0
Tuesday 7 Oct 2014 10:27

کشمیر میں تباہ کن سیلاب کے دوران کسی حکومتی ادارے نے لوگوں کو نہیں بچایا بلکہ لوگوں نے خود ایک دوسرے کی مدد کی، مولانا غلام رسول حامی

کشمیر میں تباہ کن سیلاب کے دوران کسی حکومتی ادارے نے لوگوں کو نہیں بچایا بلکہ لوگوں نے خود ایک دوسرے کی مدد کی، مولانا غلام رسول حامی
مولانا غلام رسول حامی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے، آپ جموں و کشمیر کے فعال ترین ادارے کاروان اسلامی کے سربراہ ہیں، اولیاء کرام اور صوفیان دین الہی کے مشن کے تبلیغ و ترویج میں آپ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں، کاروان اسلامی جموں و کشمیر کے زیر اہتمام سال بھر میں نیشنل اور انٹرنیشنل دینی کانفرنسز کا انعقاد بھی ہوتا ہے، جموں و کشمیر کے شہر و گام میں مولانا غلام رسول حامی اپنی تبلیغی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، کشمیر میں حالیہ سیلاب کے دوران آپ خود بچاؤ کارروائیوں میں شامل رہے اور بقول مولانا حامی کے آپ کے ادارے نے 40 ہزار متاثرین تک امداد پہنچائی ہے، تباہ کن سیلاب اور اسکے بعد کی صورتحال جاننے کے لئے اسلام ٹائمز نے آپ سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومتی سطح پر سیلاب زدگان کی کوئی امداد نہیں کی گئی اور نہ انہیں بروقت بچایا گیا۔؟

مولانا غلام رسول حامی: اولاً میں کہنا چاہوں گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر ایک قہر تھا اور اللہ تعالیٰ کے قہر کے سامنے پوری دنیا کی طاقتیں بھی ایک ساتھ مل جائیں تو وہ اس تباہی اور الہی قہر کو روکنے میں کارگر ثابت نہیں ہوسکتی تھیں، جہاں تک حکومت کی بات ہے تو حالات یہاں ایسے ہیں کہ کوئی ایسا ڈھانچہ موجود نہیں ہے کہ جس سے اس تباہ کاری پر بروقت کنٹرول کیا جاتا اور حکومت کی غفلت شعاری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، حکومت نے لوگوں کی بچاؤ کارروائی میں کوئی بھی مثبت رول نہیں نبھایا۔

اسلام ٹائمز: بیرون امداد پر پابندی یا باہر سے آنے والی کشمیریوں کے لئے امداد اور دوائیاں جس پر بھارتی حکومت نے روک لگائی، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟

مولانا غلام رسول حامی: دیکھئے اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کشمیری لوگ بھارت کی جانب سے ہمیشہ دہرے پن کے شکار ہوئے ہیں، جب لہحہ لداخ میں ایک دیا میں طغیانی آگئی لہحہ جو ہمارا ہی ایک حصہ ہے لیکن وہاں مسلمان آباد نہیں ہیں، وہاں تقریباً 70 ہزار کے قریب آبادی ہے وہاں تباہی کے بعد نیشنل اور انٹرنیشنل رضارکار آئے، جتنے بھی حکومتی ہاتھ تھے وہ وہاں امداد کے لئے پہونچے حالانکہ وہ صرف ایک 70 ہزار آبادی کا خطہ متاثر ہوا تھا، بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں سیلاب آیا تو بیرونی ممالک کی امداد کا رخ وہاں کی طرف کیا گیا، یہ صاف بات ہے کہ جو وادی کشمیر کا حصہ ہے اس پر جو بھارتی حکومت کے اقدام ہیں وہ ہمیشہ اہل کشمیر کے ساتھ دہرے اور دوغلے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اتنی جانی و مالی نقصانات ہونے کے بعد بھی جب یہاں بھارتی وزیراعظم آئے تو انہوں نے اتنا تک نہیں کیا کہ کشمیر کے اس سیلاب کو نیشنل ڈیزاسٹر نامزد کرتے، شروع میں ایسا کچھ سننے میں آیا لیکن بعد میں ایسے بیانات کو بھارتی حکمرانوں نے حذف کیا، اترکھنڈ میں صرف چھے ڈسٹرکٹ متاثر ہوئے پوری دنیا سے این جی اوز بلائیں گئیں اور انکی امداد کی گئی اور یہاں 5642 علاقے اس سیلاب سے متاثر ہوئے پھر بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی، نہ صرف توجہ نہیں دی گئی بلکہ بیرونی ممالک سے ہمیں بہت ساری تنظیموں نے فون کیا اور باہری لوگوں نے چاہا کہ وہ ہماری مدد کرے لیکن انہیں روکا گیا، آخر کون سا حق ہے بھارتی حکومت کو کہ وہ ان امدادی این جی اوز اور تنظیموں کو ہماری مدد کرنے سے روکے، یہ بھارت کا ایک غیر اخلاقی طریقہ ہے اور واضح سی بات ہے کہ کشمیری لوگوں کے ساتھ دہرا سلوک روا رکھا جارہا ہے، آخر کیوں ہماری امداد سے لوگوں کو روکا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: بچاؤ کارروائیوں کے دوران بھی بھارت نے اس دہرے پن کا مظاہرہ کیا اور سیاحوں اور بھارتی مزدوروں کو بروقت بچایا گیا، آپ کی معلومات کیا ہیں اس حوالے سے۔؟

مولانا غلام رسول حامی: بالکل صحیح ہے، میں ریسکیو کے دوران پیش پیش رہا، پہلے دن سے ہی ریسکیو ٹیم کے ساتھ ساتھ رہا، میں خود لوگوں کو ریسکیو کرتا رہا لوگوں کو بچاتے بچاتے میں کہیں بار خود بھی پانی میں چلا گیا، غرض کی میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یہ بات ہر جگہ بتانے کے لئے تیار ہوں کہ جب تک یہاں باہری سیاح اور بھارتی مزدور پھنسے ہوئے تھے انکو ریسکیو کرنے کے لئے زبردست مہم چلائی گئی اور جب بھارت کو محسوس ہوا کہ اب وہ سیاح اور مزدور محفوظ ہوئے ہیں پھر وہ مفت پروازیں روکی گئیں، اس کے بعد ہم نے خود دیکھا کہ کشمیریوں کو بوٹز پر بیٹھنے نہیں دیا گیا اور یہاں بِہاری مزدور اور سیاحوں کو بچانے میں ترجیح دی گئی اور ہمارے ساتھ ہر گھڑی دہرے معیار کا مظاہرہ کیا گیا، اب بھی باہری ایئرپورٹز پر ٹنوں میں دوائی پڑی ہوئی ہے لیکن اس کو یہاں نہیں لایا جارہا ہے اس کے لئے بھی ہمیں تڑپایا جارہا ہے، واضح سی بات ہے کہ یہ چیزیں سراسر غیر اخلاقی ہیں، تو ابھی تک ہم یہی کچھ دیکھ رہے ہیں پہلے اعلان کیا گیا کہ چھے ماہ کے لئے سیلاب متاثرین کے لئے مفت راشن مہیا کی جائے گی اب اس کو بھی ختم کرنے کی کوششں کی جارہی ہیں۔ ہم حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمیں پیسوں میں چاول وغیرہ دیں تاکہ ہم وہ راشن لوگوں میں مفت تقسیم کریں وہ بھی ہمیں نہیں دیا جارہا ہے، اس طریقے سے کوئی مثبت جواب ہمیں نہیں دیا جارہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ریسکیو کاروائیوں کے دوران آپ نے کیا پایا اور کیا مناظر دیکھے۔؟

مولانا غلام رسول حامی: لوگوں کی چیخ و پکار قیامت کے مناظر پیش کررہے تھے، لوگ پکار پکار کر اپنے بچوں کے لئے صدائیں بلند کررہے تھے، پانی کی ایک گھونٹ کے لئے لوگ ترس رہے تھے، لوگ مکانوں تلے دب گئے، ہم نے ریسکیو کے دوران لوگوں کو روتے روتے بچایا اب بھی وہ مناظر ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں، غرض کہ قدرتی آفت تھی اور ہر چہار سمت چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی، جہاں ہم حکومتوں پر تنقید کرتے ہیں وہیں ہمیں اپنے نفس پر بھی محاسبہ کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: شہر خاص سرینگر میں ہر ایک ادارہ امداد کو پہنچا ہے لیکن گاؤں میں ابھی تک کوئی ادارہ نہیں پہنچ پایا ہے اور لوگ ایک نوالے کے لئے ترس رہے ہیں، ان دور دراز علاقوں کے لئے آپ کا لائحہ عمل کیا ہے۔؟

مولانا غلام رسول حامی: میں مسلسل سے سوناواری علاقے میں ہوں، میں دور دروز علاقوں جیسے اوڑینہ، کھنہ پیٹھ، شاہ گنڈ اور سونواری کے دیگر علاقوں میں گیا، جہاں واقعاً ہم سے پہلے متاثرین کی امداد کے لئے کوئی ادارہ نہیں پہونچا تھا، ہہ حقیقت ہے کہ جب کوئی ریلیف آتا ہے تو وہ شہر سرینگر میں ہی تقسیم ہوتا ہے اسی لئے ہم نے اپنے ریلیف کو سوناواری کے دیہاتوں میں جاری رکھا ہے اور وہاں ابھی بھی مشکلات ہیں وہ علاقے سوناواری کے ابھی تک زیر آب ہیں، ابھی بھی گوناگوں مسائل درپیش ہیں، ہماری لوگوں سے گذارش ہے کہ سرینگر میں تو ریلیف کارروائی جاری ہیں لیکن سوناواری جیسے علاقوں میں جانے کی ضرورت ہے، وہاں کوئی نہیں جاتا، سیلاب کے پانی سے لوگ برتن دھوتے ہیں اور وہی پانی پینے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہم نے وہاں پانی کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریاتی اشیاء متاثرین میں تقسیم کیں، ضرورت ہے کہ وہاں جایا جائے اور انکی ہر ممکن امداد کی جائے۔

مجھے تو حکومت سے کوئی توقع نہیں ہے، جس طرح سے یہاں کے عام لوگوں نے اپنے اپنے طریقے سے مل کر کام کیا اسی طرح ہمیں حکومتی انتظامات کو بالائے طاق رکھ کر کام کرنا ہوگا اور گھر گھر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے، ہمیں ہرگز کسی حکومتی ادارے پر نظریں نہیں رکھنی ہونگی، چاہے متاثرین کو حکومتی امداد ملے یا نہ ملے، ہمیں فعال ہوکر گھر گھر امداد پہنچانے ہوگی، ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں اگر مخلص کردار ادا کرتے ہیں، یہاں کسی حکومتی ادارے نے لوگوں کو اس تباہ کن سیلاب سے نہیں بچایا بلکہ لوگ آگے بڑھے اور خود اپنے بھائیوں کی مدد کی، یہاں کے لوگ ہی ایک دوسرے کے دکھ درد کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ کل میں اپنے ادارے کی ایک رپورٹ دیکھ رہا تھا تو معلوم ہوا کہ ابھی تک ہم نے 40 ہزار سیلاب متاثرین تک ریلیف پہنچایا ہے، جب تک کشمیری عوام دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوتے ہیں ہم اس مہم کو جاری رکھیں گے۔ انشاء اللہ
خبر کا کوڈ : 413449
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش