرجہ ذیل مثبت نتائج حاصل کئے ہیں۔
1۔ عوام پہلے کی نسبت بہتر طور پر آگاہ ہوچکے ہیں کہ ان کی اصل مشکلات کیا ہیں اور ان مشکلات کے ذمہ دار کون ہیں۔
2۔ پاکستان کے عوام پہلے کی نسبت اس امر سے بھی بہتر طور پر آگاہ ہوگئے ہیں کہ ان کی مشکلات کو حل کرنے کے راستے کیا ہیں۔
3۔ پاکستان کے عوام زیادہ بہتر طور پر جان گئے ہیں کہ پاکستان میں نہ فقط باقی رہنے کی صلاحیت موجود ہے بلکہ دنیا میں ایک مثالی ریاست بننے کی بھی صلاحیت سے بہرہ ور ہے۔ یہ گویا مایوسی سے امید کی طرف ایک سفر ہے۔
4۔ پاکستان کے لوگوں کو یہ بات بھی بہتر طور پر سمجھ آگئی ہے کہ ان کے پاس متبادل تنظیمیں، پارٹیاں اور شخصیات موجود ہیں جو پاکستان کے حالات کو بہتر بنانے کا شعور بھی رکھتی ہیں اور عزم و ارادہ بھی۔ 

5۔ تاریخی طور پر پاکستان میں یہ ہوتا آیا ہے کہ اگر سیاستدان ناکام ہوتے ہوئے نظر آئے تو انھیں فوج سے امید پیدا ہوئی کہ شاید وہ ان کے حالات کو بہتر بنا سکتی ہے اور جب فوجی آمریت سے شکایات پیدا ہوئیں تو انھوں نے پھر انہی پہلے سیاستدانوں کی طرف اپنے درد کے مداوا کے لئے نظر اٹھائی، لیکن اب کے دھرنوں کو منظم کرنے والی قیادت نے فوجی متبادل کے نظریئے کے بجائے بہتر سیاسی متبادل کے نظریئے کو فروغ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوام کی بہت بھاری اکثریت فوج کو سیاسی مسائل حل کرنے کے لئے نجات دہندہ کے طور پر نہیں دیکھتی۔ اگرچہ ان دھرنوں نے فوج کا احترام بھی اس کے اپنے محدودہ کار میں بڑھایا ہے۔
 
6۔ عام طور پر انتخابات کے انعقاد کے بعد سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے مسائل میں مگن ہوجاتی ہیں اور خاص طور پر گذشتہ حکومت کے اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد انتخابات میں دھاندلی کی شکایت کے باوجود یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب آئندہ انتخابات تک سامنے آجانے والی صورتحال کو طوعاً یا کرھاً برداشت کرنا ہے، لیکن دھرنوں نے جو صورتحال پیدا کی اس کی وجہ سے مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے وجود کے اظہار کے لئے مجبور ہوگئیں اور انھیں بھی بیدار ہوتے ہوئے عوام کے سامنے آکر پیش آمدہ مسائل کے بارے میں اپنا موقف ظاہر کرنا پڑا۔ 

7۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو بھی دھرنوں کے پیدا کئے ہوئے سیاسی ارتعاش یا بیداری نے مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی اور رفتار پر نظرثانی کریں۔ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے وہ پہلے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوجائیں۔
8۔ پاکستان میں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے انتہا پسند گروہ پاکستانی معاشرے پر غالب آتے چلے جا رہے ہیں۔ خیابانوں اور شاہراہوں پر جیسے ان کا قبضہ ہوگیا ہے اور اعتدال پسند عوام، دبک کر گویا اپنے گھروں میں بیٹھ گئے تھے لیکن موجودہ دھرنوں نے اس کیفیت کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستان کے عام لوگ ان کی وجہ سے باہر نکلے ہیں۔ ان کی ہر بات اور انداز اظہار کی تائید نہ بھی کی جائے تو بھی یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ ان دھرنوں نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کی بھاری اکثریت آج بھی انتہا پسندی کے نظریات سے دور ہے اور وہ اس ملک میں مختلف نظریات، ثقافتوں اور اعتقادات کے ساتھ مل جل کر رہنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتی بلکہ اس پر راضی اور خوشنود بھی ہے۔
 
9۔ دھرنوں کے قائدین نے نہ جغرافیائی تفریق کو ابھارا، نہ لسانی اختلاف کو چھیڑا، نہ مذہبی فرق کے جھمیلوں میں پڑے بلکہ انھوں نے پاکستان کی بات کی، عوام کے مسائل کی بات کی اور معاشرے میں قانون اور عدل کی حکمرانی کے بارے میں اپنے ہمہ گیر تصور کو پیش کیا، جس کے نتیجے میں ان کی آواز پاکستان کے تمام خطوں، علاقوں، مذاہب کے پیروکاروں اور مختلف زبانوں کے بولنے والوں نے سنی اور اس کا اثر قبول کیا۔ یہ طرز عمل ایک متحدہ اور مستحکم پاکستان بنانے اور متحد و منظم قوم بنانے کے لئے نہایت مفید ہے اور دوسری تمام جماعتوں کے لئے سبق آموز بھی۔
 
10۔ دھرنے کے قائدین نے اگرچہ پاکستان کے مسائل پر بات کی، لیکن انھوں نے پاکستان کو بیرونی طاقتوں کے اثرات سے پاک کرنے کا نعرہ بھی بلند کیا انھوں نے کہا کہ پاکستان کو مقروض اور مجبور ریاست کی کیفیت سے نکال کر اسے ایک آزاد اور خود مختار ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس سے ان کی خارجہ پالیسی کا تصور بھی ظاہر ہوتا ہے۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دھرنوں کے بارے میں ہمارے بعض سنجیدہ مذہبی حلقوں کو کچھ اعتراضات ہیں، ان کے ان اعتراضات پر دھرنے کے قائدین کو غور و فکر بھی کرنا چاہیے۔ دھرنے کے قائدین کے بعض اظہارات پر بھی اعتراضات کئے جاتے ہیں، ان کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے، تاہم اس وقت ہم جس موضوع پر اظہار خیال کر رہے ہیں، وہ فقط دھرنوں کے ثمرات اور مستقبل تک محدود ہے۔
 
یہ دھرنے دو ماہ کے بعد اب اپنی صورت تبدیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ دھرنے کے قائدین نے ملک کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے جلسوں اور اجتماعات کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ یہ جلسے اب پنجاب سے نکل کر دیگر صوبوں کا رخ بھی کرنے لگے ہیں۔ دھرنے کے قائدین کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے تمام علاقوں کے لوگوں سے بالمشافہ ملاقات کرکے اپنا سیاسی پروگرام اور نقطہ نظر ان تک پہنچائیں گے۔ 

تازہ ترین صورتحال میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اسلام آباد میں دھرنوں کا مستقبل کیا ہے۔؟ اس سلسلے میں چونکہ دو مختلف دھرنے ایک دوسرے کی ہمسائیگی میں قائم ہیں، اس لئے دونوں کا مستقبل ہمیں ایک دکھائی نہیں دیتا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ عوامی تحریک اور ان کے ساتھ اشتراک عمل کرنے والی جماعتوں کا دھرنا چند دنوں تک لپیٹ لیا جائے گا اور پھر پاکستان تحریک انصاف کا ڈی چوک میں دھرنا باقی رہ جائے گا۔ عوامی تحریک اور ان کے ساتھی نئی حکمت عملی کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں اجتماعات کے ذریعے اپنا پیغام پہنچاتے رہیں گے، لیکن پی ٹی آئی کا دھرنا آئندہ کیا رخ اختیار کرتا ہے، سوال کا یہ حصہ بہت اہم بھی ہے اور اس کے جواب پر بہت سی سیاسی جدوجہد کے نتائج کا انحصار بھی۔ 

ہم نہیں سمجھتے کہ یہ دھرنا طویل مدت تک باقی رہ سکتا ہے، کیونکہ پھر یہ سیاسی تدبر اور حکمت کے زوال کی شکایت کرنے لگے گا، جبکہ تحریک انصاف کی قیادت سے یہ توقع نہیں کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ یہ بھی کوئی نئی حکمت عملی طے کرکے ملک میں کسی نئی صورتحال کو وجود میں لے آئے۔ ہوسکتا ہے سرگودھا کے پی ٹی آئی کے جلسے میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے جو اعلان کیا تھا وہ واقعی پی ٹی آئی کے پیش نظر ہو۔ تحریک انصاف کو جس پیمانے پر عوامی حمایت کے مظاہرے ہو رہے ہیں، انھیں سامنے رکھا جائے تو پھر شاید اس کے لئے یہ مشکل نہ ہو کہ وہ ملک گیر پہیہ جام کی موثر کال کا اہتمام کرسکے۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر وفاقی حکومت جو آج یہ سمجھ رہی ہے کہ دھرنے آہستہ آہستہ اسلام آباد سے سمٹ کر واپس جا رہے ہیں، اسے پھر سے نئی پیشکشوں کے ساتھ دھرنے کے قائدین کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں نئی اور بڑی تبدیلیوں کا انتظار کیا جاسکتا ہے۔
 
وفاقی حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وسیع عوامی رابطوں اور ملک گیر کامیاب جلسوں کے بعد جب اس کی حقیقی اپوزیشن اسلام آباد میں مظاہروں کی نئی کال دے گی تو پھر کیا ہوگا؟ ہماری مخلصانہ رائے اب بھی یہی ہے کہ دھرنے کے قائدین سے سنجیدہ مذاکرات کرکے ان کے بنیادی اور جائز مطالبات کو تسلیم کیا جائے، جن میں خاص طور پر دھاندلی کے الزامات کی قابل اعتماد طریقے سے تحقیقات، دھاندلی میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا، دھاندلی کے امکانات کو کم کرنے والا نیا انتخابی نظام، الیکشن کمیشن کی ایسی تشکیل نو جس پر کوئی انگشت نمائی نہ کی جاسکے، دھاندلی سے پاک اور قابل اعتماد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اور ماڈل ٹاؤن کے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی وغیرہ شامل ہیں۔ کیا کوئی سننے والا ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 415608
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش