0
Sunday 13 Jul 2014 05:46

افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی شکست کی 20 اہم وجوہات

افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی شکست کی 20 اہم وجوہات
تحریر: محمد نبی مرادی

نائن الیون کے حادثات اور امریکہ کی جانب سے افغانستان پر فوجی حملے کے بعد نیٹو نے اپنی سرگرمیاں رکن ممالک کے دائرہ کار سے خارج کرتے ہوئے افغانستان میں امریکہ کی مدد کرنا شروع کر دی۔ یہ تاریخ میں پہلی بار تھا جب نیٹو نے اپنے منشور کے آرٹیکل 5 کے تحت افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ افغانستان میں طالبان کی سرنگونی کے بعد 2001ء میں جرمنی کے شہر بون میں طے پانے والے معاہدے کے پہلے آرٹیکل میں واضح کیا گیا تھا کہ: افغانستان کی مسلح افواج کی تشکیل تک اقوام متحدہ کی امن فورس اس ملک کی سکیورٹی اور امن و امان کی ذمہ دار ہوگی۔

یوں اس معاہدے کے نتیجے میں تشکیل پانے والی فورس کا نام بین الاقوامی معاون فورس (ایساف) یا International Security Assistance Force (ISAF) رکھا گیا۔ ابتدا میں ایساف کو 6 ماہ کیلئے افغانستان میں امن و امان برقرار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور ہر 6 ماہ بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے ایساف کے مشن میں توسیع کی جاتی رہی ہے۔ اگرچہ شروع میں بین الاقوامی معاون فورس ایساف کو چند جزوی کامیابیاں نصیب ہوئیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فورس بعض پیچیدہ قسم کی مشکلات کا شکار ہوگئی جن میں سے چند ایک یہ ہیں: ایساف کی جانب سے بنائی جانے والی اسٹریٹجیز کا کم مدت کیلئے ہونا، ایساف کے رکن بڑے ممالک کا چھوٹے رکن ممالک کی پیروی سے انکار کرنا اور عضو ممالک کے قومی مفادات اور بین الاقوامی اسٹریٹجی میں ہم آہنگی کا فقدان۔

ان مشکلات کے باعث جرمنی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی جس میں افغانستان میں ایساف کی ذمہ داریاں نیٹو کے سپرد کرنے کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد 11 اگست 2003ء کو کابل میں ایک تقریب کے دوران رسمی طور پر ایساف کہ تمام تر ذمہ داریاں نیٹو کے سپر کر دی گئیں۔ یہاں سے نیٹو کی جانب سے اپنے رکن ممالک کی حدود سے باہر عملی سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ نیٹو اور ایساف کی ذمہ داریاں اکتوبر 2003ء تک صرف دارالحکومت کابل اور اس کے اطراف تک ہی محدود تھیں۔ لیکن بعد میں افغان حکومت اور نیٹو کے رکن ممالک کے درمیان انجام پانے والے مذاکرات کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد نمبر 1510 منظور کی گئی، جس کی رو سے ان فورسز کو پورے افغانستان میں فوجی کارروائیاں انجام دینے کی اجازت مل گئی۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران افغانستان میں 1 لاکھ 40 ہزار غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود اس ملک کی سکیورٹی صورتحال روز بروز بگڑتی چلی گئی اور ہر آئے دن افغانستان کو درپیش سکیورٹی اور سیاسی چیلنجز میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس وقت افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔ دوسری طرف افغانستان کے خطے میں موجود رقابتوں کا مرکز بن جانے نے بھی اس ملک کے مسائل اور مشکلات میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔ ہم اس مقالے میں گذشتہ 13 سال کے دوران افغانستان کی کمزوریوں اور کامیابیوں پر بحث نہیں کرنا چاہتے بلکہ موجودہ تحریر میں ہمارا مقصد جنگ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی شکست کی وجوہات کا جائزہ لینا ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی شکست کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے 20 کو اس مقالے میں بیان کریں گے۔

1۔ جنگ سے فرار کی کوشش:
نیٹو اور مجموعی طور پر یورپی یونین اس سوچ کے ساتھ افغانستان آئے تھے کہ امریکہ نے طالبان کا کام تمام کر دیا ہے، سیکیورٹی اور فوجی مسائل تقریبا حل ہوچکے ہیں۔ یورپی یونین کی جانب سے افغانستان میں داخل ہونے کا مقصد اس ملک کی تعمیرنو اور ترقیاتی منصوبوں میں شریک ہونا تھا، تاکہ اس طرح سے وہ بین الاقوامی سطح پر بھی اعتماد حاصل کرسکے۔ یہ مفروضہ اس حقیقت پر توجہ دینے سے مزید مضبوط ہوتا ہے کہ اکثر یورپی ممالک نے افغانستان میں داخل ہوتے وقت اپنی فورسز کے مراکز ایسی جگہ قائم کئے جہاں کم ترین خطرہ محسوس کیا جاسکے۔ اسی طرح انہوں نے افغانستان میں رہنے کیلئے یہ شرط بھی لگائی کہ ان کی فورسز کو ملک کے ایسے حصوں میں نہیں بھیجا جائے گا جہاں زیادہ خطرہ پایا جاتا ہو۔ افغانستان کے جنوبی اور مشرقی حصوں میں سکیورٹی حالات شدت اختیار کر لینے کے بعد امریکہ، برطانیہ اور نیٹو کے دوسرے رکن ممالک میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے، جن کی بنیادی وجہ ان ممالک کی جانب سے شورش زدہ علاقوں میں اپنی فورسز بھیجنے سے گریز کرنا تھا۔ ان اختلافات کے باوجود جرمنی اور اٹلی آخر تک اپنی فورسز کو افغانستان کے شورش زدہ علاقوں میں بھیجنے پر تیار نہ ہوئے۔ لیکن جب بدامنی پورے افغانستان میں پھیلنے لگی تو وہ مغربی ممالک بھی اس دلدل میں پھنس گئے، جو خود کو بدامنی سے دور رکھنے کی کوشش میں مصروف تھے۔

2۔ ہمسایہ ممالک کی جانب سے عدم تعاون:
افغانستان کے ہمسایہ ممالک خاص طور پر پاکستان کی جانب سے اس ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں تعاون نہ کرنا بھی نیٹو کی جانب سے افغانستان میں بدامنی اور عدم استحکام کے خاتمے میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ افغان حکومت نے کئی سال قبل اعلان کیا تھا کہ دہشت گردوں کے اصلی ٹھکانے ملک سے باہر ہیں، لیکن عالمی برادری نے اس حقیقت کو درک کرنے میں بہت عرصہ لگا دیا۔ اس ضمن میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک خاص طور پر برطانیہ نے اپنے بلند مدت سیاسی اہداف کی خاطر پاکستان میں دہشت گردوں کی موجودگی جیسی حقیقت سے آنکھیں موند لیں۔ البتہ افغانستان کے شمالی ہمسایوں جیسے روس اور چین نے بھی اس ملک میں امن و امان قائم کرنے میں ویسا کردار ادا نہیں کیا، جو ان سے توقع کی جا رہی تھی۔

3۔ عام شہریوں کی قتل و غارت:
افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی ناکامیوں کی ایک اور بڑی وجہ غیر ملکی فورسز کی جانب سے عام افغان شہریوں کی قتل و غارت ہے۔ افغان دیہاتوں اور قصبوں پر اندھی بمباری، نیز ارزگان، ننگرہار اور کنڑ جیسے دیہاتوں میں شادی کی تقریبات پر ہوائی حملے، افغانستان کے مختلف علاقوں جیسے صوبہ قندھار کے علاقے پنجوائی میں خواتین اور بچوں پر گولی چلائے جانا اور ایسے ہی دوسرے واقعات افغانستان میں غیر ملکی فورسز کے خلاف انتہائی منفی رائے عامہ تشکیل پانے کا باعث بنے ہیں۔ غیر ملکی فورسز کے خلاف عوام
کی نفرت نے شدت پسند گروہوں کی جانب سے عوام کے اندر اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے کا زمینہ فراہم کیا ہے۔

4۔ افغانستان کی ثقافت اور ملکی روایات سے عدم آگاہی:
خودسرانہ انداز میں عام شہریوں کی تلاشی، لوگوں کے گھروں میں زبردستی داخل ہونا، افغان شہریوں کے آداب و رسوم کی بے احترامی کرنا، عام شہریوں کو بلاوجہ گرفتار کرنا، مخفی جیلوں کی تشکیل، حکومت افغانستان کی رٹ کی پرواہ نہ کرنا، غیر ملکی فوجیوں کا مقدس مقامات جیسے مساجد وغیرہ میں داخل ہونا، ایسی غلطیاں ہیں جو گذشتہ سالوں کے دوران امریکی اور نیٹو فوجیوں کی جانب سے بارہا انجام پائی ہیں۔ ان اقدامات نے افغان عوام کے اندر شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے، جس کی وجہ سے عوام اور غیر ملکی فورسز کے درمیان خلیج میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ شدت پسند اور دہشت گرد عناصر نے اس خلیج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ناراض افغان عوام کے اندر سے اپنی افرادی قوت میں اضافہ کیا ہے۔

5۔ افغان حکومت اور عالمی برادری کے درمیان اختلافات:
جرمنی کے شہر بون میں کانفرنس کے آغاز سے ہی افغانستان کی آئندہ حکومت اور عالمی برادری خاص طور پر امریکہ کے درمیان اختلافات ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اگلے چند سالوں میں امریکہ اور نیٹو کی جانب سے غیر ملکی فوجیوں کی جانب سے افغانستان کی قومی خود مختاری کے خلاف اقدامات، عام شہریوں کی قتل و غارت اور پاکستان میں موجود دہشت گردی کے مراکز سے چشم پوشی اور آخرکار کابل۔ واشنگٹن سکیورٹی معاہدے سے مربوط مسائل کے باعث یہ اختلافات مزید شدت اختیار کرتے چلے گئے۔ اختلافات کی شدت یہاں تک پہنچی کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے اپنی ایک تقریر کے دوران غیر ملکی فوجیوں کو جارح اور قابض خطاب کیا اور امریکہ اور نیٹو نے بھی حامد کرزئی کو غیر قابل اعتماد شخص قرار دے دیا۔

6۔ افغانستان میں نیٹو اور امریکہ کے درمیان عدم ہم آہنگی:
افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کو درپیش بڑی مشکلات میں سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان ہم آہنگی اور مفاہمت کا نہ ہونا تھا۔ نیٹو کے رکن ممالک کی جانب سے افغانستان میں انجام پانے والی سرگرمیوں کی نوعیت کا بغور مشاہدہ کرنے سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے رکن ممالک نے ایک غیر منظم مجموعے کے طور پر عمل کیا ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران نیٹو کے ہر رکن ملک نے اپنے علیحدہ مفادات اور سیاسی اہداف کی خاطر مکمل طور پر جداگانہ حکمت عملی اور منصوبوں کے تحت عمل کیا ہے۔ اگرچہ افغانستان میں نیٹو کی موجودگی ایک منظم تنظیم کی صورت میں ہے اور اس کے رکن ممالک ایک کمانڈ کے تحت سرگرم عمل ہیں، لیکن نیٹو رکن ممالک کی اکثریت مختلف ایشوز خاص طور پر دہشت گردی سے مقابلے اور افغانستان کی تعمیرنو کے بارے میں بہت زیادہ مختلف نقطہ نظرات کے حامل نظر آتے ہیں۔

7۔ نیٹو کی جانب سے طالبان کو بھتہ دیا جانا:
ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیٹو کے بعض رکن ممالک نے اپنے سیاسی اہداف اور مفادات کی تکمیل اور اپنے اڈوں اور فورسز کو دشمن کے حملوں سے محفوظ بنانے کیلئے طالبان کے بعض گروپس کے ساتھ خفیہ معاہدے کر رکھے ہیں۔ اس حکمت عملی نے افغانستان کے بعض علاقوں جیسے صوبہ ہلمند میں شدت پسند عناصر کی آزادانہ سرگرمیوں اور نتیجتاً ملک کے پرامن علاقوں میں بھی بدامنی پھیل جانے کا زمینہ فراہم کیا ہے۔ غیر ملکی فوجی اس خوف سے کہ دہشت گرد عناصر کیلئے رکاوٹ ثابت ہونے کی صورت میں کہیں ان کے غضب اور انتقام کا نشانہ نہ بن جائیں، شدت پسند عناصر کے خلاف کوئی موثر اقدام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ طالبان کے مقابلے میں غیر ملکی فوجیوں کا یہ رویہ ایک ایسا تلخ تجربہ تھا جو افغانستان پر سابق سوویت یونین کے قبضے کے وقت بھی دیکھا گیا تھا۔ وکی لیکس کی جانب سے شائع ہونے والی خفیہ دستاویزات کی روشنی میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ اٹلی کی حکومت افغانستان میں اپنی فورسز کی حفاظت کی خاطر کئی سال تک طالبان کو رشوت ادا کرتی رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکہ 2008ء میں اٹلی میں اپنے سفیر رونلڈ سیوگلے کے ذریعے اس حقیقت سے آگاہ ہوا تھا۔

8۔ قبل از وقت انخلاء:
اگرچہ امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور افغانستان کی ترقی کے وعدوں اور نعروں سے اس ملک میں آئے تھے، لیکن آدھے راستے میں ہی نہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے اور نہ ہی افغانستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بناتے ہوئے اس ملک سے انخلاء کے منصوبے بنانے لگے۔ نتیجے کے طور پر پرتگال کے شہر لیسبن میں 2010ء میں نیٹو سربراہان اور افغان حکومت کے درمیان انجام پانے والی میٹنگ میں ہالینڈ اور کینیڈا نے رسمی طور پر افغانستان میں اپنے فوجی مشن کے اختتام پذیر ہونے کا اعلان کر دیا۔ البتہ ہالینڈ افغانستان میں اپنے فوجی مشن کے بارے میں پیدا ہونے والی سیاسی اختلافات کی وجہ سے مقررہ وقت سے پہلے ہی اپنے تمام فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے پر مجبور ہوگیا۔ ہالینڈ کے 1900 فوجی افغانستان کے صوبہ ارزگان میں موجود تھے، جنہیں 2010ء میں ہی حکومت کی جانب سے وطن واپس بلا لیا گیا۔ کینیڈا کی پارلیمنٹ نے بھی جنوری 2011ء میں افغانستان میں موجود اپنے 2500 فوجیوں کو وطن واپس بلا لینے کا فیصلہ کر لیا۔ ان فوجیوں کی اکثریت افغانستان کے صوبہ قندھار میں موجود تھی۔ اسی طرح اگلے چند سالوں کے دوران فرانس، جرمنی، اٹلی، آسٹریلیا اور حتی امریکہ نے تیزی سے اپنے فوجیوں کو افغانستان سے وطن واپس لانا شروع کر دیا۔ ان کا یہ اقدام افغانستان کے شمالی ہمسایوں یعنی روس اور چین کی جانب سے شدید ردعمل کا باعث بنا ہے۔

9۔ افغانستان کے انفرااسٹرکچر کے بارے میں بے توجہی کا مظاہرہ:
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی تعمیرنو کے بہانے اس ملک میں داخل ہوئے تھے۔ اس ضمن میں اگرچہ کسی حد تک اقدامات انجام پائے ہیں لیکن افغانستان کی اقتصادی ترقی کو درپیش موانع اور مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا چاہئے کہ عالمی برادری مکمل آگاہی اور علم کے ساتھ اس میدان میں وارد نہیں ہوئی اور اسی طرح ان میں اس مقصد کیلئے کافی حد تک خلوص نیت بھی موجود نہیں تھا۔ اس وقت یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ گذشتہ تیرہ
برس کے دوران عالمی برادری نے افغانستان میں بڑے اور بنیادی اقتصادی پروجیکٹس پر سرمایہ کاری نہیں کی ہے۔ ان کی طرف سے انجام پانے والی زیادہ تر مالی امداد کم میعاد کے سطحی پروجیکٹس جو ان کیلئے ظاہری اور سیاسی طور پر زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتے تھے تک ہی محدود رہی ہے۔ ایسے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے افغانستان کو دی جانے والی مالی امداد کا بڑا حصہ کرپشن اور غیر ملکی کارندوں اور مشیروں کی تنخواہوں میں ہی ضائع ہوگیا ہے اور اس طرح دوبارہ افغانستان سے باہر منتقل ہوگیا ہے۔

10۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ کی حکمت عملی میں انجام پانے والی خطائیں:
ماضی میں افغانستان سلطنتوں کے قبرستان کے عنوان سے پہچانا جاتا تھا۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق امریکی اور نیٹو اسٹریٹجیز کی شکست اور ناکامی کے بعد یہ ملک اسٹریٹجیز کے قبرستان کے عنوان سے مشہور ہوگیا ہے۔ افغانستان میں سابق برطانوی سفیر اور مخصوص نمائندے شیرارڈ کوپر کولز کی جانب سے اپنی کتاب "کابل کے خطوط" میں اعترافات کی روشنی میں اور سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کی جانب سے اپنی کتاب "ڈیوٹی" میں اظہار خیال کے مطابق اس بات میں کسی قسم کے کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ نہ فقط امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں غلط حکمت عملی کا شکار ہوئے ہیں بلکہ اقوام متحدہ نے بھی امریکہ اور نیٹو کی اندھی تقلید کرتے ہوئے افغانستان کے بارے میں غیر عاقلانہ فیصلے انجام دیئے ہیں۔

11۔ طالبان کے ساتھ سودے بازی:
افغانستان میں سازشی نظریات کو جنم دینے والے اقدامات میں سے ایک غیر ملکی فوجیوں کی جانب سے طالبان کے ساتھ سودے بازی انجام دینا تھا۔ اگرچہ بعض مواقع پر نیٹو فورسز کی جانب سے طالبان کے ساتھ سودے بازی انجام دینے نے عام شہریوں کے ذہن میں اس تصور کو جنم دیا کہ غیر ملکی فورسز طالبان کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں اور افغانستان کی جنگ محض ایک ڈرامہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے طالبان کے ساتھ سودے بازی نہ فقط ان کی حمایت میں نہیں تھی بلکہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی کمزوری اور مکمل شکست کا منہ بولتا ثبوت تھی۔

12۔ منشیات کی روک تھام میں ناکامی:
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے افغانستان پر یلغار کا ایک بہانہ منشیات کی کاشت اور پیداوار کو روکنا تھا۔ افغانستان سے منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ کا مکمل خاتمہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد دوسرا بڑا بہانہ تھا، جس کی بنیاد پر غیر ملکی فورسز نے 2001ء میں افغانستان پر فوجی حملے کا آغاز کیا تھا۔ افغانستان پر غیر ملکی فورسز کے قبضے کے آغاز میں ہی منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ کے خاتمے کی ذمہ داری برطانوی فوج کے ذمے لگائی گئی۔ اب جب افغانستان پر مغربی فوجی قبضے کو 13 برس کا عرصہ بیت چکا ہے، نہ صرف منشیات کی کاشت اور پیداوار میں کوئی کمی دیکھنے کو ملتی ہے بلکہ الٹا اس مقدار میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ افغانستان میں منشیات کی پیداوار کے خاتمے میں ناکامی سے متعلق بین الاقوامی سطح پر مغربی فورسز کے خلاف انجام پانے والی تنقید کے علاوہ حال ہی میں برطانوی پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ برطانیہ افغانستان میں منشیات کی کاشت اور پیداوار کو روکنے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے۔

13۔ افغانستان میں موثر حکومتی نظام کی تشکیل میں ناکامی:
افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے فوجی موجودگی کا ایک اور بہانہ اس ملک میں ایک اچھا اور موثر حکومتی نظام تشکیل دینا تھا۔ مغربی طاقتوں نے ایسے وقت افغانستان میں ایک مضبوط سیاسی نظام تشکیل دینے کا دعویٰ کیا جب یہ ملک طالبان کے سیاہ دور سے عبور کرچکا تھا اور ہر قسم کی سیاسی اور اجتماعی بنیادی تبدیلیوں کیلئے مکمل طور پر تیار اور آمادہ تھا۔ لیکن اب تیرہ برس گزر جانے کے بعد بھی عالمی برادری کی جانب سے اس ملک میں ایک جدید قومی حکومت کی تشکیل اور جمہوری اداروں کی تاسیس سے متعلق انجام پانے والی بھرپور کوششسوں کے باوجود ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جدید سیاسی اداروں کی تشکیل نامکمل اور بعض موارد میں ناکام رہی ہے۔

14۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی واضح تعریف کا نہ ہونا:
امریکہ، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا تھا، کی جانب سے دہشت گردی کی ایک دقیق، واضح اور جامع تعریف پیش نہ کئے جانا اس بات کا باعث بنی کہ اس بارے میں عالمی اتفاق رائے حاصل نہ ہو پائے۔ کیونکہ دہشت گردی پر مکمل کنٹرول صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کی تمام صورتوں اور شکلوں کی پہچان حاصل ہونے کے بعد ان کا مکمل صفایا کر دیا جائے۔ وائٹ ہاوس نے دہشت گردی کی ایک مخصوص اور مبہم تعریف کی بنیاد پر طالبان اور القاعدہ کو دہشت گرد گروہ قرار دیا اور دہشت گردی کی ایک ایسی واضح اور جامع تعریف پیش کرنے سے گریز کیا، جس میں دنیا بھر میں موجود دہشت گردی اور شدت پسندی کی تمام اقسام اور صورتیں شامل کی جاسکیں۔ حتی امریکی صدر براک اوباما کے مشیر جو بائیڈن نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں یہ تک کہ دیا کہ طالبان بھی امریکہ کے دشمن نہیں۔

15۔ افغانستان کے سیاسی استحکام میں مختلف قومی گروہوں کے کردار سے غفلت:
امریکہ اور نیٹو افغانستان میں امن و امان کی بحالی میں اس ملک میں موجود مختلف قومی، مذہبی اور سیاسی گروہوں کے تاریخی کردار سے غفلت کا شکار ہوتے ہوئے اپنے مخالف مسلح گروپس سے مقابلے اور ملک میں سیاسی استحکام کے فروغ کیلئے غیر سرکاری قوتوں کو بروئے کار لانے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ ان کی اس ناکامی کی وجہ سے یہ غیر سرکاری قوتیں یا تو مغربی طاقتوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں یا پھر بے طرفی کا شکار ہوچکی ہیں۔

16۔ دہشتگردوں کی مالی فنڈنگ کرنیوالوں پر توجہ نہ دینا:
خطے کے بعض ممالک اور خلیج عرب ریاستوں میں موجود فلاحی اداروں کی جانب سے افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں خاص طور پر طالبان کی مالی فنڈنگ کئے جانے پر مبنی بعض موثق رپورٹس کی وصولی کے باوجود امریکی حکومت نے بعض ملاحظات کی بنا پر ان دہشت گرد گروہوں کے مالی اسپانسرز کے خلاف کوئی موثر اقدام کرنے سے گریز کیا ہے۔ بہت محدود پیمانے پر حقانی
نیٹ ورک اور طالبان سے وابستہ چند عناصر کو امریکہ میں اقتصادی بلیک لسٹ میں قرار دیا گیا ہے۔

17۔ افغانستان پر مغربی جمہوری اور سکیورٹی ماڈل کو تھونپنے کی کوشش:
مغربی طاقتوں کی جانب سے اپنے جمہوری اور سکیورٹی ماڈل کو افغانستان پر تھونپے جانے پر حد درجہ اصرار اس بات کا باعث بنا ہے کہ مغربی ممالک عملی طور پر افغانستان میں امن و امان کی بحالی میں ناکامی کا شکار ہوجائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی جمہوری ماڈل بہت زیادہ قومی اور مذہبی اعتراضات کا شکار ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر مغربی ماڈلز تھونپنے کیلئے اس قدر عجولانہ اقدامات کئے ہیں کہ گذشتہ برس روسی وزیر خارجہ نے بھی اس پر اپنا شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔

18۔ اقوام متحدہ پر افغان عوام کا عدم اعتماد:
چونکہ افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے انجام پانے والے فوجی حملے کو اقوام متحدہ کی حمایت حاصل تھی، لہذا اگلے چند سالوں کے دوران امریکہ اور نیٹو کی جانب سے افغانستان میں خودسرانہ اقدامات پر اقوام متحدہ کی پراسرار خاموشی افغان عوام کا اقوام متحدہ پر سے اعتماد اٹھ جانے کا باعث بنی ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور مغربی طاقتوں کے یہ خودسرانہ اقدامات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شکست کا بھی باعث بنے ہیں۔ اقوام متحدہ خاص طور پر سلامتی کونسل کی نسبت افغان عوام کے عدم اعتماد کی بڑی وجہ اس بین الاقوامی ادارے کی جانب سے افغانستان کی جنگ میں موثر کردار ادا کرنے میں ناکامی کا شکار ہونا ہے۔ سلامتی کونسل نے اپنی حیثیت کے مطابق افغانستان میں جاری جنگ میں موثر کردار ادا نہیں کیا۔ مزید یہ کہ امریکی حکومت کی جانب سے سلامتی کونسل کو افغانستان میں وائٹ ہاوس کی پالیسیوں کے ساتھ ہمسو کرنے کی کوشش بھی اس بات کا باعث بنی ہے کہ افغان عوام سلامتی کونسل پر اپنا اعتماد کھو بیٹھیں۔

19۔ افغانستان کی جنگ کے بارے میں مغربی عوام کا اظہار ناپسندی:
اگرچہ 2001ء میں افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے فوجی حملے کے آغاز کے وقت امریکہ اور یورپی ممالک کی عوام کی اکثریت نے اس حملے کی حمایت کا اعلان کیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب یہ جنگ طولانی ہونے لگی تو مغربی عوام کی رائے بھی تبدیل ہوگئی۔ حال ہی میں شائع ہونے والی سروے رپورٹس کے مطابق مغربی عوام میں افغانستان پر غیر ملکی فوجیوں کے قبضے کی حمایت انتہائی کم ہو کر نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

20۔ مالی اخراجات اور جانی نقصانات میں اضافہ:
افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی شروع کردہ جنگ میں شکست کی بڑی وجہ اس جنگ میں امریکہ اور نیٹو کے بڑھتے ہوئے مالی اخراجات اور جانی نقصانات ہیں۔ 2001ء میں امریکہ اور اس کے اتحادی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ افغانستان کی جنگ امریکی تاریخ کی طولانی ترین جنگ میں تبدیل ہوجائے گی۔ اس جنگ کا طولانی ہونا یقینی طور پر نجومی اخراجات اور عظیم جانی نقصانات کے ہمراہ ہے۔ لہذا ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول نے اپنی 2013ء کی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ عراق اور افغانستان کی جنگیں امریکی تاریخ کی مہنگی ترین جنگیں قرار پائی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ان دو جنگوں میں ہونے والے اخراجات کا تخمینہ 4 سے 6 کھرب ڈالر کے قریب لگایا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان دو جنگوں نے ہر امریکی گھرانے پر 75 ہزار ڈالر کے اخراجات کو تحمیل کیا ہے۔

دوسری طرف برطانیہ کے ایک معتبر تھنک ٹینک Royal United Services Institute (RUSI) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان اور عراق کی جنگوں میں برطانیہ کی مداخلت پر اس ملک کا 30 ارب پاونڈ کا خرچہ آیا ہے، جو ہر برطانوی گھرانے کیلئے ایک ہزار پاونڈ کے برابر ہے۔ اسی طرح امریکہ کے دوسرے اتحادی ممالک میں شائع ہونے والی مالی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی جانب سے افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو جاری رکھنے سے گریز کرنے کی بڑی وجہ اس جنگ میں ہونے والے عظیم اخراجات ہیں، جن کے وہ اب مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی شکست کی ایک اور بڑی وجہ جانی نقصانات میں اضافہ ہے۔ افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کے جانی نقصانات کو بیان کرنے والے ویب سائٹ (icasualities.org) کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق اس سال جون کے آخر تک 3450 غیر ملکی فوجی افغانستان میں اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ان ہلاک ہونے والے غیر ملکی فوجیوں میں سے 2331 کا تعلق امریکہ سے ہے جبکہ 453 کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ افغانستان سے وطن واپس جانے والے فوجیوں کا مختلف نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہونا مغربی معاشروں کو درپیش ایک اور بڑا چیلنج ہے، جس نے مغربی حکومتوں کو شدید دباو کا شکار کر رکھا ہے۔

نتیجہ:
افغانستان کی جنگ میں فیصلہ کن کردار کی حامل مذکورہ بالا وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات میں کسی شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ امریکہ اور نیٹو اس ملک میں بری طرح شکست سے دوچار ہوچکے ہیں اور وہ اگلے کئی سالوں تک اس شکست کے اثرات کا شکار رہیں گے۔ یہ کہ اس وقت بھی بعض افراد افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست کے بارے میں شک و تردید کا شکار ہیں، اس کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں سے اہم ترین وجوہات میڈیا اور ٹیکنولوجی کے میدان میں امریکہ کی نرم طاقت (میڈیا پاور) اور عالمی سطح پر اس ملک کی فوجی اور اقتصادی طاقت ہے۔ امریکہ کی میڈیا اور اقتصادی طاقت اس وقت بھی بعض افراد کیلئے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی ناکامیوں اور شکست کو چھپائے ہوئے ہے۔ گذشتہ ایک صدی کے دوران دنیا میں انجام پانے والی مختلف امریکی جنگوں میں مضبوط اقتصادی بنیادوں پر استوار میڈیا اور پروپیگنڈہ مشینری نے امریکہ کی کامیابی یا شکست اور ناکامی پر پردہ ڈالنے میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت امریکہ کے 90 فیصد ذرائع ابلاغ ایسی 5 ہائپر میڈیا کمپنیز (Hypermedia Companies) کے زیرانتظام کام کر رہے ہیں جن کا واحد ہدف براہ راست طور پر عالمی سطح پر امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ مسئلہ افغانستان کے بارے میں تمام امریکی ذرائع ابلاغ نے یکسان میڈیا پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حذف یا سینسر، بے قاعدہ انفارمیشن یا ڈراپنگ، غلط انفارمیشن اور مبالغہ آرائی جیسی میڈیا ہتھکنڈے استعمال بروئے کار لائے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 398744
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش