0
Sunday 13 Apr 2014 23:48
فضائی سروس پر اب تک سبسڈی نہیں دی گئی

وفاق کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مستونگ میں زائرین کو بےحد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، محمد علی شان

ڈاکٹر مالک اکیلے سکیورٹی صورتحال کو بہتر نہیں بنا سکتے
وفاق کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مستونگ میں زائرین کو بےحد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، محمد علی شان

محمد علی شان گذشتہ 6 سالوں سے بلوچستان شیعہ کانفرنس کے نائب صدر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپکا بنیادی تعلق کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ سے ہے۔ محمد علی شان نے اپنی ابتدائی تعلیم بھی کوئٹہ سے حاصل کی۔ بحیثیت نائب صدر بلوچستان شیعہ کانفرنس آپکی ذمہ داری شہر میں عزاداری کے فروغ کے علاوہ علمدار روڈ پر سکیورٹی فورسز کیساتھ امن و امان کی صورتحال کی نگرانی کرنا بھی ہے۔ محمد علی شان سے زائرین کی سکیورٹی، کوئٹہ کے امن و امان سمیت دیگر مقامی مسائل کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کوئٹہ شہر میں حالات کی بہتری کیلئے عوام اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے آپکو کس حد تک تعاون حاصل ہے۔؟
محمد علی شان: جہاں تک سکیورٹی اداروں کا تعلق ہے تو انہوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔ خاص طور پر انہوں نے علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاؤن کیلئے جو سکیورٹی اقدامات کئے ہیں، وہ کافی حد تک اطمینان بخش ہیں۔ اسکے علاوہ عوام بھی اس ضمن میں سکیورٹی اداروں کیساتھ تعاون کر رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ایف سی کی یہ چیک پوسٹیں عوام کیلئے مشکلات کا باعث نہیں بن رہیں۔؟
محمد علی شان: ایک حد تک تو مشکلات کا باعث ہیں، لیکن شہر کی مخدوش سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر ایف سی کی ان چیک پوسٹوں کا ہونا بھی لازمی ہے۔ میں خود اکثر جب ان چیک پوسٹوں سے ہوکر گزرتا ہوں، تو مجھے بھی سکیورٹی اہلکار چیکنگ کرکے علمدار روڈ کیلئے چھوڑتے ہیں۔ لہذا میں‌ خود عام عوام سے گزارش کرتا ہوں کہ موجودہ حالات کے مدنظر ان سکیورٹی اہلکاروں‌ سے بھرپور تعاون کریں۔

اسلام ٹائمز: کیا کوئٹہ شہر میں‌ پولیس کی ناکامی کی وجہ سے ایف سی کو اختیارات دیئے گئے۔؟
محمد علی شان: اصل میں پولیس ناکام نہیں ہوئی بلکہ گذشتہ تیس یا چالیس سال سے اس محکمے میں وہ خامیاں ہیں، جنکی وجہ سے وہ شہر کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی قابلیت نہیں‌ رکھتے۔ دہشتگردی کی روک تھام صرف پولیس کی بس کی بات نہیں، بلکہ اب دونوں‌ ادارے ایف سی اور پولیس ملکر شہر کے حالات کو کنٹرول کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو پائے ہیں۔

اسلام ٹائمز: حالیہ سانحہ مستونگ کے بعد زائرین کی سکیورٹی کیلئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں۔؟
محمد علی شان: گذشتہ سانحہ مستونگ کے بعد وفاقی وزیر داخلہ نے یہاں پر آ کر جو وعدے کئے، وہ اب تک پورے نہیں ہوئے۔ ابھی بھی ہمارے زائرین دالبندین میں‌ پھنسے ہوئے ہیں۔ دس دس دن زائرین کو تفتان میں‌ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ زمینی راستے پر سفر کیلئے سکیورٹی کلئیرنس کافی سختی سے ملتی ہے، اسی وجہ سے زائرین سمیت دیگر کاروباری شخصیات میں تشویش پائی جاتِی ہے۔

اسلام ٹائمز: زائرین کیلئے حکومت کی جانب سے فضائی سروس کے وعدے کو کس حد تک عملی جامہ پہنایا گیا۔؟
محمد علی شان: فضائی سروس کا وعدہ تو انہوں نے پورا کیا لیکن کوئٹہ ٹو مشہد فضائی سروس کا کرایہ بیالیس ہزار روپے ہے۔ جو عام عوام کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ پھر یہاں‌ صرف زائرین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کاروباری شخصیات کو اس سلسلہ میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زائرین تو سال کے صرف تین مہینے زمینی راستہ اختیار کرتے ہیں، جبکہ دیگر کاروباری حضرات آئے دن معاش کے حصول کیلئے اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ لہذا اس مسئلے کا حل فضائی سروس شروع کرنا نہیں، بلکہ دہشتگردوں کیخلاف بھرپور کاروائی ہے۔ اسکے علاوہ حکومت کوشش کررہی ہیں کہ زائرین کیلئے کرایوں میں سبسڈی دی جائے، لیکن اس میں بھی اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو پائی۔

اسلام ٹائمز: اصل مسئلہ صوبائی حکومت کی جانب سے درپیش ہے یا وفاق کی جانب سے۔؟
محمد علی شان: دراصل موجودہ صوبائی حکومت اس سلسلے میں بالکل بےبس ہے۔ خاص طور پر فضائی سروس کے حوالے سے سبسڈی دینے کا وعدہ وفاقی حکومت کی جانب سے کیا گیا تھا۔ لیکن وفاق اس جانب کافی کم توجہ دے رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر حکومت زائرین کو کراچی سے کاشغر تک بحری راستے سے لے جانے کا فیصلہ کرتی ہے، تو پھر آپکا ادارہ کیا کرے گا۔؟
محمد علی شان: میں واضح کرتا چلو کہ مسئلہ زائرین کا نہیں‌ ہے۔ زائرین دسمبر سے لیکر فروری تک زمینی راستے کے ذریعے زیارات کیلئے جاتے ہیں لیکن تاجر برادری پورے سال اس راستے کو اختیار کرتی ہے۔ اب بحری جہاز والا راستہ کراچی والوں کیلئے کسی حد تک فائدہ مند ثابت ہو گا، لیکن یہ بھی مسئلے کا مستقل حل نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ شیعہ ہزارہ قوم کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔؟
محمد علی شان: کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال کو حل کرنا، صرف وزیراعلٰی کے بس کی بات نہیں۔ گذشتہ تین مہینے سے اے این پی کے رہنماء ارباب عبدالظاہر کاسی کو اغواء کیا گیا ہے، اور انتہائی شرم کی بات ہے کہ وزیراعلٰی اپنے وزراء سمیت پارلیمنٹ کے سامنے انکی بازیابی کیلئے احتجاج کرتے ہیں اور یہی چیز انکے بے اختیار ہونے کی دلیل ہے کہ گذشتہ چند عرصے سے وہ ارباب صاحب کو بازیاب نہیں کرا سکے۔ لہذا مجموعی طور پر امن و امان کی بہتری کیلئے صوبائی و وفاقی حکومت سمیت تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صوبے کے مسائل کو حل کر پائیں گے۔؟
محمد علی شان: ایک جانب طالبان کیساتھ مذاکرات کی باتیں کی جا رہی ہیں اور انہیں حکومتی اراکین اپنے بھائی کے القاب سے پکار رہے ہیں۔ تو دوسری جانب بلوچستان میں‌ بلوچ بھائیوں کیساتھ کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو پا رہی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں پر بلوچ بھائیوں کیساتھ دہرا معیار روا رکھا جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ بلوچستان کے ناراض بلوچ بھائیوں سے بھی نیک نیتی کیساتھ بات چیت کریں۔ جہاں تک آل پارٹیز کانفرنس کا تعلق ہے تو ہم لوگ امن کے داعی ہیں۔ ہم نے ہر اسٹیج پر حکومت کو کہا ہے کہ امن کیلئے جس حد تک آپکو تعاون چاہیئے، ہم آپکا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر ڈاکٹر مالک بھی لشکر جھنگوی سمیت دیگر کالعدم تنظیموں کیلئے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں، تو آپ کیا کرینگے۔؟
محمد علی شان: قرآن میں قصاص کا حکم دیا گیا ہے۔ جتنے بھی شُہداء کے لواحقین ہے، جب تک انکی رضامندی حاصل نہیں کی جاتی، ہم ان مذاکرات کو مسترد کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا احمد لدھیانوی کو کوئٹہ شہر میں شر انگیز جلسہ عام کرنے کی اجازت دینا، صوبائی حکومت کی نااہلی کو ثابت نہیں کرتا۔؟
محمد علی شان: اصل میں یہ مسئلہ وفاق کا ہے۔ دہشتگردوں کا تمام تر نیٹ ورک پنجاب سے جا ملتا ہے۔ لہذا اگر انکے خلاف وفاقی سطح پر اور خاص کر پنجاب میں کاروائی کی جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ کوئٹہ میں انکی جانب سے جو شر انگیز جلسہ عام کیا گیا تو اس میں‌ حکومتی رضامندی بھی‌ شامل حال تھی۔ حکومت کی اجازت کے بغیر ایسے جلسوں کا ہونا ناممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا حکومت واقعی مذاکرات کے ذریعے دہشتگردی کو ختم کرنا چاہتی ہے، یا سارا ڈرامہ اپنے دور اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے ہیں۔؟
محمد علی شان: ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جن جماعتوں کیساتھ ملکر حکومت مذاکرات کرنا چاہتی ہے، آیا وہ شُہداء کے وارث اور نمائندے ہیں یا نہیں۔ مذاکراتی عمل میں شُہداء کی نمائندہ جماعت کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ وفاقی حکومت خود ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مذاکرات کر رہی ہیں اور اس میں شیعہ سنی محب وطن عوام کی کوئی نمائندہ جماعت موجود نہیں۔

اسلام ٹائمز: اسلام ٹائمز کے توسط سے عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
محمد علی شان: میں عوام سے التجا کرتا ہوں کہ دہشتگردوں کیخلاف متحد ہو جائیں۔ خاص کر علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاؤن میں سکیورٹی کیلئے جو چیک پوسٹیں لگائی گئی ہیں، اس میں ایف سی کیساتھ مکمل تعاون کیا جائے۔ سکیورٹی اہلکار دن رات ہماری حفاظت کیلئے مامور ہیں، لہذا اپنے سکیورٹی جوانوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

خبر کا کوڈ : 372472
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش