0
Monday 4 Jul 2011 19:36

عراق پر مستقل قبضے کا امریکی منصوبہ

عراق پر مستقل قبضے کا امریکی منصوبہ
تحریر:زاہد مرتضیٰ
عراق میں آج کل sofa معاہدے کے تحت امریکی فوجوں کے انخلاء پر کافی تجزیئے و تحلیل کئے جا رہے ہیں، جوں جوں مدت مطلوب قریب آتی جا رہی ہے امریکہ کی بےچینی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، امریکی استعمار کسی صورت عراق سے اپنی فوجوں کے انخلاء کا خواہشمند نہیں، وہ چاہتا ہے کہ عراق میں اپنے لئے ایک مستقل مستقر یا بیس کیمپ قائم کر لے، جس کے ذریعے وہ مشرق وسطٰی میں اپنے مفادات کی حفاظت کرسکے۔ لیکن عراقی حکومت، سیاسی جماعتوں اور عوام کے تیوروں سے لگ رہا ہے کہ امریکی استعمار کو بالآخر عراق سے ا پنا بوریا بستر سمیٹنا پڑیگا۔
عراق ایسا ملک ہے جس میں گزشتہ 8 برسوں سے امریکی فوج نے قبضہ کر رکھا ہے۔ صدام بدبخت کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی عوام کو حقیقی آزادی کا منظر واضح نظر نہیں آ رہا۔ صدام حکومت کے خاتمے کے بعد امریکی قابض فوج اور امریکی منصوبہ سازوں نے مستقبل میں اپنے مفادات کی حفاظت کیلئے سازشوں کا ایسا جال پھیلایا ہے کہ نو آموز عراقی حکومت ان کا توڑ کرنے میں ابھی تک کامیاب نہ ہو سکی ہے۔
 ستم بالائے ستم یہ ہے کہ عراق میں نئی جمہوری حکومت کا قیام علاقائی عرب سلطنتوں اور ان کے آمر حکمرانوں کیلئے ناقابل قبول بھی بن چکا ہے، اور وہ اس حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے اپنی چالیں چل رہے ہیں، ان عرب ریاستوں کی عراق حکومت سے دشمنی کا معمار بھی امریکائی استعمار ہے کیونکہ اس کے مفادات عرب ریاستوں کے درمیان کشیدہ تعلقات میں پوشیدہ ہیں۔ جب تک عرب ریاستوں میں تصادم کی فضا موجود رہے گی، مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کے وجود کا جواز بھی موجود رہے گا، اس لئے امریکہ کبھی بھی یہ نہیں چاہتا کہ مشرق وسطیٰ میں ایسی عوامی اور سیاسی تبدیلی وقوع پذیر ہو جو خطے میں اسکے اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے مفادات کیلئے خطرہ ثابت ہو، امریکہ چاہتا ہے کہ عرب ممالک میں شخصی یا خاندانی سلطنتیں برقرار رہیں، کیونکہ وہ ایک طویل مدت سے اس کے مفادات کی بہتر نگران ہیں۔
جب سے امریکہ عراق میں ایک قابض اور جارح کی شکل میں وارد ہو اہے، یہ ملک بدامنی اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کی آماجگاہ بن گیا ہے، 2009ء میں عراقی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران امریکی صدر اوبامہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ امریکہ اگست 2010ء تک عراق سے اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ نکال لے گا جبکہ بقیہ فوجیں 2011ء کے اختتام تک عراق سے واپس بلا لی جائیں گی۔ اور ملک کا انتظام عراقی سیکیورٹی اداروں کے سپرد کر دیا جائے گا، لیکن اس حقیقت سے دنیا اچھی طرح آشنا ہے کہ امریکہ کی پہچان اس کی وعدہ خلافیاں اور کہہ مکرنیاں ہیں۔ اپریل میں امریکہ کے حال ہی میں سبکدوش ہونیوالے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے امریکی اعلٰی حکام کے سینوں میں چھپی سازش ظاہر کر د ی اور کہا کہ اگر عراقی عوام چاہتے تو امریکی فوج مزید کچھ عرصے تک عراق میں قیام کر سکتی ہے، کیونکہ عراق میں ابھی تک القاعدہ کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جا سکا اور اس دہشتگرد گروہ کی سرکوبی کے لئے امریکی فوجوں کی مزید کچھ مدت کے لئے عراق میں موجودگی ضروری ہے۔
رابرٹ گیٹس نے سخت زبان میں عراقی حکام پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی درخواست کا مثبت جواب دیں، کیونکہ آپ کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے، امریکہ کی اس خواہش پر عراق کے تمام طبقات اور عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور امریکہ سے مطالبہ کیا کہ فوراً عراق خالی کر دے۔ 2003ء میں جب جھوٹ پر مبنی اطلاعات کو بنیاد بنا کر امریکہ اور اس کے اتحادی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش میں عراق کی سرزمین پر حملہ آور ہوئے تھے۔ قابض فوجوں نے 8 سالوں میں عراق کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ پورے ملک میں امنیت مفقود ہو کر رہ گئی، امریکہ کی غلط پالیسیوں کے باعث عراق، القاعدہ کی آماجگاہ بنا، علاوہ ازیں عراق کی وحدت پر فرقہ واریت کے ایسے گہرے زخم لگائے، جن کی تاثیر آج بھی باقی ہے، پورے عراقی معاشرے کو بری طرح مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا۔ علاوہ ازیں ملک کے تمام اداروں کو بھی زمین بوس کر دیا، ظلم و ستم کی داستانیں الگ سے رقم ہیں، جن میں سے بعض سے تو دنیا آگاہ ہو چکی ہے، بعض ابھی تک پوشیدہ ہیں۔ صدام حکومت کا خاتمہ اگرچہ عراقی عوام کیلئے ایک مژدہ جاں کی حیثیت رکھتا تھا لیکن بعثی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں امن و امان کا مفقود ہو جانا اور ایک مستحکم حکومت کا قیام عمل میں نہ آنا، ایک ایسا المیہ تھا، جس نے عوام سے ان کے سنہرے مستقبل کا سپنا چھین لیا۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ عراق میں مستحکم حکومت قائم نہ ہونے دینا امریکی حکمت عملی کا حصہ تھا، جسے بعض علاقائی عرب ممالک کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔
عراق سے انخلاء میں پس و پیش سے کام لینے کے امریکی عزائم کے خلاف سب سے شدید ردعمل مہدی آرمی کے قائد حجۃ الاسلام مقتدیٰ الصدر کی طرف سے سامنے آیا، انہوں نے امریکہ کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکی فوج کے انخلاء میں تاخیر کی گئی تو مہدی آرمی قابض فوج کے خلاف مزاحمت کا آغاز کردے گی۔ مقتدیٰ الصدر کے مشیر نے بغداد میں کہا کہ امریکی فوج اپنی مقررہ مدت میں عراق سے نکل جائے، بصورت دیگر مہدی آرمی غیرملکی فوج کے خلاف ایک مرتبہ پھر متحرک کر دی جائے گی۔ قبل ازیں جون کے آخر میں امریکی قبضے کے 8 سال مکمل ہونے اور اس مدت تک عراق سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلاء کے وعدے پر عملدرآمد کیلئے پورے عراق میں عوامی مظاہرے کیے جا رہے ہیں، جس میں امریکہ سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ عراق سے اپنی فوجوں کو نکال لے۔ ملک کے طول و عرض میں ہونے والے مظاہروں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ عراق میں اپنے قبضے کو طول دینا امریکہ کیلئے انتہائی مشکل ہو چکا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ انخلاء سے متعلق کئے ہوئے اپنے وعدے سے روگرداں کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں مشرق وسطیٰ کی مجموعی صورتحال بالخصوص عراق کے ہمسایہ ممالک میں پیش آنے والے تحولات و تبدیلیوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔
عالم عرب میں تبدیلی کا سب سے اہم محرک ایک طویل عرصے سے عرب حکمرانوں کا امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا اور اس کا کاسہ لیس ہونا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے ذریعے جس طرح اسلام کو نشانہ بنایا، دو مسلمان ممالک افغانستان و عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور لاکھوں لوگوں کو قتل کیا، خطے میں اسرائیل کی روز بروز بڑھتی ہوئی ریاستی دہشت گردی، عربوں کی ذلت اور ان تمام واقعات پر عرب حکمرانوں کا عرب و مسلمان عوام کی حمایت کی بجائے امریکہ و اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دینا۔ یہ ایسے اقدامات تھے، جنہوں نے عرب و مسلمان عوام کو اپنے حکمرانوں سے بیگانہ کر دیا۔ اسرائیل، حزب اللہ جنگ نے عرب عوام کو بیدار کر کے رکھ دیا اور انہوں نے عرب حکمرانوں کے مقابلے میں غاصب اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی پالیسی پر اظہار اعتماد و افتخار قرار دیا، اس جنگ میں عرب حکمرانوں کا منافقانہ کردار کھل کر اپنے عوام سے سامنے آیا، جس سے ان کیخلاف عوامی نفرت دوچند ہو گئی۔
* امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس دور میں دنیا بھر میں جس قدر منظم انداز میں اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا، دنیا بھر میں مسلمانوں کو بے عزت کیا گیا۔ اسلامی تعلیمات کا مذاق اُڑایا گیا۔ اس نے مسلمانوں بالخصوص عربوں کو اپنے دین سے مزید قریب کر دیا۔ ان میں اپنے دین سے محبت کی تڑپ نظر آنے لگی۔
رہبر معظم نے فروری 2011ء میں عالم عرب میں تظاہرات کے تناظر میں مصر، یمن، اور بحرین کے مسلمانوں، عوام و مجاہدین کے نام اپنے خطاب میں فرمایا تھا کہ مستقبل قریب میں ایک نیا اسلامی مشرق وسطیٰ طلوع ہو گا۔ آج مشرق وسطیٰ کے عرب مسلمانوں میں دین کی تڑپ کا مشاہدہ ہر خاص و عام کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے عالم عرب میں طویل عرصے سے قائم خاندانی بادشاہتیں لرزہ براندام ہیں۔ ان تحولات کی راہ میں روڑے اٹکانے کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی اور اسلامی مشرق وسطیٰ کا ظہور ہو کر رہے گا۔ آج مشرق وسطی وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیاں رہبر معظم کی بصیرت افروز نگاہوں کی واضح دلیل ہیں۔
تجزیہ نگار اور مبصرین کا کہنا ہے ان ممالک میں تبدیلیوں کا مرکزی ہدف سعودی عرب کی شاہی حکومت ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ میں ان تمام خاندانی بادشاہتوں کے قیام کا روح رواں اور سرخیل سعودی شاہی خاندان ہے۔ تیونس اور مصر میں حکومتوں کی تبدیلی نے سعودی حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان ممالک میں مسلمانوں کے روپ میں بیٹھے دو امریکی ایجنٹ عرصہ دراز سے عرب عوام پر حکمران چلے آ رہے تھے، ان کا دور حکمرانی دراصل امریکہ و اسرائیل کی اطاعت کا شاندار دور تھا۔ ان دو مہروں کے پٹ جانے سے امریکی، اسرائیلی و سعودی مفادات مزید خطرات کی زد میں آ گئے۔ چہ جائیکہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح ان تبدیلیوں کو روک دیں، لیکن اب کی بار شاید ایسا کرنے کی صرف خواہش ہی کی جا سکتی تھی۔
ایسے حالات میں جب پورا خطہ تبدیلیوں کی زد میں ہے اور امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی سعودی عرب نشانے پر ہو تو کیسے ممکن ہے کہ وہ خطے میں موجود اپنے ٹروپس کو واپس بلا لے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ خود سعودی عرب کی خواہش ہے کہ امریکی فورسز عراق سے انخلاء نہ کریں، کیونکہ انقلاب کا ہدف ہونے کی بنا پر شاہی خاندان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور وہ ایسا کبھی نہیں چاہے گا کہ ایسے حالات میں اس کا مربی امریکہ اسے تنہا چھوڑ دے۔
سعودی عرب، عراق میں ایک شیعہ مستحکم حکومت کے قیام سے شدید خطرہ محسوس کرتا ہے۔ عراق میں جمہوری حکومت کے قیام کی راہ میں جتنی رکاوٹیں سعودی عرب نے ڈالی ہیں، خطے کے کسی دوسرے ملک نے ایسا نہیں کیا۔ عراق میں ایک مستحکم حکومت قائم نہ ہونے دینا امریکہ اور سعودی عرب کا مشترکہ ایجنڈا ہے، دوسرا عراق میں امن و امان کی صورتحال پیدا کرنے میں سعودی عرب براہ راست ملوث ہے، عراق میں قتل و غارت میں ملوث بعثی پارٹی کی باقیات اور القاعدہ کی سرپرستی اور مالی امداد کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ امریکہ تیسرا بڑا خطرہ ایران کو سمجھتا ہے، ایران اور عراق کے درمیان بہتر اور اچھے تعلقات ہمیشہ اسکی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹکتے ہیں۔ اگر عراق ایک آزاد خودمختار ملک کی صورت میں سامنے آتا ہے تو خطے میں ایران، عراق، شام، حزب اللہ، حماس پر مشتمل ایک مضبوط بلاک سامنے آ جائے گا، جو پورے مشترق وسطیٰ کے مستقبل کی پالیسی کا مسلمہ رہنما بن جائے، ایسے کسی بلاک کی تشکیل جس میں امریکہ مخالف قوتیں یا اتحاد، مشرق وسطٰی میں بالادست ہو جائے امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کیلئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔
امریکہ کا عراق سے انخلاء سے انکار یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنا جہاں اس کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے وہاں 2008ء میں طے پانے والے معاہدے (SOFA) کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جس میں امریکہ نے یہ معاہدہ کر رکھا ہے کہ وہ 2011ء کے اختتام پر اپنی فوجیں عراق سے واپس بلا لے گا۔ عراقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی عبدالکریم السماری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اگر امریکہ عراق سے اپنی فوجوں کے انخلا میں سنجیدہ ہے تو اس نے مدت قیام بڑھانے کا مطالبہ کیوں کیا۔؟
عراق کے حکومتی اتحاد میں شامل رکن پارلیمنٹ سعد المطلبی نے پریس ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ امریکی افواج کی عراق میں موجودگی ملک میں عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ آج اگر امریکی افواج عراق چھوڑ دیں تو یہاں امن وامان قائم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عوام 31دسمبر 2011ء تک ہر صورت عراق سے امریکی افواج کا انخلاء چاہتے ہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ SOFA معاہدے کی پاسداری کرے۔ یہ معاہدہ کسی بھی صورت تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ المطلبی نے کہا کہ معاہدے کے مطابق امریکہ کو ہر صورت اپنی 50 ہزار افواج کو نکالنا ہو گا۔ معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ واشنگٹن اگست 2010ء تک آپریشنل فورسز کو عراق سے نکال لے گا، لیکن اس کے برعکس ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی فوج ابھی تک عراق میں فوجی آپریشنز میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عراق کے ہمسایہ ممالک سے شاندار تعلقات قائم ہیں۔ انہوں نے اس امریکی سازش کو مسترد کر دیا جس میں وہ بغداد کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ عراق کے استحکام کیلئے خطرہ ہیں۔ عراقی حکام نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ مقامی فورسز ملک کی سیکیورٹی کا انتظام مکمل طور پر سنبھالنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ لہذا امریکی فوجوں کا عراق میں مزید موجود رہنے کا کوئی جواز نہیں۔
امریکہ نے عراق میں اپنی مدت قیام بڑھانے کی خواہش پر عراقی حکومت اور عوام کی طرف سے شدید ردعمل کے بعد دوسرا ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ جون میں امریکی کانگرس کی ری پبلکن رکن دانا روہرابیکر نے بغداد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ عراق، امریکی فورسز کے 2003ء میں قبضے کے بعد سے لے کر آج تک ہونے والے اخراجات ادا کرے۔ اس بیان نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ امریکی رکن کانگریس کی طرف سے یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آنا عراقی حکومت کیلئے بڑا واضح پیغام ہے کہ اگر عراق نے امریکہ افواج کی مدت قیام بڑھانے کے مطالبے پر عملدرآمد نہ کیا تو اسے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس بیان کے ردعمل میں عراقی حکومت، سیاسی جماعتوں اور عوامی سطح پر کافی شدید جذبات کا اظہار کیا گیا۔ عراقی قیادت کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکہ کو عراق پر حملے کی دعوت نہیں دی تھی۔ یہ ہم ہیں جو لاکھوں عراقی مظلوم عوام کے قتل اور اپنے ملک کی امریکہ کے ہاتھوں تباہی کیلئے ہرجانے کے مطالبے کا حق رکھتے ہیں۔ 
عراقی حکومت نے دانا بیکرز کے نامعقول اور غیرمہذب بیان کے بعد امریکی کانگریس کے 6 رکنی وفد کو منافقین خلق کے اشرف کیمپ کا معائنہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ یہ وفد اپریل میں اشرف کیمپ میں منافقین خلق کے خلاف آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے 38 منافقین کی موت کی تحقیقات کیلئے آیا تھا۔ بالآخر عراقی حکومت کے شدید احتجاج کے بعد اس وفد کو عراق سے نکلنا پڑا۔ وفد تو واپس چلا گیا لیکن عراقی حکومت کیلئے بہت سے سوالات چھوڑ گیا۔ اس بات میں کسی قسم کے شک کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ امریکہ عراق میں ایک طویل عرصہ تک قیام کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔ امریکی فوج کے عراق میں قیام کی بنیادی وجہ وہاں اپنے لئے بیس کیمپ قائم کرنا ہے جس میں رہ کر وہ مشرق وسطٰی کی صورتحال کو مانیٹر کر سکے اور 2003ء میں عراق پر حملے کے پیچھے بھی یہی مقاصد کارفرما تھے۔ اب یہ عراقی عوام اور مذہبی و سیاسی جماعتوں کیلئے بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ اپنی سرزمین امریکی غنڈوں کے چنگل سے کیسے آزاد کراتے ہیں۔ تاہم وحدت اور مزاحمت دو ایسے ہتھیار ہیں جنہیں اُٹھا کر امریکہ کی نئی سازش کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ عراقی حکومت امریکی دباؤ کو شدت سے مسترد کر دے اور عوامی طاقت سے امریکی فوج کے عراق میں مستقل قیام کے سازشی منصوبے کو مٹی میں ملا دے۔
خبر کا کوڈ : 82904
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش