0
Saturday 26 Jul 2014 16:43
عرب دنیا صرف اپنے اقتدار کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے

غاصب اسرائیل کا تمام مسلم ممالک صرف اتحاد واتفاق ہی سے مقابلہ کر سکتے ہیں، قاری عبدالرحمٰن

خطے میں امن کے قیام کیلئے داعش جیسے دہشتگردوں کا مقابلہ ضروری ہے
غاصب اسرائیل کا تمام مسلم ممالک صرف اتحاد واتفاق ہی سے مقابلہ کر سکتے ہیں، قاری عبدالرحمٰن
قاری عبدالرحمٰن کوئٹہ میں اہلسنت کے ممتاز عالم دین ہیں، جو کافی عرصہ سے جامع مسجد سفیر کے خطیب کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ قاری صاحب جماعت اسلامی کے سرگرم کارکن بھی رہے ہیں اور اتحاد بین المسلمین کیلئے انکے نمایاں کردار سے سبھی بخوبی واقف ہیں۔ فلسطین پر جاری اسرائیلی جارحیت اور اس حوالے سے مسلم ممالک کے کردار کو جاننے کیلئے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے قاری عبدالرحمٰن کے ساتھ مختصر گفتگو کی، جو ہم اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: صہیونی ریاست اسرائیل گذشتہ کئی دنوں‌ سے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے جا رہی ہے، اسکے بارے میں آپکا کیا کہنا ہے۔؟
قاری عبدالرحمٰن: اگر ہم اسی طرح ظلم و بربریت کی باتیں کرتے رہے گے تو اس سے ظلم ختم نہیں ہوگا۔ یہ تو ہم اپنی بےبسی کا عالم بیان کر رہے ہیں اور یوں لگ رہا ہے کہ ہم اسرائیل سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ اگر اسرائیل کا نقشہ دیکھا جائے تو اسکے اردگرد بارہ مسلمان ممالک آباد ہیں۔ اگر آپ انکا ٹوٹل رقبہ، وسائل اور آبادی کا موازنہ کریں تو اسرائیل سے ان سارے ممالک کا رقبہ اور وسائل وغیرہ پانچ سو گنا زیاد ہیں جبکہ اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ اور دیگر مغربی قوتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے انہوں نے فلسطینیوں کی جگہ پر قبضہ کرلیا۔ خاص کر پہلی جنگ عظیم کے بعد انکو نوازا گیا اور عراق کے ایک علاقے میں ان کو قید میں رکھا گیا تھا۔ وہاں سے ان کو آزاد کیا گیا اور یہاں پر آنے کی اجازت دی گئی اور پھر یہ لوگ جوق در جوق آ کر فلسطینی علاقوں پر قابض ہوتے گئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ستائس مربع کلو میٹر فلسطین کا علاقہ ہے اور فلسطینی یہ کہہ رہے ہیں کہ اس معاہدے کے تحت انہیں صرف بیس فیصد علاقہ دیا جائے، لیکن اس کو بھی اسرائیل ماننے کو تیار نہیں۔ غزہ کے علاقے میں ان کو محصور کرلیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس وقت اسکے چار ہمسایہ ممالک کے بھی مختلف علاقوں پر قبضہ کیا جا چکا ہے۔ یعنی پوری مسلم امہ اور عرب ممالک پر ایک اسرائیل حاوی ہے اور جب بھی یہ معاملہ آتا ہے ہم سوائے بیانات کے اور کچھ نہیں کرتے۔ لہذٰا میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسلم امہ کو خود عملی طور پر اپنا حق چھیننا ہوگا۔ دنیا میں آباد مسلم امہ نے اگر اپنے اختلافات ختم نہ کئے تو جو کچھ مشرق وسطٰی میں امریکہ و اسرائیل ملکر کر رہے ہیں، اسکے بعد سب کی باری آئے گی اور یہ وقت سب پر آئے گا۔ لہذٰا ہم سب کو ملکر انکے خلاف اقدامات اُٹھانا ہونگے۔

اسلام ٹائمز: اسکی وجہ کیا ہے کہ اتنے سارے مسلم ممالک ملکر اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مشترکہ دشمن کا مقابلہ نہیں کرتے۔؟
قاری عبدالرحمٰن: اصل بات یہ ہے کہ سامراجی طاقتوں نے خصوصاً امریکہ نے اقوام متحدہ اور اس طرح کے دیگر ادارے تشکیل دیکر مسلم ممالک کو مکڑی کے جالے میں پھانس دیا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے سارے مسلم حکمران اس جالے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انکی مشکل صرف انکا اقتدار ہے۔ اس لئے انکی زبان اور ہے اور امت کی زبان اور ہے۔ تمام مسلم ممالک میں آباد مسلمانوں کی توجہ فلسطین کی طرف ہے لیکن جو حکمران ہیں ان کو صرف اپنے اقتدار کی حفاظت کی فکر لگی ہوئی ہے۔ چاہے لاکھوں مسلمان ہی کیوں نہ مریں، انکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ ہر اس واسطے کو اپناتے ہیں جہاں سے انکے اقتدار کو تقویت ملے۔ اس وقت فلسطین کی جو صورتحال ہے اس میں امت ایک طرف کھڑی ہے، جبکہ مسلمان حکمران ایک طرف کھڑے ہیں۔ اس وقت یہی مسلم ممالک اکھٹے ہوکر حماس کو اتنے وسائل دے دیں کہ وہ اپنا دفاع کرسکے، تو ایک ہفتے کے اندر اسرائیل ختم ہو سکتا ہے۔ صہیونیوں کو جتنا خطرہ اپنی جان کا ہے، دنیا میں شاید ہی کسی کو اتنا خوف ہو۔ وہ صرف چھپ کر بے گناہوں کا قتل عام کرسکتے ہیں لیکن میدان میں اتر کر مقابلہ کرنے کی سکت نہ ان میں نہیں ہے، نہ دیگر مغربی طاقتوں میں۔

اگر آپ تاریخ کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اسرائیل کے مزاج میں ہمیشہ درندگی موجود رہی ہے۔ اس لئے ان سے کسی قسم کی خیر کی توقع رکھنا بےوقوفی ہے۔ لہذٰا ان سے انسان کی زبان میں بات کرنا اور جارحیت کو روکنے کی اپیل کرنا ایک غلطی ہوگی۔ ان کا صرف ایک ہی علاج ہے، جو ہٹلر نے انکے ساتھ کیا تھا۔ جب تک انکے اندر موجود خناسیت کو ختم نہیں کیا جاتا، تب تک یہ ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ میاں محمد نواز شریف صاحب نے فلسطینیوں کے حق میں دس لاکھ ڈالر کی امداد اور یوم سوگ منانے کا اعلان کیا جبکہ انہیں چاہیئے کہ وہ اپنا اسلحہ ان مجاہدین کو دیں، جو اسرائیل کیخلاف برسرپیکار ہیں۔ جنہیں اقوام متحدہ سمیت دنیا کا ہر آئین اپنے دفاع کا مکمل حق دیتا ہے۔ انکی حمایت تمام عالم انسانیت پر لازم ہے۔

اسلام ٹائمز: مصر اور ترکی کی جانب سے جنگ بندی کی پیشکش کو آپ کسطرح دیکھتے ہے۔؟
قاری عبدالرحمٰن: گذشتہ ادوار میں دیکھا جائے تو مصر نے فلسطینی عوام کی بھرپور مدد کی ہے لیکن اس وقت وہاں کی حکومت سے کسی قسم کی خیر کی توقع کرنا غلطی ہوگی کیونکہ موجودہ قیادت کا قبلہ بدل چکا ہے اور وہ اسرائیل ہی کی حمایت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ لہذٰا اسے وقت میں جب فلسطین اسرائیل کی جانب سے محاصرے میں ہے، فلسطین کس طرح جنگ بندی کی پیشکش کو قبول کرسکتا ہے۔ دہشتگرد اسرائیل نے اپنے غنڈوں کو غزہ میں چھوڑ دیا ہے اور جنگ بندی کروا کر، وہاں علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ ایسے موقع پر دشمن کی چالوں کو سمجھنا ہوگا تاکہ کسی بڑے نقصان سے بچا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: او آئی سی اور عرب دنیا کے کردار پر کیا رائے دینگے۔؟
قاری عبدالرحمٰن: او آئی سی تو فلسطین کے حوالے سے موثر کردار ادا کرنے میں بالکل ناکام ہو چکی ہے۔ اسکے علاوہ دیگر مسلمان ممالک کا کردار بھی قابل ذکر نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنے اقتدار کو تقویت دینے اور بچانے میں مصروف ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہر قسم کے اختلافات کو ایک جانب رکھتے ہوئے اپنے مشترکہ دشمن کا مقابلہ کرتے، لیکن سب فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے مذمتی بیان دینا کافی ہے۔؟
قاری عبدالرحمٰن: میاں محمد نواز شریف صاحب کی ذمہ داری صرف مذمتی بیان دینا نہیں، بلکہ عملی اقدامات بھی اُٹھانا ہے۔ قومی سطح پر سوگ کا اعلان اور دس لاکھ ڈالر دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ ہمارا ملک ایٹمی طاقت ہے۔ فلسطینیوں کی اور طریقوں سے بھی مدد کی جانے چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: عراق میں جاری داعش کی پیشرفت سے خطے میں کونسے مسائل پیدا ہونگے۔؟
قاری عبدالرحمٰن: اس خطے میں آباد مسلم ممالک میں آگ و خون کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، جو انتہائی قابل مذمت ہیں۔ داعش کا عراق میں ریاست کیخلاف ہتھیار اُٹھانا انتہائی باعث تشویش ہے۔ نہ صرف عراق بلکہ شام میں بھی جاری کشیدگی، خطے کو فرقہ وارانہ فسادات کی جانب لے جا رہی ہے۔ تمام ممالک کی قیادت کو چاہیئے کہ وہ ہر مسلک اور ہر قوم کے افراد کو ساتھ لیکر چلے۔ اتحاد و اتفاق ہی سے ملکوں کو چلایا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: فلسطین کے مسئلے کو حتمی طور پر حل کرنے کیلئے کیا کرنا ہوگا۔؟
قاری عبدالرحمٰن: جیسا کہ میں نے اس سے قبل کہا کہ امت کو اتحاد و وحدت کیساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ لہذا فلسطین کا مسئلہ بھی اسی طرح ہو سکتا ہے۔ تمام مسلم ممالک کو ساتھ ملکر غاصب صہیونی حکومت کیخلاف جدوجہد کرنا ہوگا۔ او آئی سی، عرب لیگ، سمیت تمام انسانیت دوست تنظیموں کو مممالک کو ساتھ ملاکر فلسطینیوں کا ساتھ دینا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 401640
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش